بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
ہوائے فصلِ گل باہر سے چھو کر گزرے تو گزرے
کہ ہم بند اپنے دکھ کی چار دیواری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
!!
بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
ہائے محرومی۔تقریباً ترک ہی ہو گئی ہے تین چار سال سے تو ایک شعر بھی نہیں کہا گیا۔ غالباً یہی آخری اشعار تھے!
استاد محترم !|!!!مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
پرانے پرانے دھاگے کھنگال رہی ہیں سیما علیاستاد محترم !|!!!
پروردگار آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔۔آمین
کسقدر خوبصورت شعر ہے ۔بے حد کمال !!ہماری ڈھیروں داد و تحسین آپکی خدمت میں ۔۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ آپکو صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے ۔آمین۔
سر ، میں بہت زیادہ داد دینا چاہتا ہوں مگر میرا لیول اتنا نہیں کہ آپ کو داد بھی دے سکوںکل شام ایک مصرع یوں ہی ہو گیا
مگر ہم ہیں کہ غالب کی طرف داری میں رہتے ہیں۔
اس کا استعمال تو کسی شعر میں نہیں ہو سکا۔ لیکن رات اور آج صبح یہ چار اشعار وارد ہو گئے ہیں:
ہزاروں خواب ہیں جو دن کی ہشیاری میں رہتے ہیں
مگر ہم ہیں کہ راتوں کی طرف داری میں رہتے ہیں
بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
ہوائے فصلِ گل باہر سے چھو کر گزرے تو گزرے
کہ ہم بند اپنے دکھ کی چار دیواری میں رہتے ہیں
یوں یہ مسلسل غزل کہی جا سکتی ہے کہ ہر شعر قومِ مسلم کے المیے کی نشان دہی کرتا ہے!!
سر ہمیں تو آپ نظر آتے ہیں اپنے ہر ہر لفظ میں دکھائی دتیت ہیں ۔۔کیسی ٹائیپو ۔۔اور کہاں ہم ۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ جو شعر اکثر احباب کو پسند آیا، اس میں ٹائپو تھی!