ریحان، آپ کے تبصرے سے محسوس ہوا کہ آپ میری بابت کسی بدگمانی کا شکار ہیں۔
میرا شکوہ نہ محفل سے تھا نہ محفل کے آزاد فکروں (free thinkers) سے۔ مجھے تو جو تکلیف پہنچی تھی وہ انھی لوگوں سے تھی جن کے دین کا میں اپنے تئیں دفاع کرتا رہتا ہوں۔ میری بدقسمتی یہ ہے کہ رند مجھے پارسا جانتے ہیں اور پارسا پرلے درجے کا رند سمجھتے ہیں!
دو باتیں ہیں۔ ایک تو میری خواہش یہ ہے کہ کسی حد تک بیان کر سکوں کہ مجھے تحفظات کیا تھے جن کے باعث میں محفل سے دور ہونے پر مجبور ہوا۔ اور دوسرا
آپ کا میرے کیفیت نامے پر ایک تبصرہ بھی ذہن میں ہے۔ ذیل کی توضیحات اسی ضمن میں کی جا رہی ہیں۔
یہ غزل اس دور کی ہے جب میں دہریہ تھا۔ مطلع اور مقطع کے لہجے اور خیال سے شاید آپ کو اچنبھا ہو اور بہت ممکن ہے کہ انھی کے باعث آپ بدگمان ہوئے ہوں۔ لیکن اگر آپ اسے ایک متکبر اور خواص پسند دہریے کا کلام سمجھ کر پڑھیں تو شاید زیادہ بہتر سمجھ سکیں گے۔ نقلِ کفر کفر نباشد کے قیاس پر میں واضح بھی کر دیتا ہوں کہ معاملہ کیا ہے۔ دراصل اپنی لادینیت کے دور میں بھی میں مزاجاً عظمت پرست ہونے کے باعث رسولؐ اللہ کے کمال کا معترف تھا۔ میرا خیال تھا کہ انھوں نے محض معاشرے کو بدنظمی سے بچانے کے لیے الہٰیاتی تصورات کو، نعوذ باللہ، ضروری خیال کیا اور دانستہ مذہب کا سہارا لے کر اپنی قوم کی رہبری اور اس کی خرابیوں کی چارہ جوئی فرمائی کہ یہ آسان ترین اور شاید واحد ممکنہ راہ تھی۔ میں انھیں نہ صرف عرب معاشرے بلکہ نوعِ انسانی کے بہترین نباضوں میں سے ایک خیال کرتا تھا۔
پھر یہ تھا کہ قرآن عہدِ لادینیت میں بھی میرے لیے رہنما کتا ب تھی۔ اس کی وجہ ادبیات سے میرا شغف تھا۔ انگریزی میں آپ کو عالمی ادب کے گلدستوں (anthologies) میں بالعموم عہد نامہ ہائے عتیق و جدید کے اقتباسات ملتے ہیں۔ یہی حیثیت عربی یا ایشیائی ادب کے مرقعوں میں قرآن کی ہے۔ مجھے اس کے افکار سے دلچسپی نہ تھی مگر اس کے طرزِ بیان کا میں عاشق تھا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ آپ میرا کوئی نثر پارہ یا غزل اٹھائیے۔ آپ کو عام طور پر ایک تیزی اور زور اس کے بیان میں ملے گا۔ اس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک عرصہ سورۃ الزلزال میرے اعصاب پر چھائی رہی ہے۔ اس کے اسلوب کی قوت اور جبروت سے میں نہایت متاثر ہوا ہوں اور اسے نقل کرنے کی شعوری اور لاشعوری کوشش کرتا رہا ہوں۔
مجھے عام دہریوں کے برعکس اکابرینِ مذہب کی عقل پر کبھی شبہ نہیں رہا تھا۔ میرا خیال صرف اس قدر تھا کہ ان کی منطق غلط ہے۔ درست منطق پکڑ لیں تو بہترین نتائج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے اس غزل کے مقطع میں یہ بیانِ حتمی (sweeping statement) دیا ہے کہ عوام خدا کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔ جھوٹا سچا پہچانتے بھی ہیں تو اہلِ علم۔ یہی قرآن کا ادعا ہے۔
---
اگر آپ اپنے قصبے کے کسی دوکاندار کے پاس پہنچیں اور وہ بغیر کسی سبب کے منہ پھیر کر آپ کو سودا دینے سے انکار کر دے تو آپ کیا سوچیں گے؟ اگر آپ کا وہ خاندان جس کی آنکھ کا آپ تارا رہے ہوں آپ سے مکمل سماجی اور جذباتی مقاطعے کا اعلان کر دے تو آپ پر کیا بیتے گی؟ اگر آپ کے دوست آپ کے ساتھ چلنے سے اس وجہ سے انکار کر دیں کہ آپ کے لیے چلائی گئی گولی انھیں نہ آن لگے تو آپ پر کیا گزرے گی؟
مجھ پر یہ سب گزری ہے۔ لہٰذا میں نے احتیاط برتنی شروع کر دی ہے۔ آن لائن سیکیورٹی اور پرائیویسی کے سلسلے میں خاصا خبطی (obsessive) ہو گیا ہوں۔ اس صورتِ حال میں جب مجھے معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا پر اب بھی مجاہدین میری گھات میں بیٹھے ہیں اور اپنے عزائم میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں تو مجھے خاصی تکلیف ہوئی۔ ایک نہایت حکیمانہ بات کہیں پڑھی تھی کہ سب سے خطرناک جھوٹ وہ ہوتا ہے جس میں آدھا سچ ہو۔ المیہ یہ ہے کہ اس حکمت کا فہم صفِ دشمناں میں مجھ سے کہیں زیادہ ہے۔
انٹرنیٹ میرے لیے ایک مشکل چیز بنتا جا رہا ہے۔ میرے اردگرد مجھے کم ہی لوگ ایسے ملتے ہیں جن سے معنیٰ خیز گفتگوئیں کی جا سکیں۔ انٹرنیٹ پر وافر ہیں۔ مگر یہاں بات کرنے میں جھجک اسی لیے رہتی ہے کہ اصولاً انٹرنیٹ پر اختلاف حقیقی زندگی سے زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ گویم مشکل و گر نگویم مشکل!
---
مجھ جیسے نیک لوگوں کی آزمائش والی پھبتی خوب کہی آپ نے۔
پارسائی کا دعویٰ تو ایک طرف، کوئی یہ تہمت بھی مجھ پر لگائے تو میں قبول نہیں کر سکتا۔ جو رندانہ زندگی میں نے گزاری ہے اور گزار رہا ہوں اس کے راز کھل جائیں تو آدھے سننے والے رشک سے مر جائیں اور باقی آدھے مجھے مار ڈالیں!
مجھ ایسے نیکوکاروں کا تو خدا سے بھی وہی تعلق ہوتا ہے جو حافظؔ نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے:
خوش ہوائیست فرح بخش، خدایا! بفرست
نازنینے کہ برویش مئے گلگوں نوشیم ! ! !
کچرا گھر میں قمقمہ روشن کر دینے سے گند صاف نہیں ہو جاتا، نظر آنے لگتا ہے۔ صفائی کے لیے ہمت چاہیے ہوتی ہے جو فقیر میں نہ تھی، نہ ہے۔ آئندہ کی امید بھی زیادہ نہیں۔ دین کے قمقمے نے صرف میرے اور میری نسبت سے انسان کے عیب مجھ پر کھولے ہیں۔ ان فکری، جذباتی، روحانی وغیرہ عیوب کی پردہ کشائی اور شے ہے، ان سے کنارہ کشی اور!
امتحانات بڑے لوگوں کے ہوتے ہیں، ریحان صاحب۔ میں تو ابتلا سے گزر رہا ہوں!