جیہ
لائبریرین
محمد وارث میرے پیر و مرشد ہیں۔ میں ان کی علم پروری کی دل سے قدر داں ہوں۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں اسد تخلص کرتے ہیں۔ آج ہم نے ایک جسارت کی ہے ان کی ایک خوب صورت غزل کی مزاحیہ تشریح کی۔ میں ان سے پیشگی معافی مانگتی ہوں۔ تو پیش خدمت ہے ۔ مزاحیہ تشریح
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
شاعر کہتے ہیں کہ انہیں ‘بنانے‘ کی کوشش کی گئی ہے بلکہ شاعر کا تو دعوٰی ہے کہ انہیں بنایا گیا ہے ۔ مگر کیا بنایا گیا ہے ؟ یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ بہ ظاہر تو انہیں جھونکا بنایا گیا اور وہ بھی تازہ ہوا کا۔۔۔ مگر یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی محض شاعر کا بڑ بولا پن لگتا ہے ۔ بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ اس سے شاعر نے ہم کو بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کیا بنانے کی کوشش ہے ؟ یہ بات ہم بھی سمجھتے ہیں اور آپ بھی۔ تو کیوں ذکر کرکے شاعر نامدار کا دل دکھائیں یا انہیں مشتعل کر دیں ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ غزل کہتے کہتے ہمارا ہجوئے ملیح لکھ مارے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا میں پھرایا گیا ہے۔ پھرانے کی کیفیت ہم نہیں پوچھتے کیوں کہ اس میں اندیشۂ نقص امن ہے اور یہ ہمارے ایک یا ایک زائد سے ہڈیوں کے ٹوٹنے پر متنج ہو سکتا ہے۔ البتہ ہم اس بات پر چرچا ضرور کرنا چاہیں گے کہ یہ دنیا کون سی ہے جس میں شاعر کو پھرا گیا ہے ۔ یہ بات شاعر نے لکھی تو ہے مگر گول مول انداز میں۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا بے نمو ہے۔ اب مخمصہ یہ آ پڑا ہے کہ نمو کیا ہے یا کون ہے۔؟ شاعر نے دیدہ و دانستہ نمو پر اعراب نہیں لگائے ۔ میرے خیال میں تو یہ نِمو ہے اور ایک ہیروئین کا نام ہے ۔ مطلب یہ کہ ہیرو۔۔۔۔ ارے نہیں، شاعر کو سزا دی گئی ہے کہ انہیں سارے جہان کی سیر تو کرائی گئی ہے مگر اکیلے ہی اکیلے۔ بے چارا شاعر!
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
ہمارا یہ شاعر بزعم خویش سخن کے بادشاہ ہیں اور استعارات و تشبیہات اور صنعات سخن پر ایسے حاوی ہیں کہ ان کے شعروں میں بس یہی چیزیں ہیں، معنی اور مطلب ان چیزوں کے نیچے دب کر سسک سسک کر جان بحق ہوچکے ہیں۔ اسی قبیل کا یہ شعر بھی ہے ۔ آنکھ سے گرنا ، زمین کے صدف میں پہنچنا، بہر جمال عرش میں پہنچنا ۔ یہ اتنے بھاری بھر کم استعارے ہیں کہ غالب کو بھی سمجھ نہ آئیں ، ہم کس کھیت کے مولی ہیں۔ خیر ۔۔۔۔
شاعر جب آنکھ سے گرا تو یہ معلوم کرنا ہو گا کہ شاعر کس روپ میں تھے۔ آیا یہ آنسو کے روپ میں تھے یا یہاں محاورۃً گرے ہیں؟ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ گرے تو ہیں۔ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ زمین پر بلکہ زمین کے صدف میں گرا تو ان کو کتنی چوٹ آئی؟ اور گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان میں ۔۔۔۔کے مصداق ان کو خفت اٹھانے پڑی کہ نہیں۔ اور کمیں گاہ میں کمینے دوستوں کو دیکھا کہ نہیں۔ جنہوں نے انہیں گرایا تھا۔ یہ سب معلومات حاصل کرنے کے بعد قارئین کے ساتھ شریک کئے جائیں گے۔
دوسرے مصرعے میں صرف یہ وضاحت ہے کہ جمال الدین عرش صاحب جو کہ ہمارے شاعر کے استاد محترم ہیں، نے ان کو ہاتھ اور دلاسا دے کر اٹھا دیا تھا۔ اور ان کی اشک شوئی کی۔
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
اس شعر میں شاعر کو زمین پر گرانے کی سازش کے بارے میں قیاس آرائی کی گئی ہے ۔ ان کو علم تو نہیں کہ سازش میں کون شریک تھا مگر ان کے پیر نے مصحف میں سے فال نکال کر ایک نام تو بتایا تھا مگر بوجوہ شاعر نے وہ نام آشکار نہیں کیا۔ شاید اس کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے تھا جو ان کاموں کے لئے مشہور ہے یا شاید ان کا کوئی قریبی دوست تھا یا شاید نمو تھی، واللہ اعلم۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
یہ شعر بھی پچھلے شعروں کا تسلسل ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ کا ان کے دماغ پر کافی اثر پڑا ہے ۔ یا شاید ان کو گرائے جانے کا صدمہ ہے۔ کبھی ہنستے ہیں تو کبھی روتے ہیں۔ رات کو ڈراونے خواب آتے ہیں جن میں کبھی ان کو لگتا ہے کہ جنت کے درازے پر رضوان سے لڑائی کر رہے ہیں کہ ایسے ہی جنت میں جانے والا نہیں ، پہلے حساب کتاب ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو ان شاعروں میں سے ہیں کہ غالب کے طرح کعبے کا در وا نہ ہونے پر الٹے پیر واپس آتے ہیں۔ رضوان کے ساتھ تکرار اتنی بڑھتی ہے کہ مجبوراً انہیں دوزخ لے جایا جاتا ہے وہاں بھی بھی یہ تکرار کہ کس بنا جلا گیا مجھے۔ حالانکہ جلانے کی نوبت آئی ہی نہیں۔ خیر آپ کے طرح میری بھی ہمدردیاں شاعر کے ساتھ ہیں۔
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
یہاں شاعر کو یہ گمان ہے کہ ان کو گرانے کی سازش میں سارا زمانہ قصور وار ہے۔ یہاں یہ بھی زیادتی کر رہے کہ صرف گرنے کو ۔۔۔۔یا گرانے کے ایک واقعے کو ظلم و ستم کہہ رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں شاعرانہ مبالغہ اور غلوئے بے جا۔ ان ہی مبالغوں سے تنگ آکر راستہ چلتے ٹانگ اڑا کر ان کو گرا کر ان سے شعر و شاعری کا بدلہ لیا گیا ہے۔
دوسرے مصرعے میں دلاسہ دینے کو لوری سے تشبیہِ قبیح دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ شاعر کو جناب آسی سے شعر گوئی کے کلاس لینے پڑیں گے۔ اور اگر انہوں نے ہامی بھری تو مجھے یقین واثق ہے کہ خوب کلاس لیں گے ان صاحب کی۔
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
اس شعر سے پتا چلتا ہے کہ واقعی انہوں نے شاعرِ محفل سے شعر گوئی کی کلاس لی تھی اور کچھ نہ کچھ سیکھ پائے ۔ ان سے چند اسباق پڑھے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ میں تو اب شاعر روزگار بن گیا اور بزعم خود شاعری کے فن کو تسخیر کائنات کا آلہ سمجھ لیا ، شعر گوئی نہ ہوئی ایسٹرونومی ہو گیا۔ لا حول ولا۔۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
شاعر کہتے ہیں کہ انہیں ‘بنانے‘ کی کوشش کی گئی ہے بلکہ شاعر کا تو دعوٰی ہے کہ انہیں بنایا گیا ہے ۔ مگر کیا بنایا گیا ہے ؟ یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ بہ ظاہر تو انہیں جھونکا بنایا گیا اور وہ بھی تازہ ہوا کا۔۔۔ مگر یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی محض شاعر کا بڑ بولا پن لگتا ہے ۔ بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ اس سے شاعر نے ہم کو بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کیا بنانے کی کوشش ہے ؟ یہ بات ہم بھی سمجھتے ہیں اور آپ بھی۔ تو کیوں ذکر کرکے شاعر نامدار کا دل دکھائیں یا انہیں مشتعل کر دیں ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ غزل کہتے کہتے ہمارا ہجوئے ملیح لکھ مارے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا میں پھرایا گیا ہے۔ پھرانے کی کیفیت ہم نہیں پوچھتے کیوں کہ اس میں اندیشۂ نقص امن ہے اور یہ ہمارے ایک یا ایک زائد سے ہڈیوں کے ٹوٹنے پر متنج ہو سکتا ہے۔ البتہ ہم اس بات پر چرچا ضرور کرنا چاہیں گے کہ یہ دنیا کون سی ہے جس میں شاعر کو پھرا گیا ہے ۔ یہ بات شاعر نے لکھی تو ہے مگر گول مول انداز میں۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا بے نمو ہے۔ اب مخمصہ یہ آ پڑا ہے کہ نمو کیا ہے یا کون ہے۔؟ شاعر نے دیدہ و دانستہ نمو پر اعراب نہیں لگائے ۔ میرے خیال میں تو یہ نِمو ہے اور ایک ہیروئین کا نام ہے ۔ مطلب یہ کہ ہیرو۔۔۔۔ ارے نہیں، شاعر کو سزا دی گئی ہے کہ انہیں سارے جہان کی سیر تو کرائی گئی ہے مگر اکیلے ہی اکیلے۔ بے چارا شاعر!
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
ہمارا یہ شاعر بزعم خویش سخن کے بادشاہ ہیں اور استعارات و تشبیہات اور صنعات سخن پر ایسے حاوی ہیں کہ ان کے شعروں میں بس یہی چیزیں ہیں، معنی اور مطلب ان چیزوں کے نیچے دب کر سسک سسک کر جان بحق ہوچکے ہیں۔ اسی قبیل کا یہ شعر بھی ہے ۔ آنکھ سے گرنا ، زمین کے صدف میں پہنچنا، بہر جمال عرش میں پہنچنا ۔ یہ اتنے بھاری بھر کم استعارے ہیں کہ غالب کو بھی سمجھ نہ آئیں ، ہم کس کھیت کے مولی ہیں۔ خیر ۔۔۔۔
شاعر جب آنکھ سے گرا تو یہ معلوم کرنا ہو گا کہ شاعر کس روپ میں تھے۔ آیا یہ آنسو کے روپ میں تھے یا یہاں محاورۃً گرے ہیں؟ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ گرے تو ہیں۔ یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ زمین پر بلکہ زمین کے صدف میں گرا تو ان کو کتنی چوٹ آئی؟ اور گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان میں ۔۔۔۔کے مصداق ان کو خفت اٹھانے پڑی کہ نہیں۔ اور کمیں گاہ میں کمینے دوستوں کو دیکھا کہ نہیں۔ جنہوں نے انہیں گرایا تھا۔ یہ سب معلومات حاصل کرنے کے بعد قارئین کے ساتھ شریک کئے جائیں گے۔
دوسرے مصرعے میں صرف یہ وضاحت ہے کہ جمال الدین عرش صاحب جو کہ ہمارے شاعر کے استاد محترم ہیں، نے ان کو ہاتھ اور دلاسا دے کر اٹھا دیا تھا۔ اور ان کی اشک شوئی کی۔
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
اس شعر میں شاعر کو زمین پر گرانے کی سازش کے بارے میں قیاس آرائی کی گئی ہے ۔ ان کو علم تو نہیں کہ سازش میں کون شریک تھا مگر ان کے پیر نے مصحف میں سے فال نکال کر ایک نام تو بتایا تھا مگر بوجوہ شاعر نے وہ نام آشکار نہیں کیا۔ شاید اس کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے تھا جو ان کاموں کے لئے مشہور ہے یا شاید ان کا کوئی قریبی دوست تھا یا شاید نمو تھی، واللہ اعلم۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
یہ شعر بھی پچھلے شعروں کا تسلسل ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ کا ان کے دماغ پر کافی اثر پڑا ہے ۔ یا شاید ان کو گرائے جانے کا صدمہ ہے۔ کبھی ہنستے ہیں تو کبھی روتے ہیں۔ رات کو ڈراونے خواب آتے ہیں جن میں کبھی ان کو لگتا ہے کہ جنت کے درازے پر رضوان سے لڑائی کر رہے ہیں کہ ایسے ہی جنت میں جانے والا نہیں ، پہلے حساب کتاب ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو ان شاعروں میں سے ہیں کہ غالب کے طرح کعبے کا در وا نہ ہونے پر الٹے پیر واپس آتے ہیں۔ رضوان کے ساتھ تکرار اتنی بڑھتی ہے کہ مجبوراً انہیں دوزخ لے جایا جاتا ہے وہاں بھی بھی یہ تکرار کہ کس بنا جلا گیا مجھے۔ حالانکہ جلانے کی نوبت آئی ہی نہیں۔ خیر آپ کے طرح میری بھی ہمدردیاں شاعر کے ساتھ ہیں۔
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
یہاں شاعر کو یہ گمان ہے کہ ان کو گرانے کی سازش میں سارا زمانہ قصور وار ہے۔ یہاں یہ بھی زیادتی کر رہے کہ صرف گرنے کو ۔۔۔۔یا گرانے کے ایک واقعے کو ظلم و ستم کہہ رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں شاعرانہ مبالغہ اور غلوئے بے جا۔ ان ہی مبالغوں سے تنگ آکر راستہ چلتے ٹانگ اڑا کر ان کو گرا کر ان سے شعر و شاعری کا بدلہ لیا گیا ہے۔
دوسرے مصرعے میں دلاسہ دینے کو لوری سے تشبیہِ قبیح دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ شاعر کو جناب آسی سے شعر گوئی کے کلاس لینے پڑیں گے۔ اور اگر انہوں نے ہامی بھری تو مجھے یقین واثق ہے کہ خوب کلاس لیں گے ان صاحب کی۔
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
اس شعر سے پتا چلتا ہے کہ واقعی انہوں نے شاعرِ محفل سے شعر گوئی کی کلاس لی تھی اور کچھ نہ کچھ سیکھ پائے ۔ ان سے چند اسباق پڑھے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ میں تو اب شاعر روزگار بن گیا اور بزعم خود شاعری کے فن کو تسخیر کائنات کا آلہ سمجھ لیا ، شعر گوئی نہ ہوئی ایسٹرونومی ہو گیا۔ لا حول ولا۔۔۔۔