جو لوگ علوم اسلامیہ کے ماہر ہیں ان علما کی اتھارٹی پر ہم سیخ پا ہوتے دیر نہیں کرتے
اختلاف کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ جو لوگ علوم اسلامیہ کے ماہر ہیں کیا وہ "فرشتے" ہیں یا ان کا درجہ نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کے ہے؟ بحیثیت انسان علماء بھی خطا سے پاک نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے کسی بھی دیگر علوم کے ماہرین خطا سے آزاد نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ دیگر علوم کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ غلط ہو سکتے ہیں لہذا وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کبھی نہ کبھی مسئلے کے حل کی طرف پہنچ جاتے ہیں اور ضد کر کے ایک جگہ اڑے نہیں رہتے لیکن ہمارے علوم اسلامیہ کے ماہر بات کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس چیز کا کل علم رکھتے ہیں اور ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی لہذا ان سے اختلافِ رائے رکھنا گناہِ کبیرہ ہے۔ ہماری منافقت کا معیار یہ ہے کہ ہم سائنسدانوں پر تنقید اور ان کو خطاوار اور سزاوار ڈکلیئر کرنے میں تو نہیں چوکتے بلکہ ان کی ذاتی قابلیت میں بھی مذہب گھسیڑ دیتے ہیں لیکن جب بات علوم اسلامیہ کے ماہرین پہ آتی ہے تو تقدس کی ڈھال پہنا کر ان پر تنقید کو حرام قرار دے دیتے ہیں اور اس وقت ان کی ذاتی قابلیت کو زیر بحث لانے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔
دوم آپ نے اتھارٹی کا ذکر کیا تو عرض کرتا چلوں کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہونے کے باوجود معاشرتی معاملات میں صحابہ اکرام کو ساتھ لے کر چلتے تھے، تو ہمارے علماء کیا نعوذ باللہ ان سے زیادہ درجہ رکھتے ہیں یا ان سے زیادہ دین سمجھتے ہیں؟ عام مسلمان پر حکومت کرنا یا اتھارٹی بن کر رہنا تو سراسر اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی کام کے لیے تو اسلام آیا تھا کہ انسان پر اتھارٹی صرف اللہ کی ہے اور انسان سوائے اللہ کے کسی کا غلام نہیں ہے تاکہ معاشرے کو فرعون و نمرود اور شخصیت پرستی سے بچایا جا سکے۔ اگر قوم کو پھر سے غلام ہی بنانا ہے تو پھر مذہب اسلام کو تو کم از کم استعمال نہ کیا جائے۔
کیا کسی نے فواد چوہدری جیسے مسخرے پر اتنا شور بھی مچایا ہے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی جیسے اہم وزارت کو اس مداری کے ہاتھ میں دینے کو نہیں مانتے۔ بلکہ کسی پی ایچ ڈی ماہر کو یہ وزارت دی جائے۔
جی بالکل اسی فورم پر اس پر تنقید موجود ہے۔ سوشل میڈیا پہ تو شب و روز فواد چوہدری صاحب تنقید کی زد میں ہیں لیکن معلوم نہیں ہم کیوں اس سے صرفِ نظر کرنے پہ تلے ہیں۔
دینی علوم کو سب نے الف ب کا قاعدہ سمجھا ہوا ہے، یہ اعزاز بھی جہالت کے اس پاکستانی گھڑے کے باسیوں کو جاتا ہے۔ قرآن وحدیث جیسے ہم پر نازل ہوئے ہوں، فقہ میں ہر کسی نے ڈبل پی ایچ ڈی کیے ہیں۔ کوئی بھی شخص اٹھ کر علما کی تشریحات پر انگلی اٹھانا گویا کمال سمجھتا ہے۔
اس خطہ پاک کا معلوم پڑتا ہے اپنا ہی اسلام ہے جہاں علماء کی تشریحات پہ انگلی اٹھانا گناہ کبیرہ ہے۔ یاد رہے کہ ایک ان پڑھ بھی علماء کی تشریح پہ سوال کر سکتا ہے کیونکہ دین ہر مسلمان کا ہے اور یہی عین معاشرت کا حصہ ہے۔ اب یا تو پھر ان پڑھ کو جینے کا حق نہیں حاصل یا پھر وہ اس خطہ پاک سے ہجرت کر جائے۔ عالم کا کام مخلصانہ اپنی تشریح پیش کرنا ہے، اس کو مسلط کرنا نہیں ہے۔
پھر اوپر سے اپنی ہی تشریحات منوانے کو ناگزیر
تشریح "منوانا" ہی تو غلط ہے بلکہ اصل اصول تو باہمی مشاورت سے کسی منطقی نتیجہ پہ پہنچنا ہے۔ اگر کوئی اپنی تشریحات منوانے پہ بضد ہے تو پھر اس میں اور جس پر وہ تنقید کر رہا ہے کوئی فرق نہیں۔