کوئی صاحب وہ حدیث ٓایک الگ دھاگہ میں فراہم کردیں جس میں نماز کا پورا طریقہ کار موجود ہے ۔ اس بات سے یہ نا سمجھئے کہ میں احادیث نبوی کا انکار کرتا ہوں۔ سب سے بڑی احادیث کا مجموعہ تو قرآن حکیم خود ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ، رسول اکرم کٓی زبان سے ادا ہوا۔ قرآن اور حدیث ایک دوسرے کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے ۔ لیکن ہم موضوع کو صرف اور صرف رویت ہلال یعن آنکھ سے چاند دیکھنے کی حد تک محدٓود رکھتے ہیں۔
رویت ہلال کی روایات:ٓ
آنکھ سے چاند دیکھ کر مہینہ شروع کرنے کے بارے میں روایات
قرآن پر ہمارا ٓایمان ہے، یقین ہے، اب اگر کوئی دوسری کتاب سے کوئی نکتہ پیش کیا جائے تو کیا ہم کو اس پر قرآن کی طرح اندھا یقین رکھنا ہے ، ایمان رکھنا ہے؟ یا اس کو قرآن حکیٓم کی روشنی میں پرکھنا ہے؟
اگر آپ اللہ کے فرمان قرآن حکیم پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کتاب میں لکھا ہے کہ یہ کتاب فرقان حمید ہے یعنٓی فرق بتانے والی حتمی دلیل۔ لہذا قرآن حکیم پر ایمان رکھنے کی وجہ سے آپ ریفرنس شدہ روایات کوقرآن ٓحکیم کی مدد سے ہی پرکھیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرں حکیم اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
1۔ ہم اوپر دوسرے دھاگے میں دیکھ چکے ہیں کہ چاند دیکھ کر عید کرنا تالمود کی ایک یہودی روایت ہے۔ ٓ
2۔ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ
55:5 ٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
سورج اور چاند مقررّہ حساب سے چل رہے ہیںٓ
10:5 هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلشَّمْسَ ضِيَآءً وَٱلْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ ذٰلِكَ إِلاَّ بِٱلْحَقِّ يُفَصِّلُ ٱلآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
وہی ہے جس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو منور فرمایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو یہ سب کچھ الله نے تدبیر سے پیدا کیا ہے وہ اپنی آیتیں سمجھداروں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے
ایک طرف اللہ تعالی فرما رہے ہیں، کہ چاند مقررہ حساب سے چل رہا ہے۔ تاکہ سمجھدار لوگ اس سے برسوں کا شمار کرسکیں۔ٓ اور ساتھ ہی ساتھ، اللہ تعالی 55:13 میں چاند اور سورج کی مدد سے برسوں کے شمار کو ایک اپنی نعمت قرار دیتے ہٓیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اللہ تعالی کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
ٓتو دوسری طرف یہودیوں کے ملاء ہیں۔ جو قائیل ہٓیں چاند دیکھے بناء کوئی مہیں شروع ہو نہیں سکتا ، کوئی تہوار ان کی اجازت کے بغیر نہیں منایا جاسکتا، صدیوں سے لوگوں کو ان یہودیوں کے ملاؤں نے قید کررکھا ہے۔
ٓتو یہودیوں کے ملاء ، رسول اکرم سے اس بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان یہودی ملاؤں کی پوزیش ہے کہ چاند دیکھ کر ہی مہینہ شروع ہوسکتا ہے۔ دیکھئے اوپر یہودیں کی بحث۔
اللہ تعالی کی پوزیشن یہ ہے کہ چاند کا حساب ٓہے شمار کرو۔
یہ جھگڑا کوئی نیا نہیں، یہ تو رسول اکرم سے بھی پہلے کا ہے۔ ثبوت یہاں موجود ہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
2:189 ٓيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤٓ
نئے چاند کا مسٓئلہ پہلے بھی یہودیوں کا مسئلہ تھا اور آج بھی ہے۔ اللہ تعالی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ لوگ ، رسول اکرم سے پوچھنے آئے تھے۔ جھگڑتے تھے یہ لوگ ، اس بارے میں آج کی طرح۔
کیا اللہ تعالی نے فرمادیا کہ آنکھ سے چاند دیکھ کر مہینہ شروع کیا کرو یا فیصلہ کردیا کہ چاند سورج حساب سے چل رہے ہیں۔ تاکہ سمجھٓدار لوگ اس سے شمار کیا کریں؟
یہودی ملاؤں کا جھگڑا آج بھی جاری ہے۔ قرآن حکیم کا فیصلہ صاف اور واضح موجود ہے۔ جو لوگ زور دیتے ہیں کہ حدیث میں ہے تو ان سے سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف رسول اکرم اپنی زبان سے قرآن کے ٓالفاظ ادا کرچکے ہیں۔ وہ اس بیان کے مخالف کس طرح ایسا فرما سکتے ہیں جو قرآن کے حکم کے برعکس ہے، جب کہ وہ جانتے تھے کہ چاند کب افق پر نمودار ہوتا ہے اور ٓبہت تھوڑی دیر رہتا ہے، بادل چھائے ہو سکتے ہیں، گرد و غبار کا طوفان ہو سکتا ہے ، نکات آپ کے سامنے ہیں، قرآں کی کسوٹی پر یہ روایت کتنی پوری اترتی ہے، فیصلہ آپ خود کیجئے۔
چاند اور سورج کو آپ کے لئے مسخر کیا ہے یا آپ کو چاند و سورج کا مسخر کیا ہے۔
16:12 وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالْنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَٓ
اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بیشک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں
اب تک تو مسلمان یہ ثابت کرتے آئے ہیں کہ وہ عقل والی قوم نہیں۔ اللہ کرے یہ تبدیلی آئے۔
والسلام