خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک پختون دوست کی فیس بک سے اس تحریر کو کاپی کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اندھے اور کم عقل قوم پشتون۔
میں نے کسی پنجابی، سندھی، بلوچ یا کشمیری کو بنوں، کوہاٹ، کرک اور خیبر ایجنسی میں دکان کے ترازو میں کچھ تولتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مگر ملک وال، گوجرہ، رتو ڈیرو، جیکب آباد اور ہر جگہ پشتون کو کاروبار کرتے ضرور دیکھا ہے۔ بلکہ میرے پچیس ہزار پشتون تو سندھ سانگھڑ میں لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک ہیں۔ اور مقامی سندھی ان کی زمینوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی سندھی یا پنجابی کو اس بات پہ احتجاج و اعتراض کرتے نہیں دیکھا،کہ پشتون ان کی سرزمین پر حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ میں نے کسی پنجابی کو آج تک یہ کہتے ہوئے بھی نہیں سُنا،کہ پشتون بے غیرت ہوتے ہیں۔ مگر ہر روز اپنے حجروں میں، بازاروں اور سیاسی جلسوں میں، میں نے پنجابیوں کا نام بطور گالی دیتے ضرور سُنا ہے۔
آپ کسی قوم پرست سے بات کرتے ہیں،تو وہ پشتونوں کا رونا شروع کردےگا۔ کہ پشتونوں کےساتھ ظُلم ہو رہا ہے،ان کی حق تلفی ہورہی ہے،ہمیں حقوق مانگنے نہیں چھیننے ہوں گے۔ دراصل یہ سب کُچھ ان کی فطری انتہاء پسندی ہے۔ ان پشتون قوم پرستوں کا وہی حال ہے،جو دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے نام پر پوری دُنیا کو بلیک میل کرکے کیا۔ میں نے ہمیشہ پنجاب کے وسی بابا کو پشتونوں کے لئے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پنجابی ثمینہ ریاض کو پشتونوں کو انصاف دلانے کے لئے خوار ہوتے دیکھا ہے۔مگر ایسے لوگ آپ کو اس لئے نظر نہیں آئیں گے۔کہ بغض ،انتہاپسندی اور نفرت کی جو کالی پٹی آپ کی آنکھوں پر باندھی گئی ہے۔ اس پٹی کے دوسرے پار آپ کےلئے دیکھنا ناگوار اور نامُمکن ہے۔
حالیہ اسلام آباد واقعے میں فرشتہ بیٹی کے ساتھ جو کُچھ ہوا۔وہ کسی پشتون بچی کےساتھ نہیں،بلکہ میرے گُھٹن زدہ معاشرے کے مُنہ پر ایک کالک ملی گئ۔ لیکن جس طرح سے پشتون قوم پرست اس مسئلے کو نسل پرستی کا نام دے رہے ہیں۔وہ ان کی گھناؤنی سازشوں کا ایک غلیظ رُخ ہے۔ یہ سارے وہ گھناؤنے کردار ہیں۔جن کو انسان سمجھنا تو دُور انسانیت سے جڑا سمجھنا بھی ایک ناقابل معافی جُرم ہے۔ فرشتہ شہید کےلاشے کو اپنے مفادات کی خاطر جس طرح یہ قوم پرست بھنبھوڑ رہے ہیں ۔واللہ خود کو پشتون کہتے بھی ہوئے شرم آرہی ہے۔ گلالئی اسماعیل جیسی عورت جس کا کام جُھوٹ مُوٹ کی پریزینٹیشنز اور رپورٹس جمع کروا کر فنڈز لینا ہوتا ہے۔وہ پشتون ولی کے منہ پر یہ کہہ کر کالک مل گئی ہے۔کہ وزیرستان میں فوجیوں نے عورتوں اور لڑکوں کا جنسی استحصال کیا۔
وزیرستان کے لوگوں کی غیرت کا میں پندرہ سال سے گواہ رہا ہوں۔ جہاں عزتوں کے بدلے سر اُتارے جاتے ہیں۔لیکن آج میرے ہی پشتون گلالئی اسماعیل کی گالیوں پر تالیاں بجا رہے ہیں۔
ان پشتون قوم پرستوں کا بس نہیں چلتا،کہ اپنی اولاد کو ننگا کرکے بیچ بازار لا کھڑا کردیں۔اور دُنیا کو یہ بتا سکیں ،کہ دیکھو اس ریاست نے ہماری کیا حالت کر دی ہے۔ اگر اس کو آپ قوم کی خدمت یا پشتون ولی کہتے ہیں۔تو مولانا بجلی گھر صاب کی اس بات سے پھر آپ قطعاً انکار نہیں کرسکتے۔کہ میں نے آپ جیسے اُونچے شملوں والے پشتونوں کو طوائف کا حُقہ پانی تازہ کرتے دیکھا ہے۔
اگر آپ کو مُعتدل اور بُردبار پشتون دانشور دیکھنے ہیں۔تو آئیے، آپ کو عبدالمجید داوڑ، حیات پریغال، ہارون وزیر، نجیب آغا، عابد آفریدی، افتخار محمد داجی اور اورنگزیب محسود سے ملوا دوں۔ جو پشتونوں کا اصل چہرہ ہیں۔
ان انتہاء پسند پشتون قوم پرستوں کا بس نہیں چلتا،کہ کلمہ بھی پشتو میں ہی پڑھیں۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ثابت کردیں کہ آدم علیہ السلام کا تعلق بھی کاکڑ یا یوسفزئی قبیلے سے تھا۔
میرا دوست عبدالمجید داوڑ کہتا ہے،کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ سات کروڑ پشتونوں کو چھوڑ کر دُنیا کے باقی پانچ ارب ترانوے کروڑ انسانوں کو قبروں میں لٹا دیں۔اور اس کے بعد ان کی قبروں پر پشتون ولی کا جھنڈا گاڑ دیں۔اور اپنی فتح کا اعلان کر دیں۔
آئی شرمیدلو
بہت اچھا تبصرہ ہے۔
اس میں کچھ باتیں صرف زمینی حقائق دیکھ کر پرکھی جاسکتی ہیں لیکن چند ایک پر تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
جو محفلین اور احباب پشتونوں کی فطرت یا طرز زندگی اور موجودہ حالات کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے خصوصا یہ تفصیل لکھ رہا ہوں۔ برسبیل تذکرہ بتادینا مناسب سمجھتا ہوں کہ دنیا میں عموما اور برصغیر میں (ڈیڑھ سوسال تک انگریزوں کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے) خصوصا جو قوم جتنی جلدی دیہاتی زندگی سے شہری زندگی کی جانب گئی ہے اتنا ہی اس کا وقار اور تشخص تباہ ہوا ہے۔
میں یہاں اپنی پشتون قوم کی مثال دیتا ہوں تاکہ بیان کرنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
آپ پشاور سے شروع کریں۔ پشتونوں میں یہ بات مشہور ہے کہ پشاور کا شہری (کٹر پشتون خاندانی طبقے کو چھوڑ کر) سب سے زیادہ دھوکہ باز اور ڈرپوک ہوتا ہے۔ اس کے بعد مردان، چارسدہ اور مینگورہ کے پشتون۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ کے چاروں طرف قسماقسم طبیعتوں، خصلتوں اور تہذیب کے لوگ آباد ہوتے جائیں گے ویسے ویسے آپ کی نسل ان سے متاثر ہوکر اپنا اصل تشخص کھوتی جائیں گی۔ دیہات میں کیا ہوتا ہے کہ ہر شخص آپ ہی میں سے ہوتا ہے، جیسے وہ ویسے آپ، جیسے آپ ویسے وہ۔ سب ایک ہی خون ہے۔ ایک ہی مزاج۔
اب آپ سوات پر غور کریں۔ سوات میں مینگورہ ایک بازاری علاقہ ہے جب کہ جیسے جیسے آپ اوپر غیر شہری علاقوں چار باغ، کانجو، مٹہ، خوازہ خیلہ وغیرہ کی جانب جائیں گے آپ کو رویوں میں فرق محسوس ہونا شروع ہوگا۔ مینگورہ میں دیگر قوموں سے آئے ہوئے لوگوں کی کثرت کی وجہ سے وہاں کا پشتون تہذیب وتمدن تباہ ہوچکا ہے۔ وہاں بھی جن (چند) پشتونوں نے اپنا خاندانی نظام بچا رکھا ہے وہ محفوظ ہیں (اور مسلسل تباہی کے خطرے سے دو چار)، باقی کچھ بھی نہیں بچا۔
اب آپ یہی عمرانی اصول اپنی قوموں پنجابی، سندھی، گلگت، چترال، بلوچی، سرائیکی وغیرہ پر لاگو کریں اور دیکھیں کہ دیہاتی اور شہری فرد میں کتنا واضح فرق ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پشتون کیوں دوسری قوموں کو اپنی سرزمین پر طبیعتا پسند نہیں کرتی تو یہ سوچ ہر قوم میں پائی جاتی ہے۔۔ کوئی بھی طبیعتا یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی غیر قوم آکر ان کی فطری طرز زندگی پر اثرانداز ہوسکے یا ان کی زمینوں کے مالک۔ اکا دکا اگر کوئی تجارت کی غرض سے آتا ہے تو اسے کوئی بھی نہیں روکتا۔ کوئی بھی نہیں۔ یہاں آپ کو کچھ اہم اور دلچسپ پہلو بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
پہلے وقتوں میں (اور آج بھی) پشتونوں میں اگر کسی دوسرے علاقے سے کوئی پشتون شخص آکر آباد ہونا چاہتا تھا تو گاؤں دیہات کے کچھ افراد اس شخص سے پتا معلوم کرکے اس کے گاؤں چلے جاتے اور معلوم کرتے کہ آپ کے گاؤں سے فلاں نامی فلاں خلیے کا شخص آکر ہمارے گاؤں میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے، لہذا معلوم کرنا ہے کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے، آیا وہ کوئی قتل کرکے گاؤں سے بھاگا ہے، یا چھوڑ کے چلا گیا ہے، کسی اخلاقی جرم میں گاؤں سے نکالا گیا ہے یا خود فرار ہوا ہے یا کوئی اور وجہ۔ تاکہ ہم بھی گاؤں میں اس کو اسی تناظر میں دیکھیں اور وہ وہاں بھی کوئی غلطی نہ کرے۔ یہ معلوم کرکے وہ گاؤں کے بڑوں کو پوری صورت حال سے آگاہ کرتے تاکہ اس سے اس کے شایان شان برتاو کیا جائے۔ اب آپ خود سوچیں کہ جب ایک پشتون کے حوالے سے کوئی اتنا حساس ہو تو غیر قوموں سے آئے ہوئے شخص کو وہ کس تناظر میں دیکھیں گے۔ ظاہر ہے اس شخص اور اس کے بال بچوں کے اطوار اور صفات کا اثر بہرحال موجود ہوگا اور یہ سوال بھی کہ وہ اپنے آبائی سرزمین جہاں اس کے والدین اور خاندان عرصوں سے آباد رہے وہ کیوں اسے چھوڑ کر یہاں آنا چاہتا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ کون سی قوم اس کو کتنی اہمیت دیتی ہے یا وہ معاشرتی طور پر کتنی کمزور ہے۔ جو جتنی کمزور ہوگی اتنا ہی اس کے معاشرتی زندگی پر دیگر قومیں اثرانداز ہوں گی۔ سندھ میں اگر پشتون آباد ہیں تو اس کی وجہ سندھ میں وڈیرہ ازم کے سبب عام سندھیوں کی بے بسی، غریبی اور کم شعوری ہے۔ اسی طرح جو پشتون وہاں رہ رہے ہیں ان کی وجہ سے ان کے اقدار اور معاشرتی زندگی میں اگر بہتری نہیں آتی تو ان شاء اللہ برے اثرات کسی طور نہیں ہوں گے۔
مزید برآں ہم صرف اس پہلو کو بھی اگر سامنے رکھیں تو بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ پردہ اور حیا خاندانی پشتون معاشرے کا جزوِ لاینفک ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر دوسری اقوام میں اجتماعی طور پر اس لحاظ سے کمزوری پائی جاتی ہے اور ایک پشتون اس کو کسی بھی طور اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اسی طرح اور بھی پہلوؤں کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنا ہرگز مشکل نہیں ہے۔