عمار نقوی
محفلین
ہاؤسنگ سوسائٹی تو مجھے یاد پڑتا ہے میرے لیپ ٹاپ میں ہے۔تلاش کرتا ہوں ملی تو ارسال کر دوں گاہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔
ہاؤسنگ سوسائٹی تو مجھے یاد پڑتا ہے میرے لیپ ٹاپ میں ہے۔تلاش کرتا ہوں ملی تو ارسال کر دوں گاہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔
بڑی نوازش ۔۔مجھے یہ پڑھے بہت عرصہ ہو ا لیکن جتنی یاد ہے یہ یقیننا انڈیا سے آنے والے لوگوں کے متعلق لکھی گئی بٹیا جنکا تعلق انڈیا کے انتہائی معتبر گھرانے سے ہوتا ہے لیکن پاکستان آکر بے حد تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ہاؤسنگ سوسائٹی تو مجھے یاد پڑتا ہے میرے لیپ ٹاپ میں ہے۔تلاش کرتا ہوں ملی تو ارسال کر دوں گا
غم روزگار نے ایم بی اے اور ماسڑز تو کروا دیا ڈپلومہ آئی بی پی بھی پر بس یہ خواب ہی رہ گیااخاہ کیا بات ہے بھئی !!
تب تو آپ کو "اگ کا دریا" پر پی ایچ ڈی کر لینا چاہئے تھا
آداب"فرصت اور فراغت کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں۔ فرصت کا ساعت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ ساعت کو شکست دینا آسان ہے۔ اس کے لیے دمِ نزع ایک اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے میدانِ جنگ میں اس جاں بلب تشنہ زخمی سپاہی کا اشارہ جس نے اپنی جان اور پانی پینے کی باری دوسرے زخمی ساتھی کے حق میں دے دی۔ یہ فراغت ان نا شکرے لوگوں کو کہاں نصیب ہوتی ہے جن کی زندگی ہر قدم اور ہر فیصلے پر نفع نقصان کے گوشوارہ بناتے گذر جاتی ہے۔"
اقتباس (سفر نصیب از مختار مسعود مرحوم)
واہ واہ ۔ ۔ ۔ کتنی ساری سچائیاں ایک ساتھ ۔ ۔سیدضمیر حسن دہلوی کی کہانی ‘ستوانسا شہزادہ’ سے انتخاب۔ دہلی والوں کی رواں دواں نثر اور بامحاورہ زبان کی ایک جھلک:
‘‘ پیٹھ پیچھے تو لوگ بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں۔ خلق کا حلق کس نے پکڑا ہے۔ یہ سوچ کے دل کو سمجھا لیتیں کہ بازار کی گالی، ہنس کے ٹالی۔ بدخواہوں نے پیچھا لے لیا۔ کوئی سنے نہ سنے، کہنے والیوں کو تو بس کہنے سے کام تھا۔ للّو چلے ہی جاتی تھی۔نامرادنیں بغضی تھیں۔ ان کا بس چلے تو ایک دن اللہ میاں سے کہہ ساری دنیا کا رزق بند کرادیں۔نہ خدا تُو دے نہ میں دوں۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ حسد کی لگی بُری ہوتی ہے۔ آدمی بے آگ بے پانی جلتا ہے۔ آئیں بُوا ہولتی، اندر ہی اندر کھولتی ،’
سیما جی،شہزادے آگ کا دریا میں نے آٹھ بار پڑھی ۔ جب پڑھی ایک الگ لطف میں نے پہلی بار ابا کی کتابوں سے کار جہاں دراز ہے پڑھی تھی ۔اس وقت میں آٹھویں جماعت میں تھی۔ سمجھ میں نہیں آئی مگر انکو پڑھنا بہت اچھا لگا اور جب سے انکی فین ہون انکی ایک کتاب کی بڑی تلاش ہے مگر مل نہیں رہی ہاؤسنگ سوسائٹی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صابرہ جی!سیما جی،
"آگ کا دریا"، "چاندنی بیگم" اور میرے بھی صنم خانے" تو سمجھ آ گئیں مگر "کار جہاں دراز ہے" سمجھنے میں واقعی مشکل ہے ۔ ۔ عرصہ پہلے کوشش کی پر کچھ بہت دقیق معلوم ہوئ ۔ ۔ ۔ ہندی زبان پر عبور نہیں اس لیئے ۔ ۔ اب دوبارہ شروع کی ہے ۔ ۔
آپ کا ذوق خاصا عمدہ ہے ۔ ۔
لو جی ہم سمجھتے تھے یہ ہمارے گاؤں کی بگڑی ہوئی مخلوط اردو-ہندی کا جملہ ہے۔آج پتہ چلا یہ تو دہلی کی ٹکسالی اردو کا محاورہ ہے۔اللہ اللہ خیر صلّا۔۔۔۔’’