جس تنظیم کی ابتدا ہی تعصب کے نظریات سے ہو وہ تنظیم کبھی بھی پھل پھول نہیں سکتی - پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی پھر انہیں خیال آیا کہ اگر پاکستان پر حکومت کرنا ہے تو اسکا نام اور اپنے نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی- لہٰذا اسکا نام متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا - جو لوگ طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کے عادی ہو چکے ہوں - وہ کبھی بھی ہمدردی کے متقاضی نہیں ہو سکتے - کراچی میں انکی اتنی دہشت ہے کہ لوگ دل میں اسے برا سمجھتے ہیں لیکن ووٹ انہیںہی دیتے ہیں کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ووٹ نہیں دیا تو شائد کسی کے خون سے ہاتھ رنگنے میں دریغ نہ کریں -
خدا اس قوم پر رحم کرے -
سخنور برادر،
مسئلہ یہ ہے کہ ایک تنظیم غلط وجوہات کی بنا پر وجود پر آئی، مگر اب اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرنے جا رہی ہے تو ہمیں اسکا خیر مقدم کرنا چاہیے یا حوصلہ شکنی؟
اور یہ بھی سمجھیے کہ پاکستان میں ہمیں بہت پیار و محبت کی ضرورت ہے۔
دیکھیئے، میں اس منطق کو کبھی قبول نہیں کرتی جب لوگوں کو صرف ایم کیو ایم کی غلطی نظر آ رہی ہوتی ہے اور اُس وقت وہ بالکل اندھے ہو جاتے ہیں جب انہیں وہ حقائق دکھائے جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ تنظیم وجود میں آئی اور اس نے مہاجر عوام میں اتنا زور پکڑا۔ کیا آپکو نہیں پتا کہ کراچی کی عوام کا کس طرح استحصال ہوا ہے اور ہمارے ارباب اختیار نے کس طرح کا طرز عمل رکھا ہے؟
خطرناک بات یہ ہوئی ہے کہ ان ارباب اختیار کا تعلق پنجاب سے رہا ہے یا پھر سندھ سے۔ اس وجہ سے کراچی میں جتنی اہم گورنمنٹ پوسٹیں تھیں، اُن پر لوگ پنجاب سے آئے یا پھر انتہائی کم پڑھا لکھا ہونے کی باوجود بھی مہاجر نے دیکھا کہ ایک سندھی بغیر قابلیت کے اُس سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا کہ جہاں پر اُسکا حق تھا اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا رہا کیونکہ مرکزی اور صوبائی حکومت سندھی تھی اور کراچی میں موجود ہر سرکاری ادارے میں بھرتیاں قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ "صوبائی عصبیت" کی بنا پر ہو رہی ہے۔
جی ہاں یہی وہ "صوبائی عصبیت" ہے کہ جس کا الزام براہ راست ایم کیو ایم پر لگایا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے کے حقائق سے سب نے اندھے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔
کیا آپ کو پتا ہے کہ کراچی کی پولیس 85 فی صد پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگوں پر مشتمل ہے/تھی؟ اور اس پولیس نے ایم کیو ایم کے کتنے کارکنوں کو تحویل میں لے کر چیرے دیے ہیں؟
کیا آپکو پتا ہے کہ سہراب گوٹھ میں کیا ہوتا ہے؟
//////////////////////////
مجھے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا کچھ علم نہیں تھا اور پاکستان میں بھی آنا جانا صرف لاہور کی حد تک ہے۔ مگر پاکستان کی بات ہے تو انصاف ہر گروہ سے کرنا ہی پڑے گا۔
کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو بلوچوں کی مسلح جدوجہد تو قابل قبول ہے اور اس میں حکومتِ وقت ہی قصوروار ہے، اور ان بلوچ برادران کے حقوق پر میڈیا میں کھل کر لکھا جا رہا ہے۔
مگر جب ایم کیو ایم کی بات آتی ہے تو انکے پاس اسلحہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ انہیں دھشت گرد قرار دے دیا جائے [جبکہ کراچی کی پشتون اور سندھی آبادی کے پاس جو اسلحہ ہے اُس سے اندھے پن کا مظاہرہ کیا جائے حالانکہ شروع میں یہ کام پشتون آبادی نے ہی کیا تھا کہ اسلحہ کے زور پر مہاجروں کی پٹائی کی تھی] اسکے بعد جمیعت نے کالجوں میں اسلحہ دکھایا، سندھی عوام نے اندرون سندھ اسلحہ کے زور پر مہاجروں سے جو سلوک کیا اُس پر ایک آہ بھی پنجاب سے نہیں سنی گئی۔
تو برادران،
زیادتی ہوئی ہے، اور ہر فریق سے ہوئی ہے، مگر اسکا حل ہر فریق کے ساتھ محبت سے پیش آنا ہے، نہ کہ اگر کوئی سدھرنے کی کوشش کرے تو اُس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اور سب سے اہم بات، جب کسی زیادتی کی بات ہو تو دونوں طرف کی زیادتیوں کی بات ہو۔ اور آپ پاکستانی میڈیا کی طرح نہ ہو جائیں کہ جس نے 12 مئی کے حوالے سے صرف اُس وقت کی ویڈیوز نشر کیں جب ایم کیو ایم کے اراکین جوابی فائرنگ کر رہے تھے [اس سے قبل ایم کیو ایم کے جلوس جو کہ خواتین اور بچوں پر مشتمل تھے ان پر فائرنگ ہو چکی تھی] تو اس ایم کیو ایم کے جلوس پر جنہوں نے پہلے فائرنگ کی اس کو ہمارا آزاد اور غیر جانبدار میڈیا ڈکار مارے بغیر پی گیا۔
پھر میڈیا کو صرف ایم کیو ایم کے اراکین ہی اسلحہ کے ساتھ نظر آئے اور انہوں نے اُنہی کو اسلحہ کے ساتھ کوریج دی، جبکہ جواب میں ایم کیو ایم نے سہراب گوٹھ اور دیگر علاقوں کی ویڈیوز جاری کیں جن میں ہر تنظیم کی افراد اپنے جھنڈوں کے ساتھ مسلح تھے۔ اور اسی مسلح قوم نے بینظیر کی موت پر کراچی میں تباہی پھیلائی۔ مگر اس پر ہمارے آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کو اب بھی صرف ایم کیو ایم کے ہاتھوں میں ہی اسلحہ نظر آتا ہے اور اگر وہ اندھے ہوئے تو ایسے اندھے ہوئے کہ آج تک انہیں سہراب گوٹھ میں ایک بھی ہتھیار نظر نہیں آیا، نہ اس کی کوریج ہوئی، نہ اس کے خلاف زہریلے مضامیں لکھے گئے اور اسی پروپیگنڈا کا اثر ہے کہ آج پنجاب کا ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ کراچی میں صرف ایک ایم کیو ایم ہی ہے جس کے پاس اسلحہ ہے، ایک ایک کیو ایم ہی ہے جو تمام فساد کراتی ہے، ایک ایم کیو ایم ہی ہے جو دیگر جماعتوں اور قومیتوں کے لوگوں پر ظلم کرتی ہے، مگر آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کو نہ پہلے کی حکومتوں کی کرتوت واضح کرنے کی توفیق اور نہ ہی کسی اور قسم کے انصاف کرنے کی توفیق۔
///////////////////////
اور سیاست میں کیا ضروری ہے کہ ذاتیات پر اُترا جائے؟
عمران خان صاحب کو الطاف حسین کی تقریروں پر بہت اعتراض ہے کہ انہیں لگتا ہے جیسے کوئی پاگل بول رہا ہے۔ وہ اسی بنیاد پر مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ مگر جب لوگ سیتا وائٹ کے حوالے سے انکی ذاتیات کا ذکر کرتے ہیں تو اُس وقت انہیں غصہ چڑھ جاتا ہے۔
میں ذاتیات پر اترنے کی قائل نہیں اور صرف دلائل کی اور حقائق کی قائل ہوں۔ جو لوگ سیتا وائٹ کا ذکر کرتے ہیں وہ میرے نزدیک صرف فتنہ پیدا کر رہے ہیں، اور جن لوگوں کو الطاف حسین کے دلائل کی بجائے اُسکے انداز گفتگو پر اعتراض ہے، تو یہ ایک عبث اعتراض ہے۔
//////////////////
بھائی جی،
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کب ایم کیو ایم نے محصور پاکستانیوں کا مسئلہ اپنے ایجنڈے سے نکالا ہے؟
اور صرف ایم کیو ایم پر ہی الزام کیوں، اور کیوں نہیں آپکے لب ہلے کہ ان محصور پاکستانیوں کی واپسی نہ ہونے کے بڑے گنہگار سندھی، پشتون، بلوچ اور پنجابی ہیں اور صرف ایم کیو ایم پر ہی عصبیت پرستی کا الزام کیوں اور کیوں نہ آپ نے اس وجہ سے ان دیگر قومیتوں پر عصبیت پرست کا الزام لگایا؟ تو یہی ڈبل سٹینڈرڈز ہیں جو ہماری قوم کو کھا جائیں گے۔ ہمیں اس صوبائیت و قومیت کی سطح سے اٹھ کر مسائل کو دیکھنا چاہیے۔
اسی لیے میں نے اپنی اوپر والی پوسٹ میں لکھا تھا:
1۔ غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔
2۔ اور ایم کیو ایم کی غلطیاں بہت حد تک اُن غلطیوں کا رد عمل ہے جو کہ اُس وقت کی حکومتی سطح پر اُن کے ساتھ کیا گیا۔ (اُس وقت کی حکومتوں میں بے نظیر اور نواز شریف شامل ہیں)۔ حکومتی سطح کے علاوہ بقیہ پاکستان کی قومیت پرست قوتیں بھی انکے خلاف غلطی کی حد تک مخالف رہی ہیں۔
3۔ بہرحال سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنا رویہ تبدیل کیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کم از کم اندرون سندھ کے حلقے بہت حد تک ایم کیو ایم کو قبول کرنے لگے ہیں جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں والوں نے ابھی تک ایم کیو ایم کو قبول نہیں کیا ہے۔