مقدس
لائبریرین
یہ کی ناں اچھے بھائیوں والی بات۔۔۔۔ سو سوئیٹہاہاہاہا
اچھا۔۔۔ آئندہ کوشش کروں گا کہ آسان لکھا کروں۔
یہ کی ناں اچھے بھائیوں والی بات۔۔۔۔ سو سوئیٹہاہاہاہا
اچھا۔۔۔ آئندہ کوشش کروں گا کہ آسان لکھا کروں۔
سفرِ ہند کا وہ جوہری، مطلوب ہوا
پھر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا
اول تو مطلع کے دونوں مصرعوں کا ربط نہیں سمجھ سکا اور دوم یہ کہ مطلوب کیا طلب کرنے والے کے معنوں میں استعمال کیا ہے آپ نے؟
چاہِ کنعانِ دلِ من، میں نہیں، یوسفِ من!
یوسفِ من سے کیا مراد ہے
خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
آب جب پانی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو اسم مذکر ہے۔۔۔ ہاں آب دینا بمعنی چمکانایا دھار لگانا مونث ہے۔
خونِ اصغر سے رخِ شاہ پہ مرطوب ہوا
مرطوب صفت ہے اور یہ مصرع اگر پہ نکال کر پڑھا جائے تو معنی کے لحاظ سے درست ہے یعنی پہ اضافی ہے اور اس کے ساتھ معنی ہی نہیں بن رہا
خونِ اصغر سے رخِ شاہ مرطوب ہوا
مصرع میں الفاظ کی ترتیب کی بندش سے سفر ہندفاعل اور جوہری اس کا مفعول بن رہا ہے۔اور مذکورہ بالا معانی نہیں دے رہا۔ کوما کے ذریعے دیئے گئے وقفہ سے آپ نے شاید انہی معانی کے ابلاغ میں مدد لینی چاہی لیکن یہ پھر بھی (میرے خیال میں) کافی نہیں۔سفرِ ہند کا وہ جوہری، مطلوب ہوا
مطلوب، طلب کیا گیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس جوہری نے سفرِ ہند کو طلب کیا یا اس کی خواہش کی۔ ربط جوہری اور خریدار ہے۔ جوہری جوہر بیچتا ہے جب کہ خریدار خریدتا ہے۔ یعنی ہند آ کر معاملہ الٹا ہو گیا کہ جوہری بیچنے تو جوہر آیا تھا لیکن جنون کا خریدار بن گیا۔
۔۔
مصرع میں الفاظ کی ترتیب کی بندش سے سفر ہندفاعل اور جوہری اس کا مفعول بن رہا ہے۔اور مذکورہ بالا معانی نہیں دے رہا۔ کوما کے ذریعے دیئے گئے وقفہ سے آپ نے شاید انہی معانی کے ابلاغ میں مدد لینی چاہی لیکن یہ پھر بھی (میرے خیال میں) کافی نہیں۔
محبت ہے آپ کیفاتح بھائی اپنے خیلات کے اظہار کے لئے مشکور ہوں۔آپ کے اٹھائے گئے نقطے بھی خوب ہیں۔
یہی معنی میں نے بھی اخذ کیے تھے اور تبھی حیران تھا کہ آپ نے اسم مفعول "مطلوب" کو اسم فاعل یعنی "طالب" یا "طلبگار" کے معنوں میں باندھ دیا ہے۔مطلوب، طلب کیا گیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس جوہری نے سفرِ ہند کو طلب کیا یا اس کی خواہش کی۔ ربط جوہری اور خریدار ہے۔ جوہری جوہر بیچتا ہے جب کہ خریدار خریدتا ہے۔ یعنی ہند آ کر معاملہ الٹا ہو گیا کہ جوہری بیچنے تو جوہر آیا تھا لیکن جنون کا خریدار بن گیا۔
شائد پہلے مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ آپ نے خوب نشاندہی کی۔
شکریہ وضاحت کے لیےیوسفِ من سے محبوب مراد ہے۔ یوسف خوبصورتی کے لئے استعارہ ہے۔
شکریہ تبدیلی کے لیےاس کو درست کر دیا گیا ہے۔
خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات
پہ مگر کے معنوں میں استعمال کرنا درست ہے لیکن اس مصرع میں یہ مطلب اخذ کرنے کے لیے پوچھنا پڑ رہا ہے کیونکہ سامنے کا مفہوم چہرے "پر" مرطوب ہوا ملتا ہے اس لیے اگر اسے بھی تبدیل کر لیں تو بہتر ہےپہ یہاں مگر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
خونِ اصغر سے رخِ شاہ مگر مرطوب ہوا۔