کیا کہنے جناب، بہت خوب
ذیشان بھائی۔
خضر والے شعر میں ۔۔ملادی۔۔ کی نسبت کو آب کے بجائے شاید حیات کی طرف کر کے تانیث استعمال کیا گیا ہے جو(مجھے) درست نہیں لگ رہا۔۔یہاں ۔ملا دیا۔ کر کے مذکرموزوں نہیں ہونا چاہیے ؟
آب اگر چمک کے معنی میں ہو تو مونث ہو سکتا ہے جیسے دھونے سے موتی میں آب آگئی ۔اگر پانی ہو تو مذکر ہی ہونا چاہیے۔جیسے آب حیات پی لیا۔
آب اگر چمک کے معنی میں ہو تو مونث ہو سکتا ہے جیسے دھونے سے موتی میں آب آگئی ۔اگر پانی ہو تو مذکر ہی ہونا چاہیے۔جیسے آب حیات پی لیا۔
ناسخ کے مصرع کا جہاں تک تعلق ہے ۔ تو یہاں بننے کا فعل شراب کی طرف لوٹایا جا سکنا بھی ممکن ہے۔
چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ ۔شراب ِ صاف آبِ حیات بن گئی۔ اور کہا جاسکتا ہے۔آبِ حیات شراب صاف بن گیا۔واللہ اعلم۔
بہت اچھا۔ لیکن یہاں زہر کے ساتھ ملانا کا استعمال زیادہ اچھا تھا۔مثلاً۔اب اس مصرع کو تبدیل کر دیا ہے:
خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات
بہت اچھا۔ لیکن یہاں زہر کے ساتھ ملانا کا استعمال زیادہ اچھا تھا۔مثلاً۔
خضر نے اس میں ملایا تونہیں آبِ حیات۔۔۔ وغیرہ۔بہر حال اب بہتر ہے۔
بہت خوب میاں، کافی استادانہ کلام ہے، بہتری کے لئے مشورے:
عشق میں مرنے یہ دے گی نہ ہی جینے دے گی
زیست کا روزِ ازل سے یہی اسلوب ہوا
÷÷پہلا مصرع یوں ہو تو۔۔۔
عشق میں مرنے ہی دے گی نہ یہ جینے دےگی
خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
کاسۂ زہر، ہر اک، ساغرِ مشروب ہوا
÷÷خضر نے اس میں ملا دی ہو کہیں ۔۔۔ ۔
داستاں سن کے ہوئے کوہ و فلک گریہ کناں
وہ بتِ سنگ کسی طور نہ مرعوب ہوا
۔۔کوہ و فلک میں تعلق۔ اگر اس کی جگہ ارض و سما کر دیا جائے تو۔ یا پھر کوہ و دمن؟
مقطع سمجھ میں نہیں آ سکا
بہت ہی خوبصورت غزل ہے ذیشان بھائی ۔۔۔ ۔!
جس قدر داد دی جائے کم ہے۔
ماشاءاللہ ۔
زیش بهیااااا اتنی مشکل شاعری
یہ آسان ایسی ہوتی ہے بهیااااااتنی آسان سی تو ہے بھلا۔
یہ آسان ایسی ہوتی ہے بهیااااا
آپ والی کی طرح ہر گز نہیں ہوتی بهیاآسان پھر کیسی ہوتی ہے؟
آپ والی کی طرح ہر گز نہیں ہوتی بهیا