محمداحمد
لائبریرین
ہوا کچھ یوں کہ ہم نے ایک روز ڈاکٹر صداقت صاحب کا ایک لیکچر چائے چھوڑنے کے حوالے سے محفل میں شامل کیا ۔ اور تمام چائے کے رسیا خواتین و حضرات کو بطور خاص مدعو کیا کہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اس لڑی میں چائے کے ساتھ اور ڈاکٹر صداقت کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا ۔ اس لیکچر کا سب سے زیادہ اثر ہماری جاسمن اپیا پر ہوا۔ غالباً اپیا کی ان ڈاکٹر صاحب سے کوئی پرانی مخاصمت تھی اور وہ ایک بار پہلے بھی ان کی باتوں میں آکر چائے چھوڑنے کی ناکام کوشش کر چکی تھیں، اور مومن ہونے کے ناطے ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس لئے اس بار اُنہوں نے گربہ کشتن بارِ دوئم کا پکا منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اہلِ محفل کو چائے نہ چھوڑنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایسے بھاری بھرکم چودہ نکات رقم کیے جو اپنے تاریخ کے اعتبار سے تو تاریخی ہیں ہی، محفل کی تاریخ کے حساب سے بھی تاریخی ہیں۔ اگر انہیں سنہری حرفوں سے لکھ کر محفل کے صدر دروازے پر لگایا جائے اور روزانہ اس لوح کو چائے سے غسل دیا جائے تب بھی حق بہ حق دار رسید کہنا آسان نہیں ہوگا۔
مزید براں ہماری رائے یہ بھی ہے کہ لپٹن اور ٹپال جیسی چائے نوشوں کے خون پسینے پر پلنے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ فوراً سے پیشتر اپیا کو چائے کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا جائے بلکہ اپنے گرے سے نوبیل انعام کی فوری ترسیل بھی یقینی بنائی جائے۔
قصہ کوتاہ، ان چودہ نکات کو ہم اہلِ محفل کی آسانی کے لئے اور چائے کے رسیاز کی دل جوئی کے لئے ایک الگ لڑی میں رقم کر رہے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت نہ صرف کام آئیں بلکہ ان کے بہانے چائے پینے کی سبیل بھی ہو سکے۔ تو پھر ملاحظہ فرمائیے۔
1:ایک تو ویسے ہی زندگی میں اداسیاں زیادہ ہوتی ہیں تو چائے چھوڑ کر اداسی کیوں مول لی جائے۔
2:چائے خوشی دیتی ہے۔
3:چائے کبھی اکیلے نہیں پی جاتی سو کوئی نہ کوئی دوست، کوئی غم خوار ساتھ ہوتا ہے اس بہانے۔
4:چائے پی کے لگتا یہی ہے کہ تھکن اتر گئی۔
5:گرمی کو گرمی مارتی ہے سو گرمیوں میں بہت ضروری ہے۔
6:سردی کی شدت کو کم کرتی ہے۔
7:نزلہ زکام، بخار، کھانسی میں گلے کی ٹکور کرتی ہے۔
8:میاں کے غصہ کو دور کرتی ہے۔
9: آئیں چائے پئیں۔۔۔ جملہ بہت خوشگوار لگتا ہے۔
10:مہمان نوازی کے لیے بہترین ہے۔
11:کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ (ڈاکٹروں کو کیا پتہ، انھیں پتہ ہے کہ جن کا کھانا اسے پینے سے ہضم ہوتا ہے۔)
12:ایک یہ ہی تو نشہ ہے کہ جو حرام نہیں ہے، اب صداقت صاحب اس پہ بھی پابندی لگائیں گے!
13:چائے ہمیں ایک عالمگیری بھائی چارہ کی لڑی میں پروتی ہے۔
14: چائے میں آپ ہر چیز ڈبو کے کھا سکتے ہیں۔
آگے :
صلائے عام ہے احبابِ چائے نوش کے لئے !
مزید براں ہماری رائے یہ بھی ہے کہ لپٹن اور ٹپال جیسی چائے نوشوں کے خون پسینے پر پلنے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ فوراً سے پیشتر اپیا کو چائے کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا جائے بلکہ اپنے گرے سے نوبیل انعام کی فوری ترسیل بھی یقینی بنائی جائے۔
قصہ کوتاہ، ان چودہ نکات کو ہم اہلِ محفل کی آسانی کے لئے اور چائے کے رسیاز کی دل جوئی کے لئے ایک الگ لڑی میں رقم کر رہے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت نہ صرف کام آئیں بلکہ ان کے بہانے چائے پینے کی سبیل بھی ہو سکے۔ تو پھر ملاحظہ فرمائیے۔
چائے کے ۱۴ نکات
از قلم جاسمن
از قلم جاسمن
1:ایک تو ویسے ہی زندگی میں اداسیاں زیادہ ہوتی ہیں تو چائے چھوڑ کر اداسی کیوں مول لی جائے۔
2:چائے خوشی دیتی ہے۔
3:چائے کبھی اکیلے نہیں پی جاتی سو کوئی نہ کوئی دوست، کوئی غم خوار ساتھ ہوتا ہے اس بہانے۔
4:چائے پی کے لگتا یہی ہے کہ تھکن اتر گئی۔
5:گرمی کو گرمی مارتی ہے سو گرمیوں میں بہت ضروری ہے۔
6:سردی کی شدت کو کم کرتی ہے۔
7:نزلہ زکام، بخار، کھانسی میں گلے کی ٹکور کرتی ہے۔
8:میاں کے غصہ کو دور کرتی ہے۔
9: آئیں چائے پئیں۔۔۔ جملہ بہت خوشگوار لگتا ہے۔
10:مہمان نوازی کے لیے بہترین ہے۔
11:کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ (ڈاکٹروں کو کیا پتہ، انھیں پتہ ہے کہ جن کا کھانا اسے پینے سے ہضم ہوتا ہے۔)
12:ایک یہ ہی تو نشہ ہے کہ جو حرام نہیں ہے، اب صداقت صاحب اس پہ بھی پابندی لگائیں گے!
13:چائے ہمیں ایک عالمگیری بھائی چارہ کی لڑی میں پروتی ہے۔
14: چائے میں آپ ہر چیز ڈبو کے کھا سکتے ہیں۔
آگے :
صلائے عام ہے احبابِ چائے نوش کے لئے !
آخری تدوین: