پھر اک زخم کھانے کا سوچا ہے میں نے

نوید ناظم

محفلین
پھر اک زخم کھانے کا سوچا ہے میں نے
اب اُس کو بھُلانے کا سوچا ہے میں نے

میاں دشت میں خاص وحشت نہیں ہے
یہاں سے بھی جانے کا سوچا ہے میں نے

میں تجھ سے بچھڑ کر بھی اب خوش رہوں گا
تِرا دل جلانے کا سوچا ہے میں نے

خزاں سے بہاریں نکالوں گا اک کے
نیا گُل کِھلانے کا سوچا ہے میں نے

ابھی سے مِرا گھر مہکنے لگا ہے
ابھی اُس کے آنے کا سوچا ہے میں نے

میں بس خواب میں دھوپ سے ڈر گیا تھا
جو پِیپل لگانے کا سوچا ہے میں نے

میں خود اپنے اندر سے ہو کر نہ جاؤں؟
بہت دور جانے کا سوچا ہے میں نے

مجھے قید میں کام کرنا پڑے گا
پرندے اُڑانے کا سوچا ہے میں نے

بڑے چپ ہیں دریا کے دونوں کنارے
انھیں اب ملانے کا سوچا ہے میں نے
 

الف عین

لائبریرین
خزاں سے بہاریں نکالوں گا اک کے
شاید ٹائپو ہے، اب کے درست ہے.
اشعار سبھی درست لگ رہے ہیں، بس ایک پیپل کا پیڑ لگانے کی لاجک سمجھ میں نہیں آئی، کوئی بھی درخت لگایا جا سکتا ہے نا!
 

نوید ناظم

محفلین
خزاں سے بہاریں نکالوں گا اک کے
شاید ٹائپو ہے، اب کے درست ہے.
اشعار سبھی درست لگ رہے ہیں، بس ایک پیپل کا پیڑ لگانے کی لاجک سمجھ میں نہیں آئی، کوئی بھی درخت لگایا جا سکتا ہے نا!

شکریہ سر،

شاید ٹائپو ہے، اب کے درست ہے.
جی بالکل، ٹائپو ہو گیا تھا مجھ سے

اشعار سبھی درست لگ رہے ہیں، بس ایک پیپل کا پیڑ لگانے کی لاجک سمجھ میں نہیں آئی، کوئی بھی درخت لگایا جا سکتا ہے نا!
سر پیپل اور برگد دو ایسے درخت ہیں کہ ان جیسی چھاؤں کوئی اور درخت شاید ہی عطا کر سکے، پیپل وزن میں بھی تھا اور چھاؤں بھی گھنی تھی اس لیے جلدی سے لگا دیا، اب جیسے آپ کہیں۔۔ :)
 
Top