افسوس ناک ہے، بہت افسوس ناک ہے۔
لیکن اس میں سارا قصور ہیڈ ماسٹر کا نہیں ہے، پنجابی بولنے والوں نے خود ہی پنجابی کو یہ مقام عطا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، عام گفتگو کرتے ہوئے یا بچوںسے بات کرتے ہوئے کافی پنجابی لوگ اردو میں بات کرتے ہیں لیکن جب غصہ دکھانا ہوتا ہے، مطلب گالیاں بکنی ہوتی ہیں تو اچانک پنجابی شروع کر دیتے ہیں، کوئی جگت لگانی ہوتی ہے تو پنجابی شروع کر دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اپنی روز مرہ زندگی میں عام طور پر پنجابی ہی میں بات کرو تو پھر اس طرح گالی یا جگت کی زبان نمایاں نہیں ہوگی، لیکن اردو بولتے بولتے بیچ میں خصوصی "اظہارِ خیال" کے لیے پنجابی بولیں گے تو یہ پنجابی نمایاں ہوگی اور ساتھ میں بدنام بھی ہوگی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسکول میں بچے آپس میں اردو میں بات کرتے ہونگے لیکن "فاؤل لینگویج" کے لیے پنجابی ہی بولتے ہونگے۔ اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ جماعتِ اسلامی کے سابق امیر میاں محمد طفیل نے کہا تھا کہ پنجابی صرف گالیوں کی زبان ہے۔
افسوس کی حد تک میں محمد وارث سے متفق ہوں۔
پنجابی میں گالیاں مقبول ہیں اور پنجابی تواتر سے بولنے والے گالیاں بھی تواتر سے دیتے ہیں ، غالب اکثریت مگر یہ مسئلہ تو انگریزی کے ساتھ بھی ہے۔ انگریزی میں اب گالم گلوچ پنجابی سے بڑھ کر ہے کم نہیں۔
F ورڈ اور دیگر انگریزی گالیاں گفتگو میں اس قدر استعمال ہوتی ہیں کہ بہت سی امریکی ریاستوں میں گالیاں نہ دینے والا اس ریاست کا باشندہ لگتا ہی نہیں۔
بیکن ہاؤس کی انتظامیہ (دیگر امرا کی طرح) حقیقت میں پنجابی کو ان پڑھوں اور نچلے طبقے کی زبان سمجھتی ہے اور اس نوٹس میں گھر میں بھی اسے بولنے پر پابندی لگانی کی بات کی گئی ہے۔
احساس کمتری ہے کہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔