خورشیداحمدخورشید
محفلین
خیر سے اور کون کون ہیں ؟ مطلب جنہیں پرانے ڈرامے نوٹنکی اور آجکل والے ذوق کے مطابق لگتے ہیں-اس شوق میں ہم ہی نہیں تنہا !!!
خیر سے اور کون کون ہیں ؟ مطلب جنہیں پرانے ڈرامے نوٹنکی اور آجکل والے ذوق کے مطابق لگتے ہیں-اس شوق میں ہم ہی نہیں تنہا !!!
جی بالکل! اس ڈرامے کا یہی سین پاکستانی سیاست میں چار سال قبل عملی طور پر پیش کیا گیا۔میری گذارش ہے کہ اس لڑی میں کوئی واقعہ یا کوئی بات جس نے آپ کو سوچنے پر مجبور کیا ہو شئیر کریں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میں پی ٹی وی کے ایک ڈرامے کا ذکر کروں گا۔
پی ٹی وی کے پرانے ڈرامے اپنی مثال آپ ہیں۔ چونکہ ایک چینل تھا اس لیے پورے ملک سے ہر فیلڈ میں ماہر افراد چنے جاتے تھے۔ افرا تفری اور جلد بازی نہیں تھی اس لیے بہت محنت کی جاتی تھی۔ سندھی کلچر پر ایک خوبصورت ڈرامہ لگا تھا جس کا نام تھا چھوٹی سی دنیا۔ مزاحیہ انداز میں سنجیدہ معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ایک سین ملاحظہ کریں۔
دیہی بستی کے دو کردار ہیں۔ ایک کا نام صاحب ہے ۔ وہ پڑھا لکھا ہے۔ انگریزی لباس پہنتا ہے۔ انگریزوں کے طور طریقے اور زبان جانتا ہے۔ بستی کے لوگ اس سے بہت متاثر ہیں۔ اس کی بہت عزت کرتے ہیں۔
دوسرے کردارکا نام جانو جرمن ہے وہ فراڈ ہے اور اپنے آپ کو سمجھدار اور پڑھا لکھا ظاہر کرتا ہے۔ یہ صاحب سے جلتا ہے۔ اور اسے نیچا دکھانا چاہتا ہے۔
بستی والوں کی نظروں میں گرانے کے لیے وہ صاحب کو انگریزی بولنے کے مقابلے کا چیلنج کرتا ہے۔ صاحب تیار ہوجاتا ہے۔ بستی کے دو ایماندار معمر بزرگ جج چن لیے جاتے ہیں اور مقابلے کے دن اور وقت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
مقابلے کے دن پنڈال بستی کے لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ دونوں کرداروں کو باری باری انگریزی بولنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جانو جرمن جناتی زبان بولتا ہے جو ججوں سمیت کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ جبکہ صاحب صحیح انگریزی بولتا ہے۔ جن میں سے چند الفاظ ججوں اور گاؤں والوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ گاؤں کے ایک بندے کو کہتا ہے کہ رمضان میرے لیے پانی کا ایک گلاس لاؤ۔
Ramzan, Bring me a glass of water please.
مقابلے کے اختتام پر ججوں کا فیصلہ یہ تھا۔
صاحب نے انگریزی میں ہماری زبان کی ملاوٹ کی۔ اس نے رمضان اور گلاس جیسے الفاظ ہماری زبان سے شامل کیے۔ جبکہ جانو جرمن نے ہماری زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور خالص انگریزی بولی۔ اس لیے آج کے مقابلے کا فاتح جانو جرمن ہے۔
ڈرامے کے اس سین سے میں نے سیکھا کہ!
۔۔۔ صرف ایمانداری اور خلوص کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ضروری نہیں کہ درست ہو۔
۔۔۔ ادھورے حقائق کی بنیاد پر درست ٖفیصلہ ممکن نہیں۔
۔۔۔ اگر فیصلہ کرنے والے معاملے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تو فراڈیے ان سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروالیتے ہیں۔
سچ ہے کہ ایک دھوکے با ز پتہ نہیں کتنے حق داروں کا حق مار آتا ہے پر میرا مالک پھر بھی حق داروں کا حق اُن تک پہنچوا ہی دیتا ہے ۔ایک دھوکے باز کے دھوکے نے ناجانے کتنے ہی حق داروں کا حق مارا۔ اب کسی کو حقیقتاً ضرورت ہو گی تب بھی یہ آدمی کیسے کسی پر اعتبار کر پائے گا۔
جی بھائی!میں سوچتا ہوں کہ ایک دھوکے باز کے دھوکے نے ناجانے کتنے ہی حق داروں کا حق مارا۔ اب کسی کو حقیقتاً ضرورت ہو گی تب بھی یہ آدمی کیسے کسی پر اعتبار کر پائے گا۔ اللہ پاک میرے اس دوست کے دل کو مطمئن اور اپنی رضا پر راضی رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اور اُس دھوکے باز کو بھی اس بات کا ادراک ہو جائے کہ یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے۔ اس کا مال و متاع سب دھوکہ ہے۔ اور ایسی روش سے باز رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
آمین الہی آمینجی بھائی!
ہم نے اسی دنیا میں رہنا ہے جتنی احتیاط کرسکتے ہیں کرکے پھر حقداروں کو بھی محروم نہیں کرنااور یہ کوشش کرنی ہے کہ ان تک حق پہنچتا رہے- دھوکہ دینے والوں کا جرم دوگنا ہے جیسے آپ نے بھی کہا کہ ایک تو انہوں نے دھوکے سے رقم ہتھیا لی اور دوسرا اصل حقداروں کو بھی مشکوک بنا دیا- اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے-
آمینجی بھائی!
ہم نے اسی دنیا میں رہنا ہے جتنی احتیاط کرسکتے ہیں کرکے پھر حقداروں کو بھی محروم نہیں کرنااور یہ کوشش کرنی ہے کہ ان تک حق پہنچتا رہے- دھوکہ دینے والوں کا جرم دوگنا ہے جیسے آپ نے بھی کہا کہ ایک تو انہوں نے دھوکے سے رقم ہتھیا لی اور دوسرا اصل حقداروں کو بھی مشکوک بنا دیا- اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے-
شکریہ بھائی عبدالرووف!ایک تمثیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھا دھند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرویز ، مختار اور صادق ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازم تھے- پرویز اور مختار چالاک اورموقع پرست تھے-لیکن لوگوں میں گھل مل جاتے اور اپنے آپ کو ان کا ہمدرد بنا کر پیش کرتے تھے- صادق ایک سیدھا سادا، ایماندار اورنفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر حق اور سچ کا ساتھ دینے والا آدمی تھا- اس کا ایمان تھا کہ اگر حق کا ساتھ دینا ہو یا باطل کے خلاف لڑنا ہو تو زیادہ سوچ بچار ایمان میں ضعف کی نشانی ہے-
تھوڑا عرصہ پہلے کمپنی نے ایک نیا ملازم رکھا جس کا نام سلیم تھا- سلیم یاروں کی یاری میں خوش رہنے والا اور دوستی نبھانے والا بندہ تھا- پرویز اور مختار دونوں نے اس کے ساتھ اچھے تعلقات بنالیے- سلیم بھی ان کی دوستی میں خوش تھا- ایک دن پرویز اور مختار سلیم کے پاس آئے اور اسے کہا کہ ہمارے پاس پیسے کمانے کا ایک منصوبہ ہے- اس سے ہم بڑی آسانی سے پیسے کما سکتے ہیں-
تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یعنی پرویز اور مختار کمپنی سے پٹرول، ڈیزل اور گاڑیوں کے سپئیر پارٹس چرُا کے تمہیں دیں گے اور تم انہیں مارکیٹ میں فروخت کردینا- جو رقم ملے گی ہم آپس میں برابر تقسیم کرلیں گے-سلیم طبیعت کے لحاظ سے بُرا نہیں تھا لیکن دوستی کی خاطر اور تھوڑا لالچ میں ان کا ساتھ دینے پر راضی ہوگیا- چوری کا یہ کاروبار بڑی کامیابی سے چلنے لگا-
ایک دن سلیم چوری کا سامان فروخت کرکے آرہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل پھسلی اور سڑک پر گر گئی- ابھی سلیم اٹھنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایک بڑا ٹرک اس کے سر سے محض چند انچ کے فاصلے سے بڑی سپیڈ سے گذر گیا- یہ دیکھ کر سلیم کانپ گیا- اُٹھ کے اس نے موٹر سائیکل سیدھی کی اور سوار ہوکے اپنے دوستوں کی طرف چل پڑا- وہاں پہنچ کر اس نے پرویز اور مختار کو سارا واقعہ سنایا اور کہنے لگا کہ آج میں مرتے مرتے بچا ہوں- اس لیے میں آج سے اس کام سے توبہ کرتا ہوں اور آپ سے بھی کہتا ہوں کہ یہ کام چھوڑ دیں- ان دونوں نے بظاہر اس کے ساتھ ہمدردی کی اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی لیکن دل سے وہ یہ کام چھوڑنے پر راضی نہیں تھے- کیونکہ اس سے انہیں اچھی خاصی آمدنی ہورہی تھی۔ سلیم چونکہ ان کا رازدار تھا اس لیے دونوں اس سے خطرہ محسوس کرنے لگے- اس خطرے سے پیچھا چھڑانے کے لیے دونوں نے ایک پلان تیار کیا-
وہ دونوں صادق کے پاس گئے- پہلے تو اس کی ایمانداری اور حق پرستی کی تعریف کی- پھر انہوں نے کہا کہ بھائی کمپنی کا مال خورد برد ہو رہا ہے اور کرنے والا سلیم ہے- ہمارے پاس پکے ثبوت ہیں کہ وہ کہاں مال بیچتا ہے- وہ کہنے لگے کہ صادق بھائی ہم سارے کمپنی کے وفادار ہیں- لیکن کمپنی سب سے زیادہ آپ پر بھروسہ کرتی ہے- آپ سے گذارش ہے کہ چونکہ سلیم ہمارا دوست ہے اس لیے ہمارا نام نہ آئے اورآپ کمپنی سے کہیں کہ اس کے خلاف کاروائی کرے-
لو جی صادق صاحب تو برائی کے خلاف لڑتے وقت سوچ بچار کو گناہ سمجھتے تھے اوربرائی کو مٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے- اس لیے وہ کمر کس کے سلیم کے خلاف لڑنے میدان میں اتر آئے- سلیم کو ہر جگہ بدنام کیا گیا اور کمپنی کو شکایت کرکے سلیم کو فوری طور پرکمپنی سے نکالنے کو کہا گیا- ثبوت سلیم کے خلاف تھے اور سلیم چونکہ دوستی کی خاطر جان دینے والا بندہ تھا اس لیے اس نے مختار اور پرویز کا نام بھی زبان پر نہ آنے دیا- نتیجہ پرویز اور مختار کی توقع کے عین مطابق نکلا- سلیم کو کمپنی سے نکال دیا گیا - پرویز اور مختار دوبارہ اپنے نفع بخش کاروبار میں لگ گئے-
----- صادق جیسی اچھی خصوصیات ہوں لیکن عقل اور فہم سے کام نہ لیا جائے اور ان کا اندھا دھند استعمال کیا جائے تو ان اچھی خصوصیات کو برے لوگ اچھے لوگوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں
------سلیم جیسی اچھی خصوصیات بھی عقل اور فہم کے بغیر اندھا دھند استعمال کریں تو خود کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہیں-
------پرویز اور مختار جیسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے
۔۔۔ اگر فیصلہ کرنے والے معاملے کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تو فراڈیے ان سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروالیتے ہیں۔
جی آپا آپ نے ایک تلخ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے- یہ رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے- اسی موضوع پر ایک اور خوبصورت پاکستانی ڈرامہ میں بھی یوٹیوب پر دیکھ رہا تھا جو رات ہی ختم ہوا ہے ڈرامے کا نام ہےپردیس ڈرامہ: پردیسیوں کو گھر لوٹنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اصل المیہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے ہم میں قناعت پسندی کا فقدان ہے ۔۔ہم نے تھوڑے میں خوش رہنا چھوڑ دیا ہے ۔۔۔خوب سے خوب تر کی تلاش میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں منانا بھول گئے ۔۔۔۔کبھی نہیں سوچتے کہ ہم تو اتنے اپنوں میں خوش نہیں ہوتے تو وہ جو اکیلے کمانے جاتے ہیں وہ تو پردیس کی مشکلیں پہلے ہی جھیلتے ہیں اور وہ بھی غیروں میں تو کم از کم اُنکی مشکلات تو سمجھنے کی کوشش تو کریں ۔۔۔
ڈرامہ حقیقت سے بے حد قریب ہے اس کا اندازہ ہر اُس گھر سے ہوتا ہے جن گھرانوں کے سربراہ پردیس میں ہیں اور اُنکی نصف بہتر کس حال میں ہیں ۔۔۔صرف پیسے ہی ہر چیز کا بدل نہیں ہیں۔ کاش یہ ہمیں سمجھ میں آنے لگے ۔۔۔ 😢😢😢😢😢
جی بالکل صحیح کہا آپ نے!اصل معاملہ یہی تھا کہ فیصلہ کرنے والے فیصلے کے اہل نہیں تھے۔
یہ نہیں دیکھا سناُ ہے اِ سکے بارے میں کبھی وقت ملا تو دیکھتے ہیں۔۔۔۔جی آپا آپ نے ایک تلخ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے- یہ رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے- اسی موضوع پر ایک اور خوبصورت پاکستانی ڈرامہ میں بھی یوٹیوب پر دیکھ رہا تھا جو رات ہی ختم ہوا ہے ڈرامے کا نام ہے
جیکسن ہائیٹس
سچ ہے یہ بہت پہلے پڑھا تھا ۔۔۔اشفاق صاحب کی ہر تحریر اور ڈرامہ کسی مثبت پہلو کی طرف اشارا کر تا ہے !اب ہم سوچیں کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں - بعض اوقات جسے ہماری ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اپنی منفی سوچ کی وجہ سے ہم اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں
محترم جناب اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ سے اقتباس
منفی سوچایک عورت کسی رہائشی علاقے میں ایک مکان لے کر رہائش پذیر ہوتی ہے- گھرکے مکینوں میں صرف وہ ہے اور اس کا ایک دس بارہ سال کا بچہ- علاقے کے دوسرے مکینوں نے ایک بچے کے ساتھ رہائش پذیر اکیلی عورت کے معمولات کا جائزہ لینا شروع کیا تو مندرجہ ذیل باتیں ان کے علم میں آئیں:
1-عورت جب باہر نکلتی ہے تو نہایت صاف ستھرے کپڑوں میں بہت سی خوشبوئیں لگا کر نکلتی ہے اور سب سے بہت اخلاق سے پیش آتی ہے-
2- گاڑیوں میں مختلف سوٹڈ بوٹڈ لوگ ان سے ملنے آتے ہیں-
3- ایک گاڑی والا جب آتا ہے تو وہ اپنے بچے کو کھیلنے کے لیے باہر بھیج دیتی ہے-
ان معمولات سے لوگوں نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ عورت کردار کی مشکوک ہے بلکہ کوئی پیشہ ور ہے جو اس علاقے کی عزت اور غیرت کے لیے خطرہ ہے-
جبکہ اصل صورت حال یہ تھی:
1- وہ ایک مہذب اور بااخلاق عورت تھی جسے ایک بیماری لاحق تھی- اس بیماری میں مریض کے جسم پر زخم ہو جاتے ہیں اوراس کے جسم سے ناگوار بُو آنے لگتی ہے- اس کو چھپانے کے لیے وہ روزانہ کپڑے بدلتی تھی اور خوشبوئیں استعمال کرتی تھی-
2- قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اس کے زمینی جھگڑے چل رہے تھے اس لیے وہ اکیلی رہ رہی تھی
3- ملنے کے لیے آنے والوں میں اس کا مینیجر، اس کا وکیل اور اس کا ڈاکٹر شامل تھے
4- جب ڈاکٹر اسے دیکھنے کے لیے آتا تھا تو وہ بچے کو باہر نکال دیتی تھی تاکہ وہ ماں کی بیماری سے متنفر نہ ہو جائے-
تو اب ہم سوچیں کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں - بعض اوقات جسے ہماری ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اپنی منفی سوچ کی وجہ سے ہم اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں
جی سر!اسے کہتے ہیں زاویہ نظر۔
شاید اسی لئے اسلام ہمیں بدگمانی سے روکتا ہے۔