چانکیہ ۔ ہندو راج نیتی کا پیغمبر ....سفارت نامہ
ہمارا انگریزی دان طبقہ میکا ولی اور اصول جہانبانی پر اس کی معروف زمانہ تصنیف ”دی پرنس“ سے بڑی حد تک واقف ہے جو دنیا بھر کے حکمرانوں میں خاصی مقبول رہی ہے۔ ہمارے ہاں کے حکمرانوں کو کتب بینی جیسے غیر منفعت بخش مشغلہ سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”دی پرنس“ ان کے بیڈروم کی زینت ہوتی تھی۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ برصغیر کے مردم خیز خطّہ نے بھی اس شعبے میں ایک ایسا ذہن رسا پیدا کیا جس کے آگے میکاولی بھی پانی بھرتا دکھائی دیتا ہے۔ میری مراد چانکیہ سے ہے جسے بھارتی راج نیتی میں پرافٹ آف پالیٹکس ”پیغمبر سیاست“ کا مقام دیا جاتا ہے۔ جس کے ملفوظات پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت تقریباً سب ہی بھارتی حکمرانوں کے زیر مطالعہ ہی نہیں رہے بلکہ وہ ان سے مستفید بھی ہوتے رہے ہیں۔
برصغیر کا باسی ہونے کے ناطے اور یہاں کے منفرد زمینی حقائق کے پیش نظر مجھے ہمیشہ میکاولی کی نسبت چانکیہ کی شخصیت اور افکار میں زیادہ گہرائی، موزونیت اور مناسبت محسوس ہوئی اور میں نے اس کے مطالعہ کی تھوڑی بہت کوشش بھی کی ہے۔ چانکیہ اپنی ذہانت اور فطانت کے بل بوتے پر ایک عام اہلکار سے ترقی کر کے ہندو حکمران چندرگپت موریہ کا اہم ترین وزیر بنا اور زندگی بھر بادشاہ کے رہبر و اتالیق کے فرائض انجام دیتا رہا۔
چانکیہ کے نزدیک راج نیتی میں نیکی، اچھائی (Virtue) کی مطلق گنجائش نہیں۔ حکمران اصول و ضوابط، اخلاق، شرافت، نرمی، معافی جیسی ”فضولیات“ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کامیابی کے لئے چالاکی، عیاری، فریب، دھوکہ جیسی ”ارفع“ خصوصیات کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ چانکیہ کی سیاسی فلاسفی کے مطابق دشمن پر اپنے عزائم کبھی ظاہر نہ ہونے دو، اسے ہمیشہ اندھیرے میں رکھو، اس سے تلخ گفتگو نہ کرو، شیریں بیانی سے کام لو، اسے زہر سے نہیں گڑ سے مارو، دشمن کو کسی صورت وقت نہ دو، اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ دوست ہمیشہ طاقتور کو بناؤ، کمزوروں کے ساتھ دوستی کا محض ناٹک کرو، ہمیشہ دشمن کے قلب پر حملہ کرو۔ یمین و یسار خود بہ خود چت ہو جائیں گے۔ ہمسائے کو کبھی منہ نہ لگاؤ، اس سے دشمنی اور ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو تاکہ وہ دو دشمنوں میں پھنس کر رہ جائے۔ ضرورت پڑنے پر دوست سے منہ پھیر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اسے قتل بھی کرنا پڑے تو کر گزرو۔ چانکیہ کے حروف عمل (Action Words) کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ ”دھتکار، پھنکار، للکار، مار اور فرار“ جو بلاشبہ اس کی ساری فلاسفی کا نچوڑ ہیں۔
بہ نظر غائر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں پاک بھارت تعلقات اور ممبئی دہشت گردی ڈراما اس قدیم ہندو سیاسی مفکّر کے افکار و فرمودات کی عملی تفسیر بنے۔ برسوں سے دونوں ملکوں کے مابین جامع مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اعتماد سازی کی تجاویز کے انبار لگتے آ رہے ہیں۔ افسروں کی سطح سے لے کر لیڈر شپ لیول تک مذاکرات تسلسل کے ساتھ ہوتے آئے ہیں۔ جب ممبئی کا حادثہ ہوا تو اس وقت بھی پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے ہم منصب کے ساتھ وزارتی سطح کے مذاکرات کے چوتھے راؤنڈ کے لئے دہلی میں موجود تھے۔ عشرہ بھر سے بھارت نے پاکستان کو ان لا یعنی جامع مذاکرات کے چکر میں ڈال رکھا ہے جو اس کی محض وقت حاصل کرنے یا وقت ضائع کرنے کی چال ہے۔ جوں ہی پاکستان نے ان بھل بھلیوں سے نکل کر حقیقی مسائل کے حل پر زور دیا، بھارت سفارتی آداب بھول بھال گیاگویا جب پاکستان نے مزید گڑکھانے سے انکارکیا تو اسے دھتکار دیا گیا۔
اینٹی ٹیرورسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے بھارتی سیکورٹی کے ماتھے کا جھومر تھا۔ ہر مشکل واردات کی گتھی سلجھانے کے لئے اس کا نام لیا جاتا تھا لیکن جب سمجھوتہ ایکسپریس کی آتش زدگی اور بعض دیگر گھناؤنی وارداتوں کے ڈانڈے انڈین آرمی سے جا کر ملے اور ایک حاضر سروس کرنل اور دوسرے فوجی افسروں کی انکوائری چل نکلی اور دو جیل جا پہنچے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ امن و شانتی اور قانون کی بالادستی لا یعنی قرار پائے اور اس دیانتدار پولیس افسر کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ سانحہ ممبئی کے دوران وہ اپنی پوری انکوائری ٹیم سمیت شہر کی ایک ایسی غیر معروف پتلی گلی میں مارا گیا جہاں ان کا پایا جانا کسی طور بھی قرین قیاس نہیں تھا۔ یوں ”دوستوں“ کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے بعد چانکیہ کے پیرو کار اس انہونی پر انگلی اٹھانے والے اقلیتی وزیر اے آر انتولے کو بھی برداشت نہیں کر پائے۔ ایک اصولی سوال اٹھانے کی پاداش میں کرکرے اور ان کی پوری ٹیم ایک ہی وقت میں اپنے مقتل پر کیوں کر پہنچی۔ انتولے صاحب پر تنقید کے وہ تیر و تفنگ چلائے گئے کہ الامان الحفیظ، انہیں غدار اور پاکستان کا ایجنٹ تک کہا گیا۔ ایسے میں مستعفی ہونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اختلاف رائے کی اس سے بڑی قیمت اور کیا چکائی جا سکتی تھی؟
ممبئی دہشت گردی سے چانکیہ کے چیلوں نے آئی ایس آئی، کشمیر اور ہمارے جوہری اثاثوں کو گزند پہنچانے سمیت دیگر کئی فوائد حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ افواج پاکستان کا قلب آئی ایس آئی الحمدللہ دشمنوں کا پتّہ پانی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا سب کی نظر میں کھٹکتی ہے۔ جمعیت الدعوة کے ساتھ آئی ایس آئی کا تعلق جوڑ کر اسے دہشت گردوں کا ساتھی ثابت کرنے کی بھارتی سازش برے طریقے سے ناکام ہوئی۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک پھر سے زندہ ہونے اور نئے امریکی صدر اوباما کی اس قضیّے کے حل میں دلچسپی نے نئی دہلی کی رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
ممبئی میں انہوں نے اسے ایک دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی جس کا اعادہ مستقبل میں بھی ہو سکتا ہے۔ رہا پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تو وہ تو ہے ہی اس کے دل کا سب سے بڑا اور مہلک کانٹا جو الحمدللہ تا قیامت نکلنے والا نہیں۔ فی الحقیقت حالیہ بھارتی جنگی جنون باسی کڑھی کا ابال تھا۔ پاکستان دبتا گیا اور دہلی کا دباؤ بڑھتا گیا اور ایک وقت تو پاکستانی حدود کے اندر سرجیکل اسٹرائک کی بات بھی ہوئی۔ مگر جوں ہی پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا عندیہ دیا تو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بات کی توبادل چھٹ گئے اور بھارتی وزیر خارجہ کو اعلان کرنا پڑا کہ اسلام آباد کو کارروائی کے لئے دھمکی یا الٹی میٹم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت کسی کے خلاف نہیں، دونوں ممالک کو دہشت گردی کا چیلنج مشترکہ طور پر لینا چاہئے۔ سرحدوں پر معمول کے مطابق سرگرمی ہے، اضافی تعیناتی کا سوال ہی نہیں۔ تعجب ہے۔ چانکیہ افکار اور دہلی سرکار کی کتنی گاڑھی چھنتی ہے!!
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=325915