نصیر الدین نصیر پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

منتظر خود ہے بصد شوق خدا آج کی رات
کس کی آمد ہے سر عرش اولی آج کی رات
فاصلے گھٹ گئے یوں قرب بڑھا آج کی رات
عبد و معبود میں پردہ نہ رہا آج کی رات
بخشوا لیں گے وہ امت کو خدا سے اپنے
مانا جائے گا ضرور انکا کہا آج کی رات
کعبہ قوسین کی صورت میں ہوا قرب و وصال
کھل گیا فلسفائے ثمّ دنا آج کی رات
آج کی رات کے انداز نرالے دیکھے
پڑھ کے چلتی درود ان پے ہوا آج کی رات
رحمت سید عالم ہیں دو عالم کو محیط
کوئی آسی نیہں محروم عطا آج کی رات
جلوائے حسن حقیقت کی ضیا باری میں
اپنے شاھکار کو دیکھے گا خدا آج کی رات
لگ کے قدموں سے تیرے باغ جناح تک پہنچی
معتبر ہو گئی رفتارے صبا آج کی رات
اور ہی کچھ ہے دو عالم کی ہوا آج کی رات
سیر کو نکلے ہیں محبوب خدا آج کی رات
بخش دوں گا تیری امت کو تیرے صدقے میں
خود خدا نے یہ محمّد (ص) سے کہا آج کی رات
بخت بیدار ہوں جن کے وہ کہا سوتے ہیں
جاگنے کا حقیقت میں مزہ آج کی رات
چسم یعقوب میں یوسف کی ادا ماند ہوئی
دیر تک مصر کا بازار لٹا آج کی رات
جانب عرش بری انکی سواری جو چلی
دست بستہ ہوئے سب شاہ و گدا آج کی رات
آج کی رات اجالا ہی اجالا ہے نصیر
انکا مشتاق زیارت ہے خدا آج کی رات
خوش نصیبی ہے جو توفیق عبادت ہو نصیر
مرحبا آج کا دن صلی علی آج کی رات

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علی
 
کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو!
برباد کیوں کیا ہے؟ خدارا جواب دو!

کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو!
آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو!

کل سے مراد صبحِ قیامت سہی، مگر
اب تم کہاں ملو گے دوبارہ جواب دو!

چہرہ اداس، اشک رواں، دل ہے بے سکوں
میرا قصور کیا ہے تمہارا جواب دو!

دیکھا جو شرم سار، الٹ دی بساطِ شوق
یوں تم سے کوئی جیت کے ہارا، جواب دو!

میں ہو گیا تباہ تمہارے ہی سامنے
کیونکر کیا یہ تم نے گوارا، جواب دو!

تم نا خدا تھے اور تلاطم سے آشنا
کشتی کو کیوں ملا نہ کنارہ، جواب دو!

شام آئی، شب گزر گئی، آخر سحر ہوئی
تم نے کہاں یہ وقت گزارا، جواب دو!

لو تم کو بلانے لگے ہیں نصیر وہ
بولو ارادہ کیا ہے تمہارا، جواب دو!
 
میکدے کا نظام تم سے ہے
شیشہ تم سے ہے جام تم سے ہے

صبح تم سے ہے شام تم سے ہے
ہر طرح کا نظام تم سے ہے

سب کو سوز و گداز تم نے دیا
عشق کا فیضِ عام تم سے ہے

مَیں زمانے کے رُو برو چُپ ہوں
بے تکلّف کلام تم سے ہے

خالِ مشکیں بھی، زُلفِ پیچاں بھی
دانہ تم سے ہے، دام تم سے ہے

مہرِ انور میں ہے تمہاری ضیا
حُسنِ ماہِ تمام تم سے ہے

تم ہو بنیاد دونوں عالم کی
دو جہاں کا قیام تم سے ہے

ہم تمہارے ہیں، تم ہمارے ہو
ہم کو عشقِ دوام تم سے ہے

اب کسی کو نصیر کیا جانے
اب تو جو کچھ ہے کام تم سے ہے
 
جو مجھ کو دیتے رہے دھمکیاں جلانے کی
منائیں خیر وہ آج اپنے آشیانے کی

نہ پوچھ مجھ سے بُرے وقت کے نشیب و فراز
مِری نِگاہ میں ہیں کروٹیں زمانے کی

بھلا ہو بادِ خِزاں تیرے چار جھونکوں کا
“جُھکی تو پھر نہ اُٹھی شاخ آشیانے کی“

ملے گا آپ کی ہر بات کا جواب یہیں
مگر اُٹھائیے پہلے قسم نہ جانے کی

مدد کا وقت ہے پھر اے مذاقِ خود مَنَشی
کہ کوششیں ہیں مجھے راہ پر لگانے کی

سحابِ فَضل! بَرس اور ہم پہ کُھل کے برس
کہ بجلیوں کو تو عادت ہے مُسکرانے کی

مِرا کہا جو نہیں مانتے تو نہ مانو
سبق سکھائیں گی خود ٹھوکریں زمانے کی

نگاہ ، قول پہ ہو مُرتکز ، نہ قائل پر
کہے کوئی بھی مگر بات ہو ٹھکانے کی

خدا بچائے سرِ بزم آج واعظ سے
اِسے ہے مفت میں عادت زباں چلانے کی

کھڑے ہیں کس لئے احباب یوں سرِ بالیں
نکالتے کوئی صورت اُنہیں منانے کی

نہیں ہے غم سے یہ اطفال اشک ہی منسوب
کہ آہِ سَرد بھی ہے فرد اِس گھرانے کی

وہ دور کیا تھا کہ شِیر و شکر تھے ہم تم بھی
غضب ہُوا کہ نظر کھا گئی زمانے کی

چمن کی سوچ یہاں تک بھی آ گئی تھی نصیر
کہ شاخ ہی نہ رہے میرے آشیانے ک
 
بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں
کیونکر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں

کیوں یاد نہ رکّھوں تجھے اے دُشمنِ پنہاں!
آخر مِرے سَر پر تِرے احسان بہت ہیں

ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں مِلتا
کہنے کو تو اِس دور میں انسان بہت ہیں

اللہ ہ! اِسے پار لگائے تو لگائے
کشتی مِری کمزور ہے طوفان بہت ہیں

ارمانوں کی اِک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات
دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں

دیکھیں تجھے، یہ ہوش کہاں اہلِ نظر کو
تصویر تِری دیکھ کر حیران بہت ہیں

یُوں ملتے ہیں، جیسے نہ کوئی جان نہ پہچان
دانستہ نصیر آج وہ انجان بہت ہیں
 
جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اُسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا

وہ بندہ ، جس کو عرفاں اپنا حاصل ہو نہیں سکتا
کبھی خاصانِ حق کی صف میں شامل ہو نہیں سکتا

زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا

محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے
یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا

پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر
کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا

نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو
مرا سر تیرے سنگ ِدر کے قابل ہو نہیں سکتا

مرا دل اور تم کو بھول جائے ، غیر ممکن ہے
تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا

مرا ایمان ہے اُن پر ، مجھے اُن سے محبت ہے
مرا جذبہ ، مرا ایمان ، باطل ہو نہیں سکتا

نزاکت کے سبب خنجر اُٹھانا بار ہو جس کو
وہ قاتل بن نہیں سکتا، وہ قاتل ہو نہیں سکتا

مرے داغِ تمنّا کا ذرا سا عکس ہے ، شاید
کسی کے عارضِ دلکش پہ یہ تِل ہو نہیں سکتا

نہ ہو وارفتہ جو اُس جانِ خوبی پر دل و جاں سے
وہ عاشق بن نہیں سکتا ، وہ عاشق ہو نہیں سکتا

ہمیں منظور مر جانا ، اگر اُن کا اِشارہ ہو
یہ کام آسان ہو سکتا ہے، مشکل ہو نہیں سکتا

جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی
ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا

نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے
سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا
 
اس وقت نہ چھیڑ اے کشش لذت دنیا
اس وقت میرے دل کو وہ یاد آ ئے ہوئے ہیں
بن جائے گی محشر میں نصیر اب تیری بگڑی
سرکار شفاعت کیلئے آ ئے ہوئے ہیں

کلام
شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑوی رحمتہ الله علی
 
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ

رکھ دیا قدرت نے اعجازِ مثالی ہاتھ میں
منتظر ہے حکم کا گنج لآلی ہاتھ میں
سبز ہوجائیں جو پکڑیں خشک ڈالی ہاتھ میں
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں

اس کا فیضِ عام سائل کو صدا دیتا ہے آپ
وہ جہانِ لطف و احسان میں جواب اپنا ہے آپ
میں یہ جانچا ہے ، یہ پرکھا ہے ، یہ دیکھا ہے آپ
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا پیاسا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آ جائے پیالی ہاتھ میں

ان کا اندازِ عطا کچھ بے خرد ، سمجھے نہیں
مانگنے والوں کے یوں‌ہی رابطے ان سے نہیں
ہم نے دیکھے ہیں ، مگر ایسے غنی دیکھے نہیں
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

میرے خالق! حشر میں امت کا یہ مقسوم کر
پل سے گزرے ان کے نعلینِ مبارک چوم کر
ہر طرف سے اک یہی آواز آئے گھوم کر
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جُھوم کر
جب لواءُ الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں

زانووں کا پیار سے منبر دیا سبطین کو
کیا شباہت کا حسیں منظر دیا سبطین کو
نعمتِ باطن سے ایسا بھر دیا سبطین کو
دستگیر ہر دو عالم کردیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں

بانٹنے کو آئے جب وہ ساقی کاکُل بدوش
ہر ادا جس کی خود اک ہنگامہ محشر خموش
سرد پڑ جائے مرے بحر تعقل کا خروش
کاش ہو جاوں لبِ کوثر میں‌یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذَیلِ عالی ہاتھ میں

حاضری کا کیا وہ منظر تھا نہِ چرخِ کبود
ہاتھ اٹھتے ہی وہ ابوابِ اجابت کی کشود
دل کی دنیا پر وہ انوارِ سکینت کا وُرُود
آہ وہ عالم کی انکھیں بند اور لب پر دُرُود
وقفِ سنگِ در جبیں ، روضے کی جالی ہاتھ میں

اے نصیر اس نعت میں لائے ہیں کیا مضموں ، رضا
کملی والے کے ثنا خواں ، عاشق و مفتوں رضا
شاہ کے پائے مبارک پر جو بوسہ دوں رضا
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضا
لوٹ جاوں پا کے ان کو ذَیلِ عالی ہاتھ میں
 
بھول جاؤں میں زمانے کا گلہ اے ساقی
ہاں پلا اور پلا اور پلا اے ساقی
باندھ کچھ ایسی محبت کی ہوا اے ساقی
دل بدل جائے زمانے کی فضا اے ساقی
کھنکھتے جام کا محتاج میں نہیں ساقی
تیری نگاہ سلامت مجھے کمی کیا ہے
میرے ساقی یہ تماشا تیرے میخانے کا
ساری محفل کو نشہ ایک ہی پیمانے کا
جھوم کر آئی من مست گھٹا اے ساقی
تشنگانی کا نہ رہ جائے گلہ اے ساقی
جام پر جام دیئے جا تیرے میخانے کی خیر
پلا نہیں جو گریزاں ہے ضبط پیمانے
تیری نگاہ سلامت ہزار میخانے
اب کسی طور سے قابو میں نہیں آنے کا
خلق دیکھے گی تماشا تیرے دیوانے کا
بات کہتا ہے کچھ ایسی کہ نہ سمجھے کوئی
یہ بھی اک غور طلب رنگ ہے دیوانے کا
چشم ساقی ہے ادھر اور میرا دل ہے ادھر
آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا
بات پہ بات اٹھا دیتا ہے اک چھیڑ نئی
پڑ گیا ہے اسے چسکا مجھے تڑپانے کا
وہ بہار آئی نصیر اور وہ اٹھے بادل
بات ساغر کی چلے ذکر ہو میخانے ک
 






جو رونق آج ہے ، وہ آج ہے ، کل ہو نہیں سکتی
ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا

نصیر اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے
سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا
 


اس وقت نہ چھیڑ اے کشش لذت دنیا
اس وقت میرے دل کو وہ یاد آ ئے ہوئے ہیں
بن جائے گی محشر میں نصیر اب تیری بگڑی
سرکار شفاعت کیلئے آ ئے ہوئے ہیں

کلام
شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑوی رحمتہ الله علیہ
 

جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں
خدا گواہ ہے زمانے پہ چھائے بیٹھے ہیں

چمک رہی ہے جبینیں تیرے فقیروں کی
تجلیات کے سہرے سجائے بیٹھے ہیں

ایک ہم ہیں کہ اپنوں کے دل نہ جیت سکے
وہ دشمنوں کو بھی اپنا بنائے بیٹھے ہیں

نصیر ہم میں اپنوں سی کوئی بات نہیں
کرم ہے ان کا کہ اپنا بنائے بیٹھے ہیں

شہزادہ غوث الوراح پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
منتظر خود ہے بصد شوق خدا آج کی رات
کس کی آمد ہے سر عرش اولی آج کی رات
فاصلے گھٹ گئے یوں قرب بڑھا آج کی رات
عبد و معبود میں پردہ نہ رہا آج کی رات
بخشوا لیں گے وہ امت کو خدا سے اپنے
مانا جائے گا ضرور انکا کہا آج کی رات
کعبہ قوسین کی صورت میں ہوا قرب و وصال
کھل گیا فلسفائے ثمّ دنا آج کی رات
آج کی رات کے انداز نرالے دیکھے
پڑھ کے چلتی درود ان پے ہوا آج کی رات
رحمت سید عالم ہیں دو عالم کو محیط
کوئی آسی نیہں محروم عطا آج کی رات
جلوائے حسن حقیقت کی ضیا باری میں
اپنے شاھکار کو دیکھے گا خدا آج کی رات
لگ کے قدموں سے تیرے باغ جناح تک پہنچی
معتبر ہو گئی رفتارے صبا آج کی رات
اور ہی کچھ ہے دو عالم کی ہوا آج کی رات
سیر کو نکلے ہیں محبوب خدا آج کی رات
بخش دوں گا تیری امت کو تیرے صدقے میں
خود خدا نے یہ محمّد (ص) سے کہا آج کی رات
بخت بیدار ہوں جن کے وہ کہا سوتے ہیں
جاگنے کا حقیقت میں مزہ آج کی رات
چسم یعقوب میں یوسف کی ادا ماند ہوئی
دیر تک مصر کا بازار لٹا آج کی رات
جانب عرش بری انکی سواری جو چلی
دست بستہ ہوئے سب شاہ و گدا آج کی رات
آج کی رات اجالا ہی اجالا ہے نصیر
انکا مشتاق زیارت ہے خدا آج کی رات
خوش نصیبی ہے جو توفیق عبادت ہو نصیر
مرحبا آج کا دن صلی علی آج کی رات

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 


بیشک ہے محمّد کے غلاموں کا جہاں اور
دنیا میں غلامی کا شرف بخش دیا ہے
محشر میں نوازیں گے شہ کون و مکاں اور
آواز کہاں فرش سے تا عرش گئی ہے
واللہ بلال حبشی کی ہے آذاں اور
یہ تو میں کہوں گا کہ محمّد کا ہوں میں بردہ
محشر میں اگر کھل نہ سکی میری زباں اور
مجھ کو ہے نصیر انکی شفاعت پہ بھروسہ
جو اب ہیں وہی حشر میں ہونگے نگراں اور

شاعر حق زباں حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله
 

بخت میرا جو محبّت میں رسا ہو جائے
میری تقدیر مدینے کی فضا ہو جائے
کاش مقبول مرے دلی کی دعا ہو جائے
ایک سجدہ در مولا پہ ادا ہو جائے
اس کی تعظیم کو اٹھتے ہیں سلاطین جہاں
ترے کوچے سے جو منسوب گدا ہو جائے
لے بھی آ زلف پیمبر کی مہک دیر نہ کر
اے صبا مجھ پہ یہ احسان ذرا ہو جائے
اس کو اپنی ہی خبر ہو نہ دو عالم کا خیال
جو بھی دیوانہ محبوب خدا ہو جائے
میں مدینے کی زیارت سے بہت خوش ہوں مگر
چاہتا ہوں کہ یہ مسکن ہی مرا ہو جائے
ان کے دامن کو مرے ہاتھ کسی دن چھو لیں
کچھ نہ کچھ حق عقیدت تو ادا ہو جائے
وہ سر طور ہو یا مصر کا بازار حسیں
وہ جہاں چاہیں جلوہ نما ہو جائے
اب بلا لو کہ مجے دم بھروسہ نہ رہا
نہیں معلوم کسی وقت بھی کیا ہو جائے
میرے نزدیک مقدر کا دھنی ہے وہ نصیر
جس وہ ان کی نظر لطف و عطا ہو جائے

شاعر حق زباں پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
Top