کل شام ایک مصرع یوں ہی ہو گیا
مگر ہم ہیں کہ غالب کی طرف داری میں رہتے ہیں۔
اس کا استعمال تو کسی شعر میں نہیں ہو سکا۔ لیکن رات اور آج صبح یہ چار اشعار وارد ہو گئے ہیں:
ہزاروں خواب ہیں جو دن کی ہشیاری میں رہتے ہیں
مگر ہم ہیں کہ راتوں کی طرف داری میں رہتے ہیں
بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
ہوائے فصلِ گل باہر سے چھو کر گزرے تو گزرے
کہ ہم بند اپنے دکھ کی چار دیواری میں رہتے ہیں
یوں یہ مسلسل غزل کہی جا سکتی ہے کہ ہر شعر قومِ مسلم کے المیے کی نشان دہی کرتا ہے!!
محترم اعجاز صاحب ، اچّھے اشعار ہیں . داد قبول فرمائیے . تیسرے شعر میں ’لیکن‘ اور ’مگر‘ کی تکرار پر میری نگاہ رکی تھی لیکن آپ نے اس کی وضاحت پہلے ہی کر دی ہے . یہ زمین بڑی زرخیز ہے . وقت ملا تو اس میں طبع آزمائی کی جسارت کرونگا . فی الحال ایک شعر ملاحظہ ہو جو برجستہ ذہن سے بر آمد ہوا ہے .
ملے فرصت تو سارے مسئلے دنیا کے سلجھا دیں
ہم ایسے لوگ جو مصروف بےکاری میں رہتے ہیں
آپ کی جانب سے بہت عرصہ سے کچھ نیا سننے کا شرف حاصل نہیں ہوا . کچھ عنایت فرمائیے .