پیکر نامہ "نظم"

دائم

محفلین
---) پیکر نامہ (---

حضرت نصیرِ ملت رحمة الله علیه کی کلیات میں جوش ملیح آبادی کی گلبدنی کا ذکر پڑھا ، بلکہ خود سید نصیر گیلانی رحمة الله علیه کی گلبدنی جو کہ جوش کی متابعت میں انہوں نے لکھی ہے ، پڑھی تو اس کے حرف حرف نے ایسا لطف دیا کہ بیان کا متحمل نہیں ہوں ..

اس کے لفظ لفظ نے ایک قسم کا میرے سمندِ شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور میرے توسنِ افکار کی باگیں اس خیال کی طرف پھیریں کہ میں بھی ان حضرات کی متابعت میں ایک پیکر نامہ تخلیق کروں ..

ہر چند کہ میں ان اساتذہ کا نہ ہمدوش ہوں اور نہ ان کی ہمسَری کر سکتا ہوں کیوں کہ ذرے کو خورشید سے کیا نسبت؟

بہر حال میں نے ایک نئے پیرایہِ بیان کا انتخاب کیا ہے ، جس میں دو پھولوں کے باہمی مکالمے میں تمام پیکر نامہ مذکور ہے ..

یاد رہے کہ اسے صرف ادنی کوشش ہی تصور کیا جائے یا اگر ناگزیر ہو تو تنقید برائے اصلاح کی نظر سے ہی دیکھا جائے ...


غ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لام مصطفیٰ دائم اعوان

.........................................................................

( پیکر نامہ ملاحظہ ہو )

موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے ہر روح و جاں
فرحت آگیں تھی ، غری۔۔۔۔قِ اِنبساط و شادماں

سبزہ و لالی کے زیور سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں

ہم نوا سے اپنے اک گُل، باغ میں تھا پوچھتا
حُسن و رعنائی کے باعث خُود پہ اِتراتا ہوا

"میں ہوں وجہِ صد بہاراں، مُجھ سے گُلشن کا وُجود
میری کرتے ہیں سبھی زلّ۔۔ہ رُبائی مُشک و عُود

بے مثالی ہے جہاں میں نازک اندامی مِری
آبگینے میں شرابِ ارغوانی ہے بھری

مُجھ سے دُنیا میں نشاط افزا فضائیں ہیں سبھی
میرے ہوتے باغِ ہستی ہو نہ افسُردہ کبھی

کیا کبھی دیکھا ہے تُو نے مُجھ سے بڑھ کر خُوب رُو؟
یا برستی بُوئے جاں افزا کی کوئی آب جُو؟

یا کوئی مَہ رُخ کہ جس پر ہو مدارِ سرخُوشی
صاحبِ حشمت ہے دنیا میں بھلا مُجھ سا کوئی؟"

سُن رہا تھا جو گُلِ آزردہ خاطر غور سے
مبتلائے کرب تھا وہ خُود سَری کے شور سے

اِشتعالِ طبعِ نازک سے وہ بھرّا سا گیا
توڑ کر کے خامشئِ لب، وہ یُوں گویا ہُوا :

"رُو شگفتہ ہے، مگر دِل نا شگفتہ ہے تِرا
بے مروّت، بے سلیقہ اور بے ڈَھب ہے نِرا

خُوش خصال و خُوبصورت ہیں بُجز تیرے بھی اور
ہاں ! بصیرت چاہیے، اے چشمگانِ دل سے کور !

اِنحصارِ حُسن مُجھ پر یا فَقَط تجھ پر نہیں
سب مساوی ہیں ، گُلِ صَد برگ ہو یا یاسمِیں

بزمِ ہستی میں ہے ایسا ایک ماہِ تاب دار
شاعِروں کی مُنتہائے فکر کا جِس پر مدار

تو ہے اک گل ، اُس کے قدموں سے کِھلے گلشن کئی
تیری خُوشبو چند لمحے ، اس کی "لَایَنْفَک" ہُوئی

جنّتِ شدّاد جِس کی خاکِ پا کی ہے گدا
جبہہ فرسا جس کے آگے سب بہاریں ہیں سدا

ایک جلوہ اس کا تریاقِ غمِ آشفتگاں
اک نظر کر دے تہ و بالا دِلوں کی بستیاں

اس کی قامت میں ہے دل آویزیِ سروِ چَمن
حسنِ قامت پر ہے حیراں ، دیدہِ چرخِ کہن

دل کشیِ قدِّ رعنا ، صُورتِ شمشاد ہے
حسنِ عالَم خوشہ چینِ حسنِ آدم زاد ہے

گامِ ہر اِک پر مچلتے ہیں کئی محشر وہاں
نازکی ہے اس کی غمازِ حریر و پرنیاں

ہے جبینِ برق آسا مُشک بُو و نور فام
چاندنی کے نور سے ہے بے نیاز و بے مرام

مصحفِ رخسار پہ لفظِ وفا تحریر ہے
جنبشِ لب ہائے نازک خامہِ تقدیر ہے

غیرتِ انجم ہیں ذرّہ ہائے خاکِ زیرِ پا
حسنِ رخ تو ہے ہی ، اس پر بیش تر حسنِ ادا

نیّرِ تاباں کے جلوے اس کے نازک جسم میں
نشّہِ صہبا کی رنگینی ہے اس کے اسم میں

زُلف یوں بل کھا رہی ہے آتشیں رخسار پر
گنجِ بے مقدار پر ہو جیسے مارِ زہر وَر

کاکلِ پیچاں سے شرمائے شبِ دیجور بھی
بعد از آرائشِ گیسو چمکتی چاندنی

قاتلِ تمکین شمشیرِ نگاہِ بے مہار
لشکرِ مژگان کی یلغار میں بھی ہے قرار

چشمِ میگوں میں چھلکتا ساغرِ جمشید ہے
پیکرِ انساں میں نا معلوم کوئی بھید ہے

لب کے پردوں سے نسیمِ گفتگو آتی ہے جب
بزم میں اک کیف و مستی کی فضا چھاتی ہے تب

طوطی و بلبل کے نغمے اس کے بابِ نطق پر
اس کے دنداں ہیرا و یاقوت و مرجان و گہر

اس کی خاموشیِ لب پر ہیں فدا طغیانیاں
جب کھلیں وہ احمریں لب ، مسکرائیں وادیاں

روکشِ صد کہکشاں ہے اس کے دنداں کی چمک
اک تبسم اس کا ویرانے میں تمثیلِ دھنک

وقتِ خفگی یوں دہکتا ہے وہ روئے قرمزی
شعلہِ آتش ، جلا کر راکھ کر دے گا سبھی

دشت و صحرا میں بہر جانب مہک اٹھے بہار
وہ جو آ جائے باندازِ خراماں ، ایک بار

رامشِ جاں بن کے اس کا ، دِل رجھانا ، کام ہے
ایک عالَم اس پری کا بندۂ بے دام ہے

کلبہِ ویراں میں اس کے ذکر سے ہو روشنی
وہ ہے ایسا پیکرِ وجہِ فضائے عنبری

اس کی آہٹ رُوح پُھونکے خفتگانِ خاک میں
رنگِ سحرِ سامری ہے جلوۂ بے باک میں

اب بتا ، کیا اس عداوت پر ذرا نادِم ہے تُو؟
یا ابھی اپنی انائے خام پر قائم ہے تُو"

سُن کے یہ اس بدگماں گُل نے کہا : اے ہم نشیں !
منفعل ہوں میں ، کہاں وہ اور کہاں میں کمتریں

سچ کہا : اس بزمِ گیتی میں دفینے ہیں بہت
حسن و زیبائی کے دنیا میں خزینے ہیں بہت

خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے


غلام مصطفی دائم اعوان
بتاریخ : 23 اگست 2017


محترم فرقان احمد
 

فرقان احمد

محفلین
---) پیکر نامہ (---

حضرت نصیرِ ملت رحمة الله علیه کی کلیات میں جوش ملیح آبادی کی گلبدنی کا ذکر پڑھا ، بلکہ خود سید نصیر گیلانی رحمة الله علیه کی گلبدنی جو کہ جوش کی متابعت میں انہوں نے لکھی ہے ، پڑھی تو اس کے حرف حرف نے ایسا لطف دیا کہ بیان کا متحمل نہیں ہوں ..

اس کے لفظ لفظ نے ایک قسم کا میرے سمندِ شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور میرے توسنِ افکار کی باگیں اس خیال کی طرف پھیریں کہ میں بھی ان حضرات کی متابعت میں ایک پیکر نامہ تخلیق کروں ..

ہر چند کہ میں ان اساتذہ کا نہ ہمدوش ہوں اور نہ ان کی ہمسَری کر سکتا ہوں کیوں کہ ذرے کو خورشید سے کیا نسبت؟

بہر حال میں نے ایک نئے پیرایہِ بیان کا انتخاب کیا ہے ، جس میں دو پھولوں کے باہمی مکالمے میں تمام پیکر نامہ مذکور ہے ..

یاد رہے کہ اسے صرف ادنی کوشش ہی تصور کیا جائے یا اگر ناگزیر ہو تو تنقید برائے اصلاح کی نظر سے ہی دیکھا جائے ...


غ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لام مصطفیٰ دائم اعوان

.........................................................................

( پیکر نامہ ملاحظہ ہو )

موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے ہر روح و جاں
فرحت آگیں تھی ، غری۔۔۔۔قِ اِنبساط و شادماں

سبزہ و لالی کے زیور سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں

ہم نوا سے اپنے اک گُل، باغ میں تھا پوچھتا
حُسن و رعنائی کے باعث خُود پہ اِتراتا ہوا

"میں ہوں وجہِ صد بہاراں، مُجھ سے گُلشن کا وُجود
میری کرتے ہیں سبھی زلّ۔۔ہ رُبائی مُشک و عُود

بے مثالی ہے جہاں میں نازک اندامی مِری
آبگینے میں شرابِ ارغوانی ہے بھری

مُجھ سے دُنیا میں نشاط افزا فضائیں ہیں سبھی
میرے ہوتے باغِ ہستی ہو نہ افسُردہ کبھی

کیا کبھی دیکھا ہے تُو نے مُجھ سے بڑھ کر خُوب رُو؟
یا برستی بُوئے جاں افزا کی کوئی آب جُو؟

یا کوئی مَہ رُخ کہ جس پر ہو مدارِ سرخُوشی
صاحبِ حشمت ہے دنیا میں بھلا مُجھ سا کوئی؟"

سُن رہا تھا جو گُلِ آزردہ خاطر غور سے
مبتلائے کرب تھا وہ خُود سَری کے شور سے

اِشتعالِ طبعِ نازک سے وہ بھرّا سا گیا
توڑ کر کے خامشئِ لب، وہ یُوں گویا ہُوا :

"رُو شگفتہ ہے، مگر دِل نا شگفتہ ہے تِرا
بے مروّت، بے سلیقہ اور بے ڈَھب ہے نِرا

خُوش خصال و خُوبصورت ہیں بُجز تیرے بھی اور
ہاں ! بصیرت چاہیے، اے چشمگانِ دل سے کور !

اِنحصارِ حُسن مُجھ پر یا فَقَط تجھ پر نہیں
سب مساوی ہیں ، گُلِ صَد برگ ہو یا یاسمِیں

بزمِ ہستی میں ہے ایسا ایک ماہِ تاب دار
شاعِروں کی مُنتہائے فکر کا جِس پر مدار

تو ہے اک گل ، اُس کے قدموں سے کِھلے گلشن کئی
تیری خُوشبو چند لمحے ، اس کی "لَایَنْفَک" ہُوئی

جنّتِ شدّاد جِس کی خاکِ پا کی ہے گدا
جبہہ فرسا جس کے آگے سب بہاریں ہیں سدا

ایک جلوہ اس کا تریاقِ غمِ آشفتگاں
اک نظر کر دے تہ و بالا دِلوں کی بستیاں

اس کی قامت میں ہے دل آویزیِ سروِ چَمن
حسنِ قامت پر ہے حیراں ، دیدہِ چرخِ کہن

دل کشیِ قدِّ رعنا ، صُورتِ شمشاد ہے
حسنِ عالَم خوشہ چینِ حسنِ آدم زاد ہے

گامِ ہر اِک پر مچلتے ہیں کئی محشر وہاں
نازکی ہے اس کی غمازِ حریر و پرنیاں

ہے جبینِ برق آسا مُشک بُو و نور فام
چاندنی کے نور سے ہے بے نیاز و بے مرام

مصحفِ رخسار پہ لفظِ وفا تحریر ہے
جنبشِ لب ہائے نازک خامہِ تقدیر ہے

غیرتِ انجم ہیں ذرّہ ہائے خاکِ زیرِ پا
حسنِ رخ تو ہے ہی ، اس پر بیش تر حسنِ ادا

نیّرِ تاباں کے جلوے اس کے نازک جسم میں
نشّہِ صہبا کی رنگینی ہے اس کے اسم میں

زُلف یوں بل کھا رہی ہے آتشیں رخسار پر
گنجِ بے مقدار پر ہو جیسے مارِ زہر وَر

کاکلِ پیچاں سے شرمائے شبِ دیجور بھی
بعد از آرائشِ گیسو چمکتی چاندنی

قاتلِ تمکین شمشیرِ نگاہِ بے مہار
لشکرِ مژگان کی یلغار میں بھی ہے قرار

چشمِ میگوں میں چھلکتا ساغرِ جمشید ہے
پیکرِ انساں میں نا معلوم کوئی بھید ہے

لب کے پردوں سے نسیمِ گفتگو آتی ہے جب
بزم میں اک کیف و مستی کی فضا چھاتی ہے تب

طوطی و بلبل کے نغمے اس کے بابِ نطق پر
اس کے دنداں ہیرا و یاقوت و مرجان و گہر

اس کی خاموشیِ لب پر ہیں فدا طغیانیاں
جب کھلیں وہ احمریں لب ، مسکرائیں وادیاں

روکشِ صد کہکشاں ہے اس کے دنداں کی چمک
اک تبسم اس کا ویرانے میں تمثیلِ دھنک

وقتِ خفگی یوں دہکتا ہے وہ روئے قرمزی
شعلہِ آتش ، جلا کر راکھ کر دے گا سبھی

دشت و صحرا میں بہر جانب مہک اٹھے بہار
وہ جو آ جائے باندازِ خراماں ، ایک بار

رامشِ جاں بن کے اس کا ، دِل رجھانا ، کام ہے
ایک عالَم اس پری کا بندۂ بے دام ہے

کلبہِ ویراں میں اس کے ذکر سے ہو روشنی
وہ ہے ایسا پیکرِ وجہِ فضائے عنبری

اس کی آہٹ رُوح پُھونکے خفتگانِ خاک میں
رنگِ سحرِ سامری ہے جلوۂ بے باک میں

اب بتا ، کیا اس عداوت پر ذرا نادِم ہے تُو؟
یا ابھی اپنی انائے خام پر قائم ہے تُو"

سُن کے یہ اس بدگماں گُل نے کہا : اے ہم نشیں !
منفعل ہوں میں ، کہاں وہ اور کہاں میں کمتریں

سچ کہا : اس بزمِ گیتی میں دفینے ہیں بہت
حسن و زیبائی کے دنیا میں خزینے ہیں بہت

خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے


غلام مصطفی دائم اعوان
بتاریخ : 23 اگست 2017


محترم فرقان احمد
توجہ اور فرصت سے پڑھنے کے قابل ہے۔ جو اشعار پڑھے، اچھے لگے۔ ماشاءاللہ!
 

یاسر شاہ

محفلین
برادرم
نظم سرسری طور پہ پڑھی ہے- داد نہ دینا کفران نعمت -الفاظ کا انتخاب 'نشست و برخواست سب بہت عمدہ ہیں - علامہ اقبال کا رنگ صاف جھلکتا ہے- فرصت سے پھر پڑھوں گا اور ان شاء اللہ مفصّل لکھوں گا -
 

دائم

محفلین
برادرم
نظم سرسری طور پہ پڑھی ہے- داد نہ دینا کفران نعمت -الفاظ کا انتخاب 'نشست و برخواست سب بہت عمدہ ہیں - علامہ اقبال کا رنگ صاف جھلکتا ہے- فرصت سے پھر پڑھوں گا اور ان شاء اللہ مفصّل لکھوں گا -
سر ابھی تک منتظر ہوں آپ کے تفصیلی تبصرے کا
یاسر شاہ صاحب
 

الف عین

لائبریرین
اس پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ 'طرح' غلط باندھا گیا ہے
خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
بھائی دائم !مزاج شریف ؟ آپ کے نام سے مجھے غالب کا شعر یاد آجاتا ہے "دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں ....."-

نظم پڑھ لی تھی اور تبصرے کا کہہ تو دیا تھا مگرشعر جو گنے تو اکتالیس اشعار- اب تجزیہ کون کرے- لہٰذا شرعی گنجائش سے فائدہ اٹھایا اور وہ یہ کہ ان شاء اللہ سے وعدہ قرار نہ پایا -ایک ارادہ تھا سو شعر گن کر ملتوی -اب آپ نے جو یاد دلایا سو چار و ناچار لکھتا ہوں اور لکھتا رہوں گا جب جب وقت ملا -

قابلیت میری کچھ نہیں -جو کچھ لکھتا ہوں وجدانی ہے' ذوقی ہے ' قیاسی ہے -اٹکل پچو باتیں ہیں جو کہتا ہوں -مزہ نہ آئے تو مشوره فیس واپس لے لیجیے گا اگر کچھ دی ہو-وقت میرا نہ رائیگاں جائے 'اس کے لئے یہ نیّت ابھی لکھتے لکھتے کرتا ہوں کہ مسلمان کی خاطر منظور ہے -


موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے ہر روح و جاں
فرحت آگیں تھی ، غری۔۔۔۔قِ اِنبساط و شادماں


روح و جاں کمزور مرکّب معطوفی ہے اگرچہ کچھ شعرا نے استعمال کیا ہے -حرف عطف مرکّب کے درمیان میں مغایرت کے لئے آتا ہے اور جاں لفظ روح کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا ہے لہٰذا اجتناب بہتر ہے -"جسم و جاں" اور "جان و تن" البتہ اچھی تراکیب ہیں -اور غریق کے "ق" نے کیا قصور کیا ہے ؟- شعر کی ایک صورت یہ دیکھیں :

موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے سب جسم و جاں
فرحت آگیں تھے ، غریقِ اِنبساط و شادماں
 

یاسر شاہ

محفلین
سبزہ و لالی کے زیور سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں
سبزہ و لالی کے زیور ؟:-(
لالی سے تو میک اپ ہوتا ہے بھائی -لگتا ہے آپ کنوارے ہیں ؟:p

یہ بھی ایک صورت ہے :

سبزہ و لالہ کے رنگوں سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
ہم نوا سے اپنے اک گُل، باغ میں تھا پوچھتا
حُسن و رعنائی کے باعث خُود پہ اِتراتا ہوا

"میں ہوں وجہِ صد بہاراں، مُجھ سے گُلشن کا وُجود
میری کرتے ہیں سبھی زلّ۔۔ہ رُبائی مُشک و عُود

اچھے شعر ہیں-

زلّ۔۔ہ رُبائی کا کیا مطلب ؟
 

یاسر شاہ

محفلین
مُجھ سے دُنیا میں نشاط افزا فضائیں ہیں سبھی
میرے ہوتے باغِ ہستی ہو نہ افسُردہ کبھی

کیا کبھی دیکھا ہے تُو نے مُجھ سے بڑھ کر خُوب رُو؟
یا برستی بُوئے جاں افزا کی کوئی آب جُو؟

یا کوئی مَہ رُخ کہ جس پر ہو مدارِ سرخُوشی
صاحبِ حشمت ہے دنیا میں بھلا مُجھ سا کوئی؟"

سُن رہا تھا جو گُلِ آزردہ خاطر غور سے
مبتلائے کرب تھا وہ خُود سَری کے شور سے

واہ صاحب واہ -نہایت عمدہ -رواں دواں اشعار-
باقی آئندہ
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
اِشتعالِ طبعِ نازک سے وہ بھرّا سا گیا
توڑ کر کے خامشئِ لب، وہ یُوں گویا ہُوا :

"رُو شگفتہ ہے، مگر دِل نا شگفتہ ہے تِرا
بے مروّت، بے سلیقہ اور بے ڈَھب ہے نِرا

خُوش خصال و خُوبصورت ہیں بُجز تیرے بھی اور
ہاں ! بصیرت چاہیے، اے چشمگانِ دل سے کور !

اِنحصارِ حُسن مُجھ پر یا فَقَط تجھ پر نہیں
سب مساوی ہیں ، گُلِ صَد برگ ہو یا یاسمِیں

بزمِ ہستی میں ہے ایسا ایک ماہِ تاب دار
شاعِروں کی مُنتہائے فکر کا جِس پر مدار

تو ہے اک گل ، اُس کے قدموں سے کِھلے گلشن کئی
تیری خُوشبو چند لمحے ، اس کی "لَایَنْفَک" ہُوئی

جنّتِ شدّاد جِس کی خاکِ پا کی ہے گدا
جبہہ فرسا جس کے آگے سب بہاریں ہیں سدا

ایک جلوہ اس کا تریاقِ غمِ آشفتگاں
اک نظر کر دے تہ و بالا دِلوں کی بستیاں

اس کی قامت میں ہے دل آویزیِ سروِ چَمن
حسنِ قامت پر ہے حیراں ، دیدہِ چرخِ کہن

دل کشیِ قدِّ رعنا ، صُورتِ شمشاد ہے
حسنِ عالَم خوشہ چینِ حسنِ آدم زاد ہے

واہ صاحب نہایت عمدہ اشعار ہیں -متاثر کن طرزِ بیان-ما شاء اللہ- یہ واقعی آپ کے اپنے اشعار ہیں نا ؟

ایک گزارش ہے کہ حرف بڑا لکھیں(ٹائپ کریں) تاکہ تحریر نمایاں ہو -دوسرے بھی تاکہ محظوظ ہو سکیں -اور کچھ لوگوں کو اگر ٹیگ کر دیں تو ہرج نہیں -
 

یاسر شاہ

محفلین
پوری نظم غور سے پڑھی -کچھ مقامات قابلِ غور ہیں -انھیں دیکھ لیں' میں غلط ہوں تو رہنمائی کر دیں -نظم بہر حال آپ کی ہی ہے چاہے تو تبدیل کر لیں' چاہے رہنے دیں :

طوطی و بلبل کے نغمے اس کے بابِ نطق پر
اس کے دنداں ہیرا و یاقوت و مرجان و گہر

ہیرا غالباً ہندی لفظ ہے ؟کیا ترکیب میں آ سکتا ہے ؟- پھر دانتوں کو خاص یاقوت و مرجان سے تشبیہ بھلی نہیں لگی کیونکہ یہ موتی رنگ برنگ ہیں سفید نہیں -

روکشِ صد کہکشاں ہے اس کے دنداں کی چمک
اک تبسم اس کا ویرانے میں تمثیلِ دھنک

دھنک بھی ہندی لفظ ہے مگر ترکیب "تمثیل دھنک " بری نہیں لگ رہی بلکہ بھلی معلوم ہوتی ہے -

کلبہِ ویراں میں اس کے ذکر سے ہو روشنی
وہ ہے ایسا پیکرِ وجہِ فضائے عنبری

"پیکرِ وجہِ فضائے عنبری" یہ ترکیب بھی محض بھاری بھرکم ہے -

اور آخری شعر :

خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے

جیسا کہ الف عین صاحب نے فرمایا غیر موزوں ہےجس کی امید آپ جیسے کہنہ مشق شاعر سے نہیں -وجہ یہی رہی ہوگی کہ آپ نے الفاظ کی ترتیب بدل کے ٹائپ کر دیا ہوگا یعنی

خودنمائ جو کرے میری طرح نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے


اختتام بھی خوب ہے -بہر حال نظم آپ کی مجموعی طور پر لاجواب ہے -اقبال مرحوم کا رنگ اس میں نمایاں ہے -اللہﷻ کرے زور قلم مع درد دل اور زیادہ آمین -
 

دائم

محفلین
واہ صاحب نہایت عمدہ اشعار ہیں -متاثر کن طرزِ بیان-ما شاء اللہ- یہ واقعی آپ کے اپنے اشعار ہیں نا ؟

ایک گزارش ہے کہ حرف بڑا لکھیں(ٹائپ کریں) تاکہ تحریر نمایاں ہو -دوسرے بھی تاکہ محظوظ ہو سکیں -اور کچھ لوگوں کو اگر ٹیگ کر دیں تو ہرج نہیں -
جی نظم میری ہی ہے، نظم کیا ہے، بس ادنیٰ سی کوشش ہے....
باقی جن جن مقامات پر نکات اٹھائے گئے ہیں، وہاں وہاں ممکنہ ترمیم کیے دوں گا ..
بہت بہت شکر گزار ہوں

الف عین
یاسر شاہ
 
Top