چانکیہ اور آج کا بھارت

آج کل بھارت کی جتنی بھی سیاسی پالسی بنتی ہیں وہ چانکیہ کی فلاسفی پر بنتی ہیں
چانکیہ کی فلاسفی کے چند نظارے ان مضامین میں
 
کوٹلیا چانکیہ
ہندووں کے یہاں صرف ایک سیاسی فلسفی پیدا ہوا تھا۔جو چانکیہ تھا۔فلسفی سیاسیات ہونے کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو کوٹلیا کہلانے پر فخر محسوس کرتا تھا کیونکہ کوٹلیا کے معنی مکار اور فریب کار ہندووں کی تصانیف میں چانکیہ کوٹلیا کی تحریر کردہ کتاب ارتھ شاستر کی بہت اہمیت حاصل ھے۔ارتھ شاستر میں لکھے گئے اصول درج ذیل ہیں
حصول اقتدار اور ملک گیری کی ھوس کبہی ٹھنڈی نہ ھونے پائے۔
ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک کیا جائے جو دشمنوں سے کیا جاتا ھے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔
غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات رکھے جائے۔
جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رھے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ روشن رکھی جائے۔ہر بہانے سے جنگ کی چنگاریاں سلگائی جائیں،جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی پرواہ نہ کی جائے۔
دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگینڈا تخریبی کاروائیاں،بدامنی پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے۔وہاں اپنے آدمی ناجائز ذرائع سے داخل کر کے خفیہ محاذ قائم کیا جائے جو حکومت کے خلاف سازشیں برپا کرے۔
رشوت اور دیگر ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے اور دوسرے ملکوں کے غداروں کو خریدنے کی کوشش کی جائے۔
امن کے قیام کا خیال دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کرے۔

http://www.itdarasgah.com/showthread.php?t=2859
 
چانکیہ ۔ ہندو راج نیتی کا پیغمبر ....سفارت نامہ

ہمارا انگریزی دان طبقہ میکا ولی اور اصول جہانبانی پر اس کی معروف زمانہ تصنیف ”دی پرنس“ سے بڑی حد تک واقف ہے جو دنیا بھر کے حکمرانوں میں خاصی مقبول رہی ہے۔ ہمارے ہاں کے حکمرانوں کو کتب بینی جیسے غیر منفعت بخش مشغلہ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”دی پرنس“ ان کے بیڈروم کی زینت ہوتی تھی۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ برصغیر کے مردم خیز خطّہ نے بھی اس شعبے میں ایک ایسا ذہن رسا پیدا کیا جس کے آگے میکاولی بھی پانی بھرتا دکھائی دیتا ہے۔ میری مراد چانکیہ سے ہے جسے بھارتی راج نیتی میں پرافٹ آف پالیٹکس ”پیغمبر سیاست“ کا مقام دیا جاتا ہے۔ جس کے ملفوظات پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت تقریباً سب ہی بھارتی حکمرانوں کے زیر مطالعہ ہی نہیں رہے بلکہ وہ ان سے مستفید بھی ہوتے رہے ہیں۔
برصغیر کا باسی ہونے کے ناطے اور یہاں کے منفرد زمینی حقائق کے پیش نظر مجھے ہمیشہ میکاولی کی نسبت چانکیہ کی شخصیت اور افکار میں زیادہ گہرائی، موزونیت اور مناسبت محسوس ہوئی اور میں نے اس کے مطالعہ کی تھوڑی بہت کوشش بھی کی ہے۔ چانکیہ اپنی ذہانت اور فطانت کے بل بوتے پر ایک عام اہلکار سے ترقی کر کے ہندو حکمران چندرگپت موریہ کا اہم ترین وزیر بنا اور زندگی بھر بادشاہ کے رہبر و اتالیق کے فرائض انجام دیتا رہا۔
چانکیہ کے نزدیک راج نیتی میں نیکی، اچھائی (Virtue) کی مطلق گنجائش نہیں۔ حکمران اصول و ضوابط، اخلاق، شرافت، نرمی، معافی جیسی ”فضولیات“ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کامیابی کے لئے چالاکی، عیاری، فریب، دھوکہ جیسی ”ارفع“ خصوصیات کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چانکیہ کی سیاسی فلاسفی کے مطابق دشمن پر اپنے عزائم کبھی ظاہر نہ ہونے دو، اسے ہمیشہ اندھیرے میں رکھو، اس سے تلخ گفتگو نہ کرو، شیریں بیانی سے کام لو، اسے زہر سے نہیں گڑ سے مارو، دشمن کو کسی صورت وقت نہ دو، اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ دوست ہمیشہ طاقتور کو بناؤ، کمزوروں کے ساتھ دوستی کا محض ناٹک کرو، ہمیشہ دشمن کے قلب پر حملہ کرو۔ یمین و یسار خود بہ خود چت ہو جائیں گے۔ ہمسائے کو کبھی منہ نہ لگاؤ، اس سے دشمنی اور ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو تاکہ وہ دو دشمنوں میں پھنس کر رہ جائے۔ ضرورت پڑنے پر دوست سے منہ پھیر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اسے قتل بھی کرنا پڑے تو کر گزرو۔ چانکیہ کے حروف عمل (Action Words) کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ ”دھتکار، پھنکار، للکار، مار اور فرار“ جو بلاشبہ اس کی ساری فلاسفی کا نچوڑ ہیں۔
بہ نظر غائر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں پاک بھارت تعلقات اور ممبئی دہشت گردی ڈراما اس قدیم ہندو سیاسی مفکّر کے افکار و فرمودات کی عملی تفسیر بنے۔ برسوں سے دونوں ملکوں کے مابین جامع مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اعتماد سازی کی تجاویز کے انبار لگتے آ رہے ہیں۔ افسروں کی سطح سے لے کر لیڈر شپ لیول تک مذاکرات تسلسل کے ساتھ ہوتے آئے ہیں۔ جب ممبئی کا حادثہ ہوا تو اس وقت بھی پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے ہم منصب کے ساتھ وزارتی سطح کے مذاکرات کے چوتھے راؤنڈ کے لئے دہلی میں موجود تھے۔ عشرہ بھر سے بھارت نے پاکستان کو ان لا یعنی جامع مذاکرات کے چکر میں ڈال رکھا ہے جو اس کی محض وقت حاصل کرنے یا وقت ضائع کرنے کی چال ہے۔ جوں ہی پاکستان نے ان بھل بھلیوں سے نکل کر حقیقی مسائل کے حل پر زور دیا، بھارت سفارتی آداب بھول بھال گیاگویا جب پاکستان نے مزید گڑکھانے سے انکارکیا تو اسے دھتکار دیا گیا۔
اینٹی ٹیرورسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے بھارتی سیکورٹی کے ماتھے کا جھومر تھا۔ ہر مشکل واردات کی گتھی سلجھانے کے لئے اس کا نام لیا جاتا تھا لیکن جب سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زدگی اور بعض دیگر گھناؤنی وارداتوں کے ڈانڈے انڈین آرمی سے جا کر ملے اور ایک حاضر سروس کرنل اور دوسرے فوجی افسروں کی انکوائری چل نکلی اور دو جیل جا پہنچے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ امن و شانتی اور قانون کی بالادستی لا یعنی قرار پائے اور اس دیانتدار پولیس افسر کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ سانحہ ممبئی کے دوران وہ اپنی پوری انکوائری ٹیم سمیت شہر کی ایک ایسی غیر معروف پتلی گلی میں مارا گیا جہاں ان کا پایا جانا کسی طور بھی قرین قیاس نہیں تھا۔ یوں ”دوستوں“ کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے بعد چانکیہ کے پیرو کار اس انہونی پر انگلی اٹھانے والے اقلیتی وزیر اے آر انتولے کو بھی برداشت نہیں کر پائے۔ ایک اصولی سوال اٹھانے کی پاداش میں کرکرے اور ان کی پوری ٹیم ایک ہی وقت میں اپنے مقتل پر کیوں کر پہنچی۔ انتولے صاحب پر تنقید کے وہ تیر و تفنگ چلائے گئے کہ الامان الحفیظ، انہیں غدار اور پاکستان کا ایجنٹ تک کہا گیا۔ ایسے میں مستعفی ہونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اختلاف رائے کی اس سے بڑی قیمت اور کیا چکائی جا سکتی تھی؟
ممبئی دہشت گردی سے چانکیہ کے چیلوں نے آئی ایس آئی، کشمیر اور ہمارے جوہری اثاثوں کو گزند پہنچانے سمیت دیگر کئی فوائد حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ افواج پاکستان کا قلب آئی ایس آئی الحمدللہ دشمنوں کا پتّہ پانی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا سب کی نظر میں کھٹکتی ہے۔ جمعیت الدعوة کے ساتھ آئی ایس آئی کا تعلق جوڑ کر اسے دہشت گردوں کا ساتھی ثابت کرنے کی بھارتی سازش برے طریقے سے ناکام ہوئی۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک پھر سے زندہ ہونے اور نئے امریکی صدر اوباما کی اس قضیّے کے حل میں دلچسپی نے نئی دہلی کی رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
ممبئی میں انہوں نے اسے ایک دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی جس کا اعادہ مستقبل میں بھی ہو سکتا ہے۔ رہا پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تو وہ تو ہے ہی اس کے دل کا سب سے بڑا اور مہلک کانٹا جو الحمدللہ تا قیامت نکلنے والا نہیں۔ فی الحقیقت حالیہ بھارتی جنگی جنون باسی کڑھی کا ابال تھا۔ پاکستان دبتا گیا اور دہلی کا دباؤ بڑھتا گیا اور ایک وقت تو پاکستانی حدود کے اندر سرجیکل اسٹرائک کی بات بھی ہوئی۔ مگر جوں ہی پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا عندیہ دیا تو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بات کی توبادل چھٹ گئے اور بھارتی وزیر خارجہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اسلام آباد کو کارروائی کے لئے دھمکی یا الٹی میٹم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت کسی کے خلاف نہیں، دونوں ممالک کو دہشت گردی کا چیلنج مشترکہ طور پر لینا چاہئے۔ سرحدوں پر معمول کے مطابق سرگرمی ہے، اضافی تعیناتی کا سوال ہی نہیں۔ تعجب ہے۔ چانکیہ افکار اور دہلی سرکار کی کتنی گاڑھی چھنتی ہے!!


http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=325915
 
چانکیہ کے افکار سے عبارت.... بھارتی سیاست

یہ ایک بدیہہ حقیقت ہے کہ بھارت کے موجودہ حکمران چانکیہ کے ”اقوال زریں“ پر آج بھی پوری طرح عمل پیرا ہیں اور یہ حقیقت تو آپ کے علم میں ہوگی کہ چانکیہ کے نظریات‘ اخلاقی قدروں سے کلی طور پر عاری ہیں۔ ان کی سوچ‘مطلب برداری اور طالع آزمائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور اصولوں کی پاسداری کا ان کے کوچے سے کوئی گزر بسر نہیں ہوتا۔ چانکیہ مہاراجہ چندر گپت کی کابینہ میں وزارت کے عہدے پر فائز تھے اور ان کے نزدیک کامیابی کا راز یہ تھا کہ اپنے ملک کے حکمران‘ پڑوسی کے دشمن سے دوستی کا رشتہ استوار کرلیں تاکہ دونوں مل کر اپنے مشترک دشمن کے گس بل نکال سکیں۔ چانکیہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ دوستانہ مراسم محض مطلب براری کی غرض سے استوار کیے جانے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے اصل ارادوں اور منصوبوں کا علم اپنے پڑوسی ملک کو نہ ہونے پائے۔ وہ اصل حقیقت کو پردہ¿ راز میں رکھنے اور سطح کاری کو ٹھوس حقیقت کے روپ میں پیش کرنے کے قائل تھے۔ چانکیہ اپنے حریفوں کو شیشے میں اتارنے کے فن سے خوب واقف تھے اور وہ اپنے مدمقابل کو میٹھی لوریاں دے کر گہری نیند سلانا بھی جانتے تھے۔ اپنے مخالف کی جانب گرم جوشی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے تھے اور سکوں کی جھنکار سے اسے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ان کا سب سے زیادہ کارگر تسمہ یہ تھا کہ پراسرار خاموشی کے ساتھ اپنے مدمقابل کے خلاف تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور پھر موقع ملتے ہی اسے چاروں خانے چت گرادیاجائے۔ ان کی ایک اور ادا یہ تھی کہ وہ اپنے ”باس“ کو اپنے دشمن کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مشورہ صرف اسی وقت دیتے تھے‘ جب انہیں یہ احساس ہوجاتا تھا کہ ان کا مدمقابل اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ چانکیہ کی اس اسٹرٹیجی کو بھارت نے 1965ءکی جنگ میں پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کیا پھر 1971ءکے آس پاس بھارت نے چانکیہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بنگالیوں سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کردیا تھا۔ بھارت نے اس موقع پر مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب کے خلاف اتنا زہر آلود پروپیگنڈا کیا کہ بنگالی مسلمانوں نے مرکز کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بھارت نے شیخ مجیب الرحمن کو مہرے کے طور پر استعمال کیا اور اس طرح چانکیہ کے ”اقوال زریں“ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ازاںبعد پاکستان جب ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بھارت کو پتا چل گیا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے امکانات بہت مدھم پڑ گئے ہیں تو اس نے میدان جنگ میں ”داد شجاعت“ دینے کے بجائے پاکستان کے خلاف ”تخریب کاری“ کی مہم شروع کردی اور وہ آج تک ممبئی ”مہم“ سر کرنے میں سرگرداں ہے۔ وہ بقو ل شاعر اس فارمولے پر کاربند ہے کہ نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ ذرا آگے چل کر بھارت نے 2004 ءمیں پاک بھارت جامع امن مذاکرات کا ڈول ڈال کر پاکستان کو اپنے ”دام تزویر“ میں پھنسانے کی کوشش کی ہے اور اس آڑ میں اس نے پاکستان کو بے مقصد مذاکرات میں الجھا کر مسئلہ کشمیر کو ترجیحات کے اعتبار سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بھارت نے اپنے”گرو“ چانکیہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے اور اب اس نے اپنی حریصانہ نگاہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر گاڑ رکھی ہیں۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ جنگ چھیڑے بغیر پاکستان کو ان اثاثوں سے محروم کردے۔ امریکا اور اسرائیل اب بھارت کے حلیف بن چکے ہیں اور تمام مغربی دنیا اور روس کا شمار بھی اس کے قدر دانوں میں ہوتا ہے۔ ادھر پاکستان جو گوناگوں داخلی اور خارجی مصائب میں گرا ہوا ہے‘ اب عالمی سطح پر تنہائی کا شکار دکھائی دیتا ہے اور اس تناظر میں بھارت اب محسوس کررہا ہے کہ پاکستان پر کاری ضرب لگانے کا سنہری موقع اس کے ہاتھ آگیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جملہ مصائب کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے اور اس ضمن میں پاکستان نے بھارت کے ہاتھوں بہت گہرے زخم کھائے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر کب تک بھارت اپنے جنگی جنون میں پاکستان اور پاکستانی قوم کو تختہ مشق بناتا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں بات کی جائے اور ممبئی کی آڑ میں اس نے پاکستان کے گرد حصار تنگ کرنے کا جو عمل شروع کیا جائے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ہماری ”فدویت“اور ”نیاز مندی“ سے اس نے بہت فائدہ اٹھایا ہے اب یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ پاکستان کو درپیش مشکلات صرف بھارت کی جانب سے ہی ہمیں ”موصول“ نہیں ہورہی ہیں۔ اس میں کئی اور”پردہ نشینوں“ کے نام میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکا دونوں کی بھرپور خواہش ہے کہ پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کرکے اسے تابع مہمل میں تبدیل کردیا جائے۔ اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل میں امریکا اور اسرائیل کبھی بھارت کے ساتھ مل کر اور کبھی افغانستان کی جانب سے پاکستان کے آزاد قبائل پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے حساس علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کو بپا کرکے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیے دیتے ہیں۔ یہ ساری مذموم حرکات‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہیں۔ اب ممبئی حادثات کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بھارت کی ان شاطرانہ چالوں کو منہ توڑ جواب صرف اسی صورت میں دیا جاسکتا ہے کہ پاکستان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ اس کی صفیں کج‘ دل پریشا ں اور سجدے بے ذوق دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں دشمن کی چالیں اگر کامیاب ہوتی دکھائی دینے لگیں تو اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے؟

http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=8&coluid=573
 

arifkarim

معطل
شکریہ۔ ویسے توکافی ایک طرفہ آرٹکل ہے، پر ایک بات کی تصدیق کر دوں کہ "چانکیہ" اور "صیہونیت" آپس میں کافی ملتی جلتی ہے۔
 
بھارت کی چانکیائی سیاست

بھارتی سیاست میں''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس''۔''آپ کا ہمسایہ ہمیشہ آپ کا دشمن ہوتا ہے، جبکہ ہمسائے کا ہمسایہ ا پ کا دوست ہوتا ہے'' ۔''دشمن کی طرف محبت و دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، جب وہ قریب آئے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دو،پھر اس کے ساتھ مل کر بچاؤ،بچاؤ کی آواز نکالو اور جب دشمن مرجائے تو اس کی لاش پر بین کرو''۔ ''اپنی کمزوری اور اپنی ناکامی کو کبھی تسلیم نہ کرو،ہمیشہ اپنی شکست کا الزام دوسروں پر تھو پ دو''۔''اپنا اندورنی اتحاد قائم رکھنے کیلئے ہمیشہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت سے جنگ چھیڑے رکھو۔

''پہلی ہندؤ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے چندر گپت موریہ کے وزیر چانکیہ کے وہ پانچ اصول ہیں، جن کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کی قومی پالیسی کا حصہ بنایا اور آج 62سال گزرنے کے بعد بھی بھارت کی قومی پالیسی انہی چانکیائی اصولوں کے گرد گھوم رہی ہے ،آج بھارت جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے اصول پر گامزن ہے،وہ اپنے ہمسایوں پاکستان اور چین کو اپنا دشمن اور ایران ،افغانستان اور روس کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اسی رویہ کی وجہ سے نیپال، سکم، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، میانمار حتٰی کہ چین جیسے پڑوسی ملک بھی بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہمسایوں پر دباؤ اور دھمکیوں کے ہتھکنڈوں کا سامنا کر رہے ہیں۔


http://www.geourdu.com/columnDetail.php?cID=842
 
Top