پنجاب میں ایم کیو ایم از نذیر ناجی

مہوش علی

لائبریرین
ہمت علی:
ویسے یہ حقیقی کے بارے میں‌ ہے مگر الطافی دھشت گردوں کی حرکات بھی کم نہیں۔ اور پھر پہلے تو یہ ایک ہی تھے۔

حقیقی کے فتنے سے پہلے بھی ایم کیو ایم مسلح تھی، مگر میری ناقص رائے میں یہ "ردعمل" تھا اُس سرکاری اور غیر سرکاری [بقیہ قومیتوں] کا جو "حقیقی" کے فتنے سے بہت پہلے موجود تھا۔

دیکھئیے، میں گھوڑے اور گدھے میں تمیز کرتی ہوں اور اسی لیے "پہلا قصوروار" اُس وقت کی حکومت اور بقیہ قومیتوں کو ٹہراتی ہوں جنہوں نے عرصہ دراز تک کراچی کے مسائل کو حل نہ کیا بلکہ اپنی مرکزی و صوبائی طاقت کی بنیاد پر اس مسئلے کو سالوں تک دباتے ہی چلے گئے اور یوں ہر محکمے کو "گھٹیا قابلیت" کے حامل "سندھیوں اور پنجابیوں" سے صرف اس وجہ سے بھر دیا گیا کیونکہ اُن کے پاس سندھی یا پنجابی وزراء کی سفارشیں موجود تھیں، جبکہ تعلیمی و قابلیت کے حساب سے کہیں بہتر اور پڑھے لکھے کراچی کے لوگ وہاں ہی کھڑے یہ مظاہرہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔

ابھی تو فوج سے صرف 180 کے قریب افسران ہی ان سول اداروں میں متعین ہوئے تھے کہ آپ حضرات کی طرف سے اس کے خلاف ایک "طوفان" کھڑا ہو گیا۔
تو جب اہل کراچی کو جب کراچی کی پولیس 80 فیصدی باہر کے لوگوں پر مشتمل نظر آئی تو کیا ان تمام سالوں میں وہاں نفرت کا یہ طوفان کھڑا نہیں ہو گا؟


اور ادھر مجھے آپ لوگوں پر اعتراض ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ مکمل دہرے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ اس زیادتی کا ذکر کریں، حالانکہ یہ مسئلے کا آغاز تھا اور اس بیماری کو حل کیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔

اندرون سندھ میں یہ صورتحال اور کہیں زیادہ خراب تھی اور سندھ قومیت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے پورے سندھ میں [بشمول کراچی] اور کسی بھی قومیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تو اندرون سندھ میں مہاجر اقلیت پر جو مظالم ہوئے اُس پر بھی پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں، یا میڈیا کو یا میڈیا کے دانشوران کالم لکھنے والوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ کوئی اس پر کوئی مظاہرہ کرتا تھا اور نہ احتجاج کرتا تھا، مگر اسکا سارا اثر کراچی کی مہاجر عوام پر بہت برا ہوا اور "نفرتوں کا طوفان" اور شدید ہوا۔

چنانچہ سب سے پہلا ٹکراو/ ردعمل سندھیوں کے خلاف ہوا، مگر اس پر اہل کراچی ملک کی بقیہ قومیتوں کو اپنے ساتھ کھڑا پانے کی بجائے سندھیوں کے پیچھے دیکھ رہے تھے۔ یعنی مہاجر ایک طرف اور بقیہ تمام قومیتیں انکے خلاف متحد دوسری طرف۔

تو قابل حیرت ہیں وہ لوگ:

1۔ جو آج بھی یہ پوچھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو کراچی کی عوام میں اتنی مقبولیت و پذیرائی و سپورٹ کیسے حاصل ہو گئی؟

2۔ اور وہ لوگ قابل غصہ ہیں جو آج بھی جانتے بوجھتے اس سپورٹ کا انکار کرتے ہیں۔


اہل کراچی بالمقابل اہل بنگلہ دیش

جو کچھ کراچی میں ہو رہا تھا وہ بہت خطرناک تھا۔ جب ایم کیو ایم نے منظم ہونا شروع کیا تو پولیس و دیگر اداروں کی طرف سے تشدد آمیزانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ پھر سندھی و پشتوں نے ابتدائی لڑائیوں میں ایم کیو ایم پر اپنے اسلحہ و طاقت کی بنیاد پر برتری قائم رکھی حتی کہ وہ وقت آیا جب الطاف حسین بھی ان جیسا بنا اور کہنے لگا کہ اپنے زیور بیچو اور کلاشنکوف خریدو۔
پھر چونکہ ایم کیو ایم کراچی میں اکثریت میں تھی، اور اس سے زیادہ اہم "بہت منظم" تھی، اس لیے ان مسلح لڑائیوں میں جلد ہی اس نے بقیہ پارٹیوں پر سبقت حاصل کر لی۔ مگر اسکے باوجود ایم کیو ایم کے کارکنان جتنی بڑی تعداد میں مارے گئے، اغوا کیے گئے اور تشدد کیے گئے اسکی مثال نہیں ملتی، کیونہ ان دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور رینجرز بھی ایم کیو ایم کے کارکنان پر حملہ آور تھے۔

میں کچھ زیادہ نہیں لکھوں گی، مگر جب ایسی صورتحال کہیں پر بھی پیدا ہوتی ہے تو پھر:

1۔ اپنے ساتھ خون اور ناانصافیاں ساتھ لاتی ہے۔

2۔ ہر قوم میں اچھے برے، رحمدل و ظالم لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر جگہ کچھ صحیح چیزیں ہوتی ہیں تو کچھ غلط

3۔ پاکستان بنا تو ہندووں نے مسلم قافلوں پر حملے کیے، اور پاکستان میں مسلمانوں نے ہندو قافلوں پر حملے کیے۔


یہ صورتحال کراچی میں ہوئی۔ اس قوم میں مظلوم تو موجود تھے، مگر ان مظلوموں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو وقت و موقع ملنے پر خود ظالم بن گئے کیونکہ انہوں نے بھی طاقت حاصل کر لی تھی۔

بنگلہ دیش کی صورتحال آپکے سامنے ہے کہ جب نفرتیں پھیلتی ہیں تو کتنا خون بہتا ہے اور دونوں طرف کے ظالم اور ناانصاف پسند لوگوں کی موج ہو جاتی ہے۔


"حقیقی" پر ایک نظر

مجھے لگتا ہے کہ جلد ایم کیو ایم نے محسوس کر لیا کہ خالی لڑنے وڑنے سے کراچی کے مسائل حل ہونے والے نہیں اور کراچی کے مسائل کا سب سے اہم حل یہ ہے کہ کراچی میں امن امان رہے۔ اور اس امن امان کو بحال کرنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ کراچی میں موجود دوسری قومیت کے لوگوں کو قبول کیا جائے۔ اس پر ایم کیو ایم نے باقاعدہ طور پر مہاجر کے ٹھپے سے نکلنے کی کوشش کی اور اسے متحدہ کا نام دیا۔

اسی دوران حکومتی اداروں نے "حقیقی' کو وجود دیا۔ اور اس حقیقی میں وہ بدمعاش و قاتل لوگ شامل تھے جو کہ ایم کیو ایم کا سب سے بڑا گند تھے۔ اس حقیقی نے ایم کیو ایم پر الزام لگایا کہ وہ مہاجروں کے حقوق کو متحدہ کا نام دے کر بیچ رہی ہے۔ اسکے بعد حکومتی اداروں کی سرپرستی میں بوری بند لاشوں کا میدان جما اور آج تک جاری ہے۔


بہرحال، کراچی کی عوام کو حقیقی کی حقیقت کا پتا تھا۔ لہذا اہل کراچی کی حمایت ابھی تک ایم کیو ایم کے پاس ہی ہے اور وہ بینظیر و نواز شریف کی حکومتوں سے مزید ناراض ہیں کیونکہ حقیقی کی دھشت گردی کو انہی کی آشیرواد شامل تھی۔ جبکہ پاکستان کے میڈیا میں کبھی حقیقی کی حقیقت کو بیان کیا گیا، نہ اسکے خلاف دانشوران نے آرٹیکلز لکھے اور نہ کبھی مظلوموں کی مدد کی۔

///////////////////////

تو اتنا لمبا لکھنے کی ضرورت اسی لیے مجھے پیش آ رہی ہے کہ میں آپکو بتا سکوں کہ فرشتہ کوئی نہیں ہے اور ہر قوم میں آپکو ظالم ملیں گے اور غلط کام ہوتے ملیں گے۔ مگر آپ لوگوں کا طرز عمل ڈبل سٹینڈرڈز کی حد کو چھو رہا ہے۔

۔ آج تک آپ لوگوں نے کراچی اور ایم کیو ایم کے اصل مسائل پر توجہ نہیں دی اور نہ اس پر احتجاج کیا

۔ کوٹہ سسٹم اور محصورین پاکستان کا ابھی تک واپس نہ آنا اس بات کی پکی نشانی ہے کہ بطور قوم ہم پاکستانی ابھی تک صوبائی عصبیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حیرت ہے کہ کچھ حضرات کو ابھی تک یہ دعوی ہے کہ محصورین پاکستان کی ابھی تک واپسی نہ ہونے کی "مکمل" گنہگار ایم کیو ایم ہے کیونکہ اکا دکا جگہوں پر انہیں کراچی میں محصورین کا نام نظر نہیں آیا۔ مگر بقیہ قوم جس اتنے سالوں سے ان محصورین کو بھلائے بیٹھی ہے، بلکہ کھل کر انکے پاکستانی ہونے کا انکار کرتی ہے ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی۔
یہ ڈبل سٹینڈرڈز اور نفرت کی بہت بڑی مثال ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

۔ صرف یہ رٹ لگائے رکھنے سے کہ صرف اور صرف ایم کیو ایم گنہگار ہے، صرف اور صرف ایم کیو ایم قاتل ہے، صرف اور صرف ایم کیو ایم دھشت گرد ہے۔۔۔۔۔۔ تو یہ رٹ لگانے سے تا قیامت آپ کراچی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اندھے پن اور نفرت پر مبنی عظیم پروپیگنڈا ہے جس میں ایم کیو ایم کے علاوہ بقیہ قصوروار پارٹیوں کے مظالم کو چھپا دیا جاتا ہے۔

/////////////////////////////


آپ سے ایک سوال

اگر آپ سے کہا جاتا کہ مشرقی پاکستان کا کیا حل ہو سکتا تھا کہ کہ وہ پاکستان سے الگ نہ ہوتا؟

میرا جواب ہے کہ سب سے پہلا اور بہتر حل ہوتا کہ "اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کی جاتی اور اُن "بنیادی" مسائل کو حل کیا جاتا جو اس فتنے کا باعث تھے"۔


اور کراچی کے مسئلے پر بھی میرا یہی موقف ہے۔

میں دل سے پاکستانی ہوں، اور صرف پاکستانی۔ مجھے کسی قومیت سے کوئی غرض نہیں بلکہ مجھ پر لازم ہے کہ سب کو برابر رکھوں۔

اور ان سب چیزوں کے بعد کراچی کے مسائل کا حل میرے نزدیک یہ ہے کہ:

1۔ بقیہ قوم کو مخلص ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے "کوٹہ سسٹم" ختم کر دیا جائے۔

2۔ محصورین پاکستان کی غیر مشروط واپسی کا انتظام بقیہ قوم کرے۔

اگر یہ دو اقدامات بقیہ قوم کر لے تو ایم کیو ایم کا وجود کراچی سے خود بخود ختم ہو جائے گا۔

3۔ میں اللہ سے دعاگو ہوں پریذیڈنٹ مشرف کے لیے کہ جنہوں نے پہلی مرتبہ اصلی جمہوریت کو نچلے لیول تک متعارف کروایا اور بلدیہ کے لیول تک اختیارات کی تقسیم کی۔
اس طرح پہلی مرتبہ ممکن ہو سکا کہ ایک علاقے کے لوگ اپنے حالات کا فیصلہ خود کر سکیں۔ اور اسی طرح پہلی مرتبہ کراچی بلدیہ کے پاس حقوق و اختیارات پہنچے کہ وہ کراچی کے ترقیاتی پراجیکٹ خود بنا سکیں [ورنہ اس سے قبل یہ ترقیاتی پراجیکٹ سندھ حکومت ہی کھا جاتی تھی]
پہلا موقع جماعت اسلامی کے ناظم کو ملا اور اس دور میں کام کا آغاز ہوا۔ اور اسکے بعد جب ایم کیو ایم کو محسوس ہوا کہ وہ اس قابل ہیں کہ اگر حکومت میں آ گئے تو قوم کے لیے کام کر سکیں گے، تو بلدیہ میں وہ حکومت میں آئے اور انہوں نے بھی کراچی میں جو کام کیے انکی نظیر پچھلے ادوار میں کہیں نہیں ملتی۔


تو یہ تھے میری نظر میں کراچی کے مسائل کا حل۔ مگر آپ لوگ جب تک اپنی ان نفرتوں سے باہر نہیں آئیں گے اور ایم کیو ایم پر کی گئی زیادتیوں اور ظلم کا ساتھ ساتھ انصاف کے ساتھ ذکر نہیں کریں گے، اُسوقت تک آپکے پاس کراچی کے مسائل کا کوئی حل دینے کی تجویز تک نہ ہو گی۔

اور آپ لوگوں کو شکایت ہے کہ ایم کیو ایم بھتہ لیتی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ یہ صحیح ہو، مگر کیا وہ اپنی اس غلطی پر دیر تک قائم رہ سکتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ اگر انہوں نے یہ غلطی جاری رکھی تو جلد کراچی میں الیکشنز میں انہیں سیٹیں کھونا پڑیں گی۔ اس لیے جلد یا بدیر وہ اپنی اس غلطی کی بھی اصلاح کر لیں گے۔

//////////////////////

اور آخر میں وہ اللہ کا بندہ جس نے اوپر صرف یہ ذکر کیا ہے کہ ایم کیو ایم نے ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی کے کارکن کو ہلاک کر دیا ہے۔ تو جناب یہ آمنے سامنے کا پھڈا تھا اور فائرنگ دونوں طرف سے ہوئی اور دونوں طرف سے لوگ زخمی ہوئے، مگر کیا وجہ ہوئی کہ آپ نے اپنے دل کو اندھا کر لیا اور آپکو ساری غلطی صرف ایم کیو ایم کی نظر آئی جبکہ پیپلز پارٹی والے فرشتے نظر آئے؟

تو تاقیامت اپنے اس دل کو اندھا کر کے آپ بولتے رہیں، مگر آپ کبھی کراچی کے مسائل کو حل نہیں کر پائیں گے۔
 

خرم

محفلین
مہوش بہنا آپ شاید جذباتی ہو رہی ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے حق میں میں‌بھی نہیں لیکن یہ کوٹہ صرف مہاجروں کے خلاف ہی تو استعمال نہیں ہوتا۔ سب قومیتوں‌کے ہونہار اس کی بھینٹ‌چڑھتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوا کہ آپ ہتھیار بند ہو جائیں؟ پاکستان کی ابتدائی بیوروکریسی تقریباً مکمل طور پر اردو بولنے والوں‌پر مشتمل تھی اور ان سب نے اپنا حصہ بھی خوب سمیٹا۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا رہا دیگر علاقوں سے بھی لوگ پڑھ کر ان کے شریک ہوتے گئے۔ اب پدرم سلطان بود کی وجہ سے اس بات کو اگر برا سمجھا جائے تو عجیب ہے۔ پاکستان میں فوج سے زیادہ کسی ادارے میں ایک صوبے کی اکثریت نہیں‌ہے لیکن اسی فوج کی سب سے زیادہ کمان مہاجروں‌نے کی ہے (ضیاء الحق بھی مہاجر تھے)۔ اس پر کوئی بات نہیں۔ کوئی ایسی اعلٰی پوسٹ‌پاکستان کی شاید نہیں کہ جس پر مہاجر تعینات نہ رہے ہوں پھر بھی اگر احساسِ محرومی ہے تو شاید اس کا تدارک نہیں ہوسکتا۔ محصورین کی جہاں تک بات ہے تو حق مغفرت کرے غلام حیدر وائیں صاحب نے چند خاندانوں‌کو لاکر پنجاب میں بسایا تھا۔ اس کے سوا تو سب نے صرف سیاست کی ہے۔ الطاف کے لوگ اپنے اللوں‌تللوں کے لئے لوگوں سے بھتہ لے سکتے ہیں، چندہ لے کر ان محصورین کے لئے ایک کالونی نہیں‌بنا سکتے؟ اب تو کئی عشروں سے ایم کیو ایم حکومت میں بھی شامل رہی ہے اور کراچی میں تو الطاف کی بادشاہی ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ الطاف پاکستان کیوں نہیں‌آتا؟ اس نے تو مانگ کر برطانوی شہریت لی ہے۔ اس کی بیوی بچی کبھی پاکستان آئے ہی نہیں اور وہ وہاں بیٹھ کر ریموٹ سے پارٹی کو کنٹرول کرتا ہے۔ کیسی قومی پارٹی ہے جس کا مرکزی دفتر لندن میں‌ہے۔ سبحان اللہ۔
قصہ مختصر یہ کہ الطاف ہو یا نواز شریف یا زرداری، سب ایک ہی ہیں لیکن الطاف کے ہاتھوں‌پر جتنا خون ہے اتنا شاید ہی کسی اور کے ہاتھوں‌پر ہو۔ اور ابھی تو بارہ مئی گزرا ہے۔ اس کے بعد بھی ان سے ہمدردی کم از کم میرا ضمیر تو مجھے اجازت نہیں‌دیتا۔:mad:
اور یقیناً پی پی کا بندہ کراس فائرنگ میں مارا گیا لیکن پھر وہ الطاف کا بے نظیر کی ہلاکت پر دھاڑیں‌مار مار کر رونا کیا تھا؟ گھِن نہیں‌آتی آپ کو ان لوگوں سے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
بی بی سی کا پروگرام ایم کیو ایم پر [ویڈیو]

اچھا پروگرام ہے جس میں کم از کم دونوں طرف ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر ہے۔

خرم بھائی:

1۔ میرے نزدیک جب Mass Level کے معملات کی بات ہو رہی ہو تو چند ایک استثنائی واقعات پیش کر دینا حقائق سے منہ چھپانے اور حقائق کو جھٹلانے کے برابر ہوتا ہے۔
اگر آپکو صوبائی عصبیت کا الزام صرف ایم کیو ایم کو دینا ہے اور دعوی ہے کہ پاکستان کی بقیہ قومیتیں صوبائی عصبیت سے بالکل پاک ہیں تو خود ہی فرما دیں کہ پھر ابتک محصورین واپس کیوں نہ آئے اور کوٹہ سسٹم ان پچاس سالوں میں ختم کیو نہ ہوا؟ تو حقائق بتا رہے ہیں کہ آپکے بیان کردہ واقعات صرف Exceptional Cases ہیں اور ان کے پیچھے پناہ لینا اور انہیں آرگومینٹ بنانا مفید ثابت نہیں ہو گا۔

پریذیڈنٹ مشرف کے صرف ایک قدم "ضلعی انتظامیہ کا قیام اور اختیارات کی وہاں تک منتقلی" سے کراچی کے آدھے مسائل حل ہو گئے ہیں [یا ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بعد چند سالوں میں یہ آدھے مسائل انشاء اللہ حل ہو جائیں گے] ۔ اسی طرح اگر بقیہ یہ دو چار بڑے مسئلے بھی حل ہو جائیں تو صورتحال کافی بہتر ہو جائے گی۔

2۔ محصورین پاکستان کی واپسی کے لیے پھر آپکا ایم کیو ایم کو الزام دینا کہ انہوں نے اُن کے لیے ایک چھوٹی سی کالونی نہیں بنائی، یہ مضحکہ خیز ہے۔ سعودی عرب اور بہت سے دیگر اداروں نے ان دو لاکھ افراد کا بوجھ اٹھانے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ ہماری قوم کی وہ مجموعی صوبائی عصبیت میں مبتلا اکثریت ہے جو اس پر بھی راضی نہیں، اور آپکے منہ سے اس اکثریت کے خلاف لفظ نہیں نکلا جبکہ ترکش کے تمام تیروں کا رخ صرف ایک فریق پر ہے، اور فریق بھی وہ جو واحد ہے جو اس بات پر احتجاج کر رہا ہے۔ تو حامی فریق پر آپکے سارے اعتراضات اور مخالف فریقوں پر آپکی زبان چپ؟
اسی لیے میں اسے ناانصافی سمجھتی ہوں اور اسکے خلاف ہمیشہ سے احتجاج کر رہی ہوں۔

3۔ اور الطاف حسین کا لندن میں رہنا اور پارٹی چلانا اُسکا اور اُسکے حمایتی اہل کراچی کا حق ہے اور اس پر یقینی طور پر مجھے یا آپ کو کسی اعتراض کا حق نہیں۔ اگر اسکے حمایتی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں الطاف حسین کو قتل کر دیا جائے گا [جیسا کہ بینظیر کو کیا گیا] تو وہ اس میں حق بجانب ہیں۔
اس الیکشنز میں اچھے اچھے اپنی جانوں کے خوف سے پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی جلسوں میں نکلنے سے پرہیز کر رہے ہیں اور اسکی وجہ ہے انتہا پسندوں کا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جب وہ بموں سے لبریز ہو کر خود کو اڑا دیتے ہیں۔
تو جب یہ انتہا پسند دھشت گرد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دھشت گردی کر سکتے ہیں تو جواب میں الطاف حسین جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی جماعت کی قیادت کیوں نہیں کر سکتا؟
مجھے انتہائی تعجب ہوتا ہے اس قسم کے اعتراضات پر۔ کیا یہ کسی آسمانی صحیفے میں لکھا ہے کہ باہر رہتے ہوئے پارٹی قیادت کرنا جرم ہے؟۔۔۔۔ تو یہ بات کسی آسمانی صحیفے، کسی ملکی قانون میں درج نہیں مگر پھر بھی کیوں یہ ہمارے ان محترم برادران کی نظر میں "ناقابل معافی جرم" اور "ملک و قوم سے غداری" کے مترادف ٹہرائی جا رہی ہے؟

اپنے دلوں کا ذرا کشادہ کیجئے، اور اس قسم کے نان ایشیوز کو اتنا بڑا ایشو نہ بنائیں کیونکہ اس سے صرف حقائق سے توجہ ہٹتی ہے۔ میرے لیے الطاف حسین لندن میں بیٹھے یا پھر چاند پر بیٹھ کر اپنی پارٹی کی قیادت کرے، کچھ فرق نہیں پڑتا۔

اور یہ عمران خان کے منہ پر طمانچہ تھا جب وہ بڑھ بڑھ کر یہی الزام لگاتا تھا کہ اگر الطاف حسین محب وطن ہے تو وہ واپس وطن کیوں نہیں آ جاتا، اور مرکز میں ایم کیو ایم کی حلیف جماعت ہے تو اس کی جان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں جب عمران خان پنجاب یونیورسٹی گیا جہاں اسکی حلیف جماعت کی طلباء تنظیم موجود تھی، اور پھر اُس کو جو وہاں طمانچے پڑے تو اُس کے بعد اُسے پتا چل گیا ہو گا کہ اُس کے آرگومینٹز شرمناک حد تک بودے اور حقائق کے خلاف اور صرف بحث برائے بحث اور اعتراض برائے اعتراض پر مشتمل تھے۔

///////////////////////

ایم کیو ایم کے چند اچھے کام جن کی حوصلہ افزائی ضروری ہے

۔ ان کی قیادت کا فیصلہ کہ مہاجر کا نعرے ختم کر دیا جائے اور جماعت کو متحدہ کا نام دے کر قومی دھارے میں شامل ہوا جائے۔

۔ قیادت کا فیصلہ کہ یہ نعرہ لگایا جائے کہ کراچی سب قومیتوں کا ہے۔

۔ قیادت کا یہ فیصلہ کہ پنجابی، سندھی اور دیگر قومیت کے لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا جائے۔

۔ ْقیادت کا یہ فیصلہ کہ "مہاجر" کا نعرہ ختم کر دیا جائے اور اسکی جگہ پہچان متعارف کروائی جائے جو ہے "نئے سندھی" اور "پرانے سندھی"۔

۔ سندھ کی دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی بات کرنا اور سندھ کی پسی ہوئی عوام کے حقوق کی بات کرنا۔ سندھ کی سطح تک تو یہ خیر سگالی کا جذبہ کچھ پھل لایا ہے اور دونوں فریقین میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے، مگر پاکستان کی بقیہ عوام ابھی اس تبدیلی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

///////////////////////////

بارہ مئی کے واقعات کے متعلق میرا خیال یہی ہے کہ کراچی میں ویسے ہی واقعات پیش آئے جیسا کہ بینظیر کی موت کے بعد کراچی میں واقعات پیش آئے۔

بینظیر کی موت کے بعد جو دھشت گردی کی گئی اُسکو آپ لوگوں نے نام دیا کہ یہ پیپلز پارٹی والے نہیں بلکہ دوسرے مسلح جرم پیشہ افراد تھے، مگر یہ ایکسکیوز ایم کیو ایم اور بارہ مئی کے واقعات میں پیش نہیں کی جاتی۔

بارہ مئی کو کراچی میں بہت کشیدگی تھی۔ دونوں فریقین کے پاس اسلحہ کی بھرمار تھی۔ ایک دوسرے کے وجود کو مشکل سے مانا جا رہا تھا۔ جسٹس صاحب کو آفر کی گئی کہ وہ ہیلی کاپٹر سے بار سے خطاب کرنے چلے جائیں، مگر چیف جسٹس صاحب مصر رہے کہ نہیں انہیں اُس گاڑی سے جانا ہے "جس پر تین تین پولیٹیکل پارٹیوں کے جھنڈے" لگے ہوئے تھے اور بار سے خطاب کرنے کا تو بہانہ ہے اور اصل مقصد تو ملیر اور دیگر علاقوں سے گھومتے پھرتے ہوئے سیاسی مظاہرے کرنا ہے۔ تو چیف جسٹس کے لیے یہ کیسے ممکن ہوتا کہ وہ اس بات کو مان لیتے کہ آرام سے بار جا کر خطاب کریں اور خاموشی سے واپس آ جائیں۔

چیف جسٹس کا طیارہ ابھی کراچی رن وے پر اترا بھی نہ تھا کہ ایم کیو ایم کے جلوس پر فائرنگ شروع ہو گئی۔۔۔ اسکے بعد جوابی فائرنگ اور پھر فائرنگ کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا اور 34 افراد جان بحق ہوئے [جس میں خود ایم کیو ایم کے بارہ پندرہ لوگ شامل ہیں]۔ دیکھئیے اسلحہ دونوں فریقین کے پاس موجود ہے اور علاقے میں بہت کشیدگی ہے اور کسی بھی قیادت کے ہاتھ میں اپنے حمایتیوں کا 100 فیصد کنٹرول نہیں ہے [جیسا کہ بینظیر کے مرنے کے بعد پیپلز پارٹی کا اپنے تمام تر حمایتوں پر کنٹرول نہ ہونا ظاہر ہوا اور چونتیس کے طرح وہاں کہیں سارے لوگوں کو قتل کیا گیا۔

اس سارے بارہ مئی کے واقعے کو ہمارے جانبدار میڈیا نے بہت زیادہ آگ لگائی اور تمام تر الزامات کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کر دیا اور دوسری طرف کو بالکل گول کر گئے۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ جب تک دونوں فریقین کے پاس اسلحہ رہے گا، یہ کشیدگی باقی رہے گی اور ہلکی سی چنگاری بھی بڑی آگ لگانے میں کامیاب ہوتی رہے گی اور اس معاملے میں دونوں فریقین کو غلطی کا مرتکب ٹہرایا جائے۔ صرف ایک فریق کو مرتکب ٹہرانا ناانصافی و تعصب و اندھا پن ہے اور ایسا کرتے ہوئے ہم کبھی بھی کراچی کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے بلکہ اپنے اس یکطرفہ تعصبی رویے سے ہم نفرتوں میں اور اضافہ کر دیں گے۔

////////////////////

چنانچہ ماضی میں جو کچھ ہوا اُسے نظر انداز کرنا ہو گا۔

یہ نہیں کہ ماضی میں نواز شریف اور بینظیر کی حکومتوں اور پولیس اور دیگر فریقین نے جو کچھ جرائم کیے اُسے تو بھولا دیا جائے، مگر ایم کیو ایم پر الزامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہے۔

اور ایم کیو ایم کے صحیح اقدامات کو بھی اس ماضی کا حوالہ دے کر ٹھکرا دیا جائے اور اسکی حوصلہ شکنی کی جائے کہ وہ مستقبل میں ایسے کوئی مثبت قدم اٹھائے۔ اگر آپ لوگ اپنے اسی پرانے رویے پر ڈٹے رہے اور ایم کیو ایم کو اپنے دلوں میں کوئی چانس نہیں دیا، تو پھر کراچی کے مسائل مجھے حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یعنی کراچی کے مسائل کا مکمل حل یہی ہے کہ ہم پنجاب میں‌بھی ایم کیو ایم کو ووت دیں؟

جہانزیب، کیا آپ کو میری ان طویل پوسٹوں میں صرف یہی ایک پیغام ملا ہے؟ [میرے خیال میں میں نے تو پنجاب میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کا تذکرہ تک نہیں کیا ہے]

آپ سے عرض ہے کہ آپ میری گذارشات کو پھر ایک دفعہ کھلے دل سے پڑھیئے اور خود سوچیئیے کہ کراچی کے مسائل پیدا کیوں ہوئے ہیں اور پھر کیا ہم ایک فریق پر تمام گناہوں کی ذمہ داری ڈال کر کراچی کے مسائل حل کر سکیں گے۔ اور کیا ہمیں اسکے مثبت اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے یا پھر دشمنی میں آ کر اسکے مثبت اقدامات کو بھی جرائم کی طرح پیش کرنا شروع ہو جائیں؟
 

جہانزیب

محفلین
بالکل آپ کی بات بجا ہے کہ جو تعمیری اور مثبت پہلو ہیں اُن کو سراہا جانا چاہیے، لیکن وہ تعمیری اور مثبت پہلو کیا صرف ایک ہی جماعت کے ساتھ نتھی ہو گئے ہیں؟ کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے جو بھی جماعتیں برسرِ اقتدار رہی ہیں اُن کے تمام پہلو کیا صرف منفی ہی رہے ہیں؟ اگر ایم کیو ایم سے پہلے موجودہ جماعتوں کے منفی کاموں کو اجاگر کرنا دُشمنی نہیں کہلاتا تو کیا وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے منفی پہلوؤں کو جب اجاگر کیا جائے تو اُسے دشمنی یا پھر صوبائی عصبیت تک کا نام دے دیا جاتا ہے؟ کیا ایم کیو ایم تنقید سے مبرا جماعت ہے؟ جس پر تنقید سے جان تو خیر آنی جانی ہے ایمان جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ؟
اب میں ایم کیو ایم کے سب سے بڑے اعتراض کی جانب آنا چاہوں گا ۔ کوٹہ سسٹم ۔ میں کبھی بھی کوٹہ سسٹم کے حق میں نہیں رہا لیکن ایم کیو ایم جس انداز میں کوٹہ سسٹم کو پیش کرتی ہے میں اُسے نہیں مانتا۔ کوٹہ سسٹم کسی صوبائی یا قومیت کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا، وہ رورل اور اربن ایریا کے تحت بنایا گیا ہے ۔ اب اُس میں رورل ایریا کس طرح رکھے گئے ہیں کہ باوجود میں سرگودھا کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں کا باسندہ ہونے کے اُس کوٹہ کے تحت رورل ایریا میں شامل نہیں ہوں، سو میرے پاس ایک ہی راستہ تھا آگے بڑھنے کا کہ محنت سے اپنے لئے مواقع بناؤ، دوسروں کو کمپیٹ کرو اور کمپیٹ کن سے کرنا تھا کراچی اور لاہور اور میرا گاؤں جہاں نہ تو سرکاری سکول تھا نہ ہی بجلی تھی، لیکن جب محدود سیٹوں والی کسی یونیورسٹی میں ایسے ہی کسی گاؤں والے کا ایک نمبر کی وجہ سے داخلہ نہیں ہوتا تو انہوں نے تو بندوق نہیں اٹھائی کہ ہمیں سہولیات بھی نہیں دیتے اور ہمارا مقابلہ لاہور اور کراچی کے لڑکوں سے ہے جن کو سب کچھ میسر ہے ۔
آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں سرگودھا میں کیڈٹ کالج ہے ائیر فورس کا اور تقریباً ہر والدین کی پہلے کوشش ہوتی تھی کہ اُن کا بچہ وہاں پڑھے اب کا کچھ اندازہ نہیں، تو آٹھویں کے بعد اُس کا امتحان ہوتا تھا، میں نے بھی دیا تھا، تحریری امتحان میں پاس ہونے کے بعد انٹرویو ہوتا ہے ، میں اُس وقت اپنے ساتھ والے گاؤں کے سکول جایا کرتا تھا، جب انٹرویو کے لئے گیا تو انٹرویو انگریزی میں تھا۔ اب بتائیں پاکستان میں کتنے فی صد گاؤں کے بچے انگریزی بولتے ہیں؟ یہی حال مقابلے کے امتحانوں میں ہے اور تو اور یہی حال کم و بیش اب یونیورسٹیوں میں داخلے کے وقت انٹرویو ہے۔ آپ کراچی کی بات کرتی ہیں میں نے اپنے علاقے میں ماسٹرز کئے لڑکوں کو کھیت میں ہل چلاتے دیکھا ہے اور وہ بھی بغیر کسی شکایت ۔

ہر محکمے کو "گھٹیا قابلیت" کے حامل "سندھیوں اور پنجابیوں" سے صرف اس وجہ سے بھر دیا گیا کیونکہ اُن کے پاس سندھی یا پنجابی وزراء کی سفارشیں موجود تھیں

یہ بات سراسر لغو اور حقیقت سے بعید ہے، کیونکہ جو لوگ کوٹہ کے تحت ایسی نوکریوں پر لگے ہیں اُن کے پاس اُتنی ہی تعلیم اور قابلیت موجود تھی کہ وہ اُس عہدے کے لئے اپلائی کر سکتے تھے، ہاں اُن کے پاس ایک پلس پوائینٹ تھا رورل ایریا کا اور اُس کو استعمال کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں تھی ۔ یہ کہنا کہ وہ تعلیمی اعتبار سے اس عہدے کے حق دار نہیں تھے ایک غلط بات ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ یہی سہولت ان مہاجرین کے لئے بھی اتنی ہی لاگو ہوتی ہے جو کہ رورل ایریا میں رہتے ہیں ۔

ابھی تو فوج سے صرف 180 کے قریب افسران ہی ان سول اداروں میں متعین ہوئے تھے کہ آپ حضرات کی طرف سے اس کے خلاف ایک "طوفان" کھڑا ہو گیا۔
تو جب اہل کراچی کو جب کراچی کی پولیس 80 فیصدی باہر کے لوگوں پر مشتمل نظر آئی تو کیا ان تمام سالوں میں وہاں نفرت کا یہ طوفان کھڑا نہیں ہو گا؟

پہلی بات تو یہ کہ کراچی کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے جنہیں حضرت الطاف حیسن پہلے کراچی والا نہیں مانتے تھے ۔ اور یہ بات نہ ہی تو الطاف حیسن ثابت کر سکتے ہیں اور نا ہی آپ کہ کراچی کی ۸۰ فی صد پولیس باہر کے لوگوں پر مشتمل تھی یا ہے۔ سوا اس بات کے کہ کراچی میں پنجاب پولیس کچھ عرصہ تک ہنگامی حالات میں تعنیات رہی ہے مگر وہ حکومت پنجاب کے ملازمت میں تھے نا کہ حکومت سندھ کی ملازمت میں۔ یہاں نیویارک میں جب ہنگامی حالات ہوتے ہیں جیسے اقوام متحدہ کا اجلاس تو نیو جرزی اور پنسلوینیا سے پولیس آ کر یہاں خدمات سر انجام دیتی ہے، اور نیویارکرز کا کبھی حق نہیں مارا گیا یا ایسا کوئی شور نہیں ہوا کہ ہمارے پاس پہلے ہی چالیس ہزار سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے افراد موجود ہیں یہ دوسری ریاستوں سے کیوں یہاں آ رہے ہیں ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جہانزیب:
بالکل آپ کی بات بجا ہے کہ جو تعمیری اور مثبت پہلو ہیں اُن کو سراہا جانا چاہیے، لیکن وہ تعمیری اور مثبت پہلو کیا صرف ایک ہی جماعت کے ساتھ نتھی ہو گئے ہیں؟ کراچی میں ایم کیو ایم سے پہلے جو بھی جماعتیں برسرِ اقتدار رہی ہیں اُن کے تمام پہلو کیا صرف منفی ہی رہے ہیں؟ اگر ایم کیو ایم سے پہلے موجودہ جماعتوں کے منفی کاموں کو اجاگر کرنا دُشمنی نہیں کہلاتا تو کیا وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے منفی پہلوؤں کو جب اجاگر کیا جائے تو اُسے دشمنی یا پھر صوبائی عصبیت تک کا نام دے دیا جاتا ہے؟ کیا ایم کیو ایم تنقید سے مبرا جماعت ہے؟ جس پر تنقید سے جان تو خیر آنی جانی ہے ایمان جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ؟

جہانزیب، دیکھئیے مسائل کو الجھانے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ آپ کو کہاں لگا ہے کہ میں نے ایم کیو ایم کو تنقید سے مبرا رکھا ہے؟ میری گذارش تو صاف سے تھی کہ غلطیاں دونوں جانب ہیں اور دونوں طرفین کی غلطیوں کا ذکر ہونا چاہیے۔ اور مسئلہ جہاں سے شروع ہوا، وہاں ایم کیو ایم کا وجود بھی نہیں تھا۔
آپ پھر غور سے پڑھئیے، میں دونوں طرف کی غلطیوں کو غلط کہہ رہی ہوں اور اس لیے براہ مہربانی اس اعتراض کا مکرر ذکر چھوڑیں کہ اس سے بات الجھنے کے اور کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

اب میں ایم کیو ایم کے سب سے بڑے اعتراض کی جانب آنا چاہوں گا ۔ کوٹہ سسٹم ۔ میں کبھی بھی کوٹہ سسٹم کے حق میں نہیں رہا لیکن ایم کیو ایم جس انداز میں کوٹہ سسٹم کو پیش کرتی ہے میں اُسے نہیں مانتا۔ کوٹہ سسٹم کسی صوبائی یا قومیت کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا، وہ رورل اور اربن ایریا کے تحت بنایا گیا ہے ۔ اب اُس میں رورل ایریا کس طرح رکھے گئے ہیں کہ باوجود میں سرگودھا کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں کا باسندہ ہونے کے اُس کوٹہ کے تحت رورل ایریا میں شامل نہیں ہوں، سو میرے پاس ایک ہی راستہ تھا آگے بڑھنے کا کہ محنت سے اپنے لئے مواقع بناؤ، دوسروں کو کمپیٹ کرو اور کمپیٹ کن سے کرنا تھا کراچی اور لاہور اور میرا گاؤں جہاں نہ تو سرکاری سکول تھا نہ ہی بجلی تھی، لیکن جب محدود سیٹوں والی کسی یونیورسٹی میں ایسے ہی کسی گاؤں والے کا ایک نمبر کی وجہ سے داخلہ نہیں ہوتا تو انہوں نے تو بندوق نہیں اٹھائی کہ ہمیں سہولیات بھی نہیں دیتے اور ہمارا مقابلہ لاہور اور کراچی کے لڑکوں سے ہے جن کو سب کچھ میسر ہے ۔
آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں سرگودھا میں کیڈٹ کالج ہے ائیر فورس کا اور تقریباً ہر والدین کی پہلے کوشش ہوتی تھی کہ اُن کا بچہ وہاں پڑھے اب کا کچھ اندازہ نہیں، تو آٹھویں کے بعد اُس کا امتحان ہوتا تھا، میں نے بھی دیا تھا، تحریری امتحان میں پاس ہونے کے بعد انٹرویو ہوتا ہے ، میں اُس وقت اپنے ساتھ والے گاؤں کے سکول جایا کرتا تھا، جب انٹرویو کے لئے گیا تو انٹرویو انگریزی میں تھا۔ اب بتائیں پاکستان میں کتنے فی صد گاؤں کے بچے انگریزی بولتے ہیں؟ یہی حال مقابلے کے امتحانوں میں ہے اور تو اور یہی حال کم و بیش اب یونیورسٹیوں میں داخلے کے وقت انٹرویو ہے۔ آپ کراچی کی بات کرتی ہیں میں نے اپنے علاقے میں ماسٹرز کئے لڑکوں کو کھیت میں ہل چلاتے دیکھا ہے اور وہ بھی بغیر کسی شکایت ۔

اول تو یہ کہ سرائیکی صوبے سے ، بلکہ اندرون سندھ، بلوچستان ہر ہر جگہ سے پنجاب کے خلاف شکایات ہیں اور یہ کہنا کہ ایسی شکایات صرف ایم کیو ایم تک محدود ہیں ایک عبث بحث ہو گی۔

میں بھی کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے بالکل حق میں نہیں مگر اسکو شفاف بنانے کے بہت حق میں ہوں۔

میری ناقص رائے میں کوٹہ سسٹم کو تعلیمی سطح پر مکمل طور پر رائج رکھنا چاہیے، مگر جب ایک تعلیمی ادارے سے نکلنے کے بعد یکساں قابلیت پیدا کرنے کی مواقع پیدا ہو چکے ہوں تو پھر اداروں میں بھرتی کرتے وقت کوٹہ سسٹم ختم ہو جانا چاہیے۔
آپ نے کیڈٹ سکول کی مثال دی تو یہ بات اُن چیزوں میں سے ہے کہ جس کو "مکمل" طور ختم کرنا فی الحال ناممکنات میں سے ہے اور شہری بچوں کو اپنے گھر اور ماحول سے تربیت و تعلیم کے ہمیشہ زیادہ مواقع ملتے رہیں گے بہ نسبت گاوں کے بچوں کے۔
اور جہاں تک انگریزی زبان اور اس میں انٹرویو کا تعلق ہے تو میں اسکا حل کوٹہ سسٹم میں نہیں دیکھ رہی بلکہ چاہتی ہوں کہ یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم اردو زبان میں ہونی چاہیے، جبکہ انگلش ایک سبجیکٹ کے طور پر ہونی چاہیے مگر بہت زیادہ زور کے ساتھ۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہو جائے گا جس پر تفصیل سے الگ لڑی میں گفتگو ہونی چاہیے۔

آپ کو شاید علم نہیں پاکستان میں مشرف حکومت آنے سے پہلے پولیس میں بھرتیاں کیسے ہوتی تھیں۔ اس میں کوٹہ سسٹم نہیں بالکل صرف وزرا کی سفارش چلتی تھی اور قابلیت کا کوئی ذکر نہیں۔
پھر بینظیر دور میں ایمپلائمنٹ کمیشن بنا جو ہر سرکاری و نیم سرکاری ادارے میں اپنی مرضی سے بھرتیاں کرتا تھا۔ بہت ضروری ہے کہ ان بھرتیوں کے سسٹم کو مکمل طور پر شفاف بنایا جائے اور ہر کسی کو اپلائی کرنے کا حق ہو۔


ہر محکمے کو "گھٹیا قابلیت" کے حامل "سندھیوں اور پنجابیوں" سے صرف اس وجہ سے بھر دیا گیا کیونکہ اُن کے پاس سندھی یا پنجابی وزراء کی سفارشیں موجود تھیں

یہ بات سراسر لغو اور حقیقت سے بعید ہے، کیونکہ جو لوگ کوٹہ کے تحت ایسی نوکریوں پر لگے ہیں اُن کے پاس اُتنی ہی تعلیم اور قابلیت موجود تھی کہ وہ اُس عہدے کے لئے اپلائی کر سکتے تھے، ہاں اُن کے پاس ایک پلس پوائینٹ تھا رورل ایریا کا اور اُس کو استعمال کرنے میں کوئی برائی بھی نہیں تھی ۔ یہ کہنا کہ وہ تعلیمی اعتبار سے اس عہدے کے حق دار نہیں تھے ایک غلط بات ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ یہی سہولت ان مہاجرین کے لئے بھی اتنی ہی لاگو ہوتی ہے جو کہ رورل ایریا میں رہتے ہیں ۔


اوپر میرا جواب ملاحظہ فرما لیں۔

ابھی تو فوج سے صرف 180 کے قریب افسران ہی ان سول اداروں میں متعین ہوئے تھے کہ آپ حضرات کی طرف سے اس کے خلاف ایک "طوفان" کھڑا ہو گیا۔
تو جب اہل کراچی کو جب کراچی کی پولیس 80 فیصدی باہر کے لوگوں پر مشتمل نظر آئی تو کیا ان تمام سالوں میں وہاں نفرت کا یہ طوفان کھڑا نہیں ہو گا؟

پہلی بات تو یہ کہ کراچی کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے جنہیں حضرت الطاف حیسن پہلے کراچی والا نہیں مانتے تھے ۔ اور یہ بات نہ ہی تو الطاف حیسن ثابت کر سکتے ہیں اور نا ہی آپ کہ کراچی کی ۸۰ فی صد پولیس باہر کے لوگوں پر مشتمل تھی یا ہے۔ سوا اس بات کے کہ کراچی میں پنجاب پولیس کچھ عرصہ تک ہنگامی حالات میں تعنیات رہی ہے مگر وہ حکومت پنجاب کے ملازمت میں تھے نا کہ حکومت سندھ کی ملازمت میں۔ یہاں نیویارک میں جب ہنگامی حالات ہوتے ہیں جیسے اقوام متحدہ کا اجلاس تو نیو جرزی اور پنسلوینیا سے پولیس آ کر یہاں خدمات سر انجام دیتی ہے، اور نیویارکرز کا کبھی حق نہیں مارا گیا یا ایسا کوئی شور نہیں ہوا کہ ہمارے پاس پہلے ہی چالیس ہزار سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے افراد موجود ہیں یہ دوسری ریاستوں سے کیوں یہاں آ رہے ہیں ۔

میں اس موضوعات کو طول نہیں دینا چاہتی اور آپکے ان دعووں کو بلا تبصرہ چھوڑتی ہوں:

پہلا: کراچی میں ہر تیسرا گھر ایک پنجابی کا ہے۔
دوسرا: کراچی پولیس میں 80 فیصد غیر مقامی نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ساجد،

میرے خیال میں انڈیا جا کر اس قسم کی تقریریں کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

قوم کو اس نکتے پر سوچنے کی بہت ضرورت ہے کہ "یہ کیسے ہوا؟"

1۔ یہ مہاجرین وہ تھے جنہوں مسلم لیگ کے تحت پاکستان بنانے کے لیے ووٹ دیا، اور جب پاکستان بن گیا تو یہ پاکستان کی محبت میں لٹتے لٹاتے جانیں و عزتیں گنواتے پاکستان پہنچ گئے۔

2۔ پاکستان آ کر ان کی وفاداری و محبت پاکستان کے لیے قائم رہی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وفاداری اتنی تھی کہ حتی کہ جنرل ضیاء نے چاہا کہ سندھ میں پاکستان مخالف قوتوں کے خلاف ایک قوت ہونی چاہیے تو انہوں نے اس قوم کا انتخاب کیا۔

3۔ اور پھر نفرتیں پھیلیں اور زہر ایسا پھیلا کہ مہاجروں کا قائد انڈیا جا کر ایسی تقریر کر رہا ہے۔

تو پاک قوم کو اس وقت اس نکتے پر سوچنے کی بہت ضرورت ہے کہ یہ تبدیلی کیسے ہوئی۔ [کیا میں قوم کو یاد دلاوں کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بھی پاکستان بنانے کے لیے ووٹ دیا، مگر جب بعد میں اختلافات پیدا ہوئے اور ان اختلافات کو محبت کی بجائے نفرت سے دبایا گیا اور انکی نمائندہ جماعت کو قبول نہیں کیا گیا تو اسکا نتیجہ کیا ہوا؟ تو کیا قوم سیکھ چکی ہے کہ مشرقی پاکستان میں یہ سب کیسے ہوا تھا؟

//////////////////////////

میں اندھر ایک اور سوال پاکستانیوں سے اٹھاتی ہوں:

1۔ انڈیا کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے تحت پاکستان کے قیام کے لیے ووٹ دیا۔

2۔ پاکستان بن جانے کے بعد بہت سے مسلم انڈیا میں ہی رہ گئے۔

3۔ مگر ان پیچھے رہ جانے مسلمز کی ایک بڑی اکثریت کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ تھیں۔ جب بھی پاک انڈیا میچ ہوتا تھا تو یہ مسلم لوگ پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہوتے تھے۔ اب بھی کئی جگہیں ہیں جنہیں انڈیا میں "منی پاکستان" کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں چودہ اگست کو پاکستان کی جھنڈیاں لہرا رہی ہوتی ہیں۔

4۔ مگر پھر انڈین مسلمز میں یہ رجحان بدلنا شروع ہوا۔ اور انہوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ دو قومی نظریے کے تحت پاکستان کا قیام ایک غلطی تھا۔

تو پاکستانی قوم بتائے یہ تبدیلی کیوں ہوئی؟ کیا ہمارے لیے یہ سوچنے کی بات ہے کہ نہیں؟
 
مہوش درست کہہ رہی ہیں‌۔ اسٹیبلشمنٹ اور فوجی ایجنسیوں‌نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
الطاف بھی انھی ایجنسیوں‌ کی پیداوار ہے۔ اس بات سے اختلاف نہیں‌کہ مسائل کراچی اور سندھ میں‌موجود تھے۔ اس کا سامنا وہ لوگ کررہے تھے جن سے ایجنسیوں اور اسٹیبلیشمنٹ کو خطرہ تھا۔اس خطرے کی غبارے کو پھس کرنے کے لیے ایجنسیوں‌نے قوم پرستوں اور الطاف کو استعمال کیا۔
یاد رکھیے پاکستان میں‌جو لوگ کسی بھی ذیلی قومیت کے حامی نہ تھے وہ "مہاجر" تھے۔ باقی سب اپنی اپنی ذیلی قومیتوں کے اسیر تھے۔ پاکستان نبانے والوں سے زیادہ پاکستان کا کس کو خیال ہے؟ پاکستان بنانے والوں‌نے قربانیوں‌پر قربانی پیش کیں۔ ہجرت در ہجرت کے دکھ سہے اور ہاتھ کیا ایا؟ ایوب، یحییٰ اور ضیا کی حکومت، ذیلی قومیتوں‌کی ذلت در ذلت۔ چاہے ایوب کی امریت ہو یا بھٹو کی خلاف تحریک، کراچی و سندھ کے رہنے والے ان تحریکوں‌کے لیے خون پیش کرتے رہے اور دوسرے مزے لے لے کر پاکستان (پھر بچا کچھا پاکستان) پر حکومت کرتے رہے۔ یہ تسلسل جاری رکھنے کی ایک کڑی الطاف کی ایم کیو ایم ہے۔ یہ بھی پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کل رات ٹی وی پر ایک ڈاکومنٹری پروگرام تھا پاکستان کے بارے۔۔۔

اس میں پاکستان کے قیام سے اب تک کے اہم سیاسی واقعات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ایک جگہ فاطمہ بھٹو کو اس میں دکھایا گیا تھا۔ اس نے اپنے گھر کے باہر نکل کر وہ جگہ دکھائی جہاں مرتضٰی بھٹو کو مارا گیا تھا۔ فاطمہ نے کہا اس واقعے سے کئی دن قبل یہاں ارد گرد ٹینک آنا شروع ہو گئے تھے۔ بکتر بند گاڑیاں‌ تھیں۔ واردات والے دن پولیس والے اور سنائپرز تک درختوں پر دور دور تک چڑھے ہوئے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق کئی گولیاں نیچے گرے مرتضٰی پر کھڑے ہو کر ماری گئیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میں‌ مانتی ہوں‌کہ میری پھوپھو اس واردات میں ملوث نہیں تھیں۔ لیکن میں یہ کیسے مان لوں کہ جو بندہ ملوث‌ نہ ہو، وزیر اعظم بھی ہو اور وہ اس سارے معاملے کو کور اپ کر دے۔ تمام آفیسران جو اس میں شامل تھے، کی پرموشن ہو جائے
 
Top