سید عاطف علی
لائبریرین
بہت خوب ! گویا اپنے محفلین بھی اینکری کے لیے اہل و مستعد ہیں ۔یہ کیا بات ہوئی۔ اب یہاں کے مخفلینز کو ہی دیکھ لیجیے، ہر زمرے میں تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیچارے اینکر پرسنز بھی آخر ہماری طرح کے انسان ہی ہیں۔
بہت خوب ! گویا اپنے محفلین بھی اینکری کے لیے اہل و مستعد ہیں ۔یہ کیا بات ہوئی۔ اب یہاں کے مخفلینز کو ہی دیکھ لیجیے، ہر زمرے میں تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیچارے اینکر پرسنز بھی آخر ہماری طرح کے انسان ہی ہیں۔
یہ کیا ہوتا ہے؟ٹالک شوز
اچھا لطیفہ سنایا ہےاب ریٹائرڈ جرنیل دفاعی امور کے علاوہ ٹالک شوز پر اور کوئی بات نہ کر سکیں گے۔
جب سے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔یہ فیصلہ پیمرا نے کب سے کرنا شروع کر دیا ہے کہ کون کس معاملے میں مہارت رکھتا ہے۔
یعنی عوام سب سچ جانتے ہوئے بھی پیمرا کی مخالفت کر رہی ہے۔ بغض عمران لا علاج مرض ہے۔پاکستان کا میڈیا سپیشلسٹ ایپروچ سے کوسوں بلکہ برسوں دور ہے۔ یہان تو ایک ہی اینکر بیک وقت معیشت سیاست حتی کہ کھیل پر بھی اسی مستعدی سے پروگرام کرتا ھے جیسے ساری عمر
قومی ٹیم کا کوچ رہا ہو۔ اممیچورٹی کے تمام مظاھرے ہمارے چینلوں پر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ بس ذرا زور سے بولنا آتا ھو۔
پیمرا کا کام میڈیا کو ریگولرائز کرنا ہے۔ حکومت دو ٹکے کے لفافیوں کو میڈیا پر آکر ہر طرح کے موضوع پر عوام کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آئیندہ سے اگر میڈیا نے کسی موضوع پر تبصرہ لینا ہوگا تو صرف اس فیلڈ کا ایکسپرٹ ہی دے سکے گا۔ بیشک حکومت کے خلاف ہی ہو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن صرف ایکسپرٹس ہی تبصرہ دے سکیں گے۔ تاکہ میڈیا کا معیار بہتر ہو سکے۔بالکل بھی نہیں، حکومت کو اس بات کا قطعی کوئی حق نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس موضوع پر کون بولے اور کون نہیں۔
چھابڑی والوں سے جا کر معیشت پر تبصرہ لیں گے تو وہ یہی کہے گا ہم برباد ہو گئے حکومت کو گھر جانا چاہیے۔ کسی ماہر معیشت سے ہوچھیں گے تو وہ معیشت کے اعداد و شمار دیکھ کر زیادہ مستند رائے دے پائے گا۔ لیکن میڈیا ایکسپرٹس کی بجائے ان چھابڑی والوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور یوں عوام کو گمراہ کرتا ہے۔پرائیوٹ چینلز ہیں اور سب ریاست کے شہری ہیں جنہیں آزادی رائے کا حق حاصل ہے
لیکن اس کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟فیلڈ کا ایکسپرٹ ہی دے سکے گا
محفل کوئی میڈیا گروپ نہیں ہے۔ ڈسکشن فورم ہے۔ میڈیا کی ذمہ داریاں ایک ڈسکشن پلیٹ فارم سے زیادہ ہیں۔یہ کیا بات ہوئی۔ اب یہاں کے مخفلینز کو ہی دیکھ لیجیے، ہر زمرے میں تبصرے کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیچارے اینکر پرسنز بھی آخر ہماری طرح کے انسان ہی ہیں۔
پیمرا کے نوٹیفکیشن کے بعد کل کے ٹالک شوز میں تمام صحافی اور اینکر اپنی ڈگریاں ساتھ لائے ہوئے تھے۔ کم از کم اب مختلف شعبہ جات سے متعلق معیاری تبصرے عوام کو سننے کیلئے ملیں گے۔لیکن اس کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟
ہمارے ہاں تو ایکسپرٹ کرائے پر بھی دستیاب ہیں وافر مقدار میں ۔
Talk showیہ کیا ہوتا ہے؟
ریٹائرڈ جرنیل بھی پیمرا کے نئے ٹوٹفکیشن کی زد میں آگئے ہیں۔ جو چینل اس کی پابندی نہیں کرے گا اس کو نوٹس ملے گا۔ اور ہو سکتا ہے بار بار گائیڈ لائن توڑنے پر لائسنس بھی واپس لے لیا جائے۔اچھا لطیفہ سنایا ہے
رئیلی؟محفل کوئی میڈیا گروپ نہیں ہے۔ ڈسکشن فورم ہے۔ میڈیا کی ذمہ داریاں ایک ڈسکشن پلیٹ فارم سے زیادہ ہیں۔
اب وضاحتی بیان بھی پڑھ لیجیے گا۔جب سے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
اب وضاحتی بیان بھی پڑھ لیجیے گا۔
پہلے اپنے گھر کی خبر لیجیے۔ آپ کی ہیومن رائٹس کی وزیر صاحبہ یا ان کے پاس جو بھی عہدہ ہے فرما رہی ہیں کہ میں تو ہیومن رائٹس پر ایکسپرٹ نہیں ہوں تو اب کوئی مجھے ہیومن رائٹس پر بات کرنے کے لیے ٹی وی پر نہ بلائے؟پیمرا کا کام میڈیا کو ریگولرائز کرنا ہے۔ حکومت دو ٹکے کے لفافیوں کو میڈیا پر آکر ہر طرح کے موضوع پر عوام کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ آئیندہ سے اگر میڈیا نے کسی موضوع پر تبصرہ لینا ہوگا تو صرف اس فیلڈ کا ایکسپرٹ ہی دے سکے گا۔ بیشک حکومت کے خلاف ہی ہو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن صرف ایکسپرٹس ہی تبصرہ دے سکیں گے۔ تاکہ میڈیا کا معیار بہتر ہو سکے۔
افسوس حکومتی اونچی دکان کا ان چھابڑی والوں کی وجہ سے دیوالیہ پٹ گیا ہے؟ کوئی شرم کوئی حیا؟ اپنی دکان اور اپنے پکوان کا معیار بلند کریں چھابڑی والے خود ہی ختم ہو جائیں گے۔چھابڑی والوں سے جا کر معیشت پر تبصرہ لیں گے تو وہ یہی کہے گا ہم برباد ہو گئے حکومت کو گھر جانا چاہیے۔ کسی ماہر معیشت سے ہوچھیں گے تو وہ معیشت کے اعداد و شمار دیکھ کر زیادہ مستند رائے دے پائے گا۔ لیکن میڈیا ایکسپرٹس کی بجائے ان چھابڑی والوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے اور یوں عوام کو گمراہ کرتا ہے۔
تیرا کیا ہوگا کالیا؟ میرا مطلب ہے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا۔ وہ تو فزکس کے پروفیسر ہیں اور بات وہ سیاست، معاشرت، معاشیات وغیرہ وغیرہ کی کرتے ہیں!ریٹائرڈ جرنیل بھی پیمرا کے نئے ٹوٹفکیشن کی زد میں آگئے ہیں۔ جو چینل اس کی پابندی نہیں کرے گا اس کو نوٹس ملے گا۔ اور ہو سکتا ہے بار بار گائیڈ لائن توڑنے پر لائسنس بھی واپس لے لیا جائے۔
پرسوں پیمرا نے "غلطی" سے میڈیا کو معیاری بنانے کا فرمان جاری کر دیا تھا۔ یہ ایسی کاری ضرب تھی جس کی چیخیں میڈیا سے باہرمقتدر اور حکومتی حلقوں تک میں سنائی دی۔پہلے اپنے گھر کی خبر لیجیے۔ آپ کی ہیومن رائٹس کی وزیر صاحبہ یا ان کے پاس جو بھی عہدہ ہے فرما رہی ہیں کہ میں تو ہیومن رائٹس پر ایکسپرٹ نہیں ہوں تو اب کوئی مجھے ہیومن رائٹس پر بات کرنے کے لیے ٹی وی پر نہ بلائے؟
اور مسٹر فواد چوہدری کے پاس کونسی "سائنسی ڈگری" ہے، خبردار جو اب کسی نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر بات کرنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کو بلایا وگرنہ اندر کر دیں گے!
میڈیا کو معیاری بنانے کا یہ طریقہ نہیں تھا اور نہ ہے۔ درست منزل سامنے رکھ کر اگر غلط راستے سے جائیں گے تو یوٹرن لازمی ہے، اور یہی کچھ یہ حکومت کر رہی ہے۔ بس نقصان اتنا ہے کہ ان ٹامک ٹوئیوں میں درست راستہ مل نہیں رہا، بقول خالد مسعود خان صاحب :پرسوں پیمرا نے "غلطی" سے میڈیا کو معیاری بنانے کا فرمان جاری کر دیا تھا۔ یہ ایسی کاری ضرب تھی جس کی چیخیں میڈیا سے باہرمقتدر اور حکومتی حلقوں تک میں سنائی دی۔
جہاں پوری قوم کسی اور کے حصہ کا کام کر رہی ہو ۔ جج ڈیم بنا رہے ہوں ، وزیر اعظم دوسرے ممالک کے درمیان صلح صفائی میں مگن ہوں، جرنیل حکومت چلا رہے ہوں، وہاں میڈیا کو معیاری بنانے کی جرات کس نے کی؟ بس فورا سے پہلے یوٹرن لیا اور فرمان واپس۔