۳۳۔ کتاب اللہ کے معنی تبدیل کرنیوالے
اے پیغمبرﷺ! تمہارے لیے باعثِ رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیزگامی د کھا رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل ان کے ایمان نہیں لائے، یا ان میں سے ہوں جو یہودی ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سُن گُن لیتے پھرتے ہیں، کتاب اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا، ان کے لیے دُنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۴۱)
۳۴۔ یہودی توراۃ سے منہ موڑنے والے ہیں
یہ جھوٹ سُننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں، لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس (اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چا ہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو۔ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑنہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑرہے ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے ۔
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اسی کے مطابق اِن یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے ) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے ۔ پس (اے گروہِ یہود) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑدو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۴۴)
۳۵۔ جان کے بدلے جان اور قصاص کا کفارہ
توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے ۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۴۵)
۳۶۔ انجیل توراۃ کی تصدیق کرتی ہے
پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریم ؑ کے بیٹے عیسیٰ ؑ کو بھیجا۔ توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔ اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ ہمارا حکم تھا کہ اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۴۷)
۳۷۔ اللہ نے ہی شریعت مقرر کی
پھر اے نبیﷺ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے ۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑکر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو __ ہم نے تم (انسانوں ) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخرکار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو __ پس اے نبیؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرّہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے، پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گنا ہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں ) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے ؟ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۵۰)
۳۸۔ یہود و نصاریٰ کو رفیق بنانے والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۵۱)
۳۹۔ دلوں میں نفاق کی بیماری
تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑدھوپ کرتے پھرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں ‘‘۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کُن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اِس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اور اس وقت اہلِ ایمان کہیں گے ’’کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘؟ ان کے سب اعمال ضائع ہو گئے اورآخرکار یہ ناکام و نامراد ہو کر رہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۵۳)
۴۰۔ اپنے دین سے پھرنے والے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے ) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسولﷺ اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۵۶)
۴۱۔ کون لوگ بندر اور سور بنائے گئے ؟
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے ۔ ان سے کہو، ’’اے اہلِ کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ‘‘؟ پھر کہو ’’کیا میں ان لوگوں کی نشان دہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے ؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اُس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی۔ اُن کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے اور وہ سواء السبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ‘‘۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۶۰)
۴۲۔ ظلم کرنے اور حرام مال کھانے والے
جب یہ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں ۔ تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑدھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں ۔ بہت بُری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں ۔ کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے ؟ یقیناً بہت ہی بُرا کارنامۂ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۶۳)
۴۳۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی ان پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ، اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں اُلٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے، اور (اس کی پاداش میں ) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے ۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے ۔ یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اگر (اس سرکشی کے بجائے ) یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خدا ترسی کی روش اختیار کرتے تو ہم اِن کی برائیاں اِن سے دور کر دیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے ۔ کاش انہوں نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں ۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے ۔ (المآئدۃ:۶۶)
۴۴۔ اللہ کافروں کو کامیابی کی راہ نہ دکھائے گا
اے پیغمبرﷺ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں ) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔ صاف کہہ دو کہ ’’اے اہلِ کتاب، تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ‘‘۔ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا۔ مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ (یقین جانو کہ یہاں اجارہ کسی کا بھی نہیں ہے ) مسلمان ہوں یا یہودی، صابی ہوں یا عیسائی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۶۹)
۴۵۔ بنی اسرائیل نے نبیوں کو قتل کیا
ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ۔ مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشاتِ نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں نے جُھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا، اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونما نہ ہو گا، اس لیے اندھے اور بہرے بن گئے ۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کیا تو اُن میں اکثر لوگ اور زیادہ اندھے اور بہرے بنتے چلے گئے ۔ اللہ ان کی یہ سب حرکات دیکھتا رہا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۷۱)
۴۶۔ خدائی میں تثلیث کی تردید
یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے ۔ حالانکہ مسیحؑ نے کہا تھا کہ ’’اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی‘‘۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو دردناک سزا دی جائے گی۔ پھر کیا یہ اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے ؟ اللہ بہت درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۷۳)
۴۷۔ حضرت عیسیٰ ؑمحض ایک رسول تھے
مسیحؑ ابن مریم ؑ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں ایک راست باز عورت تھی، اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں، پھر دیکھویہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں ۔ ان سے کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑکر اُس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟ حالانکہ سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا تو اللہ ہی ہے ۔ کہو، اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور ’’سواء اسبیل‘‘ سے بھٹک گئے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۷۷)
۴۸۔ یہودیوں کامسلمانوں سے جذبہ عداوت
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤدؑ اور عیسیٰ ؑابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑدیا تھا، بُرا طرزِ عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا۔ آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہلِ ایمان کے مقابلہ میں ) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں ۔ یقیناً بہت بُرا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لیے کی ہے، اللہ ان پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرﷺ اور اس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہلِ ایمان کے مقابلے میں ) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے ۔ مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔ تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدُنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرورِ نفس نہیں ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۸۲)
۱۔ قرآن کو نہ ماننے والے جہنمی ہیں
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں ۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ ’’پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ‘‘۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ’’آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اُسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے ‘‘؟ اُن کے اِس قول کی وجہ سے اللہ نے اُن کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ یہ جزاء ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا، تو وہ جہنم کے مستحق ہیں ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۸۶)
۲۔ حلال کو حرام نہ کر لو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ۔ جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھاؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۸۸)
۳۔ قسم کا کفارہ تین روزے رکھنا
تم لوگ جو مُہمل قسمیں کھا لیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بُوجھ کر کھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچّوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑدو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۸۹)
۴۔ شراب اور جُوا شیطانی کام ہیں
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ۔ ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے ؟ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدُولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسولﷺ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۹۲)
۵۔ دورِ جہالت کے اعمال پر گرفت نہیں
جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رُکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں ۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسندکرتا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۹۳)
۶۔ احرام میں شکار اور اس کا کفارہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہو گا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا، یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے ۔ پہلے جو کچھ ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۹۵)
۷۔ احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے
تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا، جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو، البتہ خشکی کا شکار، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے ۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۹۶)
۸۔ کعبہ، ماہِ حرام اور قربانی
اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے ) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے ۔ خبردار ہو جاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے ۔ رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کُھلے اور چُھپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے ۔ اے پیغمبرﷺ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بُہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ (المآئدۃ:۱۰۰)
۹۔ ناگوار باتیں نہ پو چھا کرو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا، وہ درگزر کرنے والا اور بُردبار ہے ۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مُبتلا ہو گئے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۰۲)
۱۰۔ قانونِ الٰہی کے خلاف باپ دادا کی تقلید
اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وَصیلہ اور نہ حام ۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں )۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۰۵)
۱۱۔ وصیت کرتے وقت دو گواہ بنانے کا حکم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحبِ عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں ۔ پھر اگر کوئی شک پڑجائے تو نماز کے بعد دونوں گوا ہوں کو (مسجد میں )
روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں )، اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے ‘‘۔ لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو اُن کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو، اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہماری شہادت اُن کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے، اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے ‘‘۔ اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے ۔ اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۰۸)
۱۲۔ عیسٰی ؑکا گہوارے میں بات کرنا
جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں ۔ پھر تصور کرو اُس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ ’’اے مریمؑ کے بیٹے عیسٰی ؑ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی۔ میں نے رُوح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۱۰)
۱۳۔ عیسٰی ؑکا مردے کو زندہ، کوڑھی کواچھا کرنا
میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تُو میرے حکم سے مٹی کا پُتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا۔ پھر جب تُو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۱۰)
۱۴۔ عیسٰی ؑ کے حواری:کھانے کا خوان اترنا
اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا ’’ہم ایمان لائے اور گواہ ہو کہ ہم مسلم ہیں ‘‘۔ (حواریوں کے سلسلہ میں ) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ’’اے عیسٰیؑ ابن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ‘‘؟ تو عیسٰی ؑنے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ انہوں نے کہا ’’ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اُس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اُس پر گواہ ہوں ‘‘۔ اس پر عیسٰی ؑابن مریم نے دعا کی ’’خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو، ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تُو بہترین رازق ہے ‘‘۔ اللہ نے جواب دیا ’’میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو میں نے کسی کو نہ دی ہو گی‘‘۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۱۵)
۱۵۔ عیسٰی ؑنے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا
غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسٰی ؑبن مریم، کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ ’’سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالِم ہیں ۔ میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بُلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں ۔ اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ‘‘۔ تب اللہ فرمائے گا ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے ‘‘۔ زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ (المآئدۃ۔ ۔ ۔ ۱۲۰)
۱۶۔ زندگی کی ایک دوسری مدت کا بیان
سورۃ الانعام : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں ۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دُوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں ۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ۔ مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔ وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کُھلے اور چُھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اُس سے خوب واقف ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۳)
۱۷۔ رب کی نشانیوں کا مذاق اڑانے والے
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑلیا ہو۔ چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دَورہ رہا ہے ؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخرکار ہم نے ان کے گنا ہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دَور کی قوموں کو اُٹھایا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۶)
۱۸۔ حق کو جھٹلانے والوں کا انجام
اے پیغمبرﷺ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادُو ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مُبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مُبتلا ہیں ۔ اے نبیﷺ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخرکار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ ان سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔ ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ __کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑلیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مُبتلا کر لیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ (الانعام:۱۲)
۱۹۔ اللہ رازق کے سامنے جھکنے کا حکم
رات کے اندھیرے اور دن کے اُجالے میں جو کچھ ٹھیرا ہوا ہے، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے ۔ کہو، اللہ کو چھوڑکر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اُس خدا کو چھوڑکر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے ؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے ) تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۸)
۲۰۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے
ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا۔ کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے اُن کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جُھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جُھٹلائے ؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۲۱)
۲۱۔ روز حشر مشرکوں کا جھوٹ گھڑنا
جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پُوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اُٹھا سکیں گے کہ (یہ جُھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو، اُس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ کو جھوٹ گھڑیں گے، اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو جائیں گے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۲۴)
۲۲۔ اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے
ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے )۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آ کر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کر لیا ہے وہ (ساری باتیں سننے کے بعد) یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک داستانِ پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ اس امرِ حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دُور بھاگتے ہیں ۔ (وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑرہے ہیں ) حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دُنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اُس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہو گی، ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جُھوٹے (اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جُھوٹ ہی سے کام لیں گے )۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے ۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے ‘‘؟ یہ کہیں گے ’’ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے ‘‘۔ وہ فرمائے گا ’’اچھا، تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو‘‘۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۳۰)
۲۳۔ اللہ سے ملاقات کا انکار کرنے والے
نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا۔ جب اچانک وہ گھڑی آ جائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ’’افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی‘‘۔ اور ان کا حال یہ ہو گا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گنا ہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو! کیسا بُرا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے ۔ حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے ؟(الانعام۔ ۔ ۔ ۳۲)
۲۴۔ نبیﷺ کو جھٹلانا اللہ کی آیات کو جھٹلانا ہے
اے نبیﷺ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو۔ دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سُننے والے ہیں ۔ رہے مُردے، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے ) واپس لائے جائیں گے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۳۶)
۲۵۔ مصیبت میں انسان اللہ ہی کو یاد کرتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پُوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مُبتلا ہیں ۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں ۔ مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں ۔ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے ۔ ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۴۱)
۲۶۔ اللہ نافرمان قوموں کو بھی خوشحالی دیتا ہے ۔
تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جُھک جائیں ۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر اُن کے دل تو اور سخت ہو گئے اور شیطان نے اُن کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اُس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بُھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑلیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے ۔ اس طرح اُن لوگوں کی جڑکاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظُلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العٰلمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑکاٹ دی)۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۴۵)
۲۷۔ بینائی و سماعت اللہ ہی عطا کرتا ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مُہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو؟ دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چُرا جاتے ہیں ۔ کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ کی طرف سے اچانک یا عَلانیہ تم پر عذاب آ جائے تو کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہو گا؟ ہم جو رسول بھیجتے ہیں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ نیک کردار لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والے اور بدکرداروں کے لیے ڈرانے والے ہوں ۔ پھر جو لوگ اُن کی بات مان لیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔ اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں سزا بُھگت کر رہیں گے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۴۹)
۲۸۔ نبیﷺ غیب کا علم نہیں رکھتے
اے نبیﷺ! ان سے کہو، ’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ‘‘۔ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ (الانعام۔ ۔ ۔ ۵۰)
۲۹۔ ایک کے ذریعہ دوسرے کی آزمائش
اور اے نبیﷺ! تم اس (علمِ وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو ان کا حامی و مددگار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں ۔ اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دُور نہ پھینکو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دُور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے ‘‘؟ ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے ؟ (الانعام۔ ۔ ۔ ۵۳)
۳۰۔ توبہ و اصلاح سے معافی مل جاتی ہے
جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ’’تم پر سلامتی ہے ۔ تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے ۔ (یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی بُرائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے ‘‘۔ اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۵۵)
۳۱۔ فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا، راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔ کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۵۷)
۳۲۔ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہو گی
کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے ۔ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کُھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمہیں اِسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ اپنے بندوں پر وہ پُوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے، پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں ۔ خبردار ہو جاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۶۲)
۳۳۔ خطرات سے اللہ ہی بچاتا ہے ۔
اے نبیﷺ! ان سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گِڑگڑا گِڑگڑا کر اور چُپکے چُپکے دُعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تُو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ __ کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ کہو، وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے ۔ ان سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں، ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے، عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہو جائے گا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۶۷)
۳۴۔ قرآن پر نکتہ چینی کرنے والوں کی محفل
اور اے نبیﷺ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑکر دوسری باتوں میں لگ جائیں ۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بُھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیزگار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا ان کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں ۔ چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ۔ ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چُھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکارِ حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۷۰)
۳۵۔ صور پھونکنے پر حشر برپا ہو گا
اے نبیﷺ! ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑکر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جب کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھِر جائیں ؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھِر رہا ہو دراں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آ، یہ سیدھی راہ موجود ہے ؟ کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دو، نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔ وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔ اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اس دن وہ ہو جائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے ۔ اور جس روز صُور پھونکا جائے گا اس روز بادشاہی اُسی کی ہو گی، وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالِم ہے اور دانا اور باخبر ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۷۳)
۳۶۔ ابراہیم ؑ کاقصہ ۔ : حقیقی رب کی تلاش
ابراہیم ؑکا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا ’’کیا تُو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ‘‘۔ ابراہیم ؑ کو ہم اسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے ۔ مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں ۔ پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب۔ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں ھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے ب۔ ڑا ہے ۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیم ؑپکار اٹھا۔ ’’اے برادرانِ قوم! میں اُن سب سے بے زار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو۔ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ‘‘۔ اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ’’کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھا دی ہے ۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ اور چاہے تو وہ ضرور ہو سکتا ہے، میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے ؟ اور آخر میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پرکوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے ؟ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ حقیقت میں تو امن اُنہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم ؑکو اُس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی۔ ہم جسے چاہتے ہیں بلند مرتبے عطا کرتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ تمہارا رب نہایت دانا اور علیم ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۸۳)
۳۷۔ آلِ ابراہیم ؑ کا ذکر
پھر ہم نے ابراہیم ؑکو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی (وہی راہِ راست جو) اُس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی۔ اور اسی کی نسل سے ہم نے داؤد ؑ، سلیمان ؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسٰی ؑ اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی)۔ اس طرح ہم نیکو کاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں ۔ (اُسی کی اولاد سے ) زکریاؑ، یحییٰ ؑ، عیسٰی ؑ اور الیاس ؑ کو (راہ یاب کیا)۔ ہر ایک ان میں سے صالح تھا۔ (اسی کے خاندان سے ) اسماعیل ؑ، الیسعؑ اور یونسؑ اور لوطؑ کو (راستہ دکھایا)۔ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے تمام دُنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ نیز ان کے آباء و اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لیے چُن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۸۷)
۳۸۔ د ینِ ابراہیم ؑکواختیار کرو
یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے ۔ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی۔ اب اگر یہ لوگ اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو (پروا نہیں ) ہم نے کچھ اور لوگوں کو یہ نعمت سونپ دی ہے جو اس سے منکر نہیں ہیں ۔ اے نبیﷺ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ و ہدایت کے ) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۹۰)
۳۹۔ مکہ، مرکز دنیا ہے
ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے ۔ ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسٰی ؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟__ بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑدو۔ (اُسی کتاب کی طرح) یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ۔ بڑی خیر و برکت والی ہے ۔ اُس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی۔ اور اس لیے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اس مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔ جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ (الانعام:۹۲)
۴۰۔ اللہ کے سامنے تن تنہا پیش ہونا ہے
اور اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جواللہ پرجُھوٹا بہتان گھڑے، یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے درآں حالے کہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلہ میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھا دوں گا؟ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈُبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’’لاؤ، نکالو اپنی جان، آج تمہیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے ‘‘۔ (اور اللہ فرمائے گا) ’’لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہو گئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا، جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑآئے ہو، اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے اُن سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تہمارے کام بنانے میں ان کا کبھی کچھ حصہ ہے، تمہارے آپس کے سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہو گئے جن کا تم زَعم رکھتے تھے ‘‘۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۹۴)
۴۱۔ اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے
دانے اور گُٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے ۔ وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے ۔ یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ پردۂ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے ۔ اسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے ۔ اسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے ۔ یہ سب اسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں ۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۹۷)
۴۲۔ اللہ ہی نے پانی برسایا اور نباتات اگائی
اور وہی ہے جس نے ایک جان سے تم کو پیدا کیا پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اُس کے سونپے جانے کی جگہ۔ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے ۔ پھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گُچھّے کے گُچھّے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جُھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جُلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں ۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بُوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۰۰)
۴۳۔ اللہ کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ کوئی شریکِ زندگی
وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریکِ زندگی ہی نہیں ہے ۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیزکا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیزکا کفیل ہے ۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگا ہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے ۔ دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آ گئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۰۴)
۴۴۔ جھوٹے خداؤں کو گالیاں نہ دو
اس طرح ہم اپنی آیات کو بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں ’’تم کسی سے پڑھ آئے ہو‘‘، اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان پر ہم حقیقت کو روشن کر دیں ۔ اے نبیﷺ! اُس وحی کی پیروی کیے جاؤ جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ اس ایک رب کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے ۔ اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو۔ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کر سکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے ۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالدار ہو۔ اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے، پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ۔
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگرکوئی نشانی (یعنی معجزہ) ہمارے سامنے آ جائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے ۔ اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ ’’نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں ‘‘ اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آ بھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگا ہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان نہیں لائے تھے ۔ ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۱۰)
۱۔ شیطان انسان اور شیطان جن
اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الّا یہ کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو (کہ یہ ایمان لائیں ) مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں ۔ اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں ۔ اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے ۔ پس تم انہیں ان کے حال پر چھوڑدو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں ۔ (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اس (خوشنما دھوکے ) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں __ پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے ؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے ) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔ تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۱۵)
۲۔ اکثریت کا اللہ کے ر استہ سے بھٹکانا
اور اے نبیﷺ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے ۔ وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ درحقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۱۷)
۳۔ ذبیحہ صرف اللہ کے نام کا حلال ہے
پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اُس کا گوشت کھاؤ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالتِ اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کر دیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کُن باتیں کرتے ہیں، ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کُھلے گنا ہوں سے بھی بچو اور چھپے گنا ہوں سے بھی، جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پا کر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے، شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۲۱)
۴۔ کافروں کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں
کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اِسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں، اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں ۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’’ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے ‘‘۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے ۔ قریب ہے وہ وقت جب یہ مجرم اپنی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۲۴)
۵۔ جب اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے
پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اُس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔ اس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی اُن لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے، حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات اُن لوگوں کے لیے واضح کر دیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں ۔ ان کے رب کے پاس اُن کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا سرپرست ہے اس صحیح طرزِ عمل کی وجہ سے جو اُنہوں نے اختیار کیا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۲۷)
۶۔ روزِ حشرشیاطین کا جواب
جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جِنوں (یعنی شیاطین جن) سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ ’’اے گروہِ جن! تم نے تو نوعِ انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا‘‘۔ انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے ’’پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے، اور اب ہم اُس وقت پر آ پہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا‘‘ اللہ فرمائے گا ’’اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے ‘‘۔ اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بے شک تمہارا رب دانا اور علیم ہے ۔ دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں ) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۲۹)
۷۔ روزِ حشر کافر وں کا اپنے خلاف گواہی دینا
(اس موقع پر اللہ ان سے یہ بھی پوچھے گا کہ)’’اے گروہِ جن و انس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے ‘‘؟ وہ کہیں گے ’’ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں ‘‘۔ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے ۔ (یہ شہادت اُن سے اس لیے لی جائے گی کہ یہ ثابت ہو جائے کہ) تمہارا رب بستیوں کو ظلم کے ساتھ تباہ کرنے والا نہ تھا جبکہ ان کے باشندے حقیقت سے ناواقف ہوں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۳۱)
۸۔ انسان کا درجہ اس کے عمل پر منحصر ہے
ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے اور تمہارا رب لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ۔ تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے ۔ اگر وہ اہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے ۔ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقینا آنے والی ہے اور تم خدا کو عاجز کر دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اے نبیﷺ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجامِ کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۳۵)
۹۔ مشرکین کا غیر اللہ کے لئے حصہ مقرر کرنا
اِن لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعمِ خود، اور یہ ہمارے ھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ۔ پھر جو حصہ اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے ۔ کیسے بُرے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ! (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۳۶)
۱۰۔ مشرکانہ جہالت والے کام
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مُبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انہیں چھوڑدو کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں ۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں، انہیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں، حالانکہ یہ پابندی ان کی خودساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام کر دی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر یہ اللہ کا نام نہیں لیتے، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے، عنقریب اللہ انہیں ان افتراپردازیوں کا بدلہ دے گا۔ اورکہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑلی ہیں ان کا بدلہ اللہ
انہیں دے کر رہے گا۔ یقیناً وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے ۔ یقیناً خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا اور اللہ کے دیے ہوئے رزق کو اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام ٹھیرا لیا۔ یقیناً وہ بھٹک گئے اور ہرگز وہ راہِ راست پانے والوں میں سے نہ تھے (الانعام:۱۴۰)
۱۱۔ بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے حلال ہیں
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صُورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں ۔ کھاؤ اور ان کی پیداوار جبکہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و باربرداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ اُن چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ یہ آٹھ نر و مادہ ہیں، دو بھیڑکی قسم سے اور دو بکری کی قسم سے ۔ اے نبیﷺ! ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں ؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے ۔ پوچھو، ان کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں ؟ کیا تم اُس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا؟ پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط رہنمائی کرے ۔ یقینا اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۴۴)
۱۲۔ غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الاّ یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سُور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز ان میں سے کھا لے ) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حدِ ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقینا تمہارا رب درگزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۴۵)
۱۳۔ یہودی شریعت :ناخن والے جانور حرام
اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اُس کے جو ان کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں ۔ اب اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو کہ تمہارے رب کا دامنِ رحمت وسیع ہے اور مجرموں سے اس کے عذاب کو پھیرا نہیں جا سکتا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۴۷)
۱۴۔ مشرکوں کی حجت پر اللہ کا جواب
یہ مشرک لوگ (تمہاری ان باتوں کے جواب میں ) ضرور کہیں گے کہ ’’اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے ‘‘۔ ایسی ہی باتیں بنا بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخرکار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا۔ ان سے کہو ’’کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کر سکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو‘‘۔ پھر کہو (تمہاری اس حجت کے مقابلہ میں ) ’’حقیقت رس حجت تو اللہ کے
پاس ہے، بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا‘‘۔ ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے ‘‘۔ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز اُن لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے ۔ اور جو آخرت کے منکر ہیں اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۵۰)
۱۵۔ اللہ کی عائد کردہ دس پابندیاں
اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں : (۱) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، (۲) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، (۳) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے، (۴) اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چُھپی، (۵) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔ (۶) اور یہ کہ مالِ یتیم کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رُشد کو پہنچ جائے ۔ (۷) اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ۔ (۸) اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ (۹) اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ (۱۰) نیز اُس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۵۳)
۱۶۔ قرآن دلیلِ روشن، ہدایت اور رحمت ہے
پھر ہم نے موسٰی ؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی (اور اس لیے بنی اسرائی کو دی گئی تھی کہ) شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں ۔ اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں کو دی گئی تھی اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے ۔ اور اب تم یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتے کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم اُن سے زیادہ راست رَو ثابت ہوتے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیلِ روشن اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے، اب اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور اُن سے منہ موڑے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۵۷)
۱۷۔ قرآن سے منہ موڑنے کی سزا
جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس روگردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزا دے کر رہیں گے ۔ کیا اب لوگ اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے فرشتے آکھڑے ہوں، یا تمہارا رب خود آ جائے، یا تمہارے رب کی بعض صریح نشانیاں نمودار ہو جائیں ؟ جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں نمودار ہو جائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ اے نبیﷺ! ان سے کہہ دو کہ اچھا، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۵۸)
۱۸۔ نیکی کا اجر دس گنا، بدی کا بدلہ اتنا ہی ہے
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے ۔ جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۶۰)
۱۹۔ جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے
اے نبیﷺ! کہو، میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑکا طریقہ جسے یکسُو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۶۳)
۲۰۔ جوکچھ ملا ہے اسی میں آزمائش ہے
کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے ؟ ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، اس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے ۔ (الانعام۔ ۔ ۔ ۱۶۵)
۲۱۔ قرآن کافروں کو وعید اور مومنوں کو نصیحت
سورہ اعراف : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ ا، ل، م، ص۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے نبیﷺ تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔ لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑکر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو __ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دِن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کر رہے تھے ۔ اور جب ہمارا عذاب اُن پر آ گیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۵)
۲۲۔ روز حشر اعمال کا وزن ہو گا
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے ۔ اور وزن اس روز عین حق ہو گا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔ ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (الاعراف:۱۰)
۲۳۔ ابلیس کا آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم ؑ کو سجدہ کرو۔ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ پوچھا، ’’تجھے کس چیزنے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا‘‘؟ بولا، ’’میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُسے مٹی سے ‘‘۔ فرمایا، ’’اچھا، تو یہاں سے نیچے اُتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے ۔ نکل جا کہ درحقیقت تو اُن لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ بولا، ’’مجھے اس دن تک مہلت دے جبکہ یہ سب دوبارہ اُٹھائے جائیں گے ‘‘۔ فرمایا، ’’تجھے مہلت ہے ‘‘۔ بولا، ’’اچھا تو جس طرح تُو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘۔ فرمایا، ’’نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت اُن سب سے جہنم کو بھر دوں گا (الاعراف:۱۸)
۲۴۔ جنت میں آدم ؑ و حواؑ کاشجر ممنوعہ کو چکھنا
اور اے آدم ؑ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ‘‘۔ پھر شیطان نے اُن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دُوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے ۔ اس نے اُن سے کہا ’’تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے ‘‘۔ اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔ اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخرکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستَر ایک دوسرے کے سامنے کُھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے ۔ تب ان کے رب نے انہیں پکارا ’’کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘؟ دونوں بول اٹھے ’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے ‘‘۔ فرمایا، ’’اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے ‘‘۔ اور فرمایا ’’وہیں تم کو جینا اور وہیں مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخرکار نکالا جائے گا‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۲۵)
۲۵۔ بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے
اے اولادِ آدم،ؑ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکنے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں ۔ اے بنی آدم ؑ، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مُبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور اُن کے لباس اُن پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے ۔ وہ اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان شیاطین کو ہم نے اُن لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۲۷)
۲۶۔ کھاؤ پیو مگر حد سے تجاوز نہ کرو
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟ اے نبیﷺ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رُخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص رکھ کر جس طرح اس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے ۔ ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں ۔ اے بنی آدمؑ، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۳۱)
۲۷۔ مہلت کی ایک مدت مقرر ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو، کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں ؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتہً انہی کے لیے ہوں گی۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں ۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو، کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں : بے شرمی کے کام __ خواہ کھلے ہوں یا چھپے __ اورگناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اُسی نے فرمائی ہے ۔ ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۳۴)
۲۸۔ جہنمی ایک دوسرے کو الزام دیں گے ۔
(اور یہ بات اللہ نے آغازِ تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ) اے بنی آدم ؑیاد رکھو، اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سُنا رہے ہوں، تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویہ کی اصلاح کرے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ آخر اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جُھوٹی باتیں گھڑکر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جُھٹلائے ؟ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ گھڑی آ جائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی رُوحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے ۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ ’’بتاؤ، اب کہاں ہیں تمہارے معبُود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے ‘‘؟ وہ کہیں گے کہ ’’سب ہم سے گُم ہو گئے ‘‘۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے ۔ اللہ فرمائے گا جاؤ، تم بھی اُسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہِ جن و انس جا چکے ہیں ۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہو گا، حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ جواب میں ارشاد ہو گا، ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہی ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔ اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا کہ (اگر ہم قابلِ الزام تھے ) تو تمہی کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۳۹)
۲۹۔ مجرموں کے لئے جہنم کا بچھونا ہو گا
یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے ۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے ۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہو گا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۴۱)
۳۰۔ نیک کام والے جنت میں رہیں گے
بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں __ اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں __ وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جوکچھ کدورت ہو گی اسے ہم نکال دیں گے ۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے ‘‘۔ اس وقت ندا آئے گی کہ ’’یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۴۳)
۳۱۔ اہلِ جنت کا دوزخ والوں سے مکالمہ
پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پُکار کر کہیں گے، ’’ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پایا جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اُن وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے رب نے کیے تھے ‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’ہاں ‘‘۔ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۴۵)
۳۲۔ جنت کے امیدواروں کا حال
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہو گی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے ۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘۔ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے ۔ اور جب اُن کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ’’اے رب، ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو‘‘۔ پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے ۔ اورکیا یہ اہلِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج‘‘ (الاعراف:۴۹)
۳۳۔ دوزخیوں کا جنت والوں سے رزق مانگنا
اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے کہ ’’اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرینِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقات کو بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکارکرتے رہے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۵۱)
۳۴۔ انجام دیکھ کر دنیا میں واپسی کی تمنا
ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔ اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آ جائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے ؟ جس روز وہ انجام سامنے آ گیا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے کہ ’’واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں ؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں ‘‘۔ انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے تصنیف کر رکھے تھے آج اُن سے گم ہو گئے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۵۳)
۳۵۔ زمین و آسمانوں کی چھ دنوں میں پیدا ئش
درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔ خبردار ہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۵۴)
۳۶۔ رب کو گڑگڑاتے ہوئے پکارو
اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۵۶)
۳۷۔ ہوا،بادل، بارش اور فصلیں
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں، تو انہیں کسی مردہ سرزمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر (اسی مری ہوئی زمین سے ) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے ۔ دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالتِ موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں (الاعراف۵۸)
۳۸۔ نوحؑ کے ساتھیوں کی کشتی میں نجات
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ‘‘۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو‘‘۔ نوحؑ نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں، تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے ۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاددہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے ‘‘؟ مگر اُنہوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور ان لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۶۴)
۳۹۔ قومِ عاد اورہود ؑکا قصہ
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود ؑکو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے ‘‘؟ اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے، جواب میں کہا ’’ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جُھوٹے ہو‘‘۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، میں بے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں، تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے ؟ بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنومند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے ‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑدیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو سچاہے ‘‘۔ اس نے کہا ’’تمہارے رب کی پِھٹکار تم پر پڑگئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ‘‘۔ آخرکار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود ؑاور اس کے ساتھیوں کو بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑکاٹ دی جو ہماری آیات کو جھٹلا چکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۷۲)
۴۰۔ قومِ ثمود اور صالحؑ کا قصہ
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے ۔ یہ اللہ کی اُونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اسے چھوڑدو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ۔ اس کو کسی بُرے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۷۴)
۴۱۔ اونٹنی کا قتل اورقومِ ثمود کی تباہی
اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کمزور طبقہ کے اُن لوگوں سے جو ایمان لے آئے تھے، کہا ’’کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالحؑ اپنے رب کا پیغمبرہے ‘‘؟ انہوں نے جواب دیا’’بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ‘‘۔ اُن بڑائی کے مدعیوں نے کہا ’’جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں ‘‘۔ پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرُّد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے، اورصالحؑ سے کہہ دیا کہ ’’لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے ‘‘۔ آخرکارایک دَہلا دینے والی آفت نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔ اور صالحؑ یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے میری قوم، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۷۹)
۴۲۔ قومِ لوطؑ کی تباہی کا ذکر
اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑکر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ آخرکار ہم نے لوطؑ اور اس کے گھر والوں کو __ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی __ بچاکر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۸۴)
۴۳۔ اہلِ مدین کو حضرت شعیبؑ کی تلقین
اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے ۔ لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔ اور (زندگی کے ) ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہو جاؤ۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔ اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘(الاعراف:۸۷)
۱۔ قومِ شعیبؑ کی تباہی کا احوال
اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ ’’اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا‘‘۔ شعیبؑ نے جواب دیا ’’کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ۔ ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الاّ یہ کہ خدا ہمارا رب ہی ایسا چاہے ۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اُسی پر ہم نے اعتماد کر لیا۔ اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تُو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۸۹)
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا ’’اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کر لی تو برباد ہو جاؤ گے ‘‘۔ مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے اُن کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے ۔ جن لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے ۔ شعیبؑ کے جھٹلانے والے ہی آخرکار برباد ہو کر رہے ۔ اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۹۳)
۲۔ اچانک عذابِ الٰہی کا سبب
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مُبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں ۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پُھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں ‘‘۔ آخرکار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑلیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جُھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑلیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں ؟ یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۹۹)
۳۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑسکتے ہیں ؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافُل برتتے ہیں ) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے ۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں ) اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے ۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ۔ ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۰۲)
۴۔ دربارِ فرعون میں عصائِ موسیٰ کا اژدہا بننا
پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسٰی ؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔ موسٰی ؑنے کہا ’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے ‘‘۔ فرعون نے کہا ’’اگر تُو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچاہے تو اسے پیش کر‘‘۔ موسٰی ؑنے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۰۸)
۵۔ جادوگروں کا حضرت موسیٰ سے شکست کھانا
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بیدخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو‘‘؟ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہرِ فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں ۔ چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے ۔ انہوں نے کہا ’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا‘‘؟ فرعون نے جواب دیا ’’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے ‘‘۔ پھر انہوں نے موسٰی ؑسے کہا۔ ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ‘‘؟ موسٰی ؑنے جواب دیا ’’تم ہی پھینکو‘‘۔ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگا ہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کر دیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے ۔ ہم نے موسٰی ؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۱۷)
۶۔ دربارِ فرعون میں جادوگروں کا قبولِ اسلام
اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے ) اُلٹے ذلیل ہو گئے ۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ’’ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اُس رب کو جسے موسٰی ؑ اور ہارون ؑ مانتے ہیں ‘‘۔ فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے ۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے ۔ تُو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۲۶)
۷۔ زمین کا وار ث اللہ اپنی مرضی سے بناتا ہے
فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا ’’کیا تُو موسٰی ؑاور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑدے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑبیٹھیں ؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے ‘‘۔ موسٰی ؑنے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی اُن ہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۲۹)
۸۔ فرعون کا قحط اور خوشحالی پر ردِّ عمل
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے ۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں، اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسٰی ؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھیراتے، حالانکہ درحقیقت اُن کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے ۔ انہوں نے موسٰی ؑسے کہا کہ ’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۳۲)
۹۔ طوفان، ٹڈّی دَل، مینڈک اور خو ن کی بارش
آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈّی دَل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں ۔ مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے ۔ جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے ’’اے موسٰی، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر، اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلاٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے ‘‘۔ مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے ۔ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جُھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۳۶)
۱۰۔ طاقتور کی جگہ کمزوروں کوحکمراں بنادیا
اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۳۷)
۱۱۔ بنی اسرائیل کی بت پرستی کی خواہش
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ’’اے موسٰی ؑ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ‘‘۔ موسٰی ؑنے کہا ’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔ یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے ‘‘۔ پھر موسٰی ؑنے کہا ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے ۔ اور (اللہ فرماتا ہے ) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی، جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۴۱)
۱۲۔ موسٰی ؑکا اللہ سے ہم کلا می، دیدار کی خواہش
ہم نے موسٰی ؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی۔ موسٰی ؑنے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارون ؑسے کہا کہ ’’میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑپیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا‘‘۔ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’اے رب! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں ‘‘۔ فرمایا تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑکی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا‘‘۔ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑپر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی ؑغش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ’’پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں ‘‘۔ فرمایا ’’اے موسٰی، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔ پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجا لا‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۴۴)
۱۳۔ شریعتِ موسوی ؑ اوراللہ کی ہدایت
اس کے بعد ہم نے موسٰی ؑکو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: ’’ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں، عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا۔ میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے ۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں ‘‘؟ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۴۷)
۱۴۔ قومِ موسٰی ؑ کا بچھڑے کے پتلے کو پوجنا
موسٰی ؑکے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے ۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ ’’اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے ‘‘۔ اُدھر سے موسٰی ؑغصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ آتے ہی اس نے کہا ’’بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے ‘‘؟ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون ؑ) کے سر کے بال پکڑکر اسے کھینچا۔ ہارون ؑ نے کہا ’’اے میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر‘‘۔ تب موسٰی ؑنے کہا ’’اے رب، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۵۱)
۱۵۔ برے عمل کے بعد توبہ و ایمان
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) ’’جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے ۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔ اور جو لوگ بُرے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۵۳)
۱۶۔ موسیٰؑ کا قوم کی طرف سے معافی مانگنا
پھر جب موسٰی ؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور اس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں ۔ جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسٰی ؑ نے عرض کیا ’’اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے ۔ کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے ؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں ۔ پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں ۔ اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا‘‘۔ جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۵۶)
۱۷۔ آخری پیغمبرﷺ کی پیروی میں فلاح ہے
)(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے ) جو اِس پیغمبر، بنی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے ۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۵۷)
۱۸۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں کے لئے نبی ہیں
اے محمدﷺ، کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے بنی اُمیّ پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی،امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۵۸)
۱۹۔ قومِ موسٰی ؑ : بارہ چشمے اور من و سلویٰ
موسٰی ؑکی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا۔ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی۔ اور جب موسٰی ؑسے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پُھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کر لی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اُتارا __ ’’کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں ‘‘۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۶۰)
۲۰۔ آسمان سے عذابِ الٰہی کا نزول
یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ ’’اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسبِ منشا روزی حاصل کرو اور حِطّۃ حِطّۃ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے ‘‘۔ مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اُس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۶۲)
۲۱۔ برائی سے روکنے والے بچا لئے گئے
اور ذرا ان سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سَبت ہی کے دن اُبھر اُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سَبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے ۔ اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے ‘‘۔ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں ‘‘۔ آخرکار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے، اورباقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑلیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ، ذلیل اور خوار۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۶۶)
۲۲۔ بنی اسرائیل پر قیامت تک عذاب ہو گا
اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ ’’وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے ‘‘۔ یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیزدست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے ۔ ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مُبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں ۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں ۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے ۔ آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ؟ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اَجر ہم ضائع نہیں کریں گے ۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑکو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۷۱)
۲۳۔ اللہ کی ربوبیت اور اولادِ آدمؑ کی گواہی
اور اے نبیﷺ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارارب نہیں ہوں ‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے ‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا‘‘؟ دیکھو، اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۷۴)
۲۴۔ آیاتِ ربّانی کو جھٹلانے والے کی مثال
اور اے نبیﷺ، ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑگیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جُھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کُتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑدو تب بھی زبان لٹکائے رہے ۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ کچھ غوروفکر کریں (الاعراف۱۷۶)
۲۵۔ غفلت میں کھوئے گئے جانوروں جیسے ہیں
بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جُھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں ۔ جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۷۹)
۲۶۔ اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو
اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑدو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔ میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑنہیں ہے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۸۳)
۲۷۔ اللہ رہنمائی نہ دے تو پھر کوئی رہنما نہیں
اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں ؟ ان کے رفیق پر جُنون کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو (برا انجام سامنے آنے سے پہلے ) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے ۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پرکبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو؟ پھر آخر پیغمبرﷺ کی اس تنبیہ کے بعد اور کونسی بات ایسی ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟__ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑدیتا ہے ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۸۶)
۲۸۔ اللہ جانتا ہے ،قیامت کب نازل ہو گی
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہو گی؟ کہو’’اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہو گا۔ وہ تم پر اچانک آ جائے گا‘‘۔ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پُوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو۔ کہو ’’اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ‘‘۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو کہ ’’میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۸۸)
۲۹۔ اللہ ہی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے ۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تُو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے ۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے ۔ اللہ بہت بلند و برتر ہے اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۹۲)
۳۰۔ خدا کے بندوں کو خدا ماننے والے
اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں ۔ تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی رہے ۔ تم لوگ خدا کو چھوڑکر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں ۔ کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سُنیں ؟ اے نبیﷺ، ان سے کہو کہ ’’بلا لو اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو، پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو، میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ۔ بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑکر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں، بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سُن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۱۹۸)
۳۱۔ شیطان اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو
اے نبیﷺ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُرا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے ۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے ) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اُنہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے (الاعراف۲۰۲)
۳۲۔ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو
اے نبیﷺ، جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟ ان سے کہو ’’میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے ۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں ۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے ‘‘۔ اے نبیﷺ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ (الاعراف۔ ۔ ۔ ۲۰۶)
۳۳۔ اللہ کا ذکر اور مومنین کے د ل کی حالت
سورۃ الانفال :اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو ’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے ہیں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے ۔ (اِس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑرہے تھے دراں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۶)
۳۴۔ مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے
یاد کرو وہ موقع جبکہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے ۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑکاٹ دے تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اور وہ موقع جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں ۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ۔ یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے ۔ (الانفال:۱۰)
۳۵۔ جو اللہ اوراس کے رسول کا مقابلہ کرے
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے ۔ اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑجوڑپر چوٹ لگاؤ‘‘۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اوراس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اُس کے لیے نہایت سخت گیر ہے __ یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزا چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۱۴)
۳۶۔ چال کے طور پرمیدانِ جنگ سے فرار
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری __ الاّ یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے __ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور اے نبیﷺ تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کا م میں استعمال کیے گئے ) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے ۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے ۔ (ان کافروں سے کہہ دو) ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۱۹)
۳۷۔ جولوگ عقل سے کام نہیں لیتے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے ۔ یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۲۳)
۳۸۔ فتنہ گناہ گاروں تک محدود نہیں رہتا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ا للہ اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں ۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۲۸)
۳۹۔ اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یاقتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں ۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چال رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ۔ (الانفال:۳۰)
۴۰۔ اصلی دیوالیے کون لوگ ہیں
جب اُن کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ’’ہاں سُن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں ‘‘۔ اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ ’’خدایا، اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ‘‘ اُس وقت تو اللہ اُن پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفارکر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے ۔ لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں ۔ اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہو سکتے ہیں، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ۔ بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ؟ بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں ۔ پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔ جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے، مگر آخرکار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پُلندے کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۳۷)
۴۱۔ اللہ بہترین مددگار ہے
اے نبیﷺ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اُسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گذشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے ۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے ۔ (الانفال۔ ۔ ۔ ۴۰)
پارہ 10 کے مضامین
۱۔ مالِ غنیمت کی تقسیم
اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اُس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولﷺ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اُس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، (تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو)۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(الانفال....۱۴)
۲۔ جس بات کا فیصلہ اللہ کرلے
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑا ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہوچکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلوتہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے اور جاننے والا ہے۔(الانفال....۲۴)
اور یاد کرو وہ وقت جب کہ اے نبی، خدا ان کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر کہیں وہ تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور اُن کی نگاہوں میں تمہیںکم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخرکار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ (الانفال....۴۴)
۳۔مقابلہ میں ثابت قدم رہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور ان لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اُس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پا¶ں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے،
میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔(الانفال....۸۴)
۴۔نعمت کی تبدیلی اور اللہ کی سنت
جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مُبتلا کر رکھا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے۔ وہ ان کے چہروں، اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ”لو اب جلنے کی سزا بھگتو، یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“۔ یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم
کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ا نہیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کردیا۔یہ سب ظالم لوگ تھے۔ (الانفال....۴۵)
۵۔سب سے بد تر مخلوق
یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ (خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں اُن کے حواس باختہ ہوجائیں۔ توقع ہے بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الانفال....۸۵)
۶۔مقابلہ کی تیاری اور طاقت کا حصول
منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداءکو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہوگا۔ (الانفال....۰۶)
۷۔اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو
اور اے نبیﷺ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جا¶ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ اے نبیﷺ تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے۔(الانفال....۴۶)
۸۔ کم مومنین زیادہ کافروں پر بھاری ہیں
اے نبیﷺ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تومنکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ ا چھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔(الانفال....۶۶)
۹۔جنگی قیدیوں سے سلوک
کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوںکو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ ا گر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھا¶ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے نبی، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں اُن سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میںکچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آگئے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم ہے۔ (الانفال....۱۷)
۰۱۔ انصار و مہاجرین کا باہمی تعلق
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیںاور اپنے مال کھپائے، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں) آنہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔ (الانفال....۳۷)
جولوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطا¶ں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے، اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آگئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الانفال....۵۷)
۱۱۔مشرکین سے معاہدہ
سُورة التوبة : اعلان برا¿ت ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے۔اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسولﷺ بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کرلو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبیﷺ، انکار کرنے والوںکو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو، بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ....۴)
۲۱۔ پناہ کے طلب گار مشرکین کی حفاظت
پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پا¶ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو انہیں چھوڑ دو۔ اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے ضامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ (التوبہ....۶)
۳۱۔عہد شکن کافروں سے جنگ کرو
ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ __بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے ۔مگر اُن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہدکیسے ہو سکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا۔ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی پھر اللہ کے راستے میں سدراہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کفر کے علم برداروں سے جنگ کرو کیونکہ اُن کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے۔ (التوبہ....۲۱)
۴۱۔مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جا¶ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اُس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسولﷺ اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ (التوبہ....۶۱)
۵۱۔مشرکین اور مومنین برابر نہیں ہیں
مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مُجاور و خادم بنیں درآں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مُجاور و خادم) تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر کو مانیں، اور نماز قائم کریں، زکوٰة دیں، اور ا للہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ان ہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے ہاں تو اُنہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ (التوبہ....۲۲)
۶۱۔کافر عزیزوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنا¶
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنا¶ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیﷺ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ....۴۲)
۷۱۔ غزوہ¿ حنین میں اللہ کے نادیدہ لشکر
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ¿ حنین کے روز (اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)۔ اُس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔ پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ....۷۲)
۸۱۔ مسجدِ حرام میں مشرکین داخل نہ ہوں
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مشرکین ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔ (التوبہ....۸۲)
۹۱۔ اہلِ کتاب سے جنگ اور جزیہ
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ (التوبہ....۹۲)
۰۲۔سونا چاندی جمع کرنے والے
یہودی کہتے ہیں کہ عُزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماءاور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلو¶ں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔__ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ (التوبہ....۵۳)
۱۲۔ماہِ حرام کو حلال ٹھہرانے والے
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ َنسیِ تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں __ ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں فرماتا۔(التوبہ....۷۳)
۲۲۔ جہاد کرو اپنے جان و مال کے ساتھ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دُوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ”غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔ اس وقت اللہ نے اُس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے،
اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے __ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (التوبہ....۱۴)
۳۲۔جہاد سے رخصت چاہنے والے
اے نبیﷺ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔اے نبیﷺ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میںشک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں۔ (التوبہ....۵۴)
اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں سُست کر دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ ”مجھے رخصت دے دیجےے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے“ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ (التوبہ....۹۴)
۴۲۔فاسق لوگوں کا راہِ خدا خرچ کرنا
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا۔ ان سے کہو ”ہمیں ہرگز کوئی (بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے“۔ان سے کہو، ”تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں“۔ (التوبہ....۲۵)
ان سے کہو ”تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے۔ کیونکہ تم فاسق لوگ ہو“۔ ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کے مال و دولت اور ان کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھا¶، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق ہی کی حالت میں دیں۔ (التوبہ....۵۵)
۵۲۔اللہ اور رسول کی عطا پر راضی رہنا
وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گُھس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اس میں جا چُھپیں۔اے نبیﷺ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں، اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسولﷺ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ ”اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسولﷺ بھی ہم پر عنایت فرمائے گا، ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں“۔ (التوبہ....۹۵)
۶۲۔زکوٰة کے حقیقی مصارف
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ (التوبہ....۰۶)
۷۲۔ اللہ کے رسولﷺ کو دکھ دینے والے
ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو، ”وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسولﷺ کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے“۔یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ اُن کو راضی کرنے کی فکر کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کرتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ (التوبہ....۳۶)
یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو، ”اور مذاق اُڑا¶، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو“۔ اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ان سے کہو ”کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسولﷺ ہی کے ساتھ تھی؟ اب عُذرات نہ تراشو۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دُوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے“۔ (التوبہ....۶۶)
۸۲۔منافق مرد اور منافق عورتیں
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بُھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے __ تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش رو¶ں کے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے۔ پھر اُنہوں نے دنیا میں اپنے حصے کے مزے لُوٹے تھے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اُسی طرح لُوٹے جیسے انہوں نے لُوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سو ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میںاُن کا سب کیا دھرا ضائع ہوگیا اور وہی خسارے میں ہیں __ کیا ان
لوگوں کو اپنے پیش رو¶ں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مَدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا۔ ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ (التوبہ....۰۷)
۹۲۔مومن مرد اور مومن عورتیں
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکےم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ....۲۷)
۰۳۔کفار اور منافقین کا مقابلہ
اے نبیﷺ، کفار اور منافقین دونوںکا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ¶۔ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے نا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا ہے! اب اگر یہ اپنی روش سے باز آئیں تو انہی کے لیے بہتر ہے، اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔ (التوبہ....۴۷)
۱۳۔ دولت ملنے پر بخیلی کرنے والے
ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کر دیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اُس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اُس کے حضور اُن کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں۔ اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟ (وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور اُن لوگوںکا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہِ خدا میں دینے کے لیے) اُس کے سوا کچھ نہیں
ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔ اللہ ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبیﷺ، تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (التوبہ....۰۸)
۲۳۔فاسقوں کو مال و اولاد کے ذریعہ سزا
جن لوگوںکو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیںگوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ”اس سخت گرمی میں نہ نکلو“۔ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے)۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا ”اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑسکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں ہی کے ساتھ بیٹھے رہو“۔(التوبہ....۳۸)
اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اِسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ (التوبہ....۵۸)
۳۳۔جان و مال سے جہاد کرنے والے
جب کبھی کوئی سُورة اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجےے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔ بخلاف اس کے رسولﷺ نے اور ان لوگوں نے جو رسولﷺ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔ (التوبہ....۹۸)
۴۳۔ ضعیف اور بیمار لوگ جہاد سے مثتثنی ہیں
بدوی عربوں میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ (التوبہ....۰۹)
ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے زادِ راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وفادار ہوں۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ البتہ اعتراض اُن لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواست کرتے ہیں کہ اُنہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)۔ (التوبہ....۳۹)
پارہ ۔11 کے مضامین
۱۔اللہ فاسق لوگوں سے راضی نہ ہوگا
تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے۔ مگر تم صاف کہہ دینا کہ ”بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتادیئے ہیں۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھے گا، پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جا¶ گے جو کھلے اور چُِھپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔“ تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شک تم ان سے صَرفِ نظر ہی کرلو، کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہوگی۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہوجا¶۔ حالانکہ اگر تم اِن سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہوگا۔(سورة التوبة....۶۹)
۲۔اللہ کی قربت کے لیے خرچ کرنا
یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیا ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ان بدویوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کررہے ہیں (کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلاوہ اتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کس دیا ہے)۔ حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسولﷺ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقینا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(التوبة....۹۹)
۳۔جونفاق میںطاق ہوگئے
وہ مہاجر و انصار جنہوںنے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پرلبیک کہنے میں سبقت کی،نیز وہ جو بعد میںراست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میںہمیشہ رہیںگے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ تمہارے گردوپیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اِسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جونفاق میںطاق ہوگئے ہیں۔ تم انہیں نہیںجانتے، ہم ان کو جانتے ہیں۔ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ (التوبة....۱۰۱)
۴۔اپنے قصوروں کا اعتراف کرنے والے
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیںکہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے کیونکہ وہ درگزرکرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے نبی ﷺ، تم ان کے اموال میںسے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھا¶ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو، کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہِ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُن کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے(سورة التوبة....۴۰۱)
۵۔اللہ کُھلے اورچُھپے سب کو جانتا ہے
اور اے نبی ﷺ،ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولﷺ اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِعمل اب کیا رہتا ہے، پھر تم اس کی طرف پلٹائے جا¶ گے جو کُھلے اور چُِھپے سب کو جانتا ہے،اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھیرا ہوا ہے، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے ان پر ازسرِنو مہربان ہوجائے۔اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔(سورة التوبة....۶۰۱)
۶۔ خوفِ خدا اور اللہ کی رضا
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ (دعوت حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے) کفر کریں، اور اہل ایمان میں پُھوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عباد ت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اِس سے پہلے خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف برسرِپیکار ہوچکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھاکر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا کسی دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں۔ تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کوپاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔ پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جاگری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی (جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہوجائیں۔ اللہ نہایت باخبر اور حکیم و دانا ہے( التوبة:۰۱۱)
۷۔ اللہ نے مومنوں کے مال و نفس خریدلیے
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراة اور انجیل اور قرآن میں۔ اورکون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منا¶ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکالیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے،اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیﷺ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔ (سورة التوبة....۲۱۱)
۸ ۔ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو
نبی ﷺ کو اور ان لوگوںکو جو ایمان لائے ہیں،زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ ابراہیمؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کادشمن ہے تو وہ اس سے بے زار ہوگیا، حق یہ ہے کہ ابراہیمؑ بڑا رقیق القلب و خداترس اور بردبار آدمی تھا۔(سورة التوبة....۴۱۱)
۹۔ زندگی و موت اللہ ہی کے اختیار میں ہے
اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کردے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ درحقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضہ میں زمین اور آسمانوں کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیںاس سے بچاسکے۔اللہ نے معاف کردیا نبی ﷺ کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی ﷺ کا ساتھ دیا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچلے تھے، (مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی ﷺ کا ساتھ دیا تو) اللہ نے انہیں معاف کردیا، بے شک اس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کردیا گیا تھا۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں، یقینا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ (سورة التوبة....۸۱۱)
۰۱۔ محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیںجاتا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ مدینے کے باشندوں اور گردونواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہوکر اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔ اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کہ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے اُس پر کوئی قدم وہ اٹھائیں، اور کسی دشمن سے (عداوت حق کا) کوئی انتقام وہ لیں،اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عملِ صالح نہ لکھا جائے ۔ یقینا اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیںجاتا ہے۔اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہوگا کہ وہ (راہ خدا میں) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ اٹھائیں اور (سعی جہاد میں) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطاکرے۔(سورة التوبة....۱۲۱)
۱۱۔ دین کی سمجھ کے حصول کے لیے نکلنا
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کوخبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔( التوبة:۲۲۱)
۲۱۔ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں۔ اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں، اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ جب کوئی نئی سُورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ ”کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟“ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میںتو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں، البتہ جن لوگوںکے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا ان کی سابق نجاست پر (ہر نئی سورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کردیا اور وہ مرتے دم تک کفرہی میں مبتلا رہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے،پھر چپکے سے نکل بھاگتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیئے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔(سورة التوبة....۷۲۱)
۳۱۔ رسولِ خدا ہماری فلاح چاہتے ہیں
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میںپڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوںکے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیﷺ، ان سے کہہ دو کہ ”میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پرمیں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا“۔ ( التوبة....۹۲۱)
۴۱۔ آسمانوں اور زمین کی چھ دنوں میں تخلیق
سورة یونس :اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ا ل ر، یہ اس کتاب کی آیات ہیںجو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ (اس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کُھلا جادوگر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت ِسلطنت پر جلوہ گر ہوکر کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے الّایہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو۔ پھر کیا تم ہوش میں نہ آ¶ گے؟ (ونس....۳)
۵۱۔ اللہ ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا
اُسی کی طرف سے تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو انصاف کے ساتھ جزا دے،اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ کھولتا ہوا پانی پئیںاور دردناک سزا بھگتیں اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے( یونس:۴)
۶۱۔ سورج کو روشنی اور چاند کو چمک دی گئی
وہی ہے جس نے سورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کوچمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کردیں تاکہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ برحق ہی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کررہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ یقینا رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں۔(سورة یونس....۶)
۷۱۔ دنیا کی زندگی پر مطمئن رہنے والے لوگ
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہوگا ان برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرزعمل کی وجہ سے) کرتے رہے۔(سورة یونس....۸)
۸۱۔ نیک لوگوں کے لیے نعمت بھری جنت
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کرلیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی، وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ ”پاک ہے تو اے خدا“، ان کی دعا یہ ہوگی کہ ”سلامتی ہو“ اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ”ساری تعریف اللہ رب العٰلمین ہی کے لیے ہے“۔ (سورة یونس....۰۱)
۹۱۔ اللہ سرکش لوگوں کو چھوٹ دیتا ہے
اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اُتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مُہلتِ عمل کبھی کی ختم کردی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میںبھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں۔انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیئے گئے ہیں۔ لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا جب انہوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور ان کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لاکر ہی نہ دیا۔ اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اب اُن کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔(سورة یونس....۴۱)
۰۲۔ اللہ کی آیات کو جُھوٹاکہنے والے
جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ”اس کے بجائے کوئی اور قرآن لا¶ یا اس میں کچھ ترمیم کرو“۔ اے نبی ﷺ، ان سے کہو ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کرلوں۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوںجو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے“۔ اورکہو ”اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جُھوٹا قرار دے۔ یقینا مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے“۔(سورة یونس....۷۱)
۱۲۔ مختلف عقیدے اور مسلک بعد میں بنے
یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کررہے ہیںجو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو ”کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں“؟ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ابتدائًً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے ہیں اُس کا فیصلہ کردیا جاتا۔اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس نبی ﷺ پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی، تو ان سے کہو ”غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں“۔(سورة یونس....۰۲)
۲۲۔ دنیا کی زندگی کے مزے چند روزہ ہیں
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم اُن کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چالبازیاں شروع کردیتے ہیں۔ان سے کہو ”اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اُس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کررہے ہیں“۔ وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوکر باد ِموافق پر فرحاں و شاداں سفر کررہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِمخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میںگھرگئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کرکے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ”اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکرگزار بندے بنیں گے“۔ مگر جب وہ ان کو بچالیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہوکر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت تمہارے ہی خلاف پڑرہی ہے۔ دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ (سورة یونس....۳۲)
۳۲۔ زمین کی پیداوار، قادرِ مطلق کون؟
دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہوکر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی، پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پرقادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کرکے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ (تم اس ناپائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہورہے ہو) اور اللہ تمہیں دارالسلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ہدایت اس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔(سورة یونس....۵۲)
۴۲۔ مشرکین ،ان کے معبود اور قیامت
جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔ ان کے چہروں پرروسیاہی اور ذلت نہ چھائے گی۔ وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں اُن کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلت ان پر مسلط ہوگی، کوئی اللہ سے اُن کو بچانے والا نہ ہوگا، اُن کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جا¶ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم اُن کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹادیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ ”تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے“۔ اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیئے جائیںگے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوںنے گھڑ رکھے تھے گُم ہوجائیں گے۔(سورة یونس....۰۳)
۵۲۔ سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک
ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندارمیں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظم عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟ تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا آخریہ تم کدھر پھرائے جارہے ہو؟ (اے نبی ﷺ دیکھو)اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پرتمہارے رب کی بات صادق آگئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔ (سورة یونس....۳۳)
۶۲۔ تخلیق کی ابتدا اور پھر اس کا اعادہ
ان سے پوچھو، تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟.... کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس الٹی راہ پر چلائے جارہے ہو؟ان سے پوچھو تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔پھر بھلا بتا¶، جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الاّیہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہوکیا گیا ہے، کیسے الٹے الٹے فیصلے کرتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ ان میںسے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں،حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔(سورة یونس....۶۳)
۷۲۔ قرآن پیغمبر ﷺکی تصنیف نہیں
اور یہ قرآن وہ چیز نہیںہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کرلیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے؟” اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سُورة اس جیسی تصنیف کرلا¶ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلاسکتے ہو مدد کے لیے بلالو“۔اصل یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میںنہیں آئی اور جس کا مال بھی ان کے سامنے نہیں آیا، اس کو انہوںنے (خواہ مخواہ اٹکل پچّو) جُھٹلادیا۔ اسی طرح تو اس سے پہلے کے لوگ بھی جُھٹلاچکے ہیں، پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیںلائیں گے اور تیرا رب ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔(یونس....۰۴)
۸۲۔ ہر ایک کا عمل اسی کے لیے ہے
اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ ”میرا عمل میرے لیے ہے اورتمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کررہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں“۔ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں، مگر کیا تو بہروںکو سنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ اُنہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوںپر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے۔ (اس وقت تحقیق ہوجائے گا کہ) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوںنے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ راہ راست پر نہ تھے۔جن بُرے نتائج سے ہم انہیںڈرارہے ہیں اُن کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھادیں یا اُس سے پہلے ہی تجھے اٹھالیں، بہرحال انہیں آنا ہماری طرف ہی ہے اور جو کچھ یہ کررہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔(سورة یونس....۶۴)
۹۲۔ ہر اُمت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے
ہر اُمت کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب کسی اُمت کے پاس اُس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیاجاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیاجاتا۔کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پُوری ہوگی؟ کہو ”میرے اختیار میں تو خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیت پرموقوف ہے۔ ہر اُمت کے لیے مہلت کی ایک مدت ہے، جب یہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی“ ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے(تو تم کیا کرسکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کو ن سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟ کیا جب وہ تم پر آپڑے اسی وقت تم اسے مانوگے؟.... اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کررہے تھے! پھر ظالموں سے کہاجائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کا مزا چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جاسکتا ہے؟ پھر پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو ”میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے، اور تم اتنا بل بُوتا نہیںرکھتے کہ اسے ظُہور میںآنے سے روک دو“۔ (سورة یونس....۳۵)
۰۳۔ ظالم عذاب دیکھ کر پچھتائیں گے
اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، روئے زمین کی دولت بھی ہو تو اس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اُسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہوجائے گا۔ جب یہ لوگ اُس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میںپچھتائیں گے۔ مگر ان کے درمیان پورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، کوئی ظلم ان پر نہ ہوگا۔ سنو! آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، اللہ کا ہے۔ سُن رکھو! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔(یونس....۶۵)
۱۳۔ دلوں کے امراض کی شفا کس چیز میں ہے
لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ﷺ، کہو کہ ”یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں“۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو ”تم لوگوںنے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرالیا“! ان سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کررہے ہو؟ جولوگ اللہ پر یہ جھوٹا افتراءباندھتے ہیں ان کا کیاگمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہوگا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔ (سورة یونس....۰۶)
۲۳۔ اللہ کے دفتر میں سب کچھ درج ہے
اے نبی ﷺ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اُس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرّہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے،نہ چھوٹی نہ بڑی،جوتیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔ سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں،جو ایمان لائے اور جنہوںنے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اوررنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اُن کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبیﷺ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (سورة یونس....۵۶)
۳۳۔ اللہ نے رات کو آرام کے لیے بنایا
آگا ہ رہو!آسمانوں کے بسنے والے ہو یا زمین کے سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوںکو پکاررہے ہیں وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اورمحض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (کُھلے کانوں سے پیغبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں۔(سورة یونس....۷۶)
۴۳۔ اللہ پر جھوٹے افتراءباندھنے والے
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔سبحان اللہ!وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میںجو کچھ ہے سب اس کی مِلک ہے۔ تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر دلیل کیاہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟ اے نبی ﷺ،کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتراءباندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پاسکتے۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کرلیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے، پھر ہم اس کفرکے بدلے جس کا ارتکاب وہ کررہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔(سورة یونس....۰۷)
۵۳۔ نوح ؑ کی کشتی میںسوارلوگ بچالیے گئے
ان کو نوح ؑ کا قصہ سنا¶، اُس وقت کا قصہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ”اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اوراللہ کی آیات سنا سناکر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے تو میرابھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کرلو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اُس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اُس کو عمل میں لے آ¶ اور مجھے ہرگزمہلت نہ دو۔ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا (تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اورمجھے حکم دیاگیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں“....انہوںنے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور ان لوگوںکو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچالیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کردیا جنہوںنے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوںنے مان کر نہ دیا) ان کا کیا انجام ہوا۔پھر نوح ؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو انہوںنے پہلے جھٹلادیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزرجانے والوںکے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔ ( یونس....۴۷)
۶۳۔ جادوگر فلاح نہیں پایا کرتے
پھر ان کے بعد ہم نے موسٰی ؑ اور ہارونؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوںنے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔ پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انہوںنے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔موسٰی ؑنے کہا”تم حق کو یہ کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادوگر فلاح نہیںپایا کرتے“۔ انہوںنے جواب میں کہا ”کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہوجائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں“۔ اور فرعون نے (اپنے آدمیوں سے) کہاکہ ”ہر ماہر فن جادوگر کومیرے پاس حاضر کرو“۔.... جب جادوگر آگئے توموسٰی ؑنے ان سے کہا ”جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو“۔پھر جب انہوںنے اپنے آنچھر پھینک دیئے تو موسٰی ؑنے کہا ”یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے، اللہ ابھی اسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سدھرنے نہیں دیتا، اوراللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کردکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو“۔(سورة یونس....۲۸)
۷۳۔قومِ موسٰی ؑ کامصر میں قیام
(پھر دیکھو کہ) موسٰی ؑکو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اورخود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میںمبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میںغلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھاجو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں۔موسٰی ؑنے اپنی قوم سے کہاکہ ”لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو“۔ انہوںنے جواب دیا ”ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے“۔اور ہم نے موسٰی ؑاور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ”مصرمیںچند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اوراپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرالو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو“۔( یونس....۷۸)
۸۳۔ فرعون کے خلاف موسٰی ؑ کی دعا کی قبولیت
موسٰی ؑنے دعا کی ”اے ہمارے رب تونے فرعون اور اُس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔ اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوںکو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کردے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں“۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ”تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“۔(سورة یونس....۹۸)
۹۳۔ فرعون کی لاش برائے عبرت محفوظ کی گئی
اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اُس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے اُن کے پیچھے چلے۔حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ”میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِاطاعت جھکادینے والوں میں سے ہوں“۔ (جواب دیاگیا) ”اب ایمان لاتا ہے! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد کرنے والوںمیں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیںجو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں“۔ ( یونس....۲۹)
۰۴۔بنی اسرائیل کو عمدہ وسائلِ زندگی ملی
ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور نہایت عمدہ وسائلِ زندگی کی انہیں عطا کیے۔ پھر انہوںنے باہم اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جبکہ علم ان کے پاس آچکا تھا۔ یقینا تیرا رب قیامت کے رو ز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اب اگر تجھے اس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پرنازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے، لہٰذا تو شک کرنے والوںمیں سے نہ ہو، اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنہوںنے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے، ورنہ تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔(سورة یونس....۵۹)
۱۴۔جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آگیا ہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آجائے وہ کبھی ایمان لاکر نہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔پھرکیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونس ؑکی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میںرسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔اگرتیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میںسب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟ کوئی متنفس اللہ کے اِذن کے بغیر ایمان نہیںلاسکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ اُن پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ (سورة یونس....۰۰۱)
۲۴۔جو لوگ ایمان لانا ہی نہیںچاہتے
ان سے کہو ”زمین اور آسمان میںجو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو“۔ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیںچاہتے ان کے لیے نشانیاں اورتنبیہیںآخر کیا مفید ہوسکتی ہیں؟اب یہ لوگ اس کے سوا اور کسی چیز کے منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں؟ ان سے کہو”اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں“۔ پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو) ہم اپنے رسولوںکو اور ان لوگوں کو بچالیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچالیں۔( یونس....۳۰۱)
۳۴۔ مصیبت و فضل سب مِن جانب اللہ ہے
اے نبی ﷺ، کہہ دو کہ ”لوگو، اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سُن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اُسی خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ اورمجھے سے فرمایاگیا ہے کہ یکسو ہوکر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اس دین پر قائم کردے، اور ہرگز ہرگزمشرکوں میں سے نہ ہو۔ اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، اگر تو ایسا کرے گاتو ظالموں میں سے ہوگا۔اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیںجو اس مصیبت کو ٹال دے،اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اوروہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“۔(سورة یونس....۷۰۱)
۴۴۔ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
اے محمد ﷺ،کہہ دو کہ ”لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے۔اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے،اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اُسی کے لیے تباہ کن ہے۔اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں “۔ اور اے نبیﷺ ، تم اُس ہدایت کی پیروی کیے جا¶ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جارہی ہے،اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس....۹۰۱)
۵۴۔ اللہ سینوں میں چھپے بھید بھی جانتا ہے
سورة ہود : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے ولا ہے۔ ا ل ر۔ فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اورمفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آ¶ تووہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اُس کا فضل عطا کرے گا۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ دیکھو، یہ لوگ اپنے سینوں کوموڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔خبردار، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چُھپے کو بھی جانتا ہے اورکھلے کو بھی،وہ تو اُن بھیدوںسے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔(سورة ھود....۵)
۱۔ ہر جاندارکا رزق اللہ کے ذمہ ہے
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے، اور کہاں وہ سونپاجاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفترمیں درج ہے۔اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میںپیداکیا .... جبکہ اس سے پہلے اُس کا عرش پانی پر تھا.... تاکہ تم کو آزماکردیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔اب اگر اے نبی ﷺ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جا¶ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے۔ اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گااور وہی چیز ان کو آگھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑاہے ہیں۔(سورة ھود....۸)
۲۔اللہ کی رحمت سے محرومی پر ناشکری نیکی نہیں
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اُس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پارہوگئے، پھر وہ پھولا نہیںسماتا اوراکڑنے لگتا ہے۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔(سورة ھود....۱۱)
۳۔قرآن جیسی سورتیں کوئی نہیں بنا سکتا
تو اے پیغمبر ﷺ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کرنے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جارہی ہیں اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے ”اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا؟“ یا یہ کہ ”اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوںنہ آیا؟“، تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ داراللہ ہے۔کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرﷺ نے یہ کتاب خود گھڑلی ہے؟ کہو، ”اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لا¶ اوراللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلاسکتے ہو توبُلالو اگر تم (اُنہیں معبود سمجھنے میں)سچے ہو۔ اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کرتے ہو؟“ (سورة ھود....۴۱)
۴۔ طالبِ دنیا کو صرف دنیا ملتی ہے آخرت نہیں
جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہوجائے گاکہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔(سورة ھود....۶۱)
۵۔ اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اُس شہادت کی تائید میں) آگیا، اور پہلے موسٰی ؑکی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پرایمان ہی لائیں گے۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبرﷺ، تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا۔(سورة ھود....۸۱)
۶۔ اندھا، بہرا اور دیکھنے ،سُننے والابرابر نہیں
سنو! خدا کی لعنت ہے ظالموںپر .... اُن ظالموںپر جو خدا کے راستے سے لوگوںکو روکتے ہیں،اُس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں، اور آخرت سے انکار کرتے ہیں .... وہ زمین میںاللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا۔ انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا۔ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیںجنہوںنے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ ان سے کھویاگیا جو انہوںنے گھڑ رکھا تھا۔ ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہوکر رہے، تو یقینا وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا، بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہوسکتے ہیں؟ کیا تم (اس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟ (سورة ھود....۴۲)
۷۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا، نوح ؑ
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ (اس نے کہا) ”میں تم لوگوںکو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا“۔ جواب میں اس کی قوم کے سردار، جنہوںنے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے ”ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذِل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کرلی ہے۔ اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں“۔ اس نے کہا ”اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھے کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں؟ اور اے برادرانِ قوم، میں اس کام میں تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوںنے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ اور اے قوم، اگرمیں ان لوگوںکو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟ اورمیں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔ا ور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایساکہوں تو ظالم ہوں گا“۔(سورة ھود....۱۳)
آخرکار اُن لوگوں نے کہاکہ ”اے نوحؑ،تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کرلیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آ¶ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو“۔ نوحؑ نے جواب دیا ”وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کرلیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے“۔اے نبیﷺ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو ”اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جُرم تم کررہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں“۔ (ھود....۵۳)
۸ ۔ نوح ؑ کو کشتی بنانے کا حکم
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے، بس وہ لاچکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کردو۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔ نوح ؑکشتی بنارہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا ”اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں، عنقریب تمہیںخود معلوم ہوجائے گا کہ کس پروہ عذاب آتا ہے جو اُسے رسوا کردے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی“۔(ھود....۹۳)
۹۔ نوح ؑ کی کشتی میںہر قسم کے جانوررکھے گئے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ”ہر قسم کے جانوروںکا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھروالوں کو بھی .... سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جاچکی ہے.... اس میں سوار کرا دو اور اُن لوگوں کو بھی بٹھالو جو ایمان لائے ہیں“۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوح نے کہا ”سوار ہوجا¶ اس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے“۔(ھود....۱۴)
۰۱۔ نوح ؑ کابیٹا کشتی میں سوارنہیں ہوا
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جارہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوحؑ نے پکار کر کہا ”بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا، کافروں کے ساتھ نہ رہ“۔ اس نے پلٹ کر جواب دیا ”میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچالے گا“۔ نوح نے کہا ”آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے“۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔(سورة ھود....۳۴)
۱۱۔ بیٹے کے لئے نوح ؑ کی دعا رَد ہو گئی
حکم ہوا ”اے زمین، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رُک جا“۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیاگیا، کشتی جُودی پر ٹِک گئی،اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!نوح ؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا ”اے رب، میرا بیٹا گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“۔ جواب میں ارشاد ہوا”اے نوح ؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے“۔ نوحؑ نے فوراً عرض کیا ”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجا¶ں گا“۔(سورة ھود....۷۴)
حکم ہوا ”اے نوح ؑ اترجا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور اُن گروہوں پرجو تیرے ساتھ ہیں،اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیںجن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا“۔اے نبیﷺ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کررہے ہیں۔اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔(سورة ھود....۹۴)
۲۱۔ اللہ نے عاد کی طرف ہود ؑ کو بھیجا
اور عاد کی طرف ہم نے اُن کے بھائی ہودؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ”اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑرکھے ہیں۔ اے برادران ِقوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اُس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اُس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر (بندگی سے) منہ نہ پھیرو“۔انہوں نے جواب دیا ”اے ہودؑ، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے،اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑگئی ہے“۔(سورة ھود....۴۵)
۳۱۔ ہر جاندار اللہ کے کنٹرول میں ہے،ہود ؑ
ہودؑ نے کہا ”میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں۔اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اس سے میںبیزار ہوں۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا رب تمہاری جگہ دوسری قوم کو اٹھائے گا اور تم اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔یقینا میرا رب ہر چیز پرنگراں ہے“۔ (سورة ھود....۷۵)
۴۱۔ قومِ عاد دور پھینک دئےے گئے
پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہود ؑ کو اور ان لوگوں کوجو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیںبچالیا....یہ ہیںعاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکارکیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی اور ہرجبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرکار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔سنو! دور پھینک دیئے گئے عاد، ہودؑ کی قوم کے لوگ۔ (سورة ھود....۰۶)
۵۱۔ اللہ نے قومِ ثمود کی طرف صالح ؑ کو بھیجا
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیںہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آ¶، یقینا میرا رب قریب ہے اور وہ دعا¶ں کا جواب دینے والا ہے“۔انہوں نے کہا ”اے صالح ؑ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ تو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلارہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے“۔(سورة ھود....۲۶)
۶۱۔ اہلِ ثمود نے اللہ کی اونٹنی کو مار ڈالا
صالحؑ نے کہا ”اے میرے برادران ِقوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اُس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو۔ اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔ اسے خدا کی زمین میں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو۔ اس سے ذرا تعرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آجائے گا۔مگر انہوں نے اونٹنی کو مارڈالا۔ اس پر صالحؑ نے اُن کو خبردار کردیا کہ ”بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو۔ یہ ایسی میعاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی“۔(سورة ھود....۵۶)
۷۱۔کفر کے حامل اہلِ ثمود دور پھینک دئےے گئے
آخرکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا۔ بے شک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالادست ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے اُن کو دھرلیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔سُنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سُنو! دور پھینک دیئے گئے ثمود!(سورة ھود....۸۶)
۸۱۔ ابراہیم ؑ کو اسحاق ؑ و یعقوب ؑ کی خوشخبری
اور دیکھو، ابراہیم ؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے۔ کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلامتی ہو۔پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ انہوں نے کہا ”ڈرو نہیں، ہم تو لوطؑ کی قوم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، ابراہیم ؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس دی۔ پھر ہم نے اس کو اسحاق ؑ کی اور اسحاق ؑ کے بعد یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔ وہ بولی ”ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہوگئی اور میرے میاں بھی بوڑھے ہوچکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے“۔ فرشتوںنے کہا ”اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیم ؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، اور یقینا اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے“۔ (سورة ھود....۳۷)
۹۱۔قومِ لوط ؑ پر عذاب،ابراہیم ؑ کی سفارش رَد
پھر جب ابراہیم ؑکی گھبراہٹ دور ہوگئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہوگیا تو اُس نے قومِ لوط ؑ کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔ (آخرکار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ”اے ابراہیم ؑ ، اس سے باز آجا¶، تمہارے رب کا حکم ہوچکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیںپھر سکتا“۔(سورة ھود....۶۷)
۰۲۔ فرشتوں کا لوط ؑ کے گھر مہمان بن کر آنا
اور جب ہمارے فرشتے لوط ؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے۔ (ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاریوں کے خوگر تھے۔ لوط ؑ نے ان سے کہا ”بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں۔ کچھ خداکا خوف کرو اورمیرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟“ انہوں نے جواب دیا ”تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں“۔ لوط ؑنے کہا ”کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا“۔ (سورة ھود....۰۸)
۱۲۔ قومِ لوط ؑ پر پتھروں کی بارش کا عذاب
تب فرشتوں نے اس سے کہاکہ ”اے لوط ؑ، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا۔ اور دیکھو تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ مگر تیری بیوی (ساتھ نہیں جائے گی)کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو ان لوگوںپر گزرنا ہے۔ ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے .... صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے“! پھر جب ہمارے فیصلہ کا وقت آپہنچا تو ہم نے اُس بستی کو تل پٹ کردیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں۔ (سورة ھود....۳۸)
22۔ اللہ نے اہلِ مدین کی طرف شعیب ؑ کو بھیجا
اور مدین والوں کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔اس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ اور اے برادرانِ قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فسادنہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں“۔(سورة ھود....۶۸)
۳۲۔ شعیب ؑ کی نصیحت، قوم کی ہٹ دھرمی
انہوںنے جواب دیا ”اے شعیب ؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے بابا دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے“! شعیبؑ نے کہا ”بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اورمیں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رُجوع کرتا ہوں۔ اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچادے کہ آخرکار تم پر بھی وہی عذاب آکر رہے جو نوح ؑ یا ہود ؑ یا صالح ؑکی قوم پر آیا تھا۔ اورلوط ؑکی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔دیکھو! اپنے رب سے معافی مانگو اور اُس کی طرف پلٹ آ¶، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے“۔(سورة ھود....۰۹)
۴۲۔ مدین کی بستیاں سخت دھماکے سے تباہ
انہوں نے جواب دیا ”اے شعیب ؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کرچکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو“۔شعیب ؑ نے کہا ”بھائیو، کیا میری برادری تم پراللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور) اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کررہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کیے جا¶ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا ، جلدی ہی تمہیں معلوم ہوجائے گاکہ کس پر ذلت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اورمیں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں“۔آخرکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوںکو بچالیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔سنو! مدین والے بھی دور پھینک دیئے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔(سورة ھود....۵۹)
۵۲۔ فرعون اور اس کے پیروکار دوزخی ہیں
اور موسٰی ؑکو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی سندِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا، مگر انہوںنے فرعون کے حکم کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگااور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا۔ کیسی بدتر جائے ورُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! اور اُن لوگوں پردنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی۔ کیسا بُرا صلہ ہے یہ جو کسی کو ملے!( ھود....۹۹)
۶۲۔ ظالم بستیوں پر اللہ کی پکڑسخت ہوتی ہے
یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنارہے ہیں۔ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، انہوںنے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آگیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آسکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا اُنہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہواکرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اوردردناک ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عذابِ آخرت کا خوف کرے۔(سورة ھود....۳۰۱)
۷۲۔ قیامت کے آنے میںدیر نہیں
وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کررہے ہیں، بس ایک گنی چُنی مدت اُس کے لیے مقرر ہے۔جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی،الاّیہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے۔ پھر کچھ لوگ اس روز بدبخت ہوں گے اورکچھ نیک بخت۔ جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے (جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے) وہ ہانپیں گے اور پُھنکارے ماریں گے اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الاّیہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، الاّیہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے۔ایسی بخشش ان کوملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ پس اے نبی ﷺ، تو اُن معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کررہے ہیں۔ یہ تو (بس لکیرکے فقیر بنے ہوئے) اُسی طرح پُوجا پاٹ کیے جارہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، اور ہم ان کا حصہ انہیںبھرپور دیں گے بغیراس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو۔(ھود:۹۰۱)
۸۲۔ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں
ہم اس سے پہلے موسٰی ؑکو بھی کتاب دے چکے ہیں اوراس کے بارے میں بھی اختلاف کیاگیا تھا (جس طرح آج اس کتاب کے بارے میں کیاجارہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے)۔ اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی تو اُن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیاگیا ہوتا۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں۔اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقینا وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے۔ پس اے نبیﷺ، تم، اورتمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیساکہ تمہیں حکم دیاگیا ہے۔ اور بندگی کی حد سے تجاوزنہ کرو۔ جو کچھ تم کررہے ہو اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔ ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجا¶ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی وسرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچاسکے اورکہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں،یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔ اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ (سورة ھود....۵۱۱)
۹۲۔ اللہ جہنم کونافرمان جن و انس سے بھردےگا
پھر کیوں نہ ان قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیرموجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم ، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچالیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیئے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کردے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔ بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیںپیدا کیا تھا۔اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھردوں گا۔(ھود....۹۱۱)
۰۳۔ پیغمبروں کے قصے، نصیحت کے لےے ہیں
اور اے نبی ﷺیہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی۔ رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں، انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیاجاتا ہے۔ پس اے نبیﷺ ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسہ رکھ، جو کچھ تم لوگ کررہے ہو تیرا رب اس سے بے خبر نہیں ہے(ھود:۳۲۱)
۱۳۔ قرآن میں واقعات و حقائق کا بیان ہے
سورہ¿ یُوسُف ؑ:اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ا َ، لَ، رَ۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیںجو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بناکر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔ اے نبیﷺ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کرکے بہترین پیرایہ میںواقعات اورحقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔
(سورة یوسف....۳)
۲۳۔ خوابِ یوسف ؑ:چاند ستاروں کا سجدہ کرنا
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسف ؑ نے اپنے باپ سے کہا ”اباجان، میںنے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیںاور سورج اور چاند ہیں اوروہ مجھے سجدہ کررہے ہیں“۔ جواب میں اس کے باپ نے کہا، ”بیٹا اپنا یہ خواب اپنے بھائیوںکو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہوجائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔ اورایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھائے گا اورتیرے اوپر اورآلِ یعقوبؑ پر اپنی نعمت اُسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں ابراہیمؑ، اور اسحاق ؑ پر کرچکا ہے، یقینا تیرا رب علیم اور حکیم ہے“۔( یوسف....۶)
۳۳۔ یوسف ؑ کے خلاف بھائیوں کی سازش
حقیقت یہ ہے کہ یُوسف ؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اُس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ”یہ یوسف ؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔چلو یُوسف کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہوجائے۔ یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن رہنا“۔ اس پر ان میں سے ایک بولا ”یوسف ؑ کوقتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا“۔ اس قرارداد پر انہوںنے جاکر اپنے باپ سے کہا ”اباجان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں؟ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے، کچھ چرچُگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں“۔باپ نے کہا، ”تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اورمجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو“۔ انہوں نے جواب دیا ”اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھالیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمے ہوں گے“۔(سورة یوسف....۴۱)
۴۳۔ یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر واویلا مچانا
اس طرح اصرار کرکے جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے طے کرلیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسف ؑ کو وحی کی کہ ”ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں“۔ شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اورکہا، ”ابا جان ، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میںلگ گئے تھے اور یوسف ؑکو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھاگیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں“۔ اور وہ یوسف ؑ کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے تھے۔ یہ سُن کر ان کے باپ نے کہا ”بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنادیا۔ اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی صبر کروں گا،جو بات تم بتارہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے“۔(سورة یوسف....۸۱)
۵۳۔ یوسف ؑ کا بِکا جانا
اُدھر ایک قافلہ آیا اور اس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔سقے نے جو کنوئیں میں ڈول ڈالا تو (یوسف ؑ ؑکو دیکھ کر) پکار اٹھا ”مبارک ہو یہاں تو ایک لڑکا ہے“۔ ان لوگوں نے اُس کو مال تجارت سمجھ کر چُھپالیا، حالانکہ جو کچھ وہ کررہے تھے خدا اس سے باخبر تھا۔ آخرکار انہوںنے تھوڑی سی قیمت پر چند درہموںکے عوض اُسے بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے۔(سورة یوسف....۰۲)
۶۳۔ یوسف ؑ کی عزیزِ مصرکے گھرپرورش
مصرکے جس شخص نے اسے خریدااس نے اپنی بیوی سے کہا ”اس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹابنالیں“۔ اس طرح ہم نے یوسف ؑکے لیے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا، اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔ (سورة یوسف....۲۲)
۷۳۔ دامنِ یوسف ؑ تارتار کرنے کی سازش
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کرکے بولی ”آجا“۔ یوسف ؑ ؑنے کہا، ”خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے“۔ وہ اس کی طرف بڑھی اوریوسف ؑبھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیں، درحقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آخرکار یوسف ؑاور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسف ؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، ”کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیاجائے؟“یوسف ؑ نے کہا ”یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کررہی تھی“۔ اُس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی)شہادت پیش کی کہ ”اگر یوسف ؑکا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا، اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا“۔ جب شوہرنے دیکھا کہ یوسف ؑکا قمیص پیچھے سے پھٹاہے تو اس نے کہا ”یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یوسف ؑاس معاملے سے درگزر کر۔ اور اے عورت، تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی“۔ (سورة یوسف....۹۲)
۸۳۔ حسنِ یوسف ؑ، عورتوں کا ہاتھ کاٹ لینا
شہرکی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ”عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو کررکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کررہی ہے“۔ اس نے جو ان کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چُھری رکھ دی، (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھارہی تھیں) اُس نے یُوسف ؑ کواشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب اُن عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکار اٹھیں ”حاشا وللہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے“۔ عزیز کی بیوی نے کہا ”دیکھ لیا، یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اسے رِجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا،اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیاجائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا“۔ یوسف ؑ ؑنے کہا ”اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تومیں ان کے دام میں پھنس جا¶ں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا“۔ اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیںاس سے دفع کردیں۔ بے شک وہی ہے جو سب کی سُنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔پھر اُن لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مدت کے لیے اُسے قید کردیں حالانکہ وہ (اس کی پاک دامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے (سورة یوسف....۵۳)
۹۳۔ قیدی یوسف ؑ کا خواب کی تعبیربتلانا
قیدخانے میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ایک روز ان میں سے ایک نے کہا ”میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں شراب کشیدکررہا ہوں“۔ دوسرے نے کہا ”میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھارہے ہیں“۔دونوں نے کہا ”ہمیں اس کی تعبیر بتایئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں“۔یوسف ؑنے کہا ”یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیربتادوں گا۔ یہ اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں۔(سورة یوسف....۷۳)
۰۴۔ زنداں میںیوسف ؑ کی وعظ و نصیحت
واقعہ یہ ہے کہ میںنے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، اپنے بزرگوں،ابراہیم ؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں۔درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پراور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آبا¶اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرمانروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا اورپرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔فیصلہ ہوگیا اس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے“۔پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہوجائے گا اُس سے یوسف ؑنے کہا ”اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا“۔ مگر شیطان نے اُسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسف ؑکئی سال قیدخانے میں پڑا رہا۔ (سورة یوسف....۲۴)
۱۴۔ یوسف ؑ کابادشاہ کے خواب کی تعبیر بتلانا
ایک روز بادشاہ نے کہا ”میںنے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھارہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتا¶ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو“۔ لوگوںنے کہا ”یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوںکا مطلب نہیں جانتے“۔اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اسے ایک مدتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی،اس نے کہا ”میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قیدخانے میںیوسف ؑکے پاس) بھیج دیجئے“۔(سورة یوسف....۵۴)
اُس نے جاکر کہا ”یوسف ؑ، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی ، شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جا¶ں اور شاید کہ وہ جان لیں“۔ یوسف ؑنے کہا سات برس تک لگاتار تم کھیتی باڑی کرتے رہوگے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ،جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہ کھالیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی تم نے محفوظ کررکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میںبارانِ رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے“۔(سورة یوسف....۹۴)
۲۴۔عورتوں کاکردارِیوسف ؑ کی گواہی دینا
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لا¶۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف ؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ”اپنے رب کے پاس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے“۔ اس پر بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا ”تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف ؑکو رجھانے کی کوشش کی تھی؟“سب نے یک زبان ہوکر کہا”حاشاوللہ، ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا“۔عزیز کی بیوی بول اٹھی ”اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پُھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے“۔(یوسف ؑنے کہا) ”اس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اُس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ (سورة یوسف....۲۵)
۱۔ بادشاہ کا یوسف ؑپر بھروسہ کرنا
میں کچھ اپنے نفس کی برا¿ت نہیں کررہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الاّیہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے“۔بادشاہ نے کہا ”انہیں میرے پاس لا¶ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں“۔جب یوسف ؑنے اس سے گفتگو کی تواس نے کہا ”اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے“۔ یوسف ؑنے کہا، ”ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں“(سورة یوسف....۵۵)
اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف ؑکے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں،نیک لوگوں کا اجرہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ (سورة یوسف....۷۵)
۲۔ یوسف ؑکے بھائی مصر آئے
یوسف ؑکے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروادیا تو چلتے وقت ان سے کہا ”اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔ اگر تم اسے نہ لا¶ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا“۔ انہوںنے کہا ”ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہوجائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے“۔ یوسف ؑنے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ”ان لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو“۔ یہ یوسف ؑنے اس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں۔ (سورة یوسف....۲۶)
۳۔ زیادہ غلہ کے لئے یوسف ؑ کی شرط
جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ”ابا جان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں۔اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں“۔ باپ نے جواب دیا ”کیا میںاس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ کرچکا ہوں؟ اللہ ہی بہترمحافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے“۔ پھر جب انہوںنے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے۔ ”ابا جان، اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیاگیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اوراپنے اہل و عیال کے لیے رسد لے کر آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریںگے اورایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا“۔ ان کے باپ نے کہا ”میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آ¶ گے الاّیہ کہ تم گھیر ہی لیے جا¶“۔ جب انہوںنے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیئے تو اس نے کہا ”دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے“۔ پھراس نے کہا ”میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پرکرے“۔ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق
شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدابیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کرلی۔ بیشک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔(سورة یوسف....۸۶)
۴۔ اپنے سگے بھائی کو پکڑوانے کی ترکیب
یہ لوگ یوسف ؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلالیااور اسے بتادیا کہ ”میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا) اب تو ان باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں“۔جب یوسف ؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تواس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارکر کہا ”اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو“۔ انہوں نے پلٹ کر پوچھا ”تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟“ سرکاری ملازموںنے کہا ”بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا“۔ (اور اُن کے جمعدار نے کہا) ”جو شخص لاکر دے گا اس کے لیے ایک بار شتر انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں“ ان بھائیوںنے کہا ”خداکی قسم ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں“انہوںنے کہا ”اچھا، اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟“ انہوں نے کہا ”اس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیزنکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے“۔ تب یوسف ؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کرلی.... اس طرح ہم نے یوسف ؑکی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میںاپنے بھائی کو پکڑتا الاّیہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں، اورایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب ِعلم سے بالاتر ہے۔(سورة یوسف....۶۷)
ان بھائیوں نے کہا ”یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف ؑ) بھی چوری کرچکا ہے“۔یوسف ؑان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرلب) اتنا کہہ کر رہ گیاکہ ”بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگارہے ہو اس کی حقیقت خُدا خوب جانتا ہے“۔ انہوں نے کہا ”اے سردارِ ذی اقتدار (عزیز)اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں“۔یوسف ؑ نے کہا ”پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں؟جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے“۔ ( یوسف....۹۷)
۵۔ برادرانِ یوسف ؑکی پریشانی
جب وہ یوسف ؑسے مایوس ہوگئے تو ایک گوشے میں جاکر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ”تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں؟ اور اس سے پہلے یوسف ؑ کے معاملہ میں جو تم کرچکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جا¶ں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم جاکر اپنے والد سے کہو کہ اباجان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے۔ ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کررہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جہاں ہم تھے۔ اُس قافلے سے دریافت کیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں“۔ (سورة یوسف....۲۸)
۶۔ بیٹوں کے غم میں یعقوب ؑ کی افسردگی
باپ نے یہ داستان سن کر کہا ”دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنادیا۔ اچھا اس پر بھی صبرو کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لاملائے،وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں“۔ پھروہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اورکہنے لگاکہ ”ہائے یوسف ؑ!“.... وہ دل ہی دل میں غم سے گُھٹا جارہا تھا اوراس کی آنکھیں سفید پڑگئی تھیں .... بیٹوں نے کہا ”خدارا! آپ تو بس یوسف ؑہی کو یادکیے جاتے ہیں۔نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گُھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے“۔ اُس نے کہا ”میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔میرے بچو، جاکر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگا¶، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں“۔ (سورة یوسف....۷۸)
۷۔ یوسف ؑ کا بھائیوں کو اپنی حقیقت بتلانا
جب یہ لوگ مصر جاکر یوسف ؑکی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوںنے عرض کیا کہ ”اے سردارِ بااقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات دینے والوں کو جزا دیتا ہے“۔ (یہ سن کر یوسف ؑ سے نہ رہاگیا) اس نے کہا ”تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسف ؑاورا س کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے؟“وہ چونک کر بولے، ”ہائیں! کیا تم یوسف ؑ ہو؟“ اس نے کہا ”ہاں، میں یوسف ؑ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجرمارا نہیںجاتا“۔ انہوںنے کہا ”بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے“۔ اُس نے جواب دیا، ”آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جا¶ ، میرا یہ قمیص لے جا¶ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، ان کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آ¶“۔ (یوسف....۳۹)
۸۔ یعقوب ؑ کی بینائی لوٹ آئی
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا ”میں یوسف ؑکی خوشبومحسوس کررہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیاگیا ہوں“۔ گھر کے لوگ بولے”خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اُسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں“۔پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تواس نے یوسف ؑکا قمیص یعقوبؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ”میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“۔ سب بول اٹھے ”ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے“۔ اس نے کہا، ”میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے“۔ ( یوسف....۸۹)
۹۔ بھائیوںکا یوسف ؑ کے آگے سجدہ ریزہونا
پھر جب یہ لوگ یوسف ؑکے پاس پہنچے توا س نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھالیا اور (اپنے سب کُنبے والوں سے) کہا ”چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے“۔ (شہرمیں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھاکر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اورسب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جُھک گئے۔ یوسف ؑنے کہا، اباجان، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنادیا۔ اُس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوںکو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا، حالانکہ شیطان میرے اورمیرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ
اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا“۔ ( یوسف....۱۰۱)
اے نبیﷺ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کررہے ہیں، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسف ؑکے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی۔ مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔ حالانکہ تم اس خدمت پران سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ (سورة یوسف....۴۰۱)
۰۱۔ زمین اور آسمانوں میںاللہ کی نشانیاں
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔ کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آجائے گی؟ تم ان سے صاف کہہ دو کہ ”میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔(یوسف....۸۰۱)
۱۱۔ سارے پیغمبر ؑ انسان ہی تھے
اے نبی ﷺ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اورا ُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموںکا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقینا آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟ (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوںنے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچالیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ (سورة یوسف....۱۱۱)
۲۱۔ آفتاب و ماہتاب ایک قانون کا پابند ہیں
سورة رعد: اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اَ۔لَ۔مَ۔رَ۔ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیاگیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاںکھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ (سورة الرعد....۲)
۳۱۔ پہاڑ زمین کے کھونٹے ہیں
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیئے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔ (الرعد....۳)
۴۱۔ایک ہی پانی سے الگ الگ مزے
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیںجو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے، مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔( الرعد....۴)
اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ”جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے اپنے رب سے کفرکیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔یہ لوگ بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پرچلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرتناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ لوگ جنہوںنے تمہاری بات ماننے سے انکار کردیا ہے، کہتے ہیں کہ ”اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟“ تم تو محض خبردار کردینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے (الرعد....۷)
۵۱۔ اللہ حمل کی تفصیلات تک سے واقف ہے
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ (الرعد:۹)
۶۱۔اللہ کسی قوم کی حالت کب تک نہیں بدلتا ؟
تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ،اور کوئی رات کی تاریکی میں چُھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں، ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔(سورة الرعد....۱۱)
۷۱۔ پانی سے لدے بادل اور کڑکتی بجلیاں
وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے۔ اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اُس حالت میں گرادیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اُس کی چال بڑی زبردست ہے۔ (سورة الرعد....۳۱)
۸۱۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کی مثال
اُسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ ان کی دعا¶ں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلاکر اس سے درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرھًا سجدہ کررہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جُھکتے ہیں۔(سورة الرعد....۵۱)
۹۱۔اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کو کارساز بنانا
ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرالیا جوخود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہواکرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا؟ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے،سب پر غالب! (سورة الرعد....۶۱)
۰۲۔ پانی کا برسنا اور ندی نالہ کا بہنا
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پربھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(سورة الرعد....۷۱)
۱۲۔ رب کی دعوت قبول نہ کرنے کی سزا
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی ان کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اُتنی ہی اور فراہم کرلیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیںجن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانا۔ (سورة الرعد....۸۱)
۲۲۔ نصیحت دانشمند لوگ قبول کرتے ہیں
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہوجائیں؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں،اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔(سورة الرعد....۲۲)
۳۲۔ جنت میں فرشتے استقبال کریں گے
آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آبا¶ اجداد اور اُن کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے ”تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو“۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اورجو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے۔اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دنیاکی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ
بھی نہیں۔ (سورة الرعد....۶۲)
۴۲۔دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے
یہ لوگ جنہوں نے (رسالتِ محمدی ﷺ کو ماننے سے) انکار کردیا ہے، کہتے ہیں، اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری“....کہو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوںنے (اس نبی ﷺکی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔(سورة الرعد....۹۲)
۵۲۔مصیبت کرتوتوں کی وجہ سے آتی رہتی ہے
اے نبی ﷺ، اسی شان سے ہم نے تم کو رسول بناکر بھیجا ہے ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزرچکی ہیں، تاکہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سنا¶ جو ہم نے تم پرنازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خداکے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میراملجا و ماویٰ ہے۔ اورکیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیاجاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہوجاتی، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھرکیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفارکی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر) مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ جن لوگوںنے خدا کے ساتھ کفرکا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیںنازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جاچکا ہے، مگر میںنے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔(سورة الرعد....۲۳)
۶۲۔ خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا
پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اس کے مقابلے میں یہ جسارتیںکی جارہی ہیں کہ) لوگوںنے اس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں؟ اے نبیﷺ، ان سے کہو (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا ان کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟.... کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میںآتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنادی گئی ہیں اور وہ راہ راست سے روک دیئے گئے ہیں، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خدا سے بچانے والا ہو۔ خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیاگیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں
بہہ رہی ہیں،اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔اورمنکرین حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔(سورة الرعد....۵۳)
۷۲۔ رسول از خود کوئی نشانی نہیں دکھا سکتا
اے نبی ﷺ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اورمختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو اس کی بعض باتوںکو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ”مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیاگیا ہے اور اس سے منع کیاگیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیرا¶ں، لہٰذا میں اُسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرارجوع ہے“۔ اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچاسکتا ہے۔ تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا اورکسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لادکھاتا۔ ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتاہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے۔ (سورة الرعد....۹۳)
۸۲۔ اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی
اور اے نبی ﷺ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوںکو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھادیں یا اس کے ظہورمیں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں،بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف
سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ حکومت کررہا ہے، کوئی اس کے فیصلوںپر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ان سے پہلے جو لوگ ہوگزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کررہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔ یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ”میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔“۔(سورة الرعد....۳۴)
۹۲۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا
سورة ابراہیم :اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اَ۔لَ۔رَ۔ اے محمد ﷺ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا¶، ان کے رب کی توفیق سے، اس خداکے راستے پر جو زبردست اوراپنی ذات میں آپ محمود ہے اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (اُن کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہوجائے۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے ،وہ بالادست اورحکیم ہے۔ (سورة ابراہیم....۴)
۰۳۔ تاریخِ الٰہی کے واقعات سبق آموز ہیں
ہم اس سے پہلے موسٰی ؑکو بھی اپنی نشانیوںکے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی کے سبق آموز واقعات سناکر نصیحت کر۔ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ یاد کرو جب موسٰی ؑنے اپنی قوم سے کہا ”اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔اس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ بچا رکھتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔(سورة ابراہیم....۶)
۱۳۔ کُفرانِ نعمت کی سزا بہت سخت ہے
اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے“۔ اورموسٰی ؑنے کہاکہ ”اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے“۔ (سورة ابراہیم....۸)
۲۳۔ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
کیا تمہیں اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزرچکی ہیں؟ قومِ نوحؑ،عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیںجن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ ان کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اورکھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوںنے اپنے منہ میں ہاتھ دبالیے اور کہاکہ ”جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیںدعوت دیتے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں“۔ ان کے رسولوںنے کہا ”کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے“۔ انہوںنے جواب دیا ”تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں۔ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اچھا تو لا¶ کوئی صریح سند“۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا ”واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لادیں۔سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہوناچاہیے“۔ (سورة ابراہیم....۲۱)
۳۳۔ جہنم میں کچ لہو کا سا پانی پینے کو ملے گا
آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ”یا تو تمہیں ہماری ملت میںواپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے“۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ”ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو“۔ انہوںنے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں ان کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبا ر دشمنِ حق نے منہ کی کھائی، پھراس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے۔وہاں اسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا۔ (سورة ابراہیم....۷۱)
۴۳۔ کافروں کے اعمال راکھ جیسی ہے
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔کیا تم دیکھتے نہیںہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ وہ چاہے تم لوگوںکو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ایسا کرنا اس پرکچھ بھی دشوار نہیں ہے۔ (سورة ابراہیم....۰۲)
۵۳۔ عذابِ الٰہی سے بڑے بھی نہیں بچا سکتے
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ”دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو“؟ وہ جواب دیں گے ” اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں“۔(سورة ابراہیم....۱۲)
۶۳۔شیطان بہکا سکتا ہے، مجبور نہیں کرسکتا
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میںسے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پرلبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کوملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اِس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے“۔ (سورة ابراہیم....۲۲)
۷۳۔ کلمہ¿ طیبہ اور کلمہ¿ خبیثہ کی مثالیں
بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ¿ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمہ¿ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔(ابراہیم....۷۲)
۸۳۔ نعمت کو کفرانِ نعمت میں بدلنے والے
تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفرانِ نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میںجھونک دیا، یعنی جہنم، جس میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے ، اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادیں؟ ان سے کہو، اچھا مزے کرلو، آخرکار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔ (سورة ابراہیم....۰۳)
۹۳۔ دنیا میں طلب کے مطابق سب کچھ ملتاہے
اے نبی ﷺ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ان سے کہہ دوکہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چُھپے (راہِ خیر میں) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی۔اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریا¶ں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ جس نے سُورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگا تار چلے جارہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشُکرا ہے۔ (سورة ابراہیم....۴۳)
۰۴۔ ابراہیم ؑ کو اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کب ملے
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑنے دُعا کی تھی کہ”پروردگار، اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا، پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولادکو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں۔ پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں“۔ اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چُھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں .... ”شُکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ جیسے بیٹے دیئے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دُعا سُنتا ہے۔ اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں)۔ پروردگار، میری دعا قبول کر۔ پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا“۔ (سورة ابراہیم....۱۴)
۱۴۔اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل نہیں
اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے۔ اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں،سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے نبی ﷺ، اس دن سے تم انہیں ڈرا دو جبکہ عذاب انہیں آلے گا۔ اس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ”اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مُہلت اور دےدے، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے“۔ (مگر انہیں صاف جواب دیا جائے گا کہ) ”کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟ حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا
اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھی کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں“۔ (سورة ابراہیم....۶۴)
۲۴۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
پس اے نبی ﷺ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ ڈراﺅ انہیں اس دن سے جبکہ زمین اورآسمان بدل کر کچھ سے کچھ کردیئے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہوجائیں گے۔ اس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پا¶ں جکڑے ہوئے ہوں گے، تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے جارہے ہوں گے۔ یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ہر متنفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجاگیا ہے اس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کردیا جائے اور وہ جان لیںکہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں۔ (سورة ابراہیم....۲۵) سورہ حجر:اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔اَ۔لَ۔رَ۔یہ آیات ہیں کتابِ الٰہی اور قرآن مبین کی۔(سورة الحِجر....۱)
۱۔ ہر قوم کے لےے مہلتِ عمل لکھی جاچکی ہے
بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آجائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوت اسلام کو قبول کرنے سے) انکار کردیا ہے، پچھتا پچھتاکر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کردیا ہوتا۔چھوڑوانہیں۔ کھائیںپئیں، مزے کریں، اور بُھلاوے میں ڈالے رکھے ان کو جُھوٹی امید۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ ہم نے اس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلت عمل لکھی جاچکی تھی۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے، نہ اس کے بعد چھوٹ سکتی ہے۔(سورة الحِجر....۵)
۲۔ جب فرشتے اترتے ہیں تو مہلت نہیں ملتی
یہ لوگ کہتے ہیں ”اے وہ شخص جس پر یہ ذکر نازل ہوا ہے، تو یقینا دیوانہ ہے۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتا“؟ .... ہم فرشتوں کو یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے۔ وہ جب اترتے ہیں تو حق کے ساتھ اُترتے ہیں، اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ رہا یہ ذکر، تواس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔(سورة الحِجر....۹)
۳۔اگر اللہ آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتا
اے نبی ﷺ، ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں میں رسول بھیج چکے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو۔ مجرمین کے دلوں میں تو ہم اس ذکر کو اسی طرح (سلاخ کے مانند) گزارتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آرہا ہے۔ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہورہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا۔ (سورة الحِجر....۵۱)
۴۔آسمانی قلعے شیطان کی پہنچ سے محفوظ ہیں
یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، ان کو دیکھنے والوں کے لیے (ستاروں سے) آراستہ کیا، اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کردیا۔ کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پاسکتا، الاّیہ کہ کچھ سُن گُن لے لے۔ اور جب وہ سُن گُن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ¿ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے۔ (سورة الحِجر....۸۱)
۵۔ قدرتی خزانوں کا مالک انسان نہیں
ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اگائی، اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اورجس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ بارآور ہوا¶ں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں،ا ور اس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ا س دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں۔ پہلے جو لوگ تم میں سے ہوگزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔ یقینا تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔ (سورة الحِجر....۵۲)
۶۔انسان مٹی اور جن آگ سے پیدا کےے گئے
ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔ اور اس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپَٹ سے پیدا کرچکے تھے۔ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاکہ ”میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کررہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دُوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گِرجانا“۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ رب نے پوچھا ”اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوںکا ساتھ نہ دیا؟“ اس نے کہا ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اُس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے“۔(سورة الحِجر....۳۳)
۷۔شیطان کی پیروی اور جہنم کی وعید
رب نے فرمایا ”اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے“۔ اس نے عرض کیا ”میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے“۔ فرمایا، ”اچھا، تجھے مُہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے“۔وہ بولا ”میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں ان کے لیے دل فریبیاں پیدا کرکے ان سب کو بہکا دوں گا، سوائے یرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے خالص کرلیا ہو“۔ فرمایا ”یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔ بیشک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف ان بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں، اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے“۔یہ جہنم (جس کی وعید پیروَانِ ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مخصوص کردیا گیا ہے۔(سورة الحِجر....۴۴)
۸۔متقی کے دل کی تھوڑی بہت کھوٹ کا خاتمہ
بخلاف اس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میںہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہوجاﺅ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔ ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ انہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔اے نبیﷺ، میرے بندوں کو خبر دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں۔ مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔ (سورة الحِجر....۰۵)
۹۔ابراہیم ؑ کو بڑھاپے میں اولاد کی بشارت
اور انہیں ذرا ابراہیم ؑ کے مہمانوںکا قصہ سنا¶۔ جب وہ آئے اُس کے ہاں اور کہا ”سلام ہو تم پر“، تو اس نے کہا ”ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے“۔ انہوں نے جواب دیا ”ڈرو نہیں، ہم تمیں ایک بڑے سیانے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں“۔ ابراہیم ؑ نے کہا ”کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولادکی بشارت دیتے ہو؟ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہے ہو“؟ انہوں نے جواب دیا، ”ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں، تم مایوس نہ ہو“۔ ابراہیم ؑنے کہا ”اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں“۔ (سورة الحِجر....۶۵)
۰۱۔ قومِ لوط ؑ پر عذاب کے فرشتوں کا نزول پھر ابراہیم ؑ نے پُوچھا ”اے فرستادگان الٰہی، وہ مہم کیا ہے جس پر آپ حضرات تشریف لائے ہیں“؟ وہ بولے ”ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔صرف لوط ؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، اُن سب کو ہم بچالیں گے، سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے مقدر کردیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میںشامل رہے گی“۔ پھر جب یہ فرستادے لوط ؑ کے ہاں پہنچے تو اس نے کہا ”آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں“۔ انہوں نے جواب دیا ”نہیں، بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیںجس کے آنے میں یہ لوگ شک کررہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جا¶ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ بس سیدھے چلے جا¶ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے“۔ اور اُسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ (سورة الحِجر....۶۶)
۱۱۔ قومِ لوط ؑکی بستی پر پتھروں کی بارش
اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بیتاب ہوکر لوط ؑ کے گھر چڑھ آئے۔ لوط ؑ نے کہا ”بھائیو،یہ میرے مہمان ہیں، میری فضیحت نہ کرو، اللہ سے ڈرو، مجھے رُسوا نہ کرو“۔ وہ بولے ”کیا ہم بارہا تمہیں منع نہیں کرچکے ہیں کہ دنیا بھر کے ٹھیکے دار نہ بنو“؟ لوط ؑ نے (عاجز ہوکر) کہا ”اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں“! تیری جان کی قسم اے نبیﷺ، اس وقت اُن پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔ آخرکار پَو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور ہم نے اُس بستی کو تَل پَٹ کرکے رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسادی۔اس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو صاحب فراست ہیں۔اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) گزرگاہ عام پر واقع ہے، اس میں سامان عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو صاحب ایمان ہیں۔اور اَیکہ والے ظالم تھے، تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی اُن سے انتقام لیا،اور ان دونوں قوموں کے اجڑے ہوئے علاقے کھلے راستے پر واقع ہیں۔ (الحِجر:۹۷)
۲۱۔ پہاڑ تراش کربنے مکانات کا حشر
حِجر کے لوگ بھی رسولوں کی تکذیب کرچکے ہیں۔ ہم نے اپنی آیات ان کے پاس بھیجیں، اپنی نشانیاں ان کو دکھائیں، مگر وہ سب کو نظرانداز ہی کرتے رہے۔ وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے۔ آخرکار ایک زبردست دھماکے نے اُن کو صبح ہوتے آلیا اور ان کی کمائی کے کچھ کام نہ آئی۔(سورة الحِجر....۴۸)
۳۱۔ قرآنی آیتیں دہراتے رہنے کے لےے ہیں ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے، اور فیصلے کی گھڑی یقینا آنے والی ہے، پس اے نبی ﷺ، تم (ان لوگوں کی بیہودگیوں) پر شریفانہ درگزر سے کام لو۔یقینا تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ہم نے تم کو ساتھ ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں، اور تمہیں قرآن عظیم عطاکیا ہے۔ تم اُس متاعِ دنیا کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ ان کے حال پر اپنا دل کُڑھا¶۔انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جُھکو اور (نہ ماننے والوں سے) کہہ دو کہ ”میں تو صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں“۔ یہ اُسی طرح کی تنبیہ ہے جیسی ہم نے اُن تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا ہے۔ تو قسم ہے تیرے رب کی، ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (سورة الحِجر....۳۹)
۴۱۔مشرکوں کی باتوں کا علاج اللہ کی حمد ہے
پس اے نبی ﷺ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم اُن مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی خدا قرار دیتے ہیں۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔ (اس کا علاج یہ ہے کہ) اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لا¶ اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے( الحِجر:۹۹)
۵۱۔اللہ کے فیصلہ کے لےے جلدی نہ مچاﺅ
سورہ¿ نحل : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اورر حم فرمانے والا ہے۔آگیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچا¶۔ پاک ہے وہ اور بالاو برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کررہے ہیں۔وہ اس روح کو اپنے جس بندے پرچاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوںکو)”آگاہ کردو، میرے سوا کوئی تمہارامعبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو“۔ اس نے آسمان وزمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بُوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا( النحل۴)
۶۱۔ خوراک، پوشاک اور سواری کے جانور
اس نے جانور پیداکیے جن میںتمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انہیں چَرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھوکر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔ اس نے گھوڑے اور خچرّ اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوارہو اوروہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (سورة النحل....۹)
۷۱۔ بارش میں عقلمندوں کے لےے نشانی ہے
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔اس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔(سورة النحل....۱۱)
۸۱۔ سورج چاند تارے اللہ کے حکم سے مسخر ہیں
اس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن اور سورج اورچاند کو مسخرکررکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخر ہیں۔ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کررکھی ہیں، ان میںبھی ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں(سورة النحل....۳۱)
۹۱۔ سمندر انسانوں کے لےے مسخر کئے گئے
وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندرکو مسخر کررکھا ہے تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھا ئو اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔تم دیکھتے ہوکہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو۔(سورة النحل....۴۱)
۰۲۔ زمین میں پہاڑوں کی میخیں ہیں
اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈُھلک نہ جائے۔ اس نے دریاجاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پا¶۔اس نے زمین میںراستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں،ا و رتاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں۔پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوںیکساں ہیں؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے ؟ اگر تُم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے، حالانکہ وہ تمہارے کُھلے سے بھی واقف ہے اور چُھپے سے بھی۔اوروہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہےں۔مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اوران کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کرکے) اٹھایا جائے گا۔(سورة النحل....۱۲)
۱۲۔قرآن اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں نہیں
تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑگئے ہیں۔ اللہ یقینا ان کے سب کرتوت جانتا ہے، چھپے ہوئے بھی اور کُھلے ہوئے بھی۔ وہ اُن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میںمبتلا ہوں۔اور جب کوئی اُن سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں ”اجی وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں“۔ یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں،ا ورساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بربنائے جہالت گمراہ کررہے ہیں۔دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں۔(سورة النحل....۴۲)
۲۲۔ عذاب ایسے آیاجدھر سے گمان نہ تھا
ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کرچکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اوراُس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رُخ سے ا ن پر عذاب آیا۔جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا۔ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا۔ اور ان سے کہے گا ”بتا¶ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہلِ حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے“؟.... جن لوگوںکو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ”آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے“۔ ہاں، انہی کافروں کے لیے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں تو (سرکشی چھوڑ کر) فوراً ڈَگیں ڈال دیے ہیں اور کہتے ہیں ”ہم تو کوئی قصور نہیں کررہے تھے“۔ ملائکہ جواب دیتے ہیں ”کر کیسے نہیں رہے تھے! اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے۔اب جائو، جہنم کے دروازوں میں گُھس جائو ۔وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے“۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے متکبروں کے لیے۔(النحل:۹۲)
۳۲۔ متقیوں کی رُوح کیسے قبض ہوتی ہے
دوسری طرف جب خداترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ”بہترین چیز اُتری ہے“۔ اس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا، دائمی قیام کی جنتیں،جن میں وہ داخل ہوں گے،نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو۔اُن متقیوں کو جن کی رُوحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ”سلام ہو تم پر ، جا¶ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے“۔( النحل....۲۳)
۴۲۔ کافروںکے کرتوتوں کی خرابیاں
اے نبی ﷺ، اب جو یہ لوگ انتظارکررہے ہیں تو اس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آپہنچیں، یا تیرے رب کا فیصلہ صادر ہوجائے؟ اسی طرح کی ڈھٹائی ان سے پہلے بہت سے لوگ کرچکے ہیں۔ پھر جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ ان پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوںنے خود اپنے اوپر کیا۔ اُن کے کرتوتوں کی خرابیاں آخرکار ان کی دامنگیر ہوگئیں اوروہی چیز ان پر مسلط ہوکر رہی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ (النحل:۴۳)
۵۲۔ رسولوں کی ذمہ داری پیغام پہنچادیناہے
یہ مشرکین کہتے ہیں ”اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے“۔ ایسے ہی بہانے ان سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں۔ توکیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اوراس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ ”اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو“۔ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی۔ پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے۔.... اے نبی ﷺ، تم چاہے ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کرسکتا۔(سورة النحل....۷۳)
۶۲۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے
یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھاکرکہتے ہیں کہ ”اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کرکے نہ اٹھائے گا“....اٹھائے گا کیوں نہیں؟ یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنااس نے اپنے اوپر واجب کرلیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ ان کے سامنے اس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کررہے ہیں،اورمنکرین حق کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے (رہا اُس کا امکان، تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ”ہوجا“ اور بس وہ ہوجاتی ہے۔( النحل....۰۴)
۷۲۔اللہ کی خاطر ہجرت کرنے والوں کا ٹھکانہ
جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطرہجرت کرگئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر توبہت بڑا ہے۔ کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوںنے صبر کیا ہے اورجو اپنے رب کے بھروسے پر کام کررہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام ان کا منتظر ہے) (سورة النحل....۲۴)
۸۲۔سارے رسول آدمی ہی تھے
اے نبی ﷺ ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے، اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاو¿ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔(سورة النحل....۴۴)