فاتح
لائبریرین
جنابِ من! میں تو سوچ رہا ہوں منتظمین سے استدعا کی جائے (بلکہ اب تو آپ خود مدیرِ شعبہ ہیں) کہ اس مراسلے کو "آپ کی شاعری" کے زمرے میں منتقل کر دیا جائے کہ ہمیں تو یہ نثری نظم سے کسی طور کم نہیں لگ رہی۔رسید کے بعد حاضر ہوں :
’’ پیہم عطائے عسرتِ دوراں نہ پوچھیے
بارے عجیب رحمتِ رحماں نہ پوچھیے
موجِ قدح میں غرق ہیں مجذوب مست حال
جلوت برائے خلوتِ رنداں نہ پوچھیے
دردِ ہزار کہنہ کیے گو کشید پر
لمسِ طبیب و حدّتِ درماں نہ پوچھیے
سنجاب فرشِ خاک بنے یادِ یار میں
لطف و گدازِ وحشتِ زنداں نہ پوچھیے
دریافت کیجے گردشِ صد کہکشاں مگر
بس اک مقامِ حضرتِ انساں نہ پوچھیے
جب سے خبر ہوئی کہ ہے بسمل ابھی حیات
اٹھتی نہیں ہیں، غیرتِ مژگاں نہ پوچھیے‘‘
فاتح صاحب کا تازہ کلامِ بلاغت نظام سب سے پہلے سمعی نظام پر واردات کرتا ہوا موصول ہوا، گوکہ مواصلاتی نظام اپنے تمام تر خناس کے ساتھ حملہ آور رہا کہ جناب کی غزل میں رخنہ در سماعیات رکھے لیکن صاحب ہم بھی ’’ محاورے کے جنور کی طریوں ڈھیٹ اور اڑی باز نکلے ‘‘ اور رابطہ کی مشین سمیت پہاڑ پر جلوہ افروز ہوئے اس عرصے جناب کا کلام صوتی آہنگ میں محفوظ بھی کرتے رہے ،داد و تحیسن توخیر کوئی معنی نہیں رکھتی مگر ’’ شرما حضوری ‘‘ بھی کوئی شے ہوتی ہے ۔اب چونکہ کلام صوری آہنگ میں پیش ہے تو بھی ، خاکسار کی جانب سے سکہ بند معرب مفرس مورّد ، ( صنائع بدائع بھی شامل ہی سمجھیے ) مرصع مسجع، مقفیٰ ، خالصتاً روایت کے آئینہ دار کلام پر صمیمِ قلب سے ہدیہ مبارکباد قبول کیجے ، ۔ صرف دو ایک شعر کو ’’ مقتبس ‘‘ کا شرف بخشنا مجھے گراں گزرا سو پوری غزل ہی واوین کی قید میں رکھ دی ، ۔ایک بار پھر بہت بہت مبارک ہو حاملِ ’’ نفرت ‘‘ کو۔ والسلام
حضور! آپ کی "شرما حضوری" پر اور واوین کے لبادے میں ملبوس کرنے پر تہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ یہ 'ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا'۔