چاند کی رویت کی ذمہ داری رویت ہلا ل کمیٹی کی ہے اور وہی ادا کرے گی: مفتی منیب

وجی

لائبریرین
فواد چوہدری جیسے جوکر اس حکومت کو کسی چین نہیں لینے دینگے۔
صاحب کو چاہیئے تھا کہ پاکستان میٹرولیجکل ڈپارٹمنٹ سے اس بارے میں حتمی رپوٹ لیتا کہ کیا پاکستان کے حدود کے حساب سے کیا ایساممکن ہے کہ دو چاند ہوں ۔ اگر ہاں تو کتنے فیصد حصے پر چاند نظر آئے گا اور کتنے فیصد پر چاند نظر نہیں آئے گا۔
پھر سوال علماء پر چھوڑا جائے کہ
1۔ کیا ہم دو عیدیں کریں یا نہیں
2۔اگر ہم نے ایک ہی دن عید روزہ کرنا ہے تو پھر ہم کس کی بات مانے اور کس کا چاند مانے
مثلا 20 فیصد علاقے میں چاند نظر آرہا ہے تو کیا 20 فیصد کا فیصلہ 80فیصد پر نافض کیا جائے یا اسکا الٹ کیا جائے 80فیصد کا فیصلہ 20فیصد پر نافض کیا جائے؟؟
 

محمد سعد

محفلین
ہاں بھائی آپ نبض شناس بنے، اس طبقے کے پلس مذہبی لوگوں کو دیکھ کر تیز تر ہوتے جاتے ہیں اور پھر سارا زور چیخ وپکار اور قلم گھسانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ جب صرف آؤٹ پٹانگ شور مچایا جاتا ہے اور مینڈک بھی کنویں والے ہوں تو اسے مینڈکوں کی ٹے ٹے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ نازک لوگ نہ پڑھنا چاہیں تو آنکھیں بند کرسکتے ہیں۔
چیخ و پکار۔۔۔ اوٹ پٹانگ۔۔۔ مینڈک۔۔۔ ٹے ٹے۔۔۔
حوصلہ رکھو یار۔۔۔ :eek:
آپ تو مہذب آدمی ہو۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس بحث میں شاید ایک نکتہ یہ نظر انداز کیا جارہا ہے کہ لونر کیلنڈر تیار کرنے میں چاند کی موجودگی ہی نہیں بلکہ اس کے نظر آنے کے امکان کو کتنا مد نظر رکھا گیا ہے۔ یعنی چاند تو اپنی جگہ ظاہر ہے موجود ہی ہوتا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظر آرہا ہے یا نہیں ۔ ٹیکنالوجی ( کی ایکوریسی ) سے مدد لینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ چاند کی (محاق) پوزیشن اور اس کی ماہانہ عمر کے گھنٹے ابھی اتنے ہیں کہ نظر آنا عملی طور پر ممکن ہی نہیں یا ممکن ہے ۔ یہ فیصلہ ٹیکنالوجی سے کیا جانا کیا ناممکن ہے۔سائنس کو سمجھنے والے آج ٹیکنالوجی کی بدولت ہی انسان جانتا ہے کہ چاند زمین سے سالانہ کتنے سینٹی میٹر دور ہورہا ہے ہماری زمین کی حرکت کس شرح سے سست پڑ رہی ہے وغیرہ ۔اس سے یہ پتہ چل ہی جاتا ہے یہ فیصلہ کتنا معتبر ہے۔ کیا چند ماہ میں یا سال بھر میں اس کیلنڈر کا قابل اعتبار ہونا سامنے نہیں آجائے گا ؟ اور چاند کا مسئلہ بارہ میں سے محض دو ماہ اہم ہوتا ہے باقی مہینوں میں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں ۔
لگتا ہے ہم سے سورج کو تو فتح کر لیا لیکن چندا ماموں ابھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ فیصلہ ٹیکنالوجی سے کیا جانا کیا ناممکن ہے
سائنسی مشاہدات کی بنیاد پر رویت ہلال کیلنڈر بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عام لوگ اس کیلنڈر کو مانتے نہیں ہیں۔
البتہ شمشی اور قمری کیلنڈر پر مکمل یقین رکھتے ہیں جو کہ خود سائنسی مشاہدات پر بنا ہوا ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی جان، عید منانا اور روزہ رکھنا اسلامی مسئلہ ہے۔
کیا نماز سورج کے حساب سے صحیح وقت پر پڑھنا اسلامی مسئلہ نہیں ہے؟
جب سائنس آپ کو بتاتی ہے کہ فلاں دن اتنے بجے سورج آسمان پر اس مقام پہ ہوگا کہ آپ عقیدہ کی رو سے نماز ادا کر سکتے ہیں تو تب آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ نماز کا کیلنڈر سال پہلے ہی چھپ کر تیار ہو جاتا ہے۔ اور سارے آنکھیں بند کرکے اس پر چلتے ہیں۔
لیکن جب یہی سائنس آپ کو بتاتی ہے کہ فلاں دن اتنے بجے چاند آسمان پر اس مقام پہ ہوگا کہ وہ انسانی آنکھ سے نظر آجائے گا تو لوگ کہتے ہیں جاؤ ایسی سائنس و ٹیکنالوجی کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ سورج دیکھنے کیلئے ایک اور چاند کیلئے دوسرا معیار ہے۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 

جان

محفلین
جو لوگ علوم اسلامیہ کے ماہر ہیں ان علما کی اتھارٹی پر ہم سیخ پا ہوتے دیر نہیں کرتے
اختلاف کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ جو لوگ علوم اسلامیہ کے ماہر ہیں کیا وہ "فرشتے" ہیں یا ان کا درجہ نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کے ہے؟ بحیثیت انسان علماء بھی خطا سے پاک نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے کسی بھی دیگر علوم کے ماہرین خطا سے آزاد نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ دیگر علوم کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ غلط ہو سکتے ہیں لہذا وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کبھی نہ کبھی مسئلے کے حل کی طرف پہنچ جاتے ہیں اور ضد کر کے ایک جگہ اڑے نہیں رہتے لیکن ہمارے علوم اسلامیہ کے ماہر بات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس چیز کا کل علم رکھتے ہیں اور ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی لہذا ان سے اختلافِ رائے رکھنا گناہِ کبیرہ ہے۔ ہماری منافقت کا معیار یہ ہے کہ ہم سائنسدانوں پر تنقید اور ان کو خطاوار اور سزاوار ڈکلیئر کرنے میں تو نہیں چوکتے بلکہ ان کی ذاتی قابلیت میں بھی مذہب گھسیڑ دیتے ہیں لیکن جب بات علوم اسلامیہ کے ماہرین پہ آتی ہے تو تقدس کی ڈھال پہنا کر ان پر تنقید کو حرام قرار دے دیتے ہیں اور اس وقت ان کی ذاتی قابلیت کو زیر بحث لانے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔
دوم آپ نے اتھارٹی کا ذکر کیا تو عرض کرتا چلوں کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہونے کے باوجود معاشرتی معاملات میں صحابہ اکرام کو ساتھ لے کر چلتے تھے، تو ہمارے علماء کیا نعوذ باللہ ان سے زیادہ درجہ رکھتے ہیں یا ان سے زیادہ دین سمجھتے ہیں؟ عام مسلمان پر حکومت کرنا یا اتھارٹی بن کر رہنا تو سراسر اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی کام کے لیے تو اسلام آیا تھا کہ انسان پر اتھارٹی صرف اللہ کی ہے اور انسان سوائے اللہ کے کسی کا غلام نہیں ہے تاکہ معاشرے کو فرعون و نمرود اور شخصیت پرستی سے بچایا جا سکے۔ اگر قوم کو پھر سے غلام ہی بنانا ہے تو پھر مذہب اسلام کو تو کم از کم استعمال نہ کیا جائے۔
کیا کسی نے فواد چوہدری جیسے مسخرے پر اتنا شور بھی مچایا ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی جیسے اہم وزارت کو اس مداری کے ہاتھ میں دینے کو نہیں مانتے۔ بلکہ کسی پی ایچ ڈی ماہر کو یہ وزارت دی جائے۔
جی بالکل اسی فورم پر اس پر تنقید موجود ہے۔ سوشل میڈیا پہ تو شب و روز فواد چوہدری صاحب تنقید کی زد میں ہیں لیکن معلوم نہیں ہم کیوں اس سے صرفِ نظر کرنے پہ تلے ہیں۔
دینی علوم کو سب نے الف ب کا قاعدہ سمجھا ہوا ہے، یہ اعزاز بھی جہالت کے اس پاکستانی گھڑے کے باسیوں کو جاتا ہے۔ قرآن وحدیث جیسے ہم پر نازل ہوئے ہوں، فقہ میں ہر کسی نے ڈبل پی ایچ ڈی کیے ہیں۔ کوئی بھی شخص اٹھ کر علما کی تشریحات پر انگلی اٹھانا گویا کمال سمجھتا ہے۔
اس خطہ پاک کا معلوم پڑتا ہے اپنا ہی اسلام ہے جہاں علماء کی تشریحات پہ انگلی اٹھانا گناہ کبیرہ ہے۔ یاد رہے کہ ایک ان پڑھ بھی علماء کی تشریح پہ سوال کر سکتا ہے کیونکہ دین ہر مسلمان کا ہے اور یہی عین معاشرت کا حصہ ہے۔ اب یا تو پھر ان پڑھ کو جینے کا حق نہیں حاصل یا پھر وہ اس خطہ پاک سے ہجرت کر جائے۔ عالم کا کام مخلصانہ اپنی تشریح پیش کرنا ہے، اس کو مسلط کرنا نہیں ہے۔
پھر اوپر سے اپنی ہی تشریحات منوانے کو ناگزیر
تشریح "منوانا" ہی تو غلط ہے بلکہ اصل اصول تو باہمی مشاورت سے کسی منطقی نتیجہ پہ پہنچنا ہے۔ اگر کوئی اپنی تشریحات منوانے پہ بضد ہے تو پھر اس میں اور جس پر وہ تنقید کر رہا ہے کوئی فرق نہیں۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
کیا نماز سورج کے حساب سے صحیح وقت پر پڑھنا اسلامی مسئلہ نہیں ہے؟
جب سائنس آپ کو بتاتی ہے کہ فلاں دن اتنے بجے سورج آسمان پر اس مقام پہ ہوگا کہ آپ عقیدہ کی رو سے نماز ادا کر سکتے ہیں تو تب آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ نماز کا کیلنڈر سال پہلے ہی چھپ کر تیار ہو جاتا ہے۔ اور سارے آنکھیں بند کرکے اس پر چلتے ہیں۔
لیکن جب یہی سائنس آپ کو بتاتی ہے کہ فلاں دن اتنے بجے چاند آسمان پر اس مقام پہ ہوگا کہ وہ انسانی آنکھ سے نظر آجائے گا تو لوگ کہتے ہیں جاؤ ایسی سائنس و ٹیکنالوجی کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ سورج دیکھنے کیلئے ایک اور چاند کیلئے دوسرا معیار ہے۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

بھائی جان مسئلہ بہت مختلف ہے۔ سورج کو غروب ہوتے دیکھنا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سال میں 365 دن غروب ہوتا ہے۔ ایک آدھ دن بادل آ بھی گئے تو پچھلے سال کے وقت سے غروب آفتاب کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ چاند کی پیدائش بھی اسی طرح آج کل کے دور میں معلوم کرنا مشکل نہیں ہے۔ چونکہ یہ اسلامی مسئلہ ہے اور احادیث میں چاند کے دیکھے جانے پر اصرار ہے، تو moon birth کو criterion نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ چاند کو غروب آفتاب کے وقت سورج سے چند درجے بلند ہونا چاہئے تب کہیں جا کر نظر آئے گا۔ یہ دیکھا جانا بادلوں، افق کی اونچائی وغیرہ پر منحصر ہے۔ اس لئے کوئی ایک ایسا کلینڈر سائنسی اعتبار سے بھی بنانا بہت مشکل ہے جو سو فیصد کام کرے۔

اسی لئے جو روئیت ہلال کمیٹی کا طریقہ ہے وہ درست ہے۔ یہ کمیٹی بیٹھتی ہی اس وقت ہے جب چاند دیکھے جانے کا سائنسی طور پر امکان موجود ہو، یعنی چاند کی پیدائش ہو چکی ہو۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کراچی میں چاند دیکھنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اس لئے کمیٹی بیٹھتی بھی کراچی میں ہے۔ اس کے بعد شواہد پر چاند دیکھے جانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ البتہ شواہد میں کیمرے کی تصاویر اور وڈیوز بھی شامل کر دی جائیں تو یہ نظام اور بھی فول پروف ہو جائے گا۔

جہاں تک تعلق پوپلزئی کا ہے، تو وہ کمیٹی آفیشل نہیں ہے۔ اور ان کے شواہد کا معیار بھی عمدہ نہیں ہے۔ تو اکثر وہ غلطی کرتے ہیں اور ملک میں دو عیدیں ہو جاتی ہیں۔

اب اگر فواد چوہدری ایک اور نظام لے آئے ہیں تو اس کیلینڈر کا دارومدار بھی moon birth پر نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے چاند کی اونچائی پر ایک threshold لگایا ہے جس کے ذریعے کلینڈر متعین کر دیا ہے۔ چونکہ اس کی مزید ڈیٹیلز ویبسائٹ پر نہیں ہیں تو کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کتنا کار آمد ہوگا۔ لیکن اس ماڈل کو بھی بہتر بنانے کے لئے چاند کا دیکھا جانا پھر بھی ضروری ہو گا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
چاند کو غروب آفتاب کے وقت سورج سے چند درجے بلند ہونا چاہئے تب کہیں جا کر نظر آئے گا۔
کیا سائنسی بنیادوں پر رویت ہلال کیلئے کم سے کم یہ درجہ معلوم نہیں کیا جا سکتا؟ اور اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر اسی درجہ کے حساب سے رویت ہلال کیلنڈر بنا لیا جائے تو وہ مذہب کی رو سے قابل قبول نہیں ہوگا؟
 

احمد محمد

محفلین
مجھے دنیا داری کے معاملات کے لیے قمری کیلنڈر وغیرہ کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، البتہ ہلال کی رویت سے جڑے مذہبی فرائض کی بجا آوری کے لیے کیلنڈر کو حتمی نہیں مان سکتا۔

چوہدری صاحب!
معذرت کے ساتھ، اکثرو بیشتر تمام مساجد میں آذان کے اوقات سائنس کے ہی مرتب کردہ دائمی کیلنڈر سے دیکھ کر طے کئے جاتے ہیں۔ بعض مساجد میں برملا آویزاں ہوتا ہے تو بعض خطیب حضرات نے کسی الماری میں رکھا ہوتا ہے۔ تب اوقاتِ نماز کو غیر حتمی ماننے پر کوئی مصر کیوں نہیں ہوتا؟
 

سید ذیشان

محفلین
کیا سائنسی بنیادوں پر رویت ہلال کیلئے کم سے کم یہ درجہ معلوم نہیں کیا جا سکتا؟ اور اگر کیا جا سکتا ہے تو پھر اسی درجہ کے حساب سے رویت ہلال کیلنڈر بنا لیا جائے تو وہ مذہب کی رو سے قابل قبول نہیں ہوگا؟
لوگوں نے بہت سے criterion بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر عید چاند دیکھنے پر ہی ہو سکتی ہے تو پھر چاند دیکھ کر منائی جائے گی۔ غامدی صاحب کے علاوہ شائد کوئی اور سکالر ایسا نہیں ہے جو کہ فکسڈ کلینڈر کے حق میں ہو۔ ایسے میں کلینڈر فکس کرنا فضول کام ہے۔
 

آصف اثر

معطل
چیخ و پکار۔۔۔ اوٹ پٹانگ۔۔۔ مینڈک۔۔۔ ٹے ٹے۔۔۔
حوصلہ رکھو یار۔۔۔ :eek:
آپ تو مہذب آدمی ہو۔
حوصلہ ہی تو ہے جو مینڈکوں سے تشبیہ دے رہا ہوں۔ اور وہ بھی ٹے ٹے سے ٹیں ٹیں سے نہیں!:sneaky:
ویسے مجھ سمیت آپ کو بھی یہ کڑوے گھونٹ کچھ مزید برداشت کرنا ہوں گے۔ لکھتے ہوئے کافی تذبذب ہوا تھا لیکن پھر سوچا اتنے چھوٹے موٹے الفاظ سے اس طبقے کا کچھ نہیں ہوگا، گزارہ کرلیتے ہیں۔ معاملہ ویسے تو بہت خراب ہے۔ آپ جب فارغ ہوں تو "ریشنالیٹی" بیس پر سوچیے۔ پرویز ہود صاحب سے تو ویسے بھی اب گلا نہیں رہا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
قرآن کی کونسی آیت ہے؟

مجھے کیوں نہیں مل رہی؟
Capture.jpg
 

م حمزہ

محفلین
اس میں چاند کو دیکھنے کا ذکر کہاں سے بھر دیا آپ نے۔
اور پھر عید منانے والے بات؟ واہ واقعی کمال کرتے ہیں آپ۔

چاند کو دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر عید منانے والی بات قرآن میں نہیں حدیث میں بتائی گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس میں چاند کو دیکھنے کا ذکر کہاں سے بھر دیا آپ نے۔
اور پھر عید منانے والے بات؟ واہ واقعی کمال کرتے ہیں آپ۔
مجھے جو قریب ترین حوالہ ملا وہ میں نے پوسٹ کر دیا۔ اگر یہ مضمون میں خود لکھتا تو ساتھ پورا حوالہ لگا دیتا۔
اور اگر ایسا کوئی حوالہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو یہاں مضمون نگار نے صاف غلطی کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاید الفاظ کی وجہ سے۔ سورج کے فلاں مقام پر ہونے کے الفاظ بمقابلہ چاند کو دیکھنے کے الفاظ۔
یہی بنیادی اختلاف ہے۔ چاند آنکھ سے نظر آنا چاہئے وگرنہ رمضان و عید ممکن نہیں ہو سکے گی۔
اس حکم کے پیچھے بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوگی۔
 
Top