پیا رنگ کالا کیسی ہے ؟

نور وجدان

لائبریرین
دیکھئے، آپ نے جنہیں استاد سمجھا ہے وہ یقیناّ بہت بلند ہونگے، جب یہ طے ہوگیا تو اب کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہر مصنف کی شخصیت یا اس کی تحریر کا موازنہ اپنے استاد کی شخصیت یا ان کی تحریر کے ساتھ کرکے ان کے ردّو قبول کا فیصلہ کیا جائے گا ؟ اگر ایسی بات ہے تو آپ کو تو واصف علی واصف صاحب کے بعد کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں پڑھنی چاہئیے۔ اللہ بس باقی ہوس۔
اور یہ کس نے کہا ہے کہ مذکورہ مصنف کا کتابیں لکھنے سے مقصد اپنے آپ کو ولی یا مرشد کے طور پر پروموٹ کرنا ہے۔ یہ تو آپ نے خودبخود ایک مفروضہ قائم کرلیا ہے۔ اگر بالفرض ایسا ہی ہوتا تو بابا یحییٰ سے بڑھ کر شائد کوئی بھی بے وقوف نہ ہو کہ جس بات کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں (اپنے ولی یا مرشد ہونے کا) اس کے برعکس حلیہ بنا کر اور لوگوں کے لئے عام طور پر ناقابلِ قبول خیالات و افکار پیش کر کے یہ مقصد پورا کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔ان جیسی قابلیت اور تجربات کے حامل شخص کے لئے تو بہت آسان تھا کہ سفید جوڑا پہن کر اور ہاتھ میں تسبیح لے کر دلوں کا شکار کھیلتے۔۔۔۔
اگر کشف المحجوب لکھنے والی شخصیت کو آپ صوفی یا ولی سمجھتی ہیں تو انہوں نے صوفیہ کے بارہ گروہوں میں سے ایک ملامتیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔۔۔یعنی ملامتی صوفی۔ ہم تو بابا جی کو کچھ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ بقول بابا بلھے شاہ (جو خود بھی ایک ملامتی صوفی ہی تھے):
بلھیا عاشق ہویوں رب دا تے ہوئی ملامت لاکھ
تینوں کافر کافر آکھدے، توں آھو آھو آکھ۔۔۔


محمود بھائی ۔میں نے بابا یحیی خان پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے ۔ وہ میرے لیے بہت محترم ہیں اور اس نسبت سے اور بھی محترم ہیں کہ آپ یا میرے قریبی محفلین ان سے انسیت رکھتے ہیں ۔ ایک قاری کی حیثیت سے کچھ سوالات میرے ذہن میں آئے اور محترم نایاب صاحب کی بات سے متفق ہوتے کہ میرا کام تنقیص نہیں بلکہ اچھی بات لیتے تعمیر کرنی ہے ۔ اس لیے انسانیت بذات خود میرے لیے ایسا درجہ ہے کہ میں سمجھتی ہے سب ہی محترم ہیں ۔۔۔

واصف علی واصف ہو یا کوئی اور ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا آئیڈیل کوئی نہیں ہے ۔ میں کسی کو گُرو مانتی نہیں ہوں ۔ میرے استاد مجازٓ
جو بھی ہیں مگر روحانی نسبت مجھے سیدنا رحمت دو عالم صلی علیہ والہ وسلم ہے ۔ یقینا میں ان کی باتوں سے ہر کسی کی تحریر کا موازنہ رکھتی ہوں ۔ دنیا کے کسی کونے میں پایا جانے والے صوفی میرے لیے مکمل نہیں ماسوا حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم اور وہ جو ان کی اتباع میں ہے ۔۔۔۔۔میں واصف علی واصف کو اس نسبت سے جانتی ہوں کہ میرے دل نے گواہی دی کہ یہ سرکار دو وعالم کی اتباع میں ہیں کیونکہ یہ فرد واحد کی گواہی ہے جیسے آپ کی گواہی بابا یحیی خان کے حوالے سے ہیں تو یہ سمجھ لیجئے کہ ایک محفل میں عطر ہے تو دوسرا لوبان تیسری خوشبو گلاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو ان میں اختلاف کیا جبکہ ماخد ایک ہی ہے ۔ اب کوئی ملامتی ہے یا کوئی کس فرقے و نوع سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔۔مجھے تو کیٹس بھی اس لیے پسند ہے کہ اس کی شاعری بھی صوفیانہ جھلک رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کہنے کو شیلے اور ورڈز ورتھ کی متصوفانہ شاعری ہے مگر مجھے پسند کیٹس ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

محمد امین

لائبریرین
تصوف کا کیا مذہب ہے ؟
تصوف نفسانی خواہشات کو ترجیح نہ دینے کا نام ہے اور صوفی اپنے خالق سے جڑ کر رہتا ہے مگر صوفی ہر مذہب میں ہیں ۔

بات چونکہ اسلام کے حوالے سے ہورہی تھی اس لیے میں نے بھی اسلام ہی کی مثال دی۔
 

محمد امین

لائبریرین
مجھے آپ کی پیاسی روح اور دیکھنے کا پٹھا انداز تو سمجھ آتا ہے مگر اپنی روح کی تشنگی کسی اور کی تشنگی سے بجھانا نہیں :)
اپنی اس تشنگی کو اپنی نظر دیجیے سارے بابے پیچھے رہ جائیں گے اور پیا ہر رنگ میں نظر آنے لگے گا ۔( کسی اور کی نظر سے دیکھنے کا نقصان = پیا رنگ کالا )

صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ
 

محمد امین

لائبریرین
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
دیکھئے، آپ نے جنہیں استاد سمجھا ہے وہ یقیناّ بہت بلند ہونگے، جب یہ طے ہوگیا تو اب کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہر مصنف کی شخصیت یا اس کی تحریر کا موازنہ اپنے استاد کی شخصیت یا ان کی تحریر کے ساتھ کرکے ان کے ردّو قبول کا فیصلہ کیا جائے گا ؟ اگر ایسی بات ہے تو آپ کو تو واصف علی واصف صاحب کے بعد کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں پڑھنی چاہئیے۔ اللہ بس باقی ہوس۔
اور یہ کس نے کہا ہے کہ مذکورہ مصنف کا کتابیں لکھنے سے مقصد اپنے آپ کو ولی یا مرشد کے طور پر پروموٹ کرنا ہے۔ یہ تو آپ نے خودبخود ایک مفروضہ قائم کرلیا ہے۔ اگر بالفرض ایسا ہی ہوتا تو بابا یحییٰ سے بڑھ کر شائد کوئی بھی بے وقوف نہ ہو کہ جس بات کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں (اپنے ولی یا مرشد ہونے کا) اس کے برعکس حلیہ بنا کر اور لوگوں کے لئے عام طور پر ناقابلِ قبول خیالات و افکار پیش کر کے یہ مقصد پورا کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔ان جیسی قابلیت اور تجربات کے حامل شخص کے لئے تو بہت آسان تھا کہ سفید جوڑا پہن کر اور ہاتھ میں تسبیح لے کر دلوں کا شکار کھیلتے۔۔۔۔
اگر کشف المحجوب لکھنے والی شخصیت کو آپ صوفی یا ولی سمجھتی ہیں تو انہوں نے صوفیہ کے بارہ گروہوں میں سے ایک ملامتیہ کا بھی ذکر کیا ہے۔۔۔یعنی ملامتی صوفی۔ ہم تو بابا جی کو کچھ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ بقول بابا بلھے شاہ (جو خود بھی ایک ملامتی صوفی ہی تھے):
بلھیا عاشق ہویوں رب دا تے ہوئی ملامت لاکھ
تینوں کافر کافر آکھدے، توں آھو آھو آکھ۔۔۔
بابیو! "مٹھی کھیر" چاہڑی کھلے او. :)
 

arifkarim

معطل
جب اللہ کو ہر شے پر قادر مانتے ہیں تو اس کی قدرت پہ ابہام کیسا :)
ابہام اللہ کی قدرت پہ نہیں، واقعات تصوف بیان کرنے والی کی سند پر ہے :)

5000 روپے کی تصوف کی کتاب؟؟؟؟؟ لا حول ولا قوۃ
کیا کم ہے؟

پھر تو اس کی پی ڈی ایف فائل کی دستیابی کا انتظار کرنا پڑےگا۔:)
پائیریٹڈ تصوف؟

دنیا میں سب صاحب علم ہیں اور کچھ زیادہ ہیں مگر ہر کسی کی وائرنگ کسی خاص قطب میں ہوئی ہوتی ہے ۔
علم کا تو نہیں کہہ سکتا البتہ مجموعی ذہانت تمام انسانوں کی یکساں نہیں ہے:
iq_by_country.png

اور اسکے معاشی اثرات:
iq-map-of-the-world.gif


یہ تو کافی مہنگی ہے
50 ڈالر مہنگی ہے؟

ویسے تو پسند اپنی اپنی ہوتی ہے۔۔۔۔
آپ نے وہ زین ZEN کہانی شائد پڑھی ہو (اگر نہیں پڑھی تو ضرور پڑھئیے گا) جس میں ایک شخص کسی زین ماسٹر سے حکمت کی باتیں سیکھنے جاتا ہے۔ ماسٹر کا قیام ایک دشوار گذار پہاڑ کی چوٹی پر ہوتا ہے۔ وہ شخص کسی نہ کسی طرح ہانپتا کانپتا آخر کار پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچتا ہے اور ماسٹر کی کٹیا میں اس سے جاکر ملتا ہے۔ ماسٹر اس کا استقبال کرتا ہے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرکے چائے گرم کرنا شروع کردیتا ہے۔ اور اس دوران اس سے آمد کا مقصد پوچھتا ہے۔
" میں آپ سے حکمت کی باتیں سیکھنے اور دانائی حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں"۔
اس دوران ماسٹر اس کے کپ میں چائے انڈیلنا شروع کردیتا ہے اور اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی چائے کا کپ لبالب بھر جاتا ہے لیکن وہ چائے انڈیلنا جاری رکھتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ چائے میز پر گرنا شروع ہوجاتی ہے۔
"چائے گر رہی ہے، بس کردیجئے کپ بھر چکا ہے "۔
لیکن ماسٹر سنی ان سنی کرکے چائے انڈیلنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ وہ شخص جھنجھلا کر کہتا ہے ۔۔۔
"آپ سن نہیں رہے ؟ دکھائی نہیں دے رہا کہ چائے باہر گر رہی ہے؟ آپ کو بات سمجھ آتی ہے یا نہیں؟"
ماسٹر رک جاتا ہے اور اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ :
بس یہی بتا نا تھا۔ تم بھی اپنے خیالات و نظریات ، توقعات اور Opinions سے اس کپ کی طرح لبالب بھرے ہوئے ہو۔۔۔میری باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ اس چائے کی طرح رائیگاں ہی جائیں گی۔ جاؤ پہلے خالی ہوکر آؤ۔۔۔۔۔
یہ واقعہ مشہور فلم 2012 میں فلمایا گیا تھا:
notable1.jpg


مرد کو کاندھوں سے نیچے بال، اور ایک سے زائد انگوٹھی کی اجازت نہیں۔ گلے میں مالائیں، دکھاوے کا شوق، باتوں میں خود نمائی اور تصنع۔
اجازت تو موسیقی کی بھی نہیں بقول شریعت۔ کیا کیا بین کریں گے؟

میرے لیے یہ ممکن نہیں کیوں کہ میں اپنے نفس سے شدید محبت کرتا ہوں۔ اس لیے کوئی اور بھائی یا بہن اس ذمہ داری کو قبول کرے۔:)
جو بولے وہی کنڈا کھولے۔

قرآن کی آیت ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رنگ کا رنگ اختیار کرو۔۔۔ اور کس کا رنگ ہے جو اللہ کے رنگ سے زیادہ اچھا ہے؟
بائبل میں کچھ ایسا ہی لکھا ہے کہ تمام انسان خدا کی تصویر میں بنائیں گئے ہیں۔ اسلئے خدا کی تصویر بنو۔
 

arifkarim

معطل
اگر دیکھا جائے تو سائنسدان اور انجینئر عموماً اپنے پیشے کے اعتبار سے مذہبی و مسلکی دائرے سے خاصے دور ہوتے ہیں اور ان کی ایجادات عموماً بلا تفریق تمام نسل انسانی کے فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ ایسے میں سائنسدان اور انجنئیر بھی صوفی کہلائے جانے چاہئیں۔
پاکستانی معروف تجزیہ نگار حسن نثار تو بیسیوں بار سائنسدانوں کی یہی تعریف کر چکے ہیں یعنی جو شخص بلا تفریق تمام انسانوں کا بھلا کرے وہ صوفی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اجازت تو موسیقی کی بھی نہیں بقول شریعت۔ کیا کیا بین کریں گے؟

بائبل میں کچھ ایسا ہی لکھا ہے کہ تمام انسان خدا کی تصویر میں بنائیں گئے ہیں۔ اسلئے خدا کی تصویر بنو۔

بھائی میں ایک "نیوٹرل" آدمی کے طور پر یہاں باتوں کا تجزیہ کر رہا ہوں۔۔۔ اگر اپنی پسند کی باتیں کرنی ہوتیں تو اب تک یہاں کشتوں کے پشتے لگ جاتے، کتابیں ڈھونڈتا، حوالے برساتا :p۔۔ میں تبصرے یہاں اسلام کو بنیاد بنا کر کر رہا ہوں کہ جس کے داعی حضرت بابا یحییٰ صاحب ہیں۔ میں بس جمہور کے مسلک سے بابا صاحب کی باتوں کا تجزیہ کرنا چاہ رہا تھا، وہ بھی اتنا کہ جتنا مجھے قطرہ برابر معلوم ہے۔۔۔

جمہور کی رائے میں موسیقی حرام ہے، سو موسیقی کی دھن پر تبلیغ کرنے والے کو اسی کے مسلک کی جانب سے مستند مانی جانے والی حدیث دکھا کر کہا جائے گا، میاں کس دھن میں ہو؟
 
پھر انہوں نے کیا جواب دیا ؟
کسی شخصیت، حاضر یا غائب کی تضحیک ہمارا مقصود نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے جو بیان کیا وہ متعلقہ اقتباس کے رد عمل کے طور پر کافی ہے۔ آپ کے اس سوال کا متوقع جواب اس لڑی کے مزاج سے باہر کی چیز ہو گی۔ :) :) :)
 

فرصت ہوئی تو ایک ڈرامے کا یہ چھوٹا سا کلپ دیکھیے گا. خاص کر 3:20 سے 4:35 تک اسی بارے میں کچھ بات کی گئی ہے.
:)
پاکستانی معروف تجزیہ نگار حسن نثار تو بیسیوں بار سائنسدانوں کی یہی تعریف کر چکے ہیں یعنی جو شخص بلا تفریق تمام انسانوں کا بھلا کرے وہ صوفی ہے۔
تصوف، صوفیا، یا مذاہب وغیرہ ہماری آن لائن دلچسپیوں کا حصہ نہیں ہیں لہذا ہماری درخواست ہے کہ نہ تو ہماری بات کو اس موضوع پر تبصرہ گردانا جائے اور نہ ہی ہماری بات کو وسیلہ بنا کر لڑی کے موضوع کو آگے بڑھایا جائے۔ ہمارا تبصرہ فقط اس بات پر ہمارا رد عمل تھا کہ بعض تعریفیں اتنی وسیع ہوتی ہیں کہ تخصیص کا قتل ہو جاتا ہے۔ :) :) :)
 

arifkarim

معطل
پھر انہوں نے کیا جواب دیا ؟
کسی شخصیت، حاضر یا غائب کی تضحیک ہمارا مقصود نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم نے جو بیان کیا وہ متعلقہ اقتباس کے رد عمل کے طور پر کافی ہے۔ آپ کے اس سوال کا متوقع جواب اس لڑی کے مزاج سے باہر کی چیز ہو گی۔ :) :) :)
122.jpg
 
تصوف کا کیا مذہب ہے ؟
تصوف نفسانی خواہشات کو ترجیح نہ دینے کا نام ہے اور صوفی اپنے خالق سے جڑ کر رہتا ہے مگر صوفی ہر مذہب میں ہیں ۔
تصوف کو کب مشرف بہ اسلام کیا گیا؟ مزید یہ کہ کیا اس تصور کا تعلق یونانی فلسفے سے بھی ہے؟
 

نایاب

لائبریرین
ان کی ایجادات عموماً بلا تفریق تمام نسل انسانی کے فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ ایسے میں سائنسدان اور انجنئیر بھی صوفی کہلائے جانے چاہئیں۔ :) :)
میرے نزدیک تو سائنسدان انجینئر یا کوئی موجد بلاشک و شبہ " صوفیت " پر قائم خود میں " صوفی " ہی ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کی ایجاد نے انسان کو آسانی فراہم کی ہوتی ہے ۔ جو بھلا کرے انسان کا اور انسانیت کی فلاح کا سبب بنے وہ ہی تو صوفی ہے " قلب صفا کا حامل ۔۔۔۔۔ جس میں موجزن احساس کا سمندر ۔۔۔۔۔۔۔۔

صوفیت کسی کی جاگیر نہیں اور نا ہی کسی "تقلید " کی میراث ہے۔
یہ باطن کے پوچھے گئے روح سے سوال کے جواب کی تلاش ہے ۔
کون ہوں میں ؟ میری حقیقت کیا ہے ؟ میرا مقصود کیا ہے ؟
یہ انسانی جسم خاکی میں مقید روح پر باطن کی جانب سے لگائی جانے کھوج پر اکساتی صدا کا نام ہے ۔
صوفی وہی کہلاتا ہے جو اس کھوج کی صدا پر لبیک کہتے اپنی ہی تلاش کی راہ میں نکلے اور سچ جاننے کیلیے غور و فکر اور تحقیق کرتے ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرتے سوچ و خیال کی توڑ پھوڑ برداشت کرتے عقائد سے لڑتے اپنی سوچ کو عمل میں بدلتے، نظرئیے قائم کرتے، ایجادات اور دریافت کے ذریعے اپنی حقیقت کو جان کر اپنے مقصود کو پہچان کرکچھ ایسا کرجائے جو نوعِ انسانی کو آسانی فراہم کرے ۔
یہ سائنسدان، محقق، فنکار بھی " عملی صوفی " ہوتےہیں جو اپنے علم سے تحقیق سے جہالت کے اندھیرے دور کرتے نوعِ انسانی پہ آگہی کے در وا کرتے دنیا بھر کے فاصلوں کو سمیٹ کر تمام انسانوں کو مربوط کرتے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ۔۔۔
زمانہ قدیم سے تصوف کی دو اقسام مروج رہی ہیں
اک " عملیت پسند "
اک " مثالیت پسند "
دونوں میں " سوچ و فکر " میں محو رہنا اور حقیقت کی تلاش میں ان گنت صعوبتیں الجھنیں برداشت کرنا " مشترک " ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تصوف اک عالمگیر فلسفہ ہے ۔اورزمانہ قدیم سے تصوف کی تعریف اور اس کی وجہ تسمیہ اختلافِ کا مرکز اور ناقابلِ یقین بنی رہی ہے ۔ تصوف ہر قدیم مذہب میں اک اہمیت رکھتا رہا ہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ " مذاہب " در حقیقت تصوف کی کھوج سے ہی وجود میں آئے ہیں ۔
تصوف کی راہ پر گامزن روح کا تعلق کسی مذہب کسی فلسفہ سے نہیں ہوتا، یہ " صوفیت " انسان کے اپنے اندرسے ابھرتی "کھوج "کی صورت ہوتی ہے۔ ایسی کھوج جو اس کی سوچ و خیال کو ہر لمحہ متحرک رکھتے اس منزل تک پہنچاتی ہے جو نہ صرف اس کے باطن کو مطمئن کرتی ہے بلکہ انسانیت کے لیے بھی فلاح کا باعث ہوتی ہے ۔۔
یہ " متلاشی روح " کہیں سادھو گیانی سنیاسی بھکشو جوگی برہمچاری لامائی جیسے ناموں سے بھیجانی جاتی ہے ۔ یہ دنیا میں ہر جگہ ہر خطے ہر مذہب میں پائی جاتی ہے ۔ اور ان سب میں مشترک صرف " انسانیت کی بھلائی " کا جذبہ ہوتا ہے ۔
مہاتمابدھ کا قول مشہور ہے کہ " سچ من کے اندر ہے " اور سچا مذہب سچائی کے اندر ہے ۔۔۔،
اگر فلسفہ تصوف کی ہیئت پر غور کیا جائے تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ تصوف پر ہند اور یونان کے صوفیانہ و روحانی مکتبہ فکر کا بڑا گہرا اثر اور امتزاج پایا جاتا ہے، اس میں "رہبانیت ناستیت، مجوسیت" بھی پائی جاتی ہیں جو کہ براہ راست " فلسفہ ویدانت " سے مربوط ہیں ۔
اس میں برہمچاریت، بدھ متیت، جین متیت کے اثرات بھی ملتے ہیں ۔ ان تمام "کیفیات " سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ سوچ و فکر میں محو رہتے " اپنے آپ کی حقیقت کو جانا جائے ۔ اور اپنی ذات کو غیر اہم کرتے سعادتِ ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس، تصفیہِ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر (یعنی اس کی اصلاح) کی جائے تاکہ نروان مل سکے "
فلسفہ ویدانت قدیم ویدوں پر قائم ہے۔ اس کے مطابق روحِ اعظم اپنی کوشش اور تحقیق و تفتیش سے کام لیتے اس ربط و تعلق کی چھان بین کرے جو کائنات خدا اور روحِ انسانی کے درمیان ربط رکھتا ہے۔اور اس حقیقت کو جان لے کہ کائنات ایک تدریجی اور ارتقاء کے ساتھ روحِ اعظم (برہم) سے ظہور میں آئی ہے اور یہ روح انسانی بہ اعتبار اصلیت برہم سے عینیت کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن چونکہ روح کو اس عینیت کا علم نہیں ہوتا اس لئے یہ فقدانِ علم ہی اس کے دنیاوی وجود کا احساس پیدا کرا دیتا ہے۔ اب روح اگر نجات ابدی یعنی تناسخ سے رستگاری چاہتی ہے تو اس کو یہ عدم واقفیت کا حائل پردہ اٹھا دینا چاہئیے ۔
یونان کے فلسفے سے لیکر ہند کے مہاویر، بدھ، چین کے کنفیوشش، رومی غزالی تک کی صوفیانہ تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو " مثالیت پسند " تصوف سامنے آ جاتا ہے
اور اس حقیقت کو کون جھٹلائے کہ " تصوف کی بہترین اور صاف سیدھی راہ قران پاک کی تعلیمات پر عمل اور اسوہ حسنہ کے اتباع کی کوشش کرنا ہے "
قران براہ راست ہر "روح " سے مخاطب ہوتے اسے اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے ۔ قران پاک سادہ سی زبان میں ہر فلسفے کو کھول کر بیان کر دیتا ہے ۔ رہبانیت اور ترک دنیا کی مناہی کرتے نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا حکم دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر دونوں میں انتر (فرق) کیسے معلوم ہو سکے گا؟" :) :)

جب دونوں ہی صوفی تو فرق کیسے دکھے ؟ فرق کیسے کریں ؟
اک کی صحبت روح کے سکون کا سبب دوسرے کی صحبت جسم کے سکون کا سبب
کیمسٹری کا علم عناصر میں تعامل کی حقیقت کھولتا ہے تو
فزکس کا علم مادے میں چھپی توانائی کی حقیقت
علم ناقص ہے میرا اور رہنمائی کا طالب رہا کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
جنہیں روح پیاسی ورثے میں ملی ہے ان کے لیئے تشنگی مٹانے کا ذریعہ
بلا شک و شبہ قران پاک کی سادہ تلاوت کا شرف حاصل کرنا بھی تشنگی کو مٹاتا ہے ۔
اور اگر روح پیاسی تشنگی کی حامل ہوتے کھوجی بھی ہو تو قران پاک تمام حقیقتیں کھول دیتا ہے اس پر ۔۔۔
قران پاک جیسی اکملیت کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top