اسلام کی بنیاد دو طرح کے حقوق پر رکھی گئ. ایک حقوق جو اٹل قسم کے ہیں. جن پر دوسری بات نہیں ہوسکتی ہے. ان کو حقوق اللہ کہتے ہیں. دوسری قسم کے حقوق: حقوق العباد ہیں. ان حقوق کے بارے میں " بنیاد " قران پاک میں موجود ہے. اسلام چونکہ انسانیت سے منسلک اک مذہب ہے. صرف کلمہ کا اقرار ہمیں مسلمان ہونے کا شرف بخشتا ہے. خرد سے واجب الادا لفظ: ''لا الہ الا اللہ " کے بعد ہم پر شرع کا نفاذ ہوجاتا ہے.شریعت سے مراد انسانی قانون کے مطابق زندگی گزارنا ہے. اسلامی قانون کے درج ذیل ماخذ ہیں. جن میں سے کچھ بنیادی اور کچھ ماخوذ ہیں ....
- سنت اور کتاب اللہ ...یہ دو بنیادی ہیں ...
- اجماع
- استحصان
- قیاس ..
- روایت
حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت آپ سے ملنے آئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی بابت قسم کھائی تھی اور حج ادا کیا بغیر وفات پاگئی تو کیا میں حج ادا کروں ۔۔۔؟
قران پاک اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے قیاس سے کام لیتے ہوئے کہا: باپ مرجائے تو اس کے قرض کی ادائیگی کون کرے گا ؟ تو اس عورت نے کہا کہ وہ کرے گی تو اس لحاظ سے حج کا ادا کرنا محتسن عمل قراد دیا گیا ۔۔۔۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے اس عمل سے سب سے پہلے امام ابو حنفیہ نے ''قیاس '' سے کام لیا ۔ آپ ایک کام کیا کرتے کہ کوئی بات قران پاک اور سنت دونوں میں موجود ہو تو آپ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے عمل کو اس پر ترجیح دیتے تھے ۔۔۔
قران پاک میں تعزیزات اور سزا کے بارے میں قوانین بتائے گئے ۔۔۔تعزیرات وہ سزائیں جن پر چھوٹ دی جاسکتئ ہے جبکہ سزا یا حد کا نفاذ ان قوانین پر ہوتا ہےجس سے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس لحاظ سے اعمال کو درج ذیل میں کیٹیگزائر کر دیا گیا ہے
- حلال
- محتسن
- مباح
- مکروہ
- حرام
اس لحاظ حرام کیسے ایسے ہیں جن پر حد کا نفاذ ہوتا ہے ۔۔۔۔ مگر ان قوانین میں بدالاؤ کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ حضرت عمر فاروق رض نے دوران جنگ قطع یدع کا منع فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔چوری کے عمل کی سزا کے لیے کئی مواقع پر باوجود سفارشات کے قرار پایا ۔۔ایک کام جو جناب رسول پاک صلی علیہ والہ وسلم کرچکے تھے اس کو ہم کیسے بدل سکتے ہیں اس کے لیے ''اجماع '' کو عمل میں لایا گیا ۔۔۔اجماع کو ''consensus of opinion'' بھی کہتے ہیں ۔اجماع پوری امت کی مرضی سے بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے اور مجتہد بندوں کی ایک جماعت بھی ایک رائے پر متفق ہوتے اجماع کرسکتی ہے ۔ یہ اجماع کی رائے اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کمیٹی کے تمام ارکان میں سے ایک بھی زندہ رہے ۔۔۔
- جیسے امام ابن تیمیہ نے اجماع کیا : اسلامی مملکت میں چرچ یا مندر کا بننا حرام ہے ۔اس بات پر متفق ہوتے ایک قانون بن گیا ۔۔۔
- طلاق بائن یا ایک سے زائد شادی یا واراثت یا سزا کے قوانین و قصاس کے باتیں انہی اصولوں کے تحت بدلے جاسکتے ہیں ۔۔۔حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں تصاویر نہیں تھیں مگر ان کو بتوں سے قیاس کرتے قوانین بنا لیا گیا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔اس کی بہت سی مثالیں اسلامی قانون میں مل جائیں گی ۔۔۔اگر ادھر لکھنے بیٹھوں تو پوسٹ بہت لمبی ہوجائے گی۔۔۔
- روایات کا استعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عربوں میں بہت سی روایات ایسی تھیں جن کو حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے جاری رہنے دیا مگر کچھ بدل دی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ان پر قیاس کرتے ہوئے ہم موجود زمانے کے لحاظ سے قوانین بنا سکتے ہیں ۔۔
- اسلام کے دو چیزیں ''سنت اور قران پاک '' بنیاد ہیں جیسے ایک درخت کی لکڑی بمع جڑ ۔۔۔اس کے پتے وہ حصہ ہیں جو زمانہ حال کے ساتھ بدلتے جاتے ہیں ۔۔یوں اسلام ایک مستقل مذہب بھی ہیں اور ایک لچک دار معاشرت کا حامل نظام بھی جس میں کوئی جبر نہیں ہے ۔۔۔۔
- پرانے زمانے میں دو شادیوں یا اس سے زائد شادی کی اجازت اس وجہ سے مل جاتی تھی ( یہ صرف ایک وجہ ہے ) کہ لوگ جنگوں میں شہید ہوجاتے تھے اورعورتوں کی کثرت جبکہ بچوں کے ذریعے نسل بڑھانے کے لیے اس کی اجازت کے اس کو ''مباح '' قراد دیا گیا مگر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ اب چونکہ جنگیں بدل گئیں ہیں تو یہ قانون بھی بدل چکا ہے یا بدلا جاسکتا ہے
- طلاق بدعت : اس کا قران پاک یا سنت میں کہیں رواج نہین ہے ۔۔یہ بھی اموی بادشاہوں کے اجماع کا نتیجہ ہے ۔۔۔
- میرے نزدیک اسلام کے مستقل اور بدلتے رہنے کا اشارہ اس ضمن میں تھا ۔۔۔مگر اس کا بڑا نقصان اس صورت میں ہوتا جب علماء کی بڑی جماعت مفاد پرست ہو ۔۔۔جیسا کہ اگر عورتوں کے حق میں پارلیمنٹ سے بل پاس ہوا ہے تو علماء حضرات نے قران پاک کی سورہ النساء کی آیت کا حوالہ دیتے ''یضربون '' سے اخذ کیا ہے کہ عورت کو اتنا مارا جاسکتا ہے کہ اس کی ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔ عورت چاہے اس مار سے مرجائے مگر ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔ عقل سے کام لیتے امام ابو حنفیہ کی زندگی کی بہت سی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے قیاس یا اجماع کے نتیجے میں حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی عملی زندگی کو ترجیح دی ۔۔۔جیسا کہ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی پر کبھی ہاتھ اٹھایا ؟ اس کے حق میں کوئی بھی دلیل نہیں دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- قانون بنانے والے یا مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ بالغ ، عاقل ، اور عربی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ ، جملہ قوانین اسلام کا عامل ہو
میں نے اپنے علم کے مطابق وضاحت دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی ہے ۔۔میں تو بہت سے حوالے عبدالرحیم شاہ ، یا ایف ۔ڈی کے دی سکتی ہوں یا کسی قانون کے حوالے سے احادیث کی روایت کرسکتی ہوں مگر میں ان ابحاث سے دور بھاگتی ہوں جہاں سے اختلاف زیادہ نکلیں ۔۔۔