منظور پشتین غدار ہے یا مظلوم؟
07/06/2019 اعجاز الحق عدیم
منظور پشتین جب پہلی دفعہ سوشل اور انٹرنیشنل میڈیا پر نمایاں ہوئے تو کسی بھی محب وطن پاکستانی کی طرح مجھے بھی ناگوار گزرے تھے۔ ایف سی کالج میں جب انہیں لیکچر کے لئے مدعو کیا گیا تو میں کیمپس میں موجود ہوکر بھی انہیں سننے کے لئے نہیں گیا تھا۔ کسی بھی انسان کے لئے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے انسان کو آسانی سے قبول کرلے جو اس کے ذہن میں کھڑے تیقن اور عقیدتوں کے محلات کو بے دردی سے توڑ کر انہیں مسمار کردے۔
لیکن مولانا آزاد کے بقول انسان کی ذہنی اور فکری ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے ذہن اور فکر پر پڑی ان زنجیروں کو توڑ نا ڈالے جو اسے معاشرے اور فیملی نے پہنائی ہوتی ہیں۔ ہر پاکستانی کی طرح میرے ذہن میں بھی یہی ٹھونسا گیا تھا کہ اس ملک میں اگر کچھ ہے تو وہ فوج ہے، یہ اس فوج کا ہی کرشمہ ہے کہ یہ ملک اب تک قائم ہے، ملک سے محبت صرف فوج کو ہے، ان کے ہونے سے ہم ہیں اور ہمارا وجود پاک آرمی کے وجود سے منسلک ہے۔
ایسے میں منظور پشتین جیسے ”فوج دشمن“ غدار کو پبلک میں بیٹھ کر سننا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ اس لئے فیصلہ کیا کہ دوسرے غلط کاموں کی طرح یہ گناہ بھی تنہائی میں بیٹھ کر کرنا چاہیے۔ رات جاب سے واپسی پر سرچ انجنز کی مدد سے اس وزیرستانی لونڈے کے متعلق جو بھی کچھ پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ملا وہ سب چھان مارا۔ آرٹیکلز، کالمز، رپورٹس، فیچرز، انٹرویوز، تقریریں سب سے ہو گزرا۔ جیسے جیسے میں پی ٹی ایم کے متعلق جانتا گیا میں اس تحریک کا حامی بنتا گیا۔ میرا تاثر یکسر بدل چکا تھا۔
منظور کا موقف جان کر مجھے لگا یہ بندہ تقریر نہیں کرتا، یہ تو سوات میں آپریشن کے دوران اور اس کے بعد کی ہم پر بیتی ہوئی داستانوں کو تقریر کے لبادے میں سنا رہا ہے۔ جو مطالبات اس نے اٹھائے ہیں کوئی بھی جمہوریت پسند انسان ان مطالبات کی نفی نہیں کرسکتا۔ منظور ان بے بس اور بے زبان پشتونوں کی زبان بنا ہے جو چیک پوئنٹس پر اپنی عزت نفس کے قتل اور ذلالت کو اپنے مقدر کا لکھا سمجھ بیٹھے تھے۔ جن کے گھر مسمار کر دیے گئے تھے اور جن کے اپنوں کو غائب کردیا گیا تھا ان کو منظور نے سمجھایا کہ یہ جو آپ کے ساتھ ہورہا ہے یہ ظلم ہے اور خلاف آئین ہے۔ منظور نے پہلی دفعہ انہیں احساس دلایا کہ آپ کو آپ کے انسانی اور آئینی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔
دیکھیں! منظور پشتین پر آپ کا غصہ بجا ہے۔ آپ اپنے ملک اور فوج کی محبت میں منظور اور پی ٹی ایم سے نفرت کررہے ہیں۔ آپ کی نیت پر شک کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ چیزوں کو ذرا مختلف اینگل سے دیکھ رہے ہیں۔ خود کو ردعمل کی نفسیات سے تھوڑا سا باہر لائیں۔ پی ٹی وی اور نصاب نے ملک کا جو تاثر آپ کے ذہن میں بنایا ہے اس سے دو چار انچ ہٹ کر سوچیں۔ سیکیورٹی اور ملٹری سٹیٹ کی بجائے ملک کو ایک پروگریسیو، ویلفئیر اور ڈیموکریٹک ریپبلک کے طور پر دیکھنے کا خواب دیکھیں۔
آئین میں ریاست کے ڈھانچے، اختیارات کی تقسیم اور کام کرنے کے طریقہ کار پر غور کریں۔ شہریوں کے انسانی اور جمہوری حقوق کے دائرہ کار کی وسعتوں کا اندازہ لگائیں۔ اس سب کے بعد ان رباعیوں کو غور سے سنیں جنہیں منظور، محسن داوڑ اور علی وزیر گاہے گاہے گاتے پھرتے ہیں۔ دھنوں میں درد کی شدت اور سچائی کی تڑپ آپ کو داد دینے پر مجبور نا کرے تو پھر کہنا۔
اور اگر آپ کو پی ٹی ایم کے جلسوں میں گونجنے والے نعروں سے چِڑ ہے تو بھی آپ غلط نہیں ہیں۔ آپ صرف تصویر کا ایک رخ دیکھنے کی خطا کررہے ہیں۔ جن کے پیاروں کی ٹانگیں بارودی سرنگوں کی نذر ہوگئی ہیں، جن کے عزیزوں کو ان کی آنکھوں سے اوجھل ماورائے قانون عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا ہے وہ شدتِ غم میں ایک نعرہ مستانہ بھی نا بلند کریں؟
ٹھیک ہے، یہ نعرے مناسب نہیں ہیں لیکن نعرے گولی چلانے اور بم برسانے سے بڑا جرم نہیں ہوسکتے۔ چھوٹے جرم پر لعنت بھیجنے سے پہلے بڑے جرم کی مذمت بھی تو کرئیے نا۔ سوچیں تو سہی کہ ہزاروں کا مجمع ایسے مذموم نعرے کیونکر لگا سکتا ہے؟ وہ کون سے حالات ہیں جو ان لوگوں کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ اپنے سے کئی گنا طاقتور کا گریبان پکڑ بیٹھے ہیں؟
منظور پشتین اپنے لوگوں کے انسانی اور آئینی حقوق کی جنگ لڑرہا ہے۔ یہ وہی جنگ ہے جو نیلسن منڈیلا افریقہ میں اور مارٹن لوتھر کنگ امریکہ میں لڑا تھا۔ اُن دونوں کو اپنے وقت میں اپنے اپنے ملک کی مقتدر قوتوں نے غدار اور ملک دشمن قرار دیا تھا۔ آج آپ اُن دونوں کو نصاب میں شامل کرکے اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔
دیکھ لیں! منظور پشتین کو غدار کہہ کر کہیں آپ بھی تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟