دائم
محفلین
---) پیکر نامہ (---
حضرت نصیرِ ملت رحمة الله علیه کی کلیات میں جوش ملیح آبادی کی گلبدنی کا ذکر پڑھا ، بلکہ خود سید نصیر گیلانی رحمة الله علیه کی گلبدنی جو کہ جوش کی متابعت میں انہوں نے لکھی ہے ، پڑھی تو اس کے حرف حرف نے ایسا لطف دیا کہ بیان کا متحمل نہیں ہوں ..
اس کے لفظ لفظ نے ایک قسم کا میرے سمندِ شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور میرے توسنِ افکار کی باگیں اس خیال کی طرف پھیریں کہ میں بھی ان حضرات کی متابعت میں ایک پیکر نامہ تخلیق کروں ..
ہر چند کہ میں ان اساتذہ کا نہ ہمدوش ہوں اور نہ ان کی ہمسَری کر سکتا ہوں کیوں کہ ذرے کو خورشید سے کیا نسبت؟
بہر حال میں نے ایک نئے پیرایہِ بیان کا انتخاب کیا ہے ، جس میں دو پھولوں کے باہمی مکالمے میں تمام پیکر نامہ مذکور ہے ..
یاد رہے کہ اسے صرف ادنی کوشش ہی تصور کیا جائے یا اگر ناگزیر ہو تو تنقید برائے اصلاح کی نظر سے ہی دیکھا جائے ...
غ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لام مصطفیٰ دائم اعوان
.........................................................................
( پیکر نامہ ملاحظہ ہو )
موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے ہر روح و جاں
فرحت آگیں تھی ، غری۔۔۔۔قِ اِنبساط و شادماں
سبزہ و لالی کے زیور سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں
ہم نوا سے اپنے اک گُل، باغ میں تھا پوچھتا
حُسن و رعنائی کے باعث خُود پہ اِتراتا ہوا
"میں ہوں وجہِ صد بہاراں، مُجھ سے گُلشن کا وُجود
میری کرتے ہیں سبھی زلّ۔۔ہ رُبائی مُشک و عُود
بے مثالی ہے جہاں میں نازک اندامی مِری
آبگینے میں شرابِ ارغوانی ہے بھری
مُجھ سے دُنیا میں نشاط افزا فضائیں ہیں سبھی
میرے ہوتے باغِ ہستی ہو نہ افسُردہ کبھی
کیا کبھی دیکھا ہے تُو نے مُجھ سے بڑھ کر خُوب رُو؟
یا برستی بُوئے جاں افزا کی کوئی آب جُو؟
یا کوئی مَہ رُخ کہ جس پر ہو مدارِ سرخُوشی
صاحبِ حشمت ہے دنیا میں بھلا مُجھ سا کوئی؟"
سُن رہا تھا جو گُلِ آزردہ خاطر غور سے
مبتلائے کرب تھا وہ خُود سَری کے شور سے
اِشتعالِ طبعِ نازک سے وہ بھرّا سا گیا
توڑ کر کے خامشئِ لب، وہ یُوں گویا ہُوا :
"رُو شگفتہ ہے، مگر دِل نا شگفتہ ہے تِرا
بے مروّت، بے سلیقہ اور بے ڈَھب ہے نِرا
خُوش خصال و خُوبصورت ہیں بُجز تیرے بھی اور
ہاں ! بصیرت چاہیے، اے چشمگانِ دل سے کور !
اِنحصارِ حُسن مُجھ پر یا فَقَط تجھ پر نہیں
سب مساوی ہیں ، گُلِ صَد برگ ہو یا یاسمِیں
بزمِ ہستی میں ہے ایسا ایک ماہِ تاب دار
شاعِروں کی مُنتہائے فکر کا جِس پر مدار
تو ہے اک گل ، اُس کے قدموں سے کِھلے گلشن کئی
تیری خُوشبو چند لمحے ، اس کی "لَایَنْفَک" ہُوئی
جنّتِ شدّاد جِس کی خاکِ پا کی ہے گدا
جبہہ فرسا جس کے آگے سب بہاریں ہیں سدا
ایک جلوہ اس کا تریاقِ غمِ آشفتگاں
اک نظر کر دے تہ و بالا دِلوں کی بستیاں
اس کی قامت میں ہے دل آویزیِ سروِ چَمن
حسنِ قامت پر ہے حیراں ، دیدہِ چرخِ کہن
دل کشیِ قدِّ رعنا ، صُورتِ شمشاد ہے
حسنِ عالَم خوشہ چینِ حسنِ آدم زاد ہے
گامِ ہر اِک پر مچلتے ہیں کئی محشر وہاں
نازکی ہے اس کی غمازِ حریر و پرنیاں
ہے جبینِ برق آسا مُشک بُو و نور فام
چاندنی کے نور سے ہے بے نیاز و بے مرام
مصحفِ رخسار پہ لفظِ وفا تحریر ہے
جنبشِ لب ہائے نازک خامہِ تقدیر ہے
غیرتِ انجم ہیں ذرّہ ہائے خاکِ زیرِ پا
حسنِ رخ تو ہے ہی ، اس پر بیش تر حسنِ ادا
نیّرِ تاباں کے جلوے اس کے نازک جسم میں
نشّہِ صہبا کی رنگینی ہے اس کے اسم میں
زُلف یوں بل کھا رہی ہے آتشیں رخسار پر
گنجِ بے مقدار پر ہو جیسے مارِ زہر وَر
کاکلِ پیچاں سے شرمائے شبِ دیجور بھی
بعد از آرائشِ گیسو چمکتی چاندنی
قاتلِ تمکین شمشیرِ نگاہِ بے مہار
لشکرِ مژگان کی یلغار میں بھی ہے قرار
چشمِ میگوں میں چھلکتا ساغرِ جمشید ہے
پیکرِ انساں میں نا معلوم کوئی بھید ہے
لب کے پردوں سے نسیمِ گفتگو آتی ہے جب
بزم میں اک کیف و مستی کی فضا چھاتی ہے تب
طوطی و بلبل کے نغمے اس کے بابِ نطق پر
اس کے دنداں ہیرا و یاقوت و مرجان و گہر
اس کی خاموشیِ لب پر ہیں فدا طغیانیاں
جب کھلیں وہ احمریں لب ، مسکرائیں وادیاں
روکشِ صد کہکشاں ہے اس کے دنداں کی چمک
اک تبسم اس کا ویرانے میں تمثیلِ دھنک
وقتِ خفگی یوں دہکتا ہے وہ روئے قرمزی
شعلہِ آتش ، جلا کر راکھ کر دے گا سبھی
دشت و صحرا میں بہر جانب مہک اٹھے بہار
وہ جو آ جائے باندازِ خراماں ، ایک بار
رامشِ جاں بن کے اس کا ، دِل رجھانا ، کام ہے
ایک عالَم اس پری کا بندۂ بے دام ہے
کلبہِ ویراں میں اس کے ذکر سے ہو روشنی
وہ ہے ایسا پیکرِ وجہِ فضائے عنبری
اس کی آہٹ رُوح پُھونکے خفتگانِ خاک میں
رنگِ سحرِ سامری ہے جلوۂ بے باک میں
اب بتا ، کیا اس عداوت پر ذرا نادِم ہے تُو؟
یا ابھی اپنی انائے خام پر قائم ہے تُو"
سُن کے یہ اس بدگماں گُل نے کہا : اے ہم نشیں !
منفعل ہوں میں ، کہاں وہ اور کہاں میں کمتریں
سچ کہا : اس بزمِ گیتی میں دفینے ہیں بہت
حسن و زیبائی کے دنیا میں خزینے ہیں بہت
خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے
غلام مصطفی دائم اعوان
بتاریخ : 23 اگست 2017
محترم فرقان احمد
حضرت نصیرِ ملت رحمة الله علیه کی کلیات میں جوش ملیح آبادی کی گلبدنی کا ذکر پڑھا ، بلکہ خود سید نصیر گیلانی رحمة الله علیه کی گلبدنی جو کہ جوش کی متابعت میں انہوں نے لکھی ہے ، پڑھی تو اس کے حرف حرف نے ایسا لطف دیا کہ بیان کا متحمل نہیں ہوں ..
اس کے لفظ لفظ نے ایک قسم کا میرے سمندِ شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور میرے توسنِ افکار کی باگیں اس خیال کی طرف پھیریں کہ میں بھی ان حضرات کی متابعت میں ایک پیکر نامہ تخلیق کروں ..
ہر چند کہ میں ان اساتذہ کا نہ ہمدوش ہوں اور نہ ان کی ہمسَری کر سکتا ہوں کیوں کہ ذرے کو خورشید سے کیا نسبت؟
بہر حال میں نے ایک نئے پیرایہِ بیان کا انتخاب کیا ہے ، جس میں دو پھولوں کے باہمی مکالمے میں تمام پیکر نامہ مذکور ہے ..
یاد رہے کہ اسے صرف ادنی کوشش ہی تصور کیا جائے یا اگر ناگزیر ہو تو تنقید برائے اصلاح کی نظر سے ہی دیکھا جائے ...
غ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لام مصطفیٰ دائم اعوان
.........................................................................
( پیکر نامہ ملاحظہ ہو )
موسمِ گُل کے حسیں ماحول سے ہر روح و جاں
فرحت آگیں تھی ، غری۔۔۔۔قِ اِنبساط و شادماں
سبزہ و لالی کے زیور سے مزیّن تھی زمیں
طائرانِ خُوش گلو بھی چہچہاتے تھے یہیں
ہم نوا سے اپنے اک گُل، باغ میں تھا پوچھتا
حُسن و رعنائی کے باعث خُود پہ اِتراتا ہوا
"میں ہوں وجہِ صد بہاراں، مُجھ سے گُلشن کا وُجود
میری کرتے ہیں سبھی زلّ۔۔ہ رُبائی مُشک و عُود
بے مثالی ہے جہاں میں نازک اندامی مِری
آبگینے میں شرابِ ارغوانی ہے بھری
مُجھ سے دُنیا میں نشاط افزا فضائیں ہیں سبھی
میرے ہوتے باغِ ہستی ہو نہ افسُردہ کبھی
کیا کبھی دیکھا ہے تُو نے مُجھ سے بڑھ کر خُوب رُو؟
یا برستی بُوئے جاں افزا کی کوئی آب جُو؟
یا کوئی مَہ رُخ کہ جس پر ہو مدارِ سرخُوشی
صاحبِ حشمت ہے دنیا میں بھلا مُجھ سا کوئی؟"
سُن رہا تھا جو گُلِ آزردہ خاطر غور سے
مبتلائے کرب تھا وہ خُود سَری کے شور سے
اِشتعالِ طبعِ نازک سے وہ بھرّا سا گیا
توڑ کر کے خامشئِ لب، وہ یُوں گویا ہُوا :
"رُو شگفتہ ہے، مگر دِل نا شگفتہ ہے تِرا
بے مروّت، بے سلیقہ اور بے ڈَھب ہے نِرا
خُوش خصال و خُوبصورت ہیں بُجز تیرے بھی اور
ہاں ! بصیرت چاہیے، اے چشمگانِ دل سے کور !
اِنحصارِ حُسن مُجھ پر یا فَقَط تجھ پر نہیں
سب مساوی ہیں ، گُلِ صَد برگ ہو یا یاسمِیں
بزمِ ہستی میں ہے ایسا ایک ماہِ تاب دار
شاعِروں کی مُنتہائے فکر کا جِس پر مدار
تو ہے اک گل ، اُس کے قدموں سے کِھلے گلشن کئی
تیری خُوشبو چند لمحے ، اس کی "لَایَنْفَک" ہُوئی
جنّتِ شدّاد جِس کی خاکِ پا کی ہے گدا
جبہہ فرسا جس کے آگے سب بہاریں ہیں سدا
ایک جلوہ اس کا تریاقِ غمِ آشفتگاں
اک نظر کر دے تہ و بالا دِلوں کی بستیاں
اس کی قامت میں ہے دل آویزیِ سروِ چَمن
حسنِ قامت پر ہے حیراں ، دیدہِ چرخِ کہن
دل کشیِ قدِّ رعنا ، صُورتِ شمشاد ہے
حسنِ عالَم خوشہ چینِ حسنِ آدم زاد ہے
گامِ ہر اِک پر مچلتے ہیں کئی محشر وہاں
نازکی ہے اس کی غمازِ حریر و پرنیاں
ہے جبینِ برق آسا مُشک بُو و نور فام
چاندنی کے نور سے ہے بے نیاز و بے مرام
مصحفِ رخسار پہ لفظِ وفا تحریر ہے
جنبشِ لب ہائے نازک خامہِ تقدیر ہے
غیرتِ انجم ہیں ذرّہ ہائے خاکِ زیرِ پا
حسنِ رخ تو ہے ہی ، اس پر بیش تر حسنِ ادا
نیّرِ تاباں کے جلوے اس کے نازک جسم میں
نشّہِ صہبا کی رنگینی ہے اس کے اسم میں
زُلف یوں بل کھا رہی ہے آتشیں رخسار پر
گنجِ بے مقدار پر ہو جیسے مارِ زہر وَر
کاکلِ پیچاں سے شرمائے شبِ دیجور بھی
بعد از آرائشِ گیسو چمکتی چاندنی
قاتلِ تمکین شمشیرِ نگاہِ بے مہار
لشکرِ مژگان کی یلغار میں بھی ہے قرار
چشمِ میگوں میں چھلکتا ساغرِ جمشید ہے
پیکرِ انساں میں نا معلوم کوئی بھید ہے
لب کے پردوں سے نسیمِ گفتگو آتی ہے جب
بزم میں اک کیف و مستی کی فضا چھاتی ہے تب
طوطی و بلبل کے نغمے اس کے بابِ نطق پر
اس کے دنداں ہیرا و یاقوت و مرجان و گہر
اس کی خاموشیِ لب پر ہیں فدا طغیانیاں
جب کھلیں وہ احمریں لب ، مسکرائیں وادیاں
روکشِ صد کہکشاں ہے اس کے دنداں کی چمک
اک تبسم اس کا ویرانے میں تمثیلِ دھنک
وقتِ خفگی یوں دہکتا ہے وہ روئے قرمزی
شعلہِ آتش ، جلا کر راکھ کر دے گا سبھی
دشت و صحرا میں بہر جانب مہک اٹھے بہار
وہ جو آ جائے باندازِ خراماں ، ایک بار
رامشِ جاں بن کے اس کا ، دِل رجھانا ، کام ہے
ایک عالَم اس پری کا بندۂ بے دام ہے
کلبہِ ویراں میں اس کے ذکر سے ہو روشنی
وہ ہے ایسا پیکرِ وجہِ فضائے عنبری
اس کی آہٹ رُوح پُھونکے خفتگانِ خاک میں
رنگِ سحرِ سامری ہے جلوۂ بے باک میں
اب بتا ، کیا اس عداوت پر ذرا نادِم ہے تُو؟
یا ابھی اپنی انائے خام پر قائم ہے تُو"
سُن کے یہ اس بدگماں گُل نے کہا : اے ہم نشیں !
منفعل ہوں میں ، کہاں وہ اور کہاں میں کمتریں
سچ کہا : اس بزمِ گیتی میں دفینے ہیں بہت
حسن و زیبائی کے دنیا میں خزینے ہیں بہت
خُود نمائی میری طرح جو کرے ، نادان ہے
"اَحسن التقویم" کا لائق فقط انسان ہے
غلام مصطفی دائم اعوان
بتاریخ : 23 اگست 2017
محترم فرقان احمد