لباں اتے پہرے نگاہواں تے پہرے
میں جتھوں وی لنگھاں اوہ راہواں تے پہرے
لبوں پہ پہرا ، نگاہوں پہ پہرا
میں جہاں سے گزرتا ہوں اس راہ پر ہے پہرا
اودوں دی مری جان تے بن گئی اے
جدوں دے نیں لگے ایہہ ساہواں تے پہرے
اس وقت سے مری جان پر بن گئی ہے
جب سے لگا ہے سانسوں پہ پہرا
جو جی اندر آیا اوہو کررہیا ہاں
نہ اج توڑی لگے نگاہواں تے پہرے
جو میرے جی میں آیا وہی کر رہا ہوں
آج تک نہیں لگ سکا نگاہوں پہ پہرا
نہ لگے ، نہ بردے کدی لگ سکن گے
مرے دل دیاں درس گاہواں تے پہرے
نہ لگا ہے اور نہ کبھی لگ سکے گا اے بردے
میرے دل کی درس گاہوں پر پہرا
(میاں بردے خان پشاوری)
میاں بردے خان بردا 1827 کو پشاور میں پیدا ہوئے اور 1897 کو انتقال کیا۔
مادری زبان پشتو یا فارسی تھی مگر جب پنجابی میں شاعری کی تو بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ ان کے شعر پڑھ کر یوں احساس ہوتا ہے گویا وہ پشاوری نہیں بلکہ لاہوری یا امرتسری ہے۔ زبان بڑی صاف ستھری اور رواں ہے۔ بیت گوئی میں ان کو امتیازی مقام حاصل تھا۔
مقتبس از مضمون"
پنجابی شاعری کا نوکلاسیکل دور" از ڈاکٹر حمید اللہ شاہ ہاشمی
ماخذ:
پنجابی زبان و ادب کی مختصر تاریخ ، مقتدرہ قومی زبان پاکستان