تو پھر وعدہ کیجئے کہ آج کے بعد آپ خود کو پاکستانی کہیں گے نا کہ مہاجر۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جس طرح آپ پاکستانی ہونے کے باوجود ورک ہیں، لغاری ہیں، مزاری ہیں، اسی طرح ہم پاکستانی ہونے کے باوصف مہاجر ہیں، مہاجروں کی اولاد ہیں، اردو بولنے والے ہیں۔
پاکستان کچھ جغرافیائی حدود کا نام نہیں بلکہ ایک نظریئے کا نام ہے۔ پاکستان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے دارالامان ہے، جس کی خاطر ہمارے آبا و اجداد نے اپنا گھر بار چھوڑا اور یہاں چلے آئے کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا، قانون کی حکمرانی ہوگی، اسلام کے نام لیوا سکون سے اپنے اللہ کی عبادت کرسکیں گے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب دارالامان مدینہ ہجرت فرمائی تو اپنے آپ کو مہاجر ہی کہلوایا، اوسی و خزرجی نہیں کہلوایا۔
ہم ٹوٹے پھوٹے مسلمان سہی، نام لیوا تو انہیں کے ہیں۔ ہمارے اجداد نے بھی کسی دنیوی مقصد کے لیے ہجرت نہیں کی تھی۔ ہم کیوں اپنی شناخت کھودیں۔
اپنی تو پہچان یہی تھی اس پہچان سے پہلے بھی
پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی
پاکستان اگر جغرافیائی حدود کا نام ہوتا تو آج آدھا ملک بنگلہ دیش نہ بن چکا ہوتا۔ پاکستان ایک نظریئے کا نام ہے اور جو اس نظریئے کو مانتا ہے وہ پاکستانی ہے۔بنگلہ دیش میں کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں پڑے پاکستانی آج بھی پاکستانی ہیں ، جغرافیائی حدود کا نام بنگلہ دیش رکھ دینے سے بنگلہ دیش نہیں بن گئے۔ وہ بھی مہاجر ہیں اور پاکستانی ہیں۔