عبدالقیوم چوہدری
محفلین
تو بھائیو اور بہن۔ن۔۔۔و۔۔۔۔۔ ویسے بہنو کو مخاطب نہیں کرنا چاہئے کہ اندیشہ ہائے نقص امن ہو سکتا ہے
کافی عرصے سے ہم سوچ رہیں ہیں کہ چوتھی شادی کے بارے میں سوچا جائے۔ تو آج سچ مچ میں سوچنا شروع کر دیا اور کیونکہ ابھی بھی کافی سارے دن اسی سوچ بچار میں گزرنے ہیں اس لیے ہمارے لیے آج اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اس سوچ کو سوچنے کا سوچ لیا ہے۔۔۔
کسی بھی سوچ کو سوچنے کے بارے میں ہمارے ارادے ایسے پختہ ہیں کہ کوہ ہمالیہ اور اس پر جمی ساری برف مل کر بھی ہمیں اس عظیم کام سے باز نہیں رکھ سکتے البتہ ۔۔ جہاں تک اس سوچ پر عمل کرنے کا تعلق ہے تو یہاں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا والا معاملہ ہمیشہ سے درپیش آتا رہا ہے۔۔۔ کیونکہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہماری اس سوچ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے ۔۔۔۔ہماری تیسری شادی والی خاتون ممکنہ رکاوٹ بن سکتی ہیں سو ان سے بچتے بچاتے ہم اس پارک کی طرف رواں دواں ہوئے ( کہ جس متبرک جگہ بیٹھ کر ہم نے اپنی پہلی شادی کے بارے میں سوچا تھا) کہ کامیابی یہیں بیٹھ کر سوچنے میں ملنی ہے۔ ۔۔۔۔۔اور ہم یہ اکثر سوچتے ہیں کہ اگر یہ پارک نہ ہو تا تو ہم ابھی تک پہلی شادی سے بھی محروم اور ممکنہ طور پر مرحوم بھی ہو سکتے تھے کہ ان دنوں ہم مرنے مارنے پر اتر آئے تھے کیونکہ پہلی شادی سے کچھ ماہ پہلے ہی ہماری آٹھویں سابقہ محبوبہ نے اپنے نئے آنے والے مہمان جو کہ ان کا تیسرا برخوردار تھا کا نام پوچھنے کے لیے ہمیں ایس ایم ایس کیا تھا۔۔۔اور ہمیں وہ ایس ایم ایس کم اور چڑ زیادہ لگی کہ اب یہ ہمیں ایسے ایس ایم ایس کر کے تپا رہی ہیں کہ دیکھ لو ہمرے تین ہوگئے اور چوہا ابھی لنڈورا ہی پھرے ۔۔ خاتون نے جس چلیجانہ انداز میں ایس ایم ایس کیا تھا وہ ذہن و دل میں ایسی کڑواہٹ لے آیا تھا کہ میاں کیا کہویں کہ کریلے بھی منہ چھپائیں وہ الگ بات ہے کہ ہمارے رخ زیبا ڈکشنری ٹائپ کتابی چہرے کا نظارہ فرما کر اکثر آئینے بھی کوئی آہ بھرے بغیر ہی ملک عدم کے راہی ہو جاتے رہے تھے۔۔تو اندر کی کڑواہٹ کیا دم بھرے اس کے آگے۔۔ تو صاحبو ہم ایسا کڑوا کسیلا منہ لیے پارک میں اس مخصوص بنچ پر جا بیٹھے اور سوچ لیا کہ اپنی بارہویں محبوبہ کو آج رات آخری شرف ملاقات بخش دیں کہ یا تو پھر وہ ہمارے لتے ہمارے ہی گھر کے دروازے پر لینے کی تیاری کر لے یا ہمیں پھر سے اک صنم چاہئے پوجنے کے لیے گانا پڑے گا۔۔۔ خیر وہ قصہ پارینہ تھا کہاں چھڑ گیا ۔۔۔
تو صاحبو ۔۔۔۔۔ ابھی ہم اس بنچ پر اپنی تشریف کو رکھ بھی نہ پائے تھے کہ کسی طر ف سے ایک ڈھول سے ملتے جلتے بھائی گلے میں کیمرہ لٹکائے آن وارد ہوئے اور لگے ہمیں بھاشن دینے کہ صاحب تصویر بنوائیے یادگار رہے گی صرف مبلغ ۲۰ روپے صرف کر کے آپ ایسی شاندار تصویر حاصل کر پائیں گے کہ اگلے سال پیرس میں منعقد ہونے والی تصویری نماِئش میں اول انعام سے بھی پہلے انعام کی مستحق نہ ٹھہری تو اپنے ۲۰ واپس وصول کی جیے گا۔۔۔۔تو دوستو ایسے شاندار مستقبل کی حامل تصویر کو نہ بنوانا سراسر زیادتی تھی سو ہم نے رضامندی ظاہر کی اور بھائی میاں سے آئینہ طلب کیا کہ اپنے چوکھٹے کو تھوڑا سا ہلا جلا لیں اور اس وقت یہ بھی ذہن میں آیا کہ چوتھی شادی کے لیے تصویر تو بنوانی ہی پڑے گی کہ ممکنہ زوجہ محترمہ یا ان کے اگلے پچھلے ڈھکے چھپے برساتی کھمبیوں کی طرح نمودار ہونےوالےرشتہ داروں کی کسی بھی قسم کی ہاں ، ناں اور ملاقات کرنے سے پہلے وقوعہ ملاحظہ فرما نے کی خوائش تصویر دیکھا کر پوری کر دی جائے اور تو بنفس نفیس حاضری نہ دینی پڑے ورنہ جوتا باری کے ساتھ ساتھ سنگ باری کا اندیشہ لیے حاضر ہونا پڑے گا حالانکہ ابھی ہم نے کسی کو اور کسی نے ہم کو دیوانہ بھی نہیں بنا رکھا ۔۔۔پر احتیاط کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔۔کہ جس فیکٹری میں ہم ملازمت کرے ہیں وہاں گیٹ سے داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جس شے پر نظر پڑتی ہے وہ سیفٹی فرسٹ کا بورڈ ہے اور یہی فقرہ کسی دل جلے نے واش روم کے دروازے پر بھی لکھ چھوڑا ہے کہ وہاں اکثر پانی دستیاب نہیں ہوتا۔۔۔۔
تو صاحبو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آئینے میں اپنا سرسری سا تجزیہ کیا اور دل ہی دل میں انار کلی کو کوسا کہ ارے ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں تم اتنی صدیاں پہلے ایسے ہی شہزادہ سلیم پر فدا ہو گئی ورنہ ہم شہزادے کو شہ مات دینے پر مکمل قادر تھے ۔ ڈھول بھائی نے ہمیں کچھ اور بھی عنایت کیا جو کنگھی سے مشابہ تھا پر شاید کسی پیرانہ سالی کے شکار بوڑھے کی طرح داندانوں سے محروم اور توے کی الٹی طرف سے ملتا جلتا رنگ اس کے جبڑوں پر نمایاں دکھ رہا تھا پر چوتھی شادی کا سوچتے ہوئے ہم ان سارے غموں کو الٹا کر پی گئے ۔۔۔۔ تو بھائیو اور بہ۔ہ۔ہ۔۔ن۔۔۔و (خطرہ ہر وقت موجود ہے) اب جو ہم نے اس کنگھی کو اپنی گھونسلہ مارکہ زلفوں میں گھمایا تو پھر وہ، وہ نہ رہی، جو رہی وہ بے خبری رہی۔۔۔ کہ ہر عظیم الشان شاہکار کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے کئی قربانیاں دینی پڑ جاتی ہیں ۔ کنگھی کے آخری دو چار بچے دندان بھی ہماری زلفوں کے بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنی بتیسی کی نمائش بلکل یوں ہی کہ جیسے وہ ڈنٹونک کے اشتہار والا بندر ( اگر آپ کو یاد ہے تو) کیا کرتا تھا۔۔۔کہ ڈھول بھائی یہ تو وصال فرما گئی اور ابھی ہمارا میک اپ مکمل نہیں ہوا۔ تو جناب بولے ارے صاحب آپ کو ایسی ویسی چیزوں کی ضرورت ہی کیا آپ ایسے ہی بہت مناسب لگ رہے ہیں چھوڑیے یہ بتائیے کہ پس منظر میں کیا پسند فرمائیں گے؟؟؟ اور اب جو ہم نے پس منظر والی چادروں پر نظر دوڑائی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ چوتھی شادی تو گئی بھاڑ میں کہ اگر ہماری ایسی بے حیا اور بے شرم تصویر کسی شدت پسند کے ہاتھ لگ گئی تو ہمارے اوپر جانے کا فتوی، کہیں اور نہیں بی بی سی اور سی این این سے نشر ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
----------جاری ہے------------
کافی عرصے سے ہم سوچ رہیں ہیں کہ چوتھی شادی کے بارے میں سوچا جائے۔ تو آج سچ مچ میں سوچنا شروع کر دیا اور کیونکہ ابھی بھی کافی سارے دن اسی سوچ بچار میں گزرنے ہیں اس لیے ہمارے لیے آج اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اس سوچ کو سوچنے کا سوچ لیا ہے۔۔۔
کسی بھی سوچ کو سوچنے کے بارے میں ہمارے ارادے ایسے پختہ ہیں کہ کوہ ہمالیہ اور اس پر جمی ساری برف مل کر بھی ہمیں اس عظیم کام سے باز نہیں رکھ سکتے البتہ ۔۔ جہاں تک اس سوچ پر عمل کرنے کا تعلق ہے تو یہاں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا والا معاملہ ہمیشہ سے درپیش آتا رہا ہے۔۔۔ کیونکہ ہمیں خطرہ ہے کہ ہماری اس سوچ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے ۔۔۔۔ہماری تیسری شادی والی خاتون ممکنہ رکاوٹ بن سکتی ہیں سو ان سے بچتے بچاتے ہم اس پارک کی طرف رواں دواں ہوئے ( کہ جس متبرک جگہ بیٹھ کر ہم نے اپنی پہلی شادی کے بارے میں سوچا تھا) کہ کامیابی یہیں بیٹھ کر سوچنے میں ملنی ہے۔ ۔۔۔۔۔اور ہم یہ اکثر سوچتے ہیں کہ اگر یہ پارک نہ ہو تا تو ہم ابھی تک پہلی شادی سے بھی محروم اور ممکنہ طور پر مرحوم بھی ہو سکتے تھے کہ ان دنوں ہم مرنے مارنے پر اتر آئے تھے کیونکہ پہلی شادی سے کچھ ماہ پہلے ہی ہماری آٹھویں سابقہ محبوبہ نے اپنے نئے آنے والے مہمان جو کہ ان کا تیسرا برخوردار تھا کا نام پوچھنے کے لیے ہمیں ایس ایم ایس کیا تھا۔۔۔اور ہمیں وہ ایس ایم ایس کم اور چڑ زیادہ لگی کہ اب یہ ہمیں ایسے ایس ایم ایس کر کے تپا رہی ہیں کہ دیکھ لو ہمرے تین ہوگئے اور چوہا ابھی لنڈورا ہی پھرے ۔۔ خاتون نے جس چلیجانہ انداز میں ایس ایم ایس کیا تھا وہ ذہن و دل میں ایسی کڑواہٹ لے آیا تھا کہ میاں کیا کہویں کہ کریلے بھی منہ چھپائیں وہ الگ بات ہے کہ ہمارے رخ زیبا ڈکشنری ٹائپ کتابی چہرے کا نظارہ فرما کر اکثر آئینے بھی کوئی آہ بھرے بغیر ہی ملک عدم کے راہی ہو جاتے رہے تھے۔۔تو اندر کی کڑواہٹ کیا دم بھرے اس کے آگے۔۔ تو صاحبو ہم ایسا کڑوا کسیلا منہ لیے پارک میں اس مخصوص بنچ پر جا بیٹھے اور سوچ لیا کہ اپنی بارہویں محبوبہ کو آج رات آخری شرف ملاقات بخش دیں کہ یا تو پھر وہ ہمارے لتے ہمارے ہی گھر کے دروازے پر لینے کی تیاری کر لے یا ہمیں پھر سے اک صنم چاہئے پوجنے کے لیے گانا پڑے گا۔۔۔ خیر وہ قصہ پارینہ تھا کہاں چھڑ گیا ۔۔۔
تو صاحبو ۔۔۔۔۔ ابھی ہم اس بنچ پر اپنی تشریف کو رکھ بھی نہ پائے تھے کہ کسی طر ف سے ایک ڈھول سے ملتے جلتے بھائی گلے میں کیمرہ لٹکائے آن وارد ہوئے اور لگے ہمیں بھاشن دینے کہ صاحب تصویر بنوائیے یادگار رہے گی صرف مبلغ ۲۰ روپے صرف کر کے آپ ایسی شاندار تصویر حاصل کر پائیں گے کہ اگلے سال پیرس میں منعقد ہونے والی تصویری نماِئش میں اول انعام سے بھی پہلے انعام کی مستحق نہ ٹھہری تو اپنے ۲۰ واپس وصول کی جیے گا۔۔۔۔تو دوستو ایسے شاندار مستقبل کی حامل تصویر کو نہ بنوانا سراسر زیادتی تھی سو ہم نے رضامندی ظاہر کی اور بھائی میاں سے آئینہ طلب کیا کہ اپنے چوکھٹے کو تھوڑا سا ہلا جلا لیں اور اس وقت یہ بھی ذہن میں آیا کہ چوتھی شادی کے لیے تصویر تو بنوانی ہی پڑے گی کہ ممکنہ زوجہ محترمہ یا ان کے اگلے پچھلے ڈھکے چھپے برساتی کھمبیوں کی طرح نمودار ہونےوالےرشتہ داروں کی کسی بھی قسم کی ہاں ، ناں اور ملاقات کرنے سے پہلے وقوعہ ملاحظہ فرما نے کی خوائش تصویر دیکھا کر پوری کر دی جائے اور تو بنفس نفیس حاضری نہ دینی پڑے ورنہ جوتا باری کے ساتھ ساتھ سنگ باری کا اندیشہ لیے حاضر ہونا پڑے گا حالانکہ ابھی ہم نے کسی کو اور کسی نے ہم کو دیوانہ بھی نہیں بنا رکھا ۔۔۔پر احتیاط کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔۔کہ جس فیکٹری میں ہم ملازمت کرے ہیں وہاں گیٹ سے داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جس شے پر نظر پڑتی ہے وہ سیفٹی فرسٹ کا بورڈ ہے اور یہی فقرہ کسی دل جلے نے واش روم کے دروازے پر بھی لکھ چھوڑا ہے کہ وہاں اکثر پانی دستیاب نہیں ہوتا۔۔۔۔
تو صاحبو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے آئینے میں اپنا سرسری سا تجزیہ کیا اور دل ہی دل میں انار کلی کو کوسا کہ ارے ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں تم اتنی صدیاں پہلے ایسے ہی شہزادہ سلیم پر فدا ہو گئی ورنہ ہم شہزادے کو شہ مات دینے پر مکمل قادر تھے ۔ ڈھول بھائی نے ہمیں کچھ اور بھی عنایت کیا جو کنگھی سے مشابہ تھا پر شاید کسی پیرانہ سالی کے شکار بوڑھے کی طرح داندانوں سے محروم اور توے کی الٹی طرف سے ملتا جلتا رنگ اس کے جبڑوں پر نمایاں دکھ رہا تھا پر چوتھی شادی کا سوچتے ہوئے ہم ان سارے غموں کو الٹا کر پی گئے ۔۔۔۔ تو بھائیو اور بہ۔ہ۔ہ۔۔ن۔۔۔و (خطرہ ہر وقت موجود ہے) اب جو ہم نے اس کنگھی کو اپنی گھونسلہ مارکہ زلفوں میں گھمایا تو پھر وہ، وہ نہ رہی، جو رہی وہ بے خبری رہی۔۔۔ کہ ہر عظیم الشان شاہکار کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے کئی قربانیاں دینی پڑ جاتی ہیں ۔ کنگھی کے آخری دو چار بچے دندان بھی ہماری زلفوں کے بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنی بتیسی کی نمائش بلکل یوں ہی کہ جیسے وہ ڈنٹونک کے اشتہار والا بندر ( اگر آپ کو یاد ہے تو) کیا کرتا تھا۔۔۔کہ ڈھول بھائی یہ تو وصال فرما گئی اور ابھی ہمارا میک اپ مکمل نہیں ہوا۔ تو جناب بولے ارے صاحب آپ کو ایسی ویسی چیزوں کی ضرورت ہی کیا آپ ایسے ہی بہت مناسب لگ رہے ہیں چھوڑیے یہ بتائیے کہ پس منظر میں کیا پسند فرمائیں گے؟؟؟ اور اب جو ہم نے پس منظر والی چادروں پر نظر دوڑائی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ چوتھی شادی تو گئی بھاڑ میں کہ اگر ہماری ایسی بے حیا اور بے شرم تصویر کسی شدت پسند کے ہاتھ لگ گئی تو ہمارے اوپر جانے کا فتوی، کہیں اور نہیں بی بی سی اور سی این این سے نشر ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
----------جاری ہے------------