یہ تو غزل ہے حضرت، اس کی تشریح ہو گئی، جیسے بھی ہوئی، جیسی بھی ہوئی۔یہ بھی خوب ہے جی، مجھ سے تو میری غزل بہتر ہے کہ یہ اس کی تیسری چمک دمک والی تشریح آ گئی، (تالیاں)
بلا شبہ ہزل تو غضب کی ہے اب تو ہمیں اپنی فکر پڑگئی ۔۔۔۔ جو ہزل کہ سکتا ہے وہ ہجُو بھی کہ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم شاعرہ نہیں ورنہ ایسی دُرگت دیکھ کر شاعری سے دو سو گز دور بھاگتے نظر آتے اُفففففففففغزل پر ہزل ۔۔
محمد یعقوب آسی کے قلم سے ۔۔ جمعہ ۲۳ مئی ۲۰۱۴ ۔
پیش نوشت:
غزل محمد وارث کی اور ہزل اپنی۔ اب یہ توقع نہ رکھئے گا کہ ہم ہزل گوئی میں اوزان و بحور کا بھی پاس کریں گے۔ تیسری دنیا کے بعد چوتھی دنیا (آزاد غزل) کو دریافت ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا۔ سو، ہم کم از کم نثری ہزل کا حق تو رکھتے ہی ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ حق ’’محفوظ‘‘ بھی رکھا جاتا ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں یہ حق اور فیصلے محفوظ رکھے ہی وہاں جاتے ہیں جہاں پہلے سے اندازہ ہو جائے کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہونے کا۔
اس غزل پر ایک ’’خامہ جاروبی‘‘ تو ۔۔ جی ہاں! ۔۔ آپ صحیح سمجھے۔ اسی ’’جی ہاں‘‘ کو پنجابی لہجے میں ’’جی آ‘‘ بولتے ہیں۔ اب ہم سے ہی سب کچھ کہلوائیے گا کیا؟ غزل پر ہزل کی طرف آتے ہیں۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ تاہم مناسب ہو گا کہ پہلے ’’فاضل‘‘ کی تشریح کر جی جائے۔ روایت بریکنگ کی اس ایج میں ۔ یہ کیا! ہمارا مقصد ہے کہ روایت شکنی کے اس عہد میں ہمیں کیسپرسکی مشہور و مخدوش (بَروَزنِ ’’مرحوم و مغفور‘‘) شدت سے یاد آتے ہیں۔ ملتے جلتے ناموں سے دھوکا نہ کھائیے، یہاں یہ جملہ بھی کسی اشتہار کا حصہ نہیں بلکہ عہد حاضر میں (جس پر عہدِ غائب کا گمان گزرتا ہے) یہ ایک آنٹی وائرس کا نام ہے جس کی بھوک ایگزی فائل سونگھتے ہی ایسی چمکتی ہے جیسے جگنو میاں کی دُم۔ آپ کو چچا حضور کا وہ ارشاد تو ازبر ہو گا ہی:
جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب ان کو دیکھ دیکھ بجاتے ہیں تالیاں
تشریح تو ہم کرنے چلے تھے ’’فاضل‘‘ کی، پر یہ موا قلم (فی زمانہ کلیدی تختہ) اپنا کلیدی کردار ادا کرنے سے کہاں باز آتا ہے۔ اصل بات کو چھوڑ کر ’’فاضل‘‘ گفتگو لے کر چل پڑتا ہے، قلم کیا ہوا، زبان ہو گئی اور وہ بھی امراؤ بیگم کی! ’’جی آ‘‘۔
ہمارے ’’فاضل‘‘ شاعر چونکہ ہمارے دوست بھی ہیں، لہٰذا ہم انہیں ’’فاضل‘‘ کی اس مد میں تو شامل نہیں کر سکتے کہ حقِ دوستی بھی تو کوئی چیز ہے۔ اپنے ناقدوں میں تو ایک باضابطہ جماعت ایسے ’’دوستوں‘‘ کی ہے جن کی حدتِ دوستی کے آگے تنقید کے سبھی اصول موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ جو چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے جدھر کو چاہے موڑ لے اور اگر حادثۃً یہ ناک کہیں پچک جائے یا اس کا کچھ حصہ بھُر بھُرا جائے تو بھی کیا ہے۔ ایک تیلی اور لگا دی! تیلی ہی تو لگانی ہے، نا! نقد کا کام پورا ہو گیا، نظر آپ کی ہے دیکھے دیکھے نہ دیکھے نہ دیکھے۔ اس سے تو انکار ممکن نہیں کہ نقد و نظر دو طرفہ عمل ہے، اکیلا ناقد ہی طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنے۔ تنقید نہ ہوئی کباڑ خانہ ہو گیا، کہ جہاں جملہ انواع کے ’’فاضل‘‘ پرزہ جات کبھی کچرے کے بھاؤ مل جایا کرتے تھے۔
اب تو اپنے کباڑیے بھی سیانے ہو گئے ہیں۔ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کے مکینوں کا اس سیانے پن میں کتنا ہاتھ ہے یہ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کا اپنے محمد وارث صاحب سے صرف نام کی مشابہت کا تعلق ہے، بلکہ تھا اور اب شاید ’’فاضل‘‘ کا تعلق بھی بن جائے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں کہ میرا بیٹا پچھلے دنوں اپنی کھٹارا کار کو نئی بنانے کے لئے کچھ ’’فاضل‘‘ چیزیں اسی ’’وارث دی کھوہی‘‘ سے لے کر آیا تھا۔ اور ہم یہ بالکل پسند نہیں کریں گے وہی پرزے اسی کھوہی سے ہو کر کل کسی دوسری کھٹارا کار کو نئی بنانے کے کام آ رہے ہیں۔
’’فاضل‘‘ کی اس قدر وضاحت کے بعد اب مناسب یہی ہے کہ ’’انشادرازی‘‘ کو موقف کر کے غزل پر ہزل کی طرف واپسی اختیار کرنے کی کوشش تو کی جائے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
۔۔۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ اولین مغالطہ ۔۔ دباغت کے ماحول سے تازہ ہوا تو اٹھ ہی نہیں سکتی، اور اٹھے گی بھی تو اسے جھونکا نہیں بھبکا کہا جائے گا۔ وہ تو خوش قمستی ہے اہل سیالکوٹ کی کہ تاحال ہمارا اس طرف جانا نہیں ہوا۔ فیصل آباد کا ماڑی پتن روڈ والا داخلی دروازہ، لاہور کے سارے دروازے اور اپنے پایۂ تخت کا تو دروازہ ہی ایک ہے؛ کبھی ادھر سے گزرنے کا ارادہ ہو تو ’’سانسو‘‘ کا سلنڈر نہ سہی، گیس ماسک وغیرہ کا نظام ضرور ساتھ رکھئے گا۔ ’’جی آ‘‘ آپ بالکل درست سمجھے! ’’سانسو‘‘ جاپانی زبان میں آکسیجن کو کہتے ہیں اور ہمیں یہ بات بتانے والے خود لاہور کے باسی ہیں۔ فاضل شاعر کے مصرعے کی تازہ ہوا اور لاہور کے باسی کا موازنہ خود ہی فرما لیجئے گا۔
دوسرا مغالطہ ۔۔ یہاں ہمارے جملہ غیر ادبی (بے ادبی نہیں) تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
یہ نمو کا نہیں نمی کا مقام ہے۔ نہیں تو نچوڑنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ خشک ہوا ۔ تازہ ہو یا نہ ہو ۔ مذکورہ تینوں شہروں کے مکینوں (حروف کی ترتیب پوری احتیاط کے ساتھ ملحوظ رہے) کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ رہی ہو گی۔
مزید مغالطے ۔۔ ان دونوں مغالطوں پر مباحث جاری رکھئے، دس بارہ پندرہ نہیں ہزاروں مغالطے پیدا ہو جائیں گے۔ اس شعر کا مفہوم ہماری ’’نا کس‘‘ رائے میں کچھ یوں ہے:
ہمارے فاضل شاعر کو غلط فہمی ہو گئی کہ وہ نمی سے ماورا ہیں اور کسی حساب سے تازہ چھونکے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پھرانے والی بات یہاں ’’ابہامِ معہ کثیرالایہام‘‘ کی کیفیت پیدا کر رہی ہے، اتنی کہ شعر کا قاری خود ہی اتنا پھر جاتا ہے کہ لوگ باگ اسے ڈاکٹر کہنے لگتے ہیں۔ جہاں شعر کا مفہوم ’’پکڑائی نہ دے‘‘ رہا ہو وہاں لوگوں کی زبانیں کون پکڑے گا۔ ہمارا تجربہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان تک نہیں پکڑ سکتے، اوروں کو کیا کہیں۔ ایک صاحب تو یہاں تک فرما گئے کہ
ع ۔۔۔ ۔۔۔ جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
اس شعر کی شانِ نزول (بقول استاد محبوب نرالے عالم: شانِ تنزل) یہ ہے کہ موصوف آنکھ سے گرے تو سیدھے زمین کے مرکزے پر جا کر براجمان ہو گئے۔ ہمیں ’’آئس ایج‘‘ دیکھے ہوئے چار حصے تو یاد آئے ہی، ان دیکھے ہوئے چار پانچ سو حصوں کا بھی کچھ کچھ ادراک ہونے لگا۔ اپنے حرف گیروں کی دل جمعی کے لئے ہم یہاں لفظ ’’واہمہ‘‘ بھی برداشت کر لیں گے بشرطے کہ ایسے لبوں سے ادا ہو، جہاں سے برآمد ہونے والی گالیاں بھی رقیب کو ’’بے مزہ‘‘ نہ ہونے دیں۔ آخر وہی تو ایک شخص ہے جو کسی نہ کسی طور عاشقِ صادق کو اچھا لگتا ہے۔ اس میں عاشقہ صادقہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا، مجبوری ہے اور مجبوری بھی مدلل ہے۔ (دال کو دال ہی پڑھئے گا کہ یہاں نقطہ محرم کو مجرم سے بھی کچھ زیادہ بنا سکتا ہے)۔ چچا حضور نے مادام امراؤ بیگم کو تو سمجھا یا نہیں سمجھا، زنانِ مصر کو خوب تاڑ لیا کہ ساری کنعانی نوجوان پر لٹو ہو رہی ہیں، اور عاشقہ ان کو دیکھ دیکھ خوش ہو رہی ہے۔ اس نے یقیناً تالی نہیں بجائی ہو گی۔ بعض چشم دید جاسوسوں کا کہنا ہے کہ مادام زلیخا نے تالی بجانے کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ خواتین کی بریدہ انگلیوں سے بہتا لہودیکھ کران کے اٹھے ہوئے ہاتھ زور سے ایک دوجے پر لگے اور منہ سے خالص زنانہ جملہ برآمد ہوا ’’ ہا ۔ ہائے! نی گُل پُل جانیو!!! تہاڈے بھائی جان نوں پتہ لگا تے پتہ نہیں میرے تے کیہ بنے! بھانڈے بھننیو، جاؤ گھرو گھری، میرا گھر نہ اجاڑو‘‘۔
اس کے بعد کششِ ثقل کے ردِ عمل کو شاعر نے ’’اٹھایا گیا‘‘ سے تعبیر کر کے قاری کی آنکھوں میں وہی دھول چھونکنے کی کوشش کی ہے جو وہ اپنے ساتھ زمین کے مرکزے سے قشر تک ہر مقام سے اڑا کر لایا ہے۔ دھول کو اس نے پہلے شعر میں جھونکا قرار دیا اور اب قاری کی آنکھوں میں جھونک رہا۔ شاعروں کا کیا ہے، اپنی جھونک میں ہوں تو کچھ بھی کہہ دیں۔ اور تو (عین نہیں، الف کے ساتھ) اور بے چارہ میر بھی پتہ نہیں بیگم سے (’’جی آ‘‘ بیگم سے) ڈر گیا ہو گا جو چیخ اٹھا کہ ’’ہم کو شاعر نہ کہو‘‘ اور چاہے کچھ بھی کہہ لو۔ فی زمانہ شوہر ہونا کیا کم مظلومیت ہے؟ کہ بندہ شاعر بھی کہلائے!
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
آ گئی نا، وہی بات! سازش والی۔ خوش ذوق قارئین ممکنہ طور پر اس کو ابلیس سے مربوط کریں گے۔ ان کی رائے کا احترام واجب تاہم یہ شعر ہمیں تو پہلے دونوں شعروں کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ مذکورہ جاسوس نے مادام کے شوہرِ نام دار کو ساری واردات لکھ بھیجی اور اس میں ایک ہی نام لکھا۔ شوہرِ نام دار کے منشی نے وہ مصحف پڑھ کر سنایا تو موصوف نے پوچھا ’’سازش میں کون کون تھا‘‘ اس پر منشی بولا ’’مجھ کو نہیں ہے علم‘‘ کہ مصحفِ جاسوس میں ایک ہی نام ہے اور وہ ملکۂ عالیہ کا ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
مادام جیہ کی تحقیق کے مطابق شاعر کو گہری چوٹ لگی تھی، جب کہ ہماری تحقیق کے مطابق وہ ایک جھونک سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاں، جھونک کی شدت ایسی ضرور رہی ہو گی کہ شاعر نے خود کو دوزخ میں جلتا ہوا محسوس کیا۔ اب اس کا ردِ عمل بھی بالکل فطری ہے۔ بقول ایک اور شاعر کے ۔۔
یوں کس طرح کٹے کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
بہشت کا تصور بھی خیالِ یار کی چادر کا سا ہے۔ کسی طور پردہ پوشی بھی تو کرنی ٹھہری! ’’جی آ‘‘۔ ہم ذاتی طور پر پردہ پوشی کی ایسی تمام کاوشوں کے حق میں ہیں کہ یہ دوہرا عمل ہے۔ بہ ظاہر تو کسی دوسرے کے عیب چھپائے جا رہے ہوتے ہیں، اور تہہ میں وہ خوف ہوتا ہے کہ اس کا تماشا بنا تو ساتھ اپنا بھی بنے گا۔ ہمارا ذہن بابائے قوم کی ایمبولینس کے پر اسرارانداز میں خراب ہوجانے پر جا اٹکتا ہے اور اس کو کھینچ کھانچ کر آگے دھکیلتے ہیں تو اکبر خان گولی کھا کر مر جاتا ہے۔ تاشقند کے معائدے کا شور اٹھتا ہے، مولانا حمود الرحمٰن کے کئے کرائے پر بھی پانی پھر جاتا ہے، اور بات شملے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد تو وہ شور اٹھتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاعر بے چارہ کرے بھی کیا۔
ارے ارے ارے ۔۔ اتنی بھی کیا سنجیدگی بھلا! اپنی روایات سے اتنی بڑی بغاوت!؟ ہم نے تو کبھی سوچا تک نہیں، سنجیدہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے فاضل شاعر سے بھی اس شعر میں یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ تاہم وہ سیانا نکلا کہ سوال اٹھا کر ایک طرف ہو گیا، کہ لو بھی چاچا بھتیجی الجھے رہو۔ ہم تو چلے پیا کے دیس۔ پیا کا دیس نہ ہوا جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی ہو گئی! ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
گھر کے بھیدی تو بہت کچھ بتاتے ہیں، تاہم ہر نوع کا ’’پردہ‘‘ تو اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی ’’دری‘‘ کی جائے۔ جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی تو پیا کے دیس میں لگ بھی سکتی ہے، ایک مشہور مقام جی ٹی روڈ پر بھی منڈی نام کا ہے۔ بارے ہم بس پر سوار ادھر سے گزرے تو بر کنارِ راہ ایک بہت بڑا مزین تختہ دیکھا جس پہ لکھا تھا ’’عصمت دری ہاؤس‘‘ یا وحشت! بعد میں ادھر ادھر سے پوچھ تاچھ کی تو حضرت پطرس بخاری کے ایک مہاجلوتری سے ملاقات ہو گئی۔ عرض کیا: ’’حضرت یہ کیا کہ لوگ سرِ بازار عصمت دری کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بھی نہیں چوکتے!‘‘ پہلے تو وہ دل اور اس سے زیادہ اپنا بھاڑ جیسا دہانہ کھول کرخوب ہنسے اور پھر ارشاد فرمایا: ’’تو بھی ایک ہی مُورکھ نکلا!‘‘ ٹک ٹک دیدم، دم نکشیدم ہم نے عالمِ حیرت و استعجاب میں اپنے ذہنِ ماؤف پر بہت زور ڈالا مگر کوئی وجہ آن جناب کے بے ہنگام ہنسنے بلکہ ہنہنے کی نہ جان پائے۔ درین اثنا جناب جلوتری عالم حال و جلال سے عالم قیل و قال میں واپس تشریف لا چکے تھے، گویا ہوئے: ’’یہ کارخانہ ہے عصمت خان کا اور یہاں دریاں بنائی جاتی ہیں۔ مالک نے دری ہاؤس پر اپنا نام داخل کر دیا جیسے جمال بُوٹ ہاؤس ۔۔ اتنی سی تو بات ہے، جسے تیرا خناس کہاں سے کہاں لے گیا‘‘۔ ہماری ہزیمت کا عالم بھی کیا قابلِ دید رہا ہو گا۔ مہا جلوتری تو چچا کو بھی ٹھیینگا دکھا گئے۔ بوٹ کہہ دیا کہ چچا اب بتاؤ بوٹ مذکر ہوتا کہ مؤنث؟
وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ عصمت خان کی عصمت دار خاتون کا نامِ نامی قسمت جان ہے اور وہ بالغ بچوں کو اجرت پر بزعمِ خود لوریاں سنایا کرتی ہیں۔ ہمارے فاضل شاعر اندر اور باہر کی دنیا کے ہاتھوں ایسے ستائے گئے، ایسے ستائے گئے کہ رات کو سوتے میں چیخیں مار کر نہ صرف خود جاگ جاتے بلکہ اپنی امراؤ بیگم کی نیند بھی خراب کر دیتے۔ انہوں نے بیچارے شاعر کو قسمت جان کے حوالے کر دیا۔ خود ہی انداز لگا لیجئے کہ کیا صورت رہی ہو گی۔ بتانے والے بتاتے ہیں (دروغ پر گردنِ چناب و ستلج) کہ عصمت خان کی مرکھنے بیل کے سینگوں جیسی مونچھیں دیکھ کر بے چارہ ایسا دہشت زدہ ہوا کہ سانس دھیمی پڑ گئی اور آنکھیں خود بہ خود بند ہو گئیں۔ بے چارہے اس دوہری دہشت گردی کی تاب کہاں لاتے خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ وہ بہ نفسِ نفیس بڑی نفاست سے ’’عصت دری‘‘ ہاؤس میں مقید ہیں۔
صاحبو! یہ ہے وہ داستان غم جسے ہمارے فاضل شاعر کے جملہ لازمی اور فاضل غموں کا تتمہ سمجھ لیا گیا، حال آن کہ وہ تتمہ نہیں معراج تھی۔ سنتے ہیں کہ وقت کا مرہم کچھ اثر دکھا رہا ہے اور ان کی چیخ پکار قدرے کم ہو گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کم کچھ نہ ہوا ہو، امراؤ بیگم اس کی عادی ہو گئی ہوں۔ وہ چماروں کی بہو کی کہانی تو بہتوں نے سن رکھی ہے۔ اشارہ کافی است۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
یہاں جیہ بی بی سے ناقابلِ تلافی بھول ہوئی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس کم علمی پر ان کا سر پیٹ دیا جائے، کہ اپنا تو ویسے بھی پیٹنا ہی ہے، چلئے یک نہ شد دو شد سہی۔ ادب سے دوستانہ تو کیا دشمنانہ تعلق رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ عَمُّ لشعرا (المعروف چچا) اسد اللہ خان کبھی اسد تخلق فرمایا کرتے تھے۔ یہ قصہ دوسرا ہے کہ انہیں مرزا نوشہ کیوں کہا جاتا تھا۔ چچا کو نوعمری میں ہم عمرعم زادی امراؤ بیگم کے بلو سے باندھ دیا گیا۔ ہمارے چچا اپنے چچا حضور کی چھاؤں میں پل کر جن حالات میں جوان ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ صرف ایسا شخص کر سکتا ہے جو نوعمری سے اپنے خسر کو جام بنا بنا کر پیش کرتا رہا ہو۔ ایک تو اس گھٹن گھٹے ماحول کا اثر اور ایک اپنے نام کا! مرزا میں وحشت در آئی اور انہوں نے جہاں اپنے چچا سے ان کی بیٹی پائی وہیں شاعری بھی جہیز کے طور پر پائی۔ سنا تو یہی تھا کہ وہ خود عَمَّۃُ الشعرا کا جہیز تھے اور چچا کی وسیع و عریض حویلی کے ایک کمرے میں رکھ دئے گئے تھے۔ اثر تو کچھ نہ کچھ ہونا ہی تھا، نا! ایک دن ان کی امراؤ بیگم نے کہہ ہی دیا: مرزا نوشہ! تم وحشی تو ہو ہی، اوپر تمہارے نام کا اثر تمہیں اور بھی وحشی بنا دیتا ہے اور سب کچھ برستا میری جانِ ناتواں پر ہے! تم ہی کہو کون کس پر غالب آتا ہے۔ مرزا نوشہ نے تب سے اپنا تخلص ’’غالب‘‘ اختیار کیا اور پھر امراؤ بیگم سمیت کئی بالا خانوں کی بیگمات پر غالب آتے رہے۔ انہی میں ایک کا نام ’’کائنات‘‘ بتایا جاتا ہے۔
ہمارے شاعر بھی مرزا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کا وہی پہلا مصرع اور پہلا تخلص ’’اسد‘‘ اپنے نام کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ غالب کب آتے یا کہلاتے ہیں۔ اس کا بہت انحصار تو اِن کی امراؤ بیگم پر ہے۔ ہم تو منتظرِ تماشا ہیں۔ بارے غالب کے پرزے اڑنے کی خبر تھی وہ تماشا تو ہوا نہیں کون جانے وہ کسی اور اسد کے حساب میں لکھا ہو۔ بہر حال علم تسخیرِ ’’کائنات‘‘ ان کو سکھا دیا گیا ہے۔ یہ مرحلہ کب سر ہوتا ہے یا اسد خود کب سرنگوں ہو جاتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ’’جی آ‘‘ یعنی ’’جی ہاں‘‘۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
پس نوشت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تشریح تو اپنے منطقی یا غیر منطقی انجام کو پہنچ گئی، اب اس تشریح کا اور شارح کا کیا انجام ہوتا ہے۔ کسی شارع عام پر ہوتا ہے یا کسی عصمت خان قسمت جان کے ہاتھوں!! جو بھی ہو، ہو گا تماشا ہی!!۔ کیا خیال ہے آپ کا مادام !؟
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمد وارث ، الف عین ، جیہ ، عائشہ عزیز ، خالد محمود چوہدری ، محمد خلیل الرحمٰن ، ابن سعید ، فاتح ، محمد اسامہ سَرسَری ، ماہی احمد ، فارقلیط رحمانی ، گل بانو ، منیر انور ۔
اور دیگر صاحبان و صاحبات ۔۔۔
ہم کو کیا پتا، ہم کیوں کریں؟ کوئی آپ نے سلیس زبان میں تشریح کی ہے جو عائشہ بٹیا کی سمجھ میں آ سکے؟
کہئے تو آپ کے شذرات کو شذراتِ مزید میں بانٹ دیں۔ ہمیں دوستوں کے کام آ کر خوشی ہو گی۔بلا شبہ ہزل تو غضب کی ہے اب تو ہمیں اپنی فکر پڑگئی ۔۔۔ ۔ جو ہزل کہ سکتا ہے وہ ہجُو بھی کہ سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم شاعرہ نہیں ورنہ ایسی دُرگت دیکھ کر شاعری سے دو سو گز دور بھاگتے نظر آتے اُففففففففف
کچھ کچھ ہی اچھا ہے۔ ہے نا!یعقوب انکل آپ بھی کتنا مشکل لکھتے ہیں ۔۔ بہت اچھا لکھا اور مجھے تو کچھ کچھ باتوں کی سمجھ آئی ہے
نہیں تو انکلکچھ کچھ ہی اچھا ہے۔ ہے نا!
میں بھی یہی کہوں گی۔۔۔ میں نے دو بار پڑھ لیا، پر۔۔۔۔یعقوب انکل آپ بھی کتنا مشکل لکھتے ہیں ۔۔ بہت اچھا لکھا اور مجھے تو کچھ کچھ باتوں کی سمجھ آئی ہے
غزل پر ہزل ۔۔
محمد یعقوب آسی کے قلم سے ۔۔ جمعہ ۲۳ مئی ۲۰۱۴ ۔
پیش نوشت:
غزل محمد وارث کی اور ہزل اپنی۔ اب یہ توقع نہ رکھئے گا کہ ہم ہزل گوئی میں اوزان و بحور کا بھی پاس کریں گے۔ تیسری دنیا کے بعد چوتھی دنیا (آزاد غزل) کو دریافت ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا۔ سو، ہم کم از کم نثری ہزل کا حق تو رکھتے ہی ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ حق ’’محفوظ‘‘ بھی رکھا جاتا ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں یہ حق اور فیصلے محفوظ رکھے ہی وہاں جاتے ہیں جہاں پہلے سے اندازہ ہو جائے کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہونے کا۔
اس غزل پر ایک ’’خامہ جاروبی‘‘ تو ۔۔ جی ہاں! ۔۔ آپ صحیح سمجھے۔ اسی ’’جی ہاں‘‘ کو پنجابی لہجے میں ’’جی آ‘‘ بولتے ہیں۔ اب ہم سے ہی سب کچھ کہلوائیے گا کیا؟ غزل پر ہزل کی طرف آتے ہیں۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ تاہم مناسب ہو گا کہ پہلے ’’فاضل‘‘ کی تشریح کر جی جائے۔ روایت بریکنگ کی اس ایج میں ۔ یہ کیا! ہمارا مقصد ہے کہ روایت شکنی کے اس عہد میں ہمیں کیسپرسکی مشہور و مخدوش (بَروَزنِ ’’مرحوم و مغفور‘‘) شدت سے یاد آتے ہیں۔ ملتے جلتے ناموں سے دھوکا نہ کھائیے، یہاں یہ جملہ بھی کسی اشتہار کا حصہ نہیں بلکہ عہد حاضر میں (جس پر عہدِ غائب کا گمان گزرتا ہے) یہ ایک آنٹی وائرس کا نام ہے جس کی بھوک ایگزی فائل سونگھتے ہی ایسی چمکتی ہے جیسے جگنو میاں کی دُم۔ آپ کو چچا حضور کا وہ ارشاد تو ازبر ہو گا ہی:
جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب ان کو دیکھ دیکھ بجاتے ہیں تالیاں
تشریح تو ہم کرنے چلے تھے ’’فاضل‘‘ کی، پر یہ موا قلم (فی زمانہ کلیدی تختہ) اپنا کلیدی کردار ادا کرنے سے کہاں باز آتا ہے۔ اصل بات کو چھوڑ کر ’’فاضل‘‘ گفتگو لے کر چل پڑتا ہے، قلم کیا ہوا، زبان ہو گئی اور وہ بھی امراؤ بیگم کی! ’’جی آ‘‘۔
ہمارے ’’فاضل‘‘ شاعر چونکہ ہمارے دوست بھی ہیں، لہٰذا ہم انہیں ’’فاضل‘‘ کی اس مد میں تو شامل نہیں کر سکتے کہ حقِ دوستی بھی تو کوئی چیز ہے۔ اپنے ناقدوں میں تو ایک باضابطہ جماعت ایسے ’’دوستوں‘‘ کی ہے جن کی حدتِ دوستی کے آگے تنقید کے سبھی اصول موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ جو چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے جدھر کو چاہے موڑ لے اور اگر حادثۃً یہ ناک کہیں پچک جائے یا اس کا کچھ حصہ بھُر بھُرا جائے تو بھی کیا ہے۔ ایک تیلی اور لگا دی! تیلی ہی تو لگانی ہے، نا! نقد کا کام پورا ہو گیا، نظر آپ کی ہے دیکھے دیکھے نہ دیکھے نہ دیکھے۔ اس سے تو انکار ممکن نہیں کہ نقد و نظر دو طرفہ عمل ہے، اکیلا ناقد ہی طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنے۔ تنقید نہ ہوئی کباڑ خانہ ہو گیا، کہ جہاں جملہ انواع کے ’’فاضل‘‘ پرزہ جات کبھی کچرے کے بھاؤ مل جایا کرتے تھے۔
اب تو اپنے کباڑیے بھی سیانے ہو گئے ہیں۔ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کے مکینوں کا اس سیانے پن میں کتنا ہاتھ ہے یہ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کا اپنے محمد وارث صاحب سے صرف نام کی مشابہت کا تعلق ہے، بلکہ تھا اور اب شاید ’’فاضل‘‘ کا تعلق بھی بن جائے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں کہ میرا بیٹا پچھلے دنوں اپنی کھٹارا کار کو نئی بنانے کے لئے کچھ ’’فاضل‘‘ چیزیں اسی ’’وارث دی کھوہی‘‘ سے لے کر آیا تھا۔ اور ہم یہ بالکل پسند نہیں کریں گے وہی پرزے اسی کھوہی سے ہو کر کل کسی دوسری کھٹارا کار کو نئی بنانے کے کام آ رہے ہیں۔
’’فاضل‘‘ کی اس قدر وضاحت کے بعد اب مناسب یہی ہے کہ ’’انشادرازی‘‘ کو موقف کر کے غزل پر ہزل کی طرف واپسی اختیار کرنے کی کوشش تو کی جائے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
۔۔۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ اولین مغالطہ ۔۔ دباغت کے ماحول سے تازہ ہوا تو اٹھ ہی نہیں سکتی، اور اٹھے گی بھی تو اسے جھونکا نہیں بھبکا کہا جائے گا۔ وہ تو خوش قمستی ہے اہل سیالکوٹ کی کہ تاحال ہمارا اس طرف جانا نہیں ہوا۔ فیصل آباد کا ماڑی پتن روڈ والا داخلی دروازہ، لاہور کے سارے دروازے اور اپنے پایۂ تخت کا تو دروازہ ہی ایک ہے؛ کبھی ادھر سے گزرنے کا ارادہ ہو تو ’’سانسو‘‘ کا سلنڈر نہ سہی، گیس ماسک وغیرہ کا نظام ضرور ساتھ رکھئے گا۔ ’’جی آ‘‘ آپ بالکل درست سمجھے! ’’سانسو‘‘ جاپانی زبان میں آکسیجن کو کہتے ہیں اور ہمیں یہ بات بتانے والے خود لاہور کے باسی ہیں۔ فاضل شاعر کے مصرعے کی تازہ ہوا اور لاہور کے باسی کا موازنہ خود ہی فرما لیجئے گا۔
دوسرا مغالطہ ۔۔ یہاں ہمارے جملہ غیر ادبی (بے ادبی نہیں) تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
یہ نمو کا نہیں نمی کا مقام ہے۔ نہیں تو نچوڑنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ خشک ہوا ۔ تازہ ہو یا نہ ہو ۔ مذکورہ تینوں شہروں کے مکینوں (حروف کی ترتیب پوری احتیاط کے ساتھ ملحوظ رہے) کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ رہی ہو گی۔
مزید مغالطے ۔۔ ان دونوں مغالطوں پر مباحث جاری رکھئے، دس بارہ پندرہ نہیں ہزاروں مغالطے پیدا ہو جائیں گے۔ اس شعر کا مفہوم ہماری ’’نا کس‘‘ رائے میں کچھ یوں ہے:
ہمارے فاضل شاعر کو غلط فہمی ہو گئی کہ وہ نمی سے ماورا ہیں اور کسی حساب سے تازہ چھونکے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پھرانے والی بات یہاں ’’ابہامِ معہ کثیرالایہام‘‘ کی کیفیت پیدا کر رہی ہے، اتنی کہ شعر کا قاری خود ہی اتنا پھر جاتا ہے کہ لوگ باگ اسے ڈاکٹر کہنے لگتے ہیں۔ جہاں شعر کا مفہوم ’’پکڑائی نہ دے‘‘ رہا ہو وہاں لوگوں کی زبانیں کون پکڑے گا۔ ہمارا تجربہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان تک نہیں پکڑ سکتے، اوروں کو کیا کہیں۔ ایک صاحب تو یہاں تک فرما گئے کہ
ع ۔۔۔ ۔۔۔ جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
اس شعر کی شانِ نزول (بقول استاد محبوب نرالے عالم: شانِ تنزل) یہ ہے کہ موصوف آنکھ سے گرے تو سیدھے زمین کے مرکزے پر جا کر براجمان ہو گئے۔ ہمیں ’’آئس ایج‘‘ دیکھے ہوئے چار حصے تو یاد آئے ہی، ان دیکھے ہوئے چار پانچ سو حصوں کا بھی کچھ کچھ ادراک ہونے لگا۔ اپنے حرف گیروں کی دل جمعی کے لئے ہم یہاں لفظ ’’واہمہ‘‘ بھی برداشت کر لیں گے بشرطے کہ ایسے لبوں سے ادا ہو، جہاں سے برآمد ہونے والی گالیاں بھی رقیب کو ’’بے مزہ‘‘ نہ ہونے دیں۔ آخر وہی تو ایک شخص ہے جو کسی نہ کسی طور عاشقِ صادق کو اچھا لگتا ہے۔ اس میں عاشقہ صادقہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا، مجبوری ہے اور مجبوری بھی مدلل ہے۔ (دال کو دال ہی پڑھئے گا کہ یہاں نقطہ محرم کو مجرم سے بھی کچھ زیادہ بنا سکتا ہے)۔ چچا حضور نے مادام امراؤ بیگم کو تو سمجھا یا نہیں سمجھا، زنانِ مصر کو خوب تاڑ لیا کہ ساری کنعانی نوجوان پر لٹو ہو رہی ہیں، اور عاشقہ ان کو دیکھ دیکھ خوش ہو رہی ہے۔ اس نے یقیناً تالی نہیں بجائی ہو گی۔ بعض چشم دید جاسوسوں کا کہنا ہے کہ مادام زلیخا نے تالی بجانے کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ خواتین کی بریدہ انگلیوں سے بہتا لہودیکھ کران کے اٹھے ہوئے ہاتھ زور سے ایک دوجے پر لگے اور منہ سے خالص زنانہ جملہ برآمد ہوا ’’ ہا ۔ ہائے! نی گُل پُل جانیو!!! تہاڈے بھائی جان نوں پتہ لگا تے پتہ نہیں میرے تے کیہ بنے! بھانڈے بھننیو، جاؤ گھرو گھری، میرا گھر نہ اجاڑو‘‘۔
اس کے بعد کششِ ثقل کے ردِ عمل کو شاعر نے ’’اٹھایا گیا‘‘ سے تعبیر کر کے قاری کی آنکھوں میں وہی دھول چھونکنے کی کوشش کی ہے جو وہ اپنے ساتھ زمین کے مرکزے سے قشر تک ہر مقام سے اڑا کر لایا ہے۔ دھول کو اس نے پہلے شعر میں جھونکا قرار دیا اور اب قاری کی آنکھوں میں جھونک رہا۔ شاعروں کا کیا ہے، اپنی جھونک میں ہوں تو کچھ بھی کہہ دیں۔ اور تو (عین نہیں، الف کے ساتھ) اور بے چارہ میر بھی پتہ نہیں بیگم سے (’’جی آ‘‘ بیگم سے) ڈر گیا ہو گا جو چیخ اٹھا کہ ’’ہم کو شاعر نہ کہو‘‘ اور چاہے کچھ بھی کہہ لو۔ فی زمانہ شوہر ہونا کیا کم مظلومیت ہے؟ کہ بندہ شاعر بھی کہلائے!
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
آ گئی نا، وہی بات! سازش والی۔ خوش ذوق قارئین ممکنہ طور پر اس کو ابلیس سے مربوط کریں گے۔ ان کی رائے کا احترام واجب تاہم یہ شعر ہمیں تو پہلے دونوں شعروں کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ مذکورہ جاسوس نے مادام کے شوہرِ نام دار کو ساری واردات لکھ بھیجی اور اس میں ایک ہی نام لکھا۔ شوہرِ نام دار کے منشی نے وہ مصحف پڑھ کر سنایا تو موصوف نے پوچھا ’’سازش میں کون کون تھا‘‘ اس پر منشی بولا ’’مجھ کو نہیں ہے علم‘‘ کہ مصحفِ جاسوس میں ایک ہی نام ہے اور وہ ملکۂ عالیہ کا ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
مادام جیہ کی تحقیق کے مطابق شاعر کو گہری چوٹ لگی تھی، جب کہ ہماری تحقیق کے مطابق وہ ایک جھونک سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاں، جھونک کی شدت ایسی ضرور رہی ہو گی کہ شاعر نے خود کو دوزخ میں جلتا ہوا محسوس کیا۔ اب اس کا ردِ عمل بھی بالکل فطری ہے۔ بقول ایک اور شاعر کے ۔۔
یوں کس طرح کٹے کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
بہشت کا تصور بھی خیالِ یار کی چادر کا سا ہے۔ کسی طور پردہ پوشی بھی تو کرنی ٹھہری! ’’جی آ‘‘۔ ہم ذاتی طور پر پردہ پوشی کی ایسی تمام کاوشوں کے حق میں ہیں کہ یہ دوہرا عمل ہے۔ بہ ظاہر تو کسی دوسرے کے عیب چھپائے جا رہے ہوتے ہیں، اور تہہ میں وہ خوف ہوتا ہے کہ اس کا تماشا بنا تو ساتھ اپنا بھی بنے گا۔ ہمارا ذہن بابائے قوم کی ایمبولینس کے پر اسرارانداز میں خراب ہوجانے پر جا اٹکتا ہے اور اس کو کھینچ کھانچ کر آگے دھکیلتے ہیں تو اکبر خان گولی کھا کر مر جاتا ہے۔ تاشقند کے معائدے کا شور اٹھتا ہے، مولانا حمود الرحمٰن کے کئے کرائے پر بھی پانی پھر جاتا ہے، اور بات شملے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد تو وہ شور اٹھتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاعر بے چارہ کرے بھی کیا۔
ارے ارے ارے ۔۔ اتنی بھی کیا سنجیدگی بھلا! اپنی روایات سے اتنی بڑی بغاوت!؟ ہم نے تو کبھی سوچا تک نہیں، سنجیدہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے فاضل شاعر سے بھی اس شعر میں یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ تاہم وہ سیانا نکلا کہ سوال اٹھا کر ایک طرف ہو گیا، کہ لو بھی چاچا بھتیجی الجھے رہو۔ ہم تو چلے پیا کے دیس۔ پیا کا دیس نہ ہوا جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی ہو گئی! ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
گھر کے بھیدی تو بہت کچھ بتاتے ہیں، تاہم ہر نوع کا ’’پردہ‘‘ تو اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی ’’دری‘‘ کی جائے۔ جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی تو پیا کے دیس میں لگ بھی سکتی ہے، ایک مشہور مقام جی ٹی روڈ پر بھی منڈی نام کا ہے۔ بارے ہم بس پر سوار ادھر سے گزرے تو بر کنارِ راہ ایک بہت بڑا مزین تختہ دیکھا جس پہ لکھا تھا ’’عصمت دری ہاؤس‘‘ یا وحشت! بعد میں ادھر ادھر سے پوچھ تاچھ کی تو حضرت پطرس بخاری کے ایک مہاجلوتری سے ملاقات ہو گئی۔ عرض کیا: ’’حضرت یہ کیا کہ لوگ سرِ بازار عصمت دری کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بھی نہیں چوکتے!‘‘ پہلے تو وہ دل اور اس سے زیادہ اپنا بھاڑ جیسا دہانہ کھول کرخوب ہنسے اور پھر ارشاد فرمایا: ’’تو بھی ایک ہی مُورکھ نکلا!‘‘ ٹک ٹک دیدم، دم نکشیدم ہم نے عالمِ حیرت و استعجاب میں اپنے ذہنِ ماؤف پر بہت زور ڈالا مگر کوئی وجہ آن جناب کے بے ہنگام ہنسنے بلکہ ہنہنے کی نہ جان پائے۔ درین اثنا جناب جلوتری عالم حال و جلال سے عالم قیل و قال میں واپس تشریف لا چکے تھے، گویا ہوئے: ’’یہ کارخانہ ہے عصمت خان کا اور یہاں دریاں بنائی جاتی ہیں۔ مالک نے دری ہاؤس پر اپنا نام داخل کر دیا جیسے جمال بُوٹ ہاؤس ۔۔ اتنی سی تو بات ہے، جسے تیرا خناس کہاں سے کہاں لے گیا‘‘۔ ہماری ہزیمت کا عالم بھی کیا قابلِ دید رہا ہو گا۔ مہا جلوتری تو چچا کو بھی ٹھیینگا دکھا گئے۔ بوٹ کہہ دیا کہ چچا اب بتاؤ بوٹ مذکر ہوتا کہ مؤنث؟
وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ عصمت خان کی عصمت دار خاتون کا نامِ نامی قسمت جان ہے اور وہ بالغ بچوں کو اجرت پر بزعمِ خود لوریاں سنایا کرتی ہیں۔ ہمارے فاضل شاعر اندر اور باہر کی دنیا کے ہاتھوں ایسے ستائے گئے، ایسے ستائے گئے کہ رات کو سوتے میں چیخیں مار کر نہ صرف خود جاگ جاتے بلکہ اپنی امراؤ بیگم کی نیند بھی خراب کر دیتے۔ انہوں نے بیچارے شاعر کو قسمت جان کے حوالے کر دیا۔ خود ہی انداز لگا لیجئے کہ کیا صورت رہی ہو گی۔ بتانے والے بتاتے ہیں (دروغ پر گردنِ چناب و ستلج) کہ عصمت خان کی مرکھنے بیل کے سینگوں جیسی مونچھیں دیکھ کر بے چارہ ایسا دہشت زدہ ہوا کہ سانس دھیمی پڑ گئی اور آنکھیں خود بہ خود بند ہو گئیں۔ بے چارہے اس دوہری دہشت گردی کی تاب کہاں لاتے خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ وہ بہ نفسِ نفیس بڑی نفاست سے ’’عصت دری‘‘ ہاؤس میں مقید ہیں۔
صاحبو! یہ ہے وہ داستان غم جسے ہمارے فاضل شاعر کے جملہ لازمی اور فاضل غموں کا تتمہ سمجھ لیا گیا، حال آن کہ وہ تتمہ نہیں معراج تھی۔ سنتے ہیں کہ وقت کا مرہم کچھ اثر دکھا رہا ہے اور ان کی چیخ پکار قدرے کم ہو گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کم کچھ نہ ہوا ہو، امراؤ بیگم اس کی عادی ہو گئی ہوں۔ وہ چماروں کی بہو کی کہانی تو بہتوں نے سن رکھی ہے۔ اشارہ کافی است۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
یہاں جیہ بی بی سے ناقابلِ تلافی بھول ہوئی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس کم علمی پر ان کا سر پیٹ دیا جائے، کہ اپنا تو ویسے بھی پیٹنا ہی ہے، چلئے یک نہ شد دو شد سہی۔ ادب سے دوستانہ تو کیا دشمنانہ تعلق رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ عَمُّ لشعرا (المعروف چچا) اسد اللہ خان کبھی اسد تخلق فرمایا کرتے تھے۔ یہ قصہ دوسرا ہے کہ انہیں مرزا نوشہ کیوں کہا جاتا تھا۔ چچا کو نوعمری میں ہم عمرعم زادی امراؤ بیگم کے بلو سے باندھ دیا گیا۔ ہمارے چچا اپنے چچا حضور کی چھاؤں میں پل کر جن حالات میں جوان ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ صرف ایسا شخص کر سکتا ہے جو نوعمری سے اپنے خسر کو جام بنا بنا کر پیش کرتا رہا ہو۔ ایک تو اس گھٹن گھٹے ماحول کا اثر اور ایک اپنے نام کا! مرزا میں وحشت در آئی اور انہوں نے جہاں اپنے چچا سے ان کی بیٹی پائی وہیں شاعری بھی جہیز کے طور پر پائی۔ سنا تو یہی تھا کہ وہ خود عَمَّۃُ الشعرا کا جہیز تھے اور چچا کی وسیع و عریض حویلی کے ایک کمرے میں رکھ دئے گئے تھے۔ اثر تو کچھ نہ کچھ ہونا ہی تھا، نا! ایک دن ان کی امراؤ بیگم نے کہہ ہی دیا: مرزا نوشہ! تم وحشی تو ہو ہی، اوپر تمہارے نام کا اثر تمہیں اور بھی وحشی بنا دیتا ہے اور سب کچھ برستا میری جانِ ناتواں پر ہے! تم ہی کہو کون کس پر غالب آتا ہے۔ مرزا نوشہ نے تب سے اپنا تخلص ’’غالب‘‘ اختیار کیا اور پھر امراؤ بیگم سمیت کئی بالا خانوں کی بیگمات پر غالب آتے رہے۔ انہی میں ایک کا نام ’’کائنات‘‘ بتایا جاتا ہے۔
ہمارے شاعر بھی مرزا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کا وہی پہلا مصرع اور پہلا تخلص ’’اسد‘‘ اپنے نام کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ غالب کب آتے یا کہلاتے ہیں۔ اس کا بہت انحصار تو اِن کی امراؤ بیگم پر ہے۔ ہم تو منتظرِ تماشا ہیں۔ بارے غالب کے پرزے اڑنے کی خبر تھی وہ تماشا تو ہوا نہیں کون جانے وہ کسی اور اسد کے حساب میں لکھا ہو۔ بہر حال علم تسخیرِ ’’کائنات‘‘ ان کو سکھا دیا گیا ہے۔ یہ مرحلہ کب سر ہوتا ہے یا اسد خود کب سرنگوں ہو جاتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ’’جی آ‘‘ یعنی ’’جی ہاں‘‘۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
پس نوشت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تشریح تو اپنے منطقی یا غیر منطقی انجام کو پہنچ گئی، اب اس تشریح کا اور شارح کا کیا انجام ہوتا ہے۔ کسی شارع عام پر ہوتا ہے یا کسی عصمت خان قسمت جان کے ہاتھوں!! جو بھی ہو، ہو گا تماشا ہی!!۔ کیا خیال ہے آپ کا مادام !؟
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمد وارث ، الف عین ، جیہ ، عائشہ عزیز ، خالد محمود چوہدری ، محمد خلیل الرحمٰن ، ابن سعید ، فاتح ، محمد اسامہ سَرسَری ، ماہی احمد ، فارقلیط رحمانی ، گل بانو ، منیر انور ۔
اور دیگر صاحبان و صاحبات ۔۔۔
جیوندے رہو اپنے چوہدری صاحب۔ ستے خیراں! ۔۔۔s
سر جی تسیں تے کمال شمال کردے او، دو دو واری پڑھنا پیا پر شاید اک دو وار ہور پڑھنا پئے گا ہر وار پہلے توں وی چنگا لگیا، جیندے رہو خوش رہو، یا رکھن دا شکریہ
وہ موٹر کار نامہ ہوگیاگر یہاں کوشش کارنامہ رہی تو کارنامہ کیا ہوگا؟؟؟
اللہ! اللہ!۔۔۔
اجازت ہے؟؟واقعی جیہ آپی آپ سنجیدگی سے مزاح لکھنا شروع کر دیں۔
لیکن اتنا سنجیدہ مت ہوئیے گا کہ مزاح، مزاحیہ ہی نہ لگے
سند مل گئیآپ کو کون بدذوق کہہ سکتا ہے، آپ کے ذوق کے تو سب قتیل ہیں
اب ہر بات چوراہے پر کہنے کی تو نہیں ہوتیہم کو کیا پتا، ہم کیوں کریں؟ کوئی آپ نے سلیس زبان میں تشریح کی ہے جو عائشہ بٹیا کی سمجھ میں آ سکے؟
مکمل!وہ موٹر کار نامہ ہوگی
اجازت ہے؟؟
سند مل گیا
آپ اہل زبان ہم اور ہم نرے جاہل پٹھان۔۔۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوامیر صاحب سے پوچھنے کے لیے تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
البتہ یہ جان لیجیے کہ فارسی میں بھی معافی طلبیدن یا معافی طلب کردن نہیں ہے بلکہ معافی خواستن کا محاورہ ہے۔
دوسرے یہ کہ معافی چاہنے کے دو فائدے ہیں:
1۔ اس میں معافی چاہنے والے کی خود داری برقرار رہتی ہے کہ وہ بھکاری کی مانند کسی سے کچھ مانگتا نہیں۔
2۔ جس کسی سے معافی چاہی جاتی ہے اس کو بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ معافی چاہنے والا دل سے معافی چاہتا ہے
یا معافی چاہنے والی دل سے معافی چاہتی ہے۔
سبحان اللہغزل پر ہزل ۔۔
محمد یعقوب آسی کے قلم سے ۔۔ جمعہ ۲۳ مئی ۲۰۱۴ ۔
پیش نوشت:
غزل محمد وارث کی اور ہزل اپنی۔ اب یہ توقع نہ رکھئے گا کہ ہم ہزل گوئی میں اوزان و بحور کا بھی پاس کریں گے۔ تیسری دنیا کے بعد چوتھی دنیا (آزاد غزل) کو دریافت ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا۔ سو، ہم کم از کم نثری ہزل کا حق تو رکھتے ہی ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ حق ’’محفوظ‘‘ بھی رکھا جاتا ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں یہ حق اور فیصلے محفوظ رکھے ہی وہاں جاتے ہیں جہاں پہلے سے اندازہ ہو جائے کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہونے کا۔
اس غزل پر ایک ’’خامہ جاروبی‘‘ تو ۔۔ جی ہاں! ۔۔ آپ صحیح سمجھے۔ اسی ’’جی ہاں‘‘ کو پنجابی لہجے میں ’’جی آ‘‘ بولتے ہیں۔ اب ہم سے ہی سب کچھ کہلوائیے گا کیا؟ غزل پر ہزل کی طرف آتے ہیں۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ تاہم مناسب ہو گا کہ پہلے ’’فاضل‘‘ کی تشریح کر جی جائے۔ روایت بریکنگ کی اس ایج میں ۔ یہ کیا! ہمارا مقصد ہے کہ روایت شکنی کے اس عہد میں ہمیں کیسپرسکی مشہور و مخدوش (بَروَزنِ ’’مرحوم و مغفور‘‘) شدت سے یاد آتے ہیں۔ ملتے جلتے ناموں سے دھوکا نہ کھائیے، یہاں یہ جملہ بھی کسی اشتہار کا حصہ نہیں بلکہ عہد حاضر میں (جس پر عہدِ غائب کا گمان گزرتا ہے) یہ ایک آنٹی وائرس کا نام ہے جس کی بھوک ایگزی فائل سونگھتے ہی ایسی چمکتی ہے جیسے جگنو میاں کی دُم۔ آپ کو چچا حضور کا وہ ارشاد تو ازبر ہو گا ہی:
جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب ان کو دیکھ دیکھ بجاتے ہیں تالیاں
تشریح تو ہم کرنے چلے تھے ’’فاضل‘‘ کی، پر یہ موا قلم (فی زمانہ کلیدی تختہ) اپنا کلیدی کردار ادا کرنے سے کہاں باز آتا ہے۔ اصل بات کو چھوڑ کر ’’فاضل‘‘ گفتگو لے کر چل پڑتا ہے، قلم کیا ہوا، زبان ہو گئی اور وہ بھی امراؤ بیگم کی! ’’جی آ‘‘۔
ہمارے ’’فاضل‘‘ شاعر چونکہ ہمارے دوست بھی ہیں، لہٰذا ہم انہیں ’’فاضل‘‘ کی اس مد میں تو شامل نہیں کر سکتے کہ حقِ دوستی بھی تو کوئی چیز ہے۔ اپنے ناقدوں میں تو ایک باضابطہ جماعت ایسے ’’دوستوں‘‘ کی ہے جن کی حدتِ دوستی کے آگے تنقید کے سبھی اصول موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ جو چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے جدھر کو چاہے موڑ لے اور اگر حادثۃً یہ ناک کہیں پچک جائے یا اس کا کچھ حصہ بھُر بھُرا جائے تو بھی کیا ہے۔ ایک تیلی اور لگا دی! تیلی ہی تو لگانی ہے، نا! نقد کا کام پورا ہو گیا، نظر آپ کی ہے دیکھے دیکھے نہ دیکھے نہ دیکھے۔ اس سے تو انکار ممکن نہیں کہ نقد و نظر دو طرفہ عمل ہے، اکیلا ناقد ہی طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنے۔ تنقید نہ ہوئی کباڑ خانہ ہو گیا، کہ جہاں جملہ انواع کے ’’فاضل‘‘ پرزہ جات کبھی کچرے کے بھاؤ مل جایا کرتے تھے۔
اب تو اپنے کباڑیے بھی سیانے ہو گئے ہیں۔ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کے مکینوں کا اس سیانے پن میں کتنا ہاتھ ہے یہ ہمیں نہیں معلوم۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ ’’وارث دی کھُوہی‘‘ کا اپنے محمد وارث صاحب سے صرف نام کی مشابہت کا تعلق ہے، بلکہ تھا اور اب شاید ’’فاضل‘‘ کا تعلق بھی بن جائے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں کہ میرا بیٹا پچھلے دنوں اپنی کھٹارا کار کو نئی بنانے کے لئے کچھ ’’فاضل‘‘ چیزیں اسی ’’وارث دی کھوہی‘‘ سے لے کر آیا تھا۔ اور ہم یہ بالکل پسند نہیں کریں گے وہی پرزے اسی کھوہی سے ہو کر کل کسی دوسری کھٹارا کار کو نئی بنانے کے کام آ رہے ہیں۔
’’فاضل‘‘ کی اس قدر وضاحت کے بعد اب مناسب یہی ہے کہ ’’انشادرازی‘‘ کو موقف کر کے غزل پر ہزل کی طرف واپسی اختیار کرنے کی کوشش تو کی جائے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
۔۔۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ یہاں فاضل شاعر کو ایک نہیں کئی مغالطے درپیش ہیں۔ اولین مغالطہ ۔۔ دباغت کے ماحول سے تازہ ہوا تو اٹھ ہی نہیں سکتی، اور اٹھے گی بھی تو اسے جھونکا نہیں بھبکا کہا جائے گا۔ وہ تو خوش قمستی ہے اہل سیالکوٹ کی کہ تاحال ہمارا اس طرف جانا نہیں ہوا۔ فیصل آباد کا ماڑی پتن روڈ والا داخلی دروازہ، لاہور کے سارے دروازے اور اپنے پایۂ تخت کا تو دروازہ ہی ایک ہے؛ کبھی ادھر سے گزرنے کا ارادہ ہو تو ’’سانسو‘‘ کا سلنڈر نہ سہی، گیس ماسک وغیرہ کا نظام ضرور ساتھ رکھئے گا۔ ’’جی آ‘‘ آپ بالکل درست سمجھے! ’’سانسو‘‘ جاپانی زبان میں آکسیجن کو کہتے ہیں اور ہمیں یہ بات بتانے والے خود لاہور کے باسی ہیں۔ فاضل شاعر کے مصرعے کی تازہ ہوا اور لاہور کے باسی کا موازنہ خود ہی فرما لیجئے گا۔
دوسرا مغالطہ ۔۔ یہاں ہمارے جملہ غیر ادبی (بے ادبی نہیں) تجربات کا نچوڑ یہ ہے کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
یہ نمو کا نہیں نمی کا مقام ہے۔ نہیں تو نچوڑنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ خشک ہوا ۔ تازہ ہو یا نہ ہو ۔ مذکورہ تینوں شہروں کے مکینوں (حروف کی ترتیب پوری احتیاط کے ساتھ ملحوظ رہے) کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ رہی ہو گی۔
مزید مغالطے ۔۔ ان دونوں مغالطوں پر مباحث جاری رکھئے، دس بارہ پندرہ نہیں ہزاروں مغالطے پیدا ہو جائیں گے۔ اس شعر کا مفہوم ہماری ’’نا کس‘‘ رائے میں کچھ یوں ہے:
ہمارے فاضل شاعر کو غلط فہمی ہو گئی کہ وہ نمی سے ماورا ہیں اور کسی حساب سے تازہ چھونکے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پھرانے والی بات یہاں ’’ابہامِ معہ کثیرالایہام‘‘ کی کیفیت پیدا کر رہی ہے، اتنی کہ شعر کا قاری خود ہی اتنا پھر جاتا ہے کہ لوگ باگ اسے ڈاکٹر کہنے لگتے ہیں۔ جہاں شعر کا مفہوم ’’پکڑائی نہ دے‘‘ رہا ہو وہاں لوگوں کی زبانیں کون پکڑے گا۔ ہمارا تجربہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان تک نہیں پکڑ سکتے، اوروں کو کیا کہیں۔ ایک صاحب تو یہاں تک فرما گئے کہ
ع ۔۔۔ ۔۔۔ جو سمجھ میں نہ آئے بڑا شعر ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
اس شعر کی شانِ نزول (بقول استاد محبوب نرالے عالم: شانِ تنزل) یہ ہے کہ موصوف آنکھ سے گرے تو سیدھے زمین کے مرکزے پر جا کر براجمان ہو گئے۔ ہمیں ’’آئس ایج‘‘ دیکھے ہوئے چار حصے تو یاد آئے ہی، ان دیکھے ہوئے چار پانچ سو حصوں کا بھی کچھ کچھ ادراک ہونے لگا۔ اپنے حرف گیروں کی دل جمعی کے لئے ہم یہاں لفظ ’’واہمہ‘‘ بھی برداشت کر لیں گے بشرطے کہ ایسے لبوں سے ادا ہو، جہاں سے برآمد ہونے والی گالیاں بھی رقیب کو ’’بے مزہ‘‘ نہ ہونے دیں۔ آخر وہی تو ایک شخص ہے جو کسی نہ کسی طور عاشقِ صادق کو اچھا لگتا ہے۔ اس میں عاشقہ صادقہ کو بھی شامل کرنا پڑے گا، مجبوری ہے اور مجبوری بھی مدلل ہے۔ (دال کو دال ہی پڑھئے گا کہ یہاں نقطہ محرم کو مجرم سے بھی کچھ زیادہ بنا سکتا ہے)۔ چچا حضور نے مادام امراؤ بیگم کو تو سمجھا یا نہیں سمجھا، زنانِ مصر کو خوب تاڑ لیا کہ ساری کنعانی نوجوان پر لٹو ہو رہی ہیں، اور عاشقہ ان کو دیکھ دیکھ خوش ہو رہی ہے۔ اس نے یقیناً تالی نہیں بجائی ہو گی۔ بعض چشم دید جاسوسوں کا کہنا ہے کہ مادام زلیخا نے تالی بجانے کو ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ خواتین کی بریدہ انگلیوں سے بہتا لہودیکھ کران کے اٹھے ہوئے ہاتھ زور سے ایک دوجے پر لگے اور منہ سے خالص زنانہ جملہ برآمد ہوا ’’ ہا ۔ ہائے! نی گُل پُل جانیو!!! تہاڈے بھائی جان نوں پتہ لگا تے پتہ نہیں میرے تے کیہ بنے! بھانڈے بھننیو، جاؤ گھرو گھری، میرا گھر نہ اجاڑو‘‘۔
اس کے بعد کششِ ثقل کے ردِ عمل کو شاعر نے ’’اٹھایا گیا‘‘ سے تعبیر کر کے قاری کی آنکھوں میں وہی دھول چھونکنے کی کوشش کی ہے جو وہ اپنے ساتھ زمین کے مرکزے سے قشر تک ہر مقام سے اڑا کر لایا ہے۔ دھول کو اس نے پہلے شعر میں جھونکا قرار دیا اور اب قاری کی آنکھوں میں جھونک رہا۔ شاعروں کا کیا ہے، اپنی جھونک میں ہوں تو کچھ بھی کہہ دیں۔ اور تو (عین نہیں، الف کے ساتھ) اور بے چارہ میر بھی پتہ نہیں بیگم سے (’’جی آ‘‘ بیگم سے) ڈر گیا ہو گا جو چیخ اٹھا کہ ’’ہم کو شاعر نہ کہو‘‘ اور چاہے کچھ بھی کہہ لو۔ فی زمانہ شوہر ہونا کیا کم مظلومیت ہے؟ کہ بندہ شاعر بھی کہلائے!
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
آ گئی نا، وہی بات! سازش والی۔ خوش ذوق قارئین ممکنہ طور پر اس کو ابلیس سے مربوط کریں گے۔ ان کی رائے کا احترام واجب تاہم یہ شعر ہمیں تو پہلے دونوں شعروں کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ مذکورہ جاسوس نے مادام کے شوہرِ نام دار کو ساری واردات لکھ بھیجی اور اس میں ایک ہی نام لکھا۔ شوہرِ نام دار کے منشی نے وہ مصحف پڑھ کر سنایا تو موصوف نے پوچھا ’’سازش میں کون کون تھا‘‘ اس پر منشی بولا ’’مجھ کو نہیں ہے علم‘‘ کہ مصحفِ جاسوس میں ایک ہی نام ہے اور وہ ملکۂ عالیہ کا ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
مادام جیہ کی تحقیق کے مطابق شاعر کو گہری چوٹ لگی تھی، جب کہ ہماری تحقیق کے مطابق وہ ایک جھونک سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاں، جھونک کی شدت ایسی ضرور رہی ہو گی کہ شاعر نے خود کو دوزخ میں جلتا ہوا محسوس کیا۔ اب اس کا ردِ عمل بھی بالکل فطری ہے۔ بقول ایک اور شاعر کے ۔۔
یوں کس طرح کٹے کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
بہشت کا تصور بھی خیالِ یار کی چادر کا سا ہے۔ کسی طور پردہ پوشی بھی تو کرنی ٹھہری! ’’جی آ‘‘۔ ہم ذاتی طور پر پردہ پوشی کی ایسی تمام کاوشوں کے حق میں ہیں کہ یہ دوہرا عمل ہے۔ بہ ظاہر تو کسی دوسرے کے عیب چھپائے جا رہے ہوتے ہیں، اور تہہ میں وہ خوف ہوتا ہے کہ اس کا تماشا بنا تو ساتھ اپنا بھی بنے گا۔ ہمارا ذہن بابائے قوم کی ایمبولینس کے پر اسرارانداز میں خراب ہوجانے پر جا اٹکتا ہے اور اس کو کھینچ کھانچ کر آگے دھکیلتے ہیں تو اکبر خان گولی کھا کر مر جاتا ہے۔ تاشقند کے معائدے کا شور اٹھتا ہے، مولانا حمود الرحمٰن کے کئے کرائے پر بھی پانی پھر جاتا ہے، اور بات شملے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد تو وہ شور اٹھتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شاعر بے چارہ کرے بھی کیا۔
ارے ارے ارے ۔۔ اتنی بھی کیا سنجیدگی بھلا! اپنی روایات سے اتنی بڑی بغاوت!؟ ہم نے تو کبھی سوچا تک نہیں، سنجیدہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہمارے فاضل شاعر سے بھی اس شعر میں یہی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ تاہم وہ سیانا نکلا کہ سوال اٹھا کر ایک طرف ہو گیا، کہ لو بھی چاچا بھتیجی الجھے رہو۔ ہم تو چلے پیا کے دیس۔ پیا کا دیس نہ ہوا جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی ہو گئی! ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
گھر کے بھیدی تو بہت کچھ بتاتے ہیں، تاہم ہر نوع کا ’’پردہ‘‘ تو اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی ’’دری‘‘ کی جائے۔ جوناتھن کے گھوڑوں کی منڈی تو پیا کے دیس میں لگ بھی سکتی ہے، ایک مشہور مقام جی ٹی روڈ پر بھی منڈی نام کا ہے۔ بارے ہم بس پر سوار ادھر سے گزرے تو بر کنارِ راہ ایک بہت بڑا مزین تختہ دیکھا جس پہ لکھا تھا ’’عصمت دری ہاؤس‘‘ یا وحشت! بعد میں ادھر ادھر سے پوچھ تاچھ کی تو حضرت پطرس بخاری کے ایک مہاجلوتری سے ملاقات ہو گئی۔ عرض کیا: ’’حضرت یہ کیا کہ لوگ سرِ بازار عصمت دری کا ڈھنڈورا پیٹنے سے بھی نہیں چوکتے!‘‘ پہلے تو وہ دل اور اس سے زیادہ اپنا بھاڑ جیسا دہانہ کھول کرخوب ہنسے اور پھر ارشاد فرمایا: ’’تو بھی ایک ہی مُورکھ نکلا!‘‘ ٹک ٹک دیدم، دم نکشیدم ہم نے عالمِ حیرت و استعجاب میں اپنے ذہنِ ماؤف پر بہت زور ڈالا مگر کوئی وجہ آن جناب کے بے ہنگام ہنسنے بلکہ ہنہنے کی نہ جان پائے۔ درین اثنا جناب جلوتری عالم حال و جلال سے عالم قیل و قال میں واپس تشریف لا چکے تھے، گویا ہوئے: ’’یہ کارخانہ ہے عصمت خان کا اور یہاں دریاں بنائی جاتی ہیں۔ مالک نے دری ہاؤس پر اپنا نام داخل کر دیا جیسے جمال بُوٹ ہاؤس ۔۔ اتنی سی تو بات ہے، جسے تیرا خناس کہاں سے کہاں لے گیا‘‘۔ ہماری ہزیمت کا عالم بھی کیا قابلِ دید رہا ہو گا۔ مہا جلوتری تو چچا کو بھی ٹھیینگا دکھا گئے۔ بوٹ کہہ دیا کہ چچا اب بتاؤ بوٹ مذکر ہوتا کہ مؤنث؟
وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ عصمت خان کی عصمت دار خاتون کا نامِ نامی قسمت جان ہے اور وہ بالغ بچوں کو اجرت پر بزعمِ خود لوریاں سنایا کرتی ہیں۔ ہمارے فاضل شاعر اندر اور باہر کی دنیا کے ہاتھوں ایسے ستائے گئے، ایسے ستائے گئے کہ رات کو سوتے میں چیخیں مار کر نہ صرف خود جاگ جاتے بلکہ اپنی امراؤ بیگم کی نیند بھی خراب کر دیتے۔ انہوں نے بیچارے شاعر کو قسمت جان کے حوالے کر دیا۔ خود ہی انداز لگا لیجئے کہ کیا صورت رہی ہو گی۔ بتانے والے بتاتے ہیں (دروغ پر گردنِ چناب و ستلج) کہ عصمت خان کی مرکھنے بیل کے سینگوں جیسی مونچھیں دیکھ کر بے چارہ ایسا دہشت زدہ ہوا کہ سانس دھیمی پڑ گئی اور آنکھیں خود بہ خود بند ہو گئیں۔ بے چارہے اس دوہری دہشت گردی کی تاب کہاں لاتے خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ وہ بہ نفسِ نفیس بڑی نفاست سے ’’عصت دری‘‘ ہاؤس میں مقید ہیں۔
صاحبو! یہ ہے وہ داستان غم جسے ہمارے فاضل شاعر کے جملہ لازمی اور فاضل غموں کا تتمہ سمجھ لیا گیا، حال آن کہ وہ تتمہ نہیں معراج تھی۔ سنتے ہیں کہ وقت کا مرہم کچھ اثر دکھا رہا ہے اور ان کی چیخ پکار قدرے کم ہو گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کم کچھ نہ ہوا ہو، امراؤ بیگم اس کی عادی ہو گئی ہوں۔ وہ چماروں کی بہو کی کہانی تو بہتوں نے سن رکھی ہے۔ اشارہ کافی است۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
یہاں جیہ بی بی سے ناقابلِ تلافی بھول ہوئی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس کم علمی پر ان کا سر پیٹ دیا جائے، کہ اپنا تو ویسے بھی پیٹنا ہی ہے، چلئے یک نہ شد دو شد سہی۔ ادب سے دوستانہ تو کیا دشمنانہ تعلق رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ عَمُّ لشعرا (المعروف چچا) اسد اللہ خان کبھی اسد تخلق فرمایا کرتے تھے۔ یہ قصہ دوسرا ہے کہ انہیں مرزا نوشہ کیوں کہا جاتا تھا۔ چچا کو نوعمری میں ہم عمرعم زادی امراؤ بیگم کے بلو سے باندھ دیا گیا۔ ہمارے چچا اپنے چچا حضور کی چھاؤں میں پل کر جن حالات میں جوان ہوئے ہوں گے اس کا اندازہ صرف ایسا شخص کر سکتا ہے جو نوعمری سے اپنے خسر کو جام بنا بنا کر پیش کرتا رہا ہو۔ ایک تو اس گھٹن گھٹے ماحول کا اثر اور ایک اپنے نام کا! مرزا میں وحشت در آئی اور انہوں نے جہاں اپنے چچا سے ان کی بیٹی پائی وہیں شاعری بھی جہیز کے طور پر پائی۔ سنا تو یہی تھا کہ وہ خود عَمَّۃُ الشعرا کا جہیز تھے اور چچا کی وسیع و عریض حویلی کے ایک کمرے میں رکھ دئے گئے تھے۔ اثر تو کچھ نہ کچھ ہونا ہی تھا، نا! ایک دن ان کی امراؤ بیگم نے کہہ ہی دیا: مرزا نوشہ! تم وحشی تو ہو ہی، اوپر تمہارے نام کا اثر تمہیں اور بھی وحشی بنا دیتا ہے اور سب کچھ برستا میری جانِ ناتواں پر ہے! تم ہی کہو کون کس پر غالب آتا ہے۔ مرزا نوشہ نے تب سے اپنا تخلص ’’غالب‘‘ اختیار کیا اور پھر امراؤ بیگم سمیت کئی بالا خانوں کی بیگمات پر غالب آتے رہے۔ انہی میں ایک کا نام ’’کائنات‘‘ بتایا جاتا ہے۔
ہمارے شاعر بھی مرزا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کا وہی پہلا مصرع اور پہلا تخلص ’’اسد‘‘ اپنے نام کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ غالب کب آتے یا کہلاتے ہیں۔ اس کا بہت انحصار تو اِن کی امراؤ بیگم پر ہے۔ ہم تو منتظرِ تماشا ہیں۔ بارے غالب کے پرزے اڑنے کی خبر تھی وہ تماشا تو ہوا نہیں کون جانے وہ کسی اور اسد کے حساب میں لکھا ہو۔ بہر حال علم تسخیرِ ’’کائنات‘‘ ان کو سکھا دیا گیا ہے۔ یہ مرحلہ کب سر ہوتا ہے یا اسد خود کب سرنگوں ہو جاتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ’’جی آ‘‘ یعنی ’’جی ہاں‘‘۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
پس نوشت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تشریح تو اپنے منطقی یا غیر منطقی انجام کو پہنچ گئی، اب اس تشریح کا اور شارح کا کیا انجام ہوتا ہے۔ کسی شارع عام پر ہوتا ہے یا کسی عصمت خان قسمت جان کے ہاتھوں!! جو بھی ہو، ہو گا تماشا ہی!!۔ کیا خیال ہے آپ کا مادام !؟
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
محمد وارث ، الف عین ، جیہ ، عائشہ عزیز ، خالد محمود چوہدری ، محمد خلیل الرحمٰن ، ابن سعید ، فاتح ، محمد اسامہ سَرسَری ، ماہی احمد ، فارقلیط رحمانی ، گل بانو ، منیر انور ۔
اور دیگر صاحبان و صاحبات ۔۔۔
شکریہ عابدواہ مزہ آگیا جیہ سسٹر کے ہم تو بہت پرانے فین ہیں ہی مگر انکی اس غزل کی ہنگامہ خیز تشریح نے تو استاد محترم وارث بھیا کا کمال ہنر بھی ہم آشکار کردیا کمال ہیں دونوں لاجواب ہیں دونوں غزل بھی تشریح بھی شاعر بھی شارح بھی والسلام
اوئ اللہ اب خیر منا لو گُل بانو جی اسی کی تہاڈی مج چرائی وے ؟کہئے تو آپ کے شذرات کو شذراتِ مزید میں بانٹ دیں۔ ہمیں دوستوں کے کام آ کر خوشی ہو گی۔