چور مچائے شور (غیرجانبدارانہ تاریخ جو مسخ کی گئی)

جاسمن

لائبریرین
ثابت ہؤا کہ یہ اور اس جیسی ساری تحریریں اُن لوگوں کی ہیں جو اسلام دشمن ہیں۔ یہ تو ابھی چیدہ چیدہ مطالعہ ہے۔۔۔اور نجانے کیا ہو؟
اور ہم اور ہمارے عارف کریمز کتنے متاثر ہو جاتے ہیں اِن "غیر جانبدار" تحریروں سے۔
سید ذیشان! آپ بھی دیکھیے۔ایک تحریر محرم پہ بھی ہے۔
 

arifkarim

معطل
1- اسرائیل کے مظالم اصل میں جھوٹی کہانیاں ہیں
اسرائیل کے مظالم فلسطینی دہشتگردوں کے اسرائیلی شہریوں کیخلاف معمول کے مطابق خودکش حملوں، قاتلانہ حملوں، پتھراؤ کی جوابی کاروائی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Palestinian_suicide_attacks
http://en.wikipedia.org/wiki/Palestinian_political_violence

ہر ظلم کا ایک ماخذ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فلسطینی فرشتے امن پسند ہوں اور غاصب یہود ان پر چڑھ دوڑیں؟ یاد رہے کہ یہودی مذہب میں غیر یہودیوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ یوں انکو فرق نہیں پڑتا کہ انکے ساتھ کس کس نوعیت کے کافرین رہ رہے ہیں۔ یہود کسی بھی مذہب کے افراد کیساتھ بغیر مذہبی دنگا فساد کئے پچھلے 4000 سال سے رہ رہے ہیں۔

2- اسرائیل کا قیام مبنی بر انصاف ہے
جی بالکل۔ اگر ایک متحد ہندوستان کا 1947 میں ہندو اور مسلم اکثریت علاقوں میں بٹوارا ہو سکتا ہے تو ایک سال بعد 1948 میں یہی بٹوارا فلسطین میں یہودی اور مسلم اکثریت علاقوں میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ یا تو پاکستانی ریاست کے قیام کو غیر منصفانہ کہیں یا پھر یہودی ریاست کے قیام کو تسلیم کریں۔ وگرنہ آپ منافق ہی کہلائیں گے۔

3-قیام پاکستان کو کوئ جواز نہیں تھا ۔
کیونکہ اس سے برصغیری مسلمانوں کی ساخت کو عسکری، اقتصادی، معاشی، سیاسی، سماجی نقصان پہنچا۔ ایک متحد ہندوستان میں سیکولر جمہوریت کے اندر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کہیں زیادہ ہوتا جو کہ اب تین مختلف حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ یوں وہ اپنے مفاد کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ ہندو اور سکھ اکثریت اس بٹوارے سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔

4- اسرائیل میں مسلم افراد ( قادیانی افراد) کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے !!!!!!!!!
اسرائیل میں تمام اقلیتوں سے مسلم اکثریت ممالک کے برخلاف بہت اچھا اسلوک کیا جاتا ہے۔ اسوقت اسرائیل میں بہائی، قادیانی، سنی، شیعہ، سامری، سنی ، عیسائی ، دروزی اور بدو اقلیت موجود ہے۔ اور ہر اقلیت کو اپنے اپنے مذاہب پر آزادی کیساتھ عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہی خوبی اسلامی ممالک کو کھٹکتی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Religion_in_Israel

5- مسلم ممالک میں اقلیتوں سے برا سلوک کیا جاتا ہے (افراد کی سطح پر کہا جا سکتا ہے نا کہ حکومتی سطح پر)
ہاہاہا۔ ذرا پاکستان، ایران، سعودی عرب میں مذہبی آزادی سے متعلق حکومتی قوانین کا مطالعہ کرلیں۔
پاکستان میں قادیانی اقلیت حکومتی سطح پر بین ہے اور واجب القتل ہے۔
ایران میں بہائی اقلیت حکومتی سطح پر بین ہے اور واجب القتل ہے۔
سعودیہ میں وہابی اسلام کے علاوہ تمام مذاہب مکمل بین ہیں اور اسکی خلاف ورزی آپکو حوالات میں داخل کرا دے گی۔

اب فیصلہ کرنا اسان ہے کہ ایک غیر معروف رائٹر کی غیر معروف بات سنی جائے گی
یا کہ مستند افراد کی بات جو تواتر سے بچپن سے سنتے آئے ہیں ان پر یقین کیا جائے گا

جی بالکل اب فیصلہ کرنا واقعی آسان ہو گیا ہے :)
 

arifkarim

معطل
ثابت ہؤا کہ یہ اور اس جیسی ساری تحریریں اُن لوگوں کی ہیں جو اسلام دشمن ہیں۔ یہ تو ابھی چیدہ چیدہ مطالعہ ہے۔۔۔ اور نجانے کیا ہو؟
اور ہم اور ہمارے عارف کریمز کتنے متاثر ہو جاتے ہیں اِن "غیر جانبدار" تحریروں سے۔
سید ذیشان! آپ بھی دیکھیے۔ایک تحریر محرم پہ بھی ہے۔
لگتا ہے آپ بھی اس اسلامی پیکیج والی سوچ سے متاثر ہیں۔ لینا ہے تو پورا لو وگرنہ بالکل نہ لو۔ :)
میں نے اوپر جو اصل پوسٹ کی ہے اسکا اس سائٹ پر موجود دیگر بے تکے مضامین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مضمون کا کالم نگار کوئی اور ہے۔ اور جن مضامین کا حوالہ آپنے اوپر دیا ہے انکا لکھاری کوئی اور۔ میں نے اوپر موجود تاریخ کے تمام حقائق اور دلائل کو متعدد بار چیک کرنے کے بعد ہی یہاں محفل پر لگایا ہے۔ اگر آپ کو اس تاریخی کالم میں کسی چیز پر اعتراض ہے تو ضرور پوچھیں۔ ضرور اختلاف کریں۔ اب یہاں آپ سے کچھ نہیں بن سکا تو اصل سائٹ پر جاکر دیگر غیر متعلقہ مضامین کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔
 

arifkarim

معطل
منتظر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آپکی خواہش پر اسکی دوسری قسط یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ امید ہے اسبار پُرمزاح ریٹنگ کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے :)

مظلوم نما ظالم:
اس مضمون کے پہلے حصے میں اس بات کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اقوام عالم نے مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی فارمولے کو وہاں رہنے والے یہودی اور عربوں کے لئے ایک قابل عمل حل قرار دیا تھا۔ عربوں نے اس فارمولے کو رد کیا اور اسرائیل پہ چڑھ دوڑے۔ بجائے پُر امن بقائے باہمی کے عربوں نے اسرائیل کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کرکے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا آغاز کیا او رتنازعے کو بات چیت سے حل کرنے کی بجائے طاقت کے ذریعے نپٹانے کی ٹھان لی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت جتنا علاقہ اسرائیل کے پاس تھا اس اس سے چار گنا زیادہ علاقہ آج اسرائیل کے پاس ہے۔ یہ علاقہ عربوں نے اسرائیل سے جنگوں میں ہاراہے۔ ہر دفعہ جنگ کا آغاز عربوں نے ہی کیا اور ہر دفعہ شکست کھا کر اسرائیلی ریاست کو مزید توسیع دینے میں مدد کی۔

لطف یہ ہے کہ آج اسرائیل سے مقبوضہ علاقہ کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مغربی کنارے کی ساری پٹی پر اردن نے پہلے قبضہ کیا۔ بعد ازاں اردن کی اپنے خلاف جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل نے یہ سارا علاقہ اردن سے چھینا۔ آج اسرائیل کو توسیع پسند اور غاصب قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ عربوں نے اسرائیل پر ہر حملہ اس سے پیار محبت بڑھانے یا وہاں کے شہریوں میں مٹھائی تقسیم کرنے کے لئے توکیا نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ حملے اسرائیل کو مٹانے کے لئے کئے گئے۔ اس سے اس کی زمین چھیننے کے لئے کئے گئے۔ اس کے شہریوں کو اپنی رعایا بنانے کے لئے کئے گئے۔ اُنہیں پھر دربدر کرنے کے لئے کئے گئے۔ عربوں کو کیا پتا تھا کہ الٹی آنتیں گلے پڑ جائیں گی۔ کھیل آپ نے خود چنا۔ اگر بساط الٹ گئی تو کیسا شکوہ۔ جو اسرائیل عربوں کے ساتھ کررہا ہے اُس پہ رونا دھونا کیوں؟ یہی سب کچھ تو آپ اسرائیل کے ساتھ کرنا چاہتے تھے، اوراب بھی یہی کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کو اپنے ہی کھیل میں شکست ہوگئی ہے۔ اِسے کہتے ہیں ‘‘مظلوم نما ظالم’’۔

مسئلہ کشمیر:
غیر تقسیم شدہ ہندوستان میں1946ء کے انگریزوں کے پیش کردہ کیبنیٹ مشن پلان کے تحت کانگریس او رمسلم لیگ کی مخلوط حکومت بنائے جانے پر دونوں فریقین میں اتفاق ہوچکا تھا۔ کانگریس کی منظوری کے باوجود پنڈت نہرو نے اس پلان کو مسترد کرکے ہندوستان کی تقسیم کا راستہ کھول دیا۔ نہرو نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی سب سے اہم وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نہرو زرعی اصلاحات کے ذریعے ہندوستان سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتا تھا۔ لیکن جاگیرداروں پہ مشتمل مسلم لیگ کو یہ بات منظور نہ تھی۔ انہی اختلافات میں ایک یہ اختلاف بھی تھا کہ نہرو کی خواہش تھی کہ Princely States کی عوام اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا اُسے ایک آزاد ریاست کے طور پہ رہنا ہے یا ہندوستان میں الحاق کرنا ہے۔ جبکہ نو آبادیاتی برطانیہ یہ حق ریاست کے نواب یا راجہ کو دینا چاہتا تھا جس کو مسلم لیگ کی پُرزور تائید حاصل تھی۔ بہرحال انڈیپنڈنس آف انڈیا 1947کے ایکٹ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نوابی ریاست یارجواڑے کا حکمران ہی آزاد رہنے یا بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریگا۔ جناح اس طریقۂ کار کے زبردست حامی تھے۔

اسی ایکٹ کے تحت کشمیر کے راجہ نے کشمیر کو ایک آزاد ریاست رکھنے کا فیصلہ کیا(تفصیلات کے لئے شیخ عبداﷲ کی خود نوشت ‘‘آتشِ چنار’’ ملاحظہ کیجئے) اِسی طرح حیدرآباد دکن کی دولت مند ریاست نے بھی آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ابھی پاکستان بنے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ پاکستان کی جانب سے قبائلی لشکر نے کشمیر کی کمزور ریاست پر حملہ کردیا جسے جہاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ جنرل اکبر نے اپنی کتاب “Raiders of Kashmir” میں اس بات کا کُھل کے اعتراف کیا ہے کہ دراصل اُس قبائلی لشکر کو پاک فوج کی سرپرستی او ررہنمائی حاصل تھی۔ آپ اُنہیں اُس وقت کا طالبان سمجھ سکتے ہیں۔ اُسی وقت سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ او رقبائلی مجاہدین کا اتحاد شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

اکثر پاکستانی مفکر اور تاریخ دان امریکہ کو 1979-1988ء کے افغان جہاد کے دوران مجاہدین اور طالبان کا خالق قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے پروردہ قبائلی مجاہدین کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ اُسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا اور جب کہ اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے بین الاقوامی اتحاد جیسےSeatoیاCentoمیں شریک تک نہ تھا۔

جب ریاست کشمیر کے حکمران ہری سنگھ نے یہ دیکھا کہ اُس کی کمزور ریاست ایک بڑے ملک کی Proxy فوج سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتی تو اُس نے بھارت سے مدد طلب کرلی۔ بھارت نے اس موقعے سے فائدہ اُٹھایا او رنہرو نے بھارتی فوج کی مدد کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے ساتھ مشروط کیا۔ ناچارہری سنگھ کو بھارت کی یہ شرط ماننی پڑی۔ یوں انڈیپنڈنس آف انڈیا 1947کے ایکٹکی رو سے بھارت کو ریاست کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کرنے کا قانونی حق مل گیا۔ بھارتی فوج نے قبائلی لشکر کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ سیز فائر کے تحت اُسے رک جانا پڑا اور کشمیری ریاست کے ایک بڑے حصے کو وہ واپس لینے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہی حصہ اب پاکستان میں‘‘آزاد کشمیر’’ کہلاتا ہے جبکہ بھارت میں اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان نے اپنے کئی بیانات میں پاکستانی قبائلی لشکر کشی کو پاکستان کی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق طاقت کا یہ کھیل شروع کرکے پاکستان نے از خود بھارت کو کشمیر پہ قبضہ کرنے کا جواز مہیا کیا۔ دراصل پاکستان نے انڈیپنڈنس آف انڈیا 1947کے ایکٹکی پاسداری میں بدنیتی سے کام لیا۔ وہ دونوں جہانوں کا مزا لوٹنا چاہتا تھا۔ ایک طرف تو اُس کا خیال تھا کہ حیدر آباد دکن کا حکمران نظام برطانیہ سے اپنے مضبوط تعلقات کی بنا پر اپنی ریاست کو آزاد رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اسی لئے جناح نے برطانیہ کے پیش کردہ اُس تجویز کی حمایت کی جس کے تحت نوابی ریاست کے حکمران کو ہی ریاست کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ نظام اپنی بے پناہ دولت سے نومولود پاکستان کی کفالت کررہا تھا۔ اس لئے پاکستان حیدرآباد کو آزاد ریاست کے طور پہ دیکھنا چاہتا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کا خیال تھا کہ وہ اپنی پڑوسی ریاست کشمیر پر بزور شمشیر قابض ہوجائے گا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔

ایک جانب تو پاکستان نے کشمیر پر فوج کشی کرکے خود اُسے بھارت میں شامل ہونے پہ مجبور کیا۔ دوسری جانب بھارت نے طاقت کے ذریعے دکن پر اُسی طرح قبضہ کرلیا جیسے کہ پاکستان نے قلات کی ریاست پر قبضہ کیا۔ اسے کہتے ہیں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے رہے۔ یہاں پر بھی عربوں کی طرح پاکستان نے ہی جنگ وجدل کے کھیل کی ابتدا کی اورلو اپنے جال میں خود صیاد آگیا۔

بھارت کی بلیک میلنگ کے تحت کشمیر کے الحاق پر کشمیری عوام میں غم و غصہ پایا گیا۔ اُنہیں اس بات پر غصہ تھا کہ کشمیر پاکستان او ربھارت کے درمیان ایک لوٹ کا مال بن گیا تھا۔ چنانچہ کشمیر میں اپنی ریاست کی آزادی کے لئے ایک قومیت پرست، جمہوری او رسیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا جس میں کشمیری مسلمان اورہندو شانہ بہ شانہ شریک تھے۔ جبکہ پاکستان نے کشمیر پہ قبضے کے خواب کو کبھی بھی فراموش نہ کیا۔ وہاں پائی جانے والی سیاسی بے چینی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پاکستان نے ایک بار پھر 1965ء میں کشمیر پہ حملہ کیا۔ اس بار پاکستان نے سوچا کہ کیونکہ لائن آف کنٹرول ایک متنازعہ سرحد ہے اس لئے یہاں حملے کے نتیجہ میں جنگ یہاں تک ہی محدود رہے گی۔ لیکن اس دفعہ بھی اندازے میں غلطی ہوئی او ربھارت نے پاکستان کوفل سکیلجنگ کی صورت میں جواب دیا۔ پاکستان کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔

پاکستان نے کشمیریوں کی قومی جدوجہد( نیشنلسٹ موومنٹ ) کو مذہبی جدوجہد میں تبدیل کرکے اُسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا نقطہ عروج ضیاء الحق کا دورِ آمریت ہے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جہادی تنظیمیں مسلسل پاکستانی نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر کشمیر میں دراندازی کے لئے بھیجتی رہی ہیں۔ اس بیرونی مداخلت کی وجہ سے بھارتی حکومت کو کشمیر میں بنیادی شہری حقوق معطل کرنے کا جواز مل گیا جس کی لپیٹ میں کشمیر کے عام شہری بھی آگئے۔ مجاہدین نے ہندو کشمیریوں کا قتل عام کیا جس کی وجہ سے ہندو آزادیٔ کشمیر کی تحریک سے علیحدہ ہونے اور اپنی جان بچانے کے لئے ہماچل پردیش، ہریانا، پنجاب اور بھارت کے دیگر علاقوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ایک المیہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کے نام پر غیر کشمیریوں نے کشمیریوں کا قتل عام کیا۔ کشمیر کے Causeکو بین الاقوامی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اب تک اس تحریک کو مقامی کشمیریوں کی قومی جدوجہد سمجھا جارہا تھا لیکن اس مہذب اور جمہوری طریقے سے چلائے جانے والی تحریک کو دہشت گردی میں تبدیل کردیا گیا۔ دنیا کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ کشمیر میں گڑ بڑ مقامی شہری نہیں بلکہ پاکستان سے آئے ہوئے جہادی پھیلا رہے ہیں۔ کشمیری جدوجہد کا حال بھی تحریک آزادی فلسطین جیسا ہوا۔ ایک قومی تحریک کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ یوں کشمیریوں کو عالمی ہمدردیوں سے محروم ہونا پڑا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی بات زیادہ تر پاکستان کے فوجی آمروں نے کی ہے جن میں ضیاء الحق سرفہرست ہے۔ دنیا اس بات پہ کتنا ہنستی ہوگی کہ پچاس لاکھ عوام کے حقِ خود ارادیت کی بات کرنے والے خود اٹھارہ کروڑ عوام کے حق خود ارادیت)Right of Self-detevnination( پامال کرکے اقتدار پہ قابض ہوجاتے ہیں۔ فوجی آمروں نے بار بار عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کو گرایا۔ اُس وقت خود پاکستانی عوام کا حقِ خودارادیت کہاں گیا تھا؟

اسی طرح بھارت دوسرے ملک سے آئے ہوئے گوریلا لڑاکوں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال نہ کرے تو کیا کرے؟ اکثر اسلامی ملکوں بشمول عراق، یمن، سعودی عرب، شام، ایران وغیرہ میں تو خود اپنے ملک کے باغی شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ کیا پاکستان نے1971ء میں مشرقی پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کا قتل نہیں کیا تھا؟ کیا1992-3ء میں کراچی میں تخریب کاروں کے خلاف آپریشن میں پاکستانی رینجرز نے ماورائے عدالت قتل نہیں کئے؟ کیا آج بھی بلوچستان میں قوم پرست بلوچوں کا خون نہیں بہایا جارہا؟ کیا1985-6ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ضاء الحق نے سندھ کی عوام کے خلاف فضائی بمباری نہیں کرائی؟ آج بلوچی اور کل کو کسی اور علاقے کے لوگ پاکستان سے علیحدگی چاہیں تو کیا پاکستان اُنہیں حقِ خود ارادیت دے گا؟ اسلامی ملک تو اپنے شہریوں کےخون سے ہولی کھیلیں تو درست لیکن بھارت باہر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے تو غلط ہے؟ جیسے گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس جاتا ہے اسی طرح بدقسمتی سے بھارتی فوج کی کارروائی میں بہت سے بے قصور کشمیریوں پر بھی نزلہ گرا۔ لیکن اس میں بھارتی فوج جتنی قصور وار ہے اُس سے زیادہ پاکستانی جہادی تنظیمیں او راُن کی سرپرست قوتیں ہیں۔ اُن کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جاکر وہاں کے عوام کی قسمت کا فیصلہ کریں؟ اگر آج کسی اور ملک سے رضاکار بلوچ قوم پرستوں کی مدد کے لئے آجائیں تو کیا پاکستان اُسے برداشت کرے گا؟ کیا پاکستان اُسے پوری قوت سے کچلنے کی کوشش نہ کرے گا؟

یہ المیہ ہے کہ جنہیں اپنے ملکوں میں انسانی اور شہری حقوق کی الف بے کا پتہ نہیں ہے وہی فلسطین او رکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں؟ جبکہ وہاں صورتحال کو بگاڑنے کے ذمہ داری بھی وہ خود ہی ہیں۔ اسے کہتے ہیں‘‘اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے’’۔

یورپی نو آبادیاتی نظام کا ردِعمل:
اسلامی دنیا میں پچھلی صدی کے یورپی نوآبادیاتی راج کے خلاف بہت سی شکایات اور رنجشیں پائی جاتی ہے۔ وہ اسے اپنے ممالک میں ہونے والے تمام مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ نومبر2005ء میں فرانس میں ایک ہفتے تک مسلم تارک الوطن نوجوانوں نے سخت ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی۔ اس ہنگامہ آرائی کا عذر بھی اسی شکایت کو بنایا گیا کئی نمایاں فرانسیسی نژاد مسلم شخصیات نے فرانسیسی حکومت سے ماضی کے نوآبادیاتی گناہوں کی معافی کا مطالبہ بھی کیا جو اُن کے نزدیک ہنگاموں کو روکنے کے لئے ضروری تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یوروپی نوآبادیاتی نظام کی عمر تو بہت مختصر سی ہے۔ یہ تقریباً1850ء میں شروع ہوکر1920ء میں زوال پذیر ہوگئی۔ جبکہ ہم اسلامی تاریخ کے اُس طویل دور کو کیوں بھول جاتے ہیں جب ساتویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک تقریباً ایک ہزار سال تک مسلم توسیع پسندی اور سامراجیت کا دور دورہ رہا؟ جس کا نقطہ عروج قرونِ وسطیٰ کی سلطنتِ عثمانیہ تھی۔

اس سلطنت کا دور اپنی نوآبادیوں کے لئے کتنا منصفانہ تھا۔ اس کا اندازہ اس چھوٹی سی مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ کے مفتوحہ ممالک کی عوام پر یہ فرض تھا کہ وہ اپنی نرینہ اولاد کا پانچواں حصہ (ہر پانچ بچوں میں سے ایک) سلطنت عثمانیہ کو غلام کی حیثیت سے حوالے کریں۔ یورپی نوآبادیاتی نظام تو کئی لحاظ سے اپنی نوآبادیوں کے لئے ایک نعمت ثابت ہوا۔ مثلاً یہ برطانوی راج ہی تھا جس نے ہندوستان میں جمہوریت، آئین، قانون کی بالادستی اور جدید علوم وغیرہ کو متعارف کیا۔ اگر وہ نوآبادیاتی نظام بُرا بھی تھا تو بھی اُس کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں رہے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ مثلاً ہندو، بدھسٹ، سکھ وغیرہ بھی اُس کے زیر اثر رہے ہیں۔ لیکن آج ہندو یا بدھسٹ تو یوروپ میں ہنگامہ آرائی نہیں کررہے۔ وہ تو وہاں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ اسلامی دنیا ہی برطانیہ یا یورپ کو اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار کیوں ٹھہراتی ہے؟

اس مضمون کے پہلے حصے میں یہ بات تفصیل سے لکھی جا چکی ہے کہ اسلامی دنیا کے اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کی کہانیاں نہ صرف مبالغے پر مبنی ہیں بلکہ اکثر تو با لکل بے بنیاد ہیں۔ مسلمان اقلیتیں غیر مسلم ممالک میں نہایت امن و سکون کی زندگی بسر کررہی ہیں۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ خود اُن کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جبکہ اسلامی دنیا میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے جس میں جدید مسلم ممالک جیسے ملائشیا، انڈونیشیا، پاکستان او ربنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

مسلم دنیا کی بے بنیاد شکایات صرف وہاں تک ہی محدود نہیں جہاں مسلمان اقلیتی مذہبی گروہ کی حیثیت سے رہ رہے ہیں بلکہ وہاں بھی ہیں جہاں وہ اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔ مثلاً افغانستان او رعراق جہاں امریکہ کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحادی افواج اُن دہشت گرد قوتوں سے بر سرپیکار ہیں جو خود اسلامی ممالک کے لئے بھی انتہائی سنگین خطرہ ہیں۔ ان حملوں کو جواز بناکر مغربی ممالک کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ تو محض ایک حجت ناتمام ہے۔ ورنہ یہ نفرت تو اُس سے کہیں پرانی ہے۔ ماضی قریب میں مسلمانوں نے جس میں القاعدہ او راُس کا لیڈر اسامہ بن لادن سرفہرست تھے، امریکی فوج کی سعودی عرب میں موجودگی کو امریکہ کے خلاف نفرت کا جواز بنایا۔ گویا یہ بھی مغرب کا اسلامی دنیا پر ایک ظلم تھا۔ حالانکہ امریکی فوج سعودی عرب میں خود سعودی عرب کی درخواست پر آئی تھی کیونکہ سعودی عرب کو ایک او راسلامی ملک عراق سے جان کے لالے پڑگئے تھے۔ یعنی مغرب کا کسی اسلامی ملک کی مدد کے لئے فوج بھیجنا او راُس خطے کی حفاظت او راستحکام کے نقطہ نظر سے وہاں قیام بھی اُس کا ایک جرم ہے۔ آج جب عراق سے خطرہ ٹلتا نظر آتا ہے تو سعودی عرب کو یمن میں موجود القاعدہ کی عسکری قوت اور ایک دوسرے اسلامی ملک ایران سے خطرہ ہے۔

کیا افغانستان اور عراق پر امریکی اور اُس کے اتحادیوں کی فوجی کاروائی ہی اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف پائے جانے والے غم وغصہ کی وجہ ہے؟ کیا اسلامسٹوں کی دہشت گرد کاروائیاں انہی کا ردعمل ہیں؟مضمون کے اگلے حصے میں ان نقاط کا جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)
http://www.rationalistpakistan.com/چور-مچائے-شور-کشمیر-حصہ-دوم۔/

محمود احمد غزنوی
جاسمن
حسیب
ناصر علی مرزا
ساقی۔
ابن رضا
 

جاسمن

لائبریرین

غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟
  • November 23, 2012
’’جب سیاسی رہنما امن کی بات کریں تو عام لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے‘‘ (برتولت بریخت)
[تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: عمران کامیانہ]
15 نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو واضح طور پر حماس کو جنگی تنازعے میں الجھانا چاہ رہا تھاجس میں وہ کامیاب ہوا۔ حماس نے غزہ کی سرحد پر واقع اسرائیلی شہروں پر جواب میں راکٹ داغے جنہیں اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کرنے کا جواز بنایا۔ 16 اور 17 نومبر کی درمیانی شب اسرائیلی فضائیہ نے پولیس سٹیشنوں، حماس کی وزارتوں، مصر کی سرحد پر واقع سرنگوں سمیت غزہ کی پٹی میں کئی دوسرے اہداف کو نشانہ بنایا۔ بعد کے حملوں میں غیر ملکی صحافیوں کے زیرِ استعمال ایک عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی پراپیگنڈا مشین نے جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے فوجی کاروائی کو ’’دہشت گردوں کے حملوں‘‘ کا جواب قرار دیا۔ بڑی فرمانبرداری سے پیروی کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے تنازعے کو دو برابر طاقتوں کے درمیان جنگ قرار دیا، یعنی ’’اسرائیلی بمباری بمقابلہ حماس کے راکٹ‘‘۔ لیکن یہ تنازعہ مبالغہ آرائی کی حد تک دو غیر مساوی قوتوں کے درمیان ہے۔
غزہ ایک کھلا قید خانہ ہے جہاں 17 لاکھ لوگ محض 140 مربع کلومیٹر کے رقبے میں مقیم ہیں۔ یہ علاقہ مکمل طور ہر اپنے ہمسائے اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس خطے کی سب سے طاقتور فوجی طاقت موجود ہے۔ اسرائیلی ہتھیاروں کا خرچہ، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں، سالانہ 3ارب ڈالر کی امریکی امداد سے چلتاہے۔ غزہ کی طرف سے داغے جانے والے قدیم زمانے کے راکٹ کسی بھی طور پر اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے مد مقابل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جیٹ طیارے اور ڈرون دن رات غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔
اسرائیلی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ’’دہشتگردوں‘‘ اور حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ٹی وی کیمرے اس تمام تر پروپیگنڈا کا پول کھول رہے ہیں۔ اسرائیل کے ان دعووں کے بر عکس کہ اہداف کو بڑی احتیاط سے نشانہ بنایا جارہا ہے، مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کی ہے۔ چھوٹے بچوں کی لاشیں اٹھائے رشتہ داروں کے خوفناک مناظر نے دنیا بھر کے لوگوں کی رائے کو اثر انداز کیا ہے۔
جنگ بندی کی باتوں کے باوجود اسرائیل کی فضائی بمباری اور غزہ کی طرف سے دور تک مار کرنے والے راکٹوں کے حملے جاری ہیں۔ اسرائیل کی طرف جانے والے راکٹوں کے مناظر مورال کو بلند کریں یا نہ کریں، لیکن جنگی ہتھیار کے طور پر وہ بالکل بھی موثر نہیں ہیں۔ سوموار کی شام تک کم از کم 100فلسطینی جبکہ صرف 3 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہاں خون کے بدلے خون والا معاملہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کا جانی نقصان اسرائیل سے 30گنا زیادہ ہے۔
اسرائیل کے مطابق انہوں نے اپنے Iron Doom دفاعی نظام سے زیادہ تر راکٹوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا ہے اور اسرائیل میں ہونے والے کم جانی نقصان سے ایسا لگتا بھی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفاعی نظام نے 90 فیصد راکٹوں کو تباہ کیا ہے سراسر مبالغہ آرائی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ 16نومبر کو اسرائیلی کیبنٹ نے وزیرِ دفاع ایہود براک کی 75000ریزرو فوجی بلانے کی درخواست منظور کی ہے۔ یہ تعداد 2008-2009ء میں غزہ پر حملے کے دوران فوجیوں سے زیادہ ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، آرٹلری اور فوجی بڑی تعداد میں بارڈر کی طرف لائے جا رہے ہیں۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ ایسا صرف دھمکی اور دہشت کے لئے کیا جارہا ہے یا پھر اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تیاری کی جارہی ہے؟
اس سب کا مقصد کیا ہے؟
اس وقت غزہ پر حملے کرنے کے پیچھے اسرائیل کے کیا مقاصدہو سکتے ہیں؟
حملے کے اوقاتِ کار محض اتفاق نہیں ہو سکتے۔ آج سے چار سال پہلے، 4نومبر 2008ء کو جب امریکی صدارتی الیکشنوں کی تیاری کر رہے تھے، اسرائیلی فوج ٹینکوں، توپوں اور بلڈوزر لے کر غزہ میں گھس گئی تھی۔ اس وقت اس کا مقصد حماس کے زیرِ اثر اسلحہ سمگل کرنے والی سرنگوں کی تباہی بتایا گیا تھا۔ حماس نے مارٹر اور راکٹوں سے جواب دیا۔ 27 دسمبر 2008ء کو ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کا آغاز کیا گیا جس میں 7دن کی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ 15دن کا زمینی حملہ بھی شامل تھا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فوج کے مطابق صرف 10 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں سے 4فرینڈلی فائر کا نشانہ بنے۔ حماس کی طرف سے داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں سے صرف 3اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1166فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے 709 کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جنگجو تھے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نیتن یاہو ایران پر بمباری کرکے اس کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ نیتن یاہوامید کررہا تھا کہ امریکی الیکشنوں میں مٹ رومنی جیتے گا۔ ریپبلکن ایران پر حملے کی حمایت کے لئے مشہور ہیں۔
اوباما امریکی سرمایہ داری کا زیادہ محتاط نمائندہ ہے اور ایران پر فضائی بمباری سے برآمد ہونے والے نتائج کے بارے میں پریشان ہے۔ امریکی انتخابات سے کچھ ہی دنوں بعد نیتن یاہو یہ پیغام واشنگٹن بھیجنا چاہ رہا ہے کہ ’’اوباما کا جو دل چاہے وہ کہے، لیکن دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘‘۔
یہ کہا گیا ہے کہ غزہ میں موجود کئی گروپس دور تک مار کرنے والے راکٹ مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹ ایران سے درآمد کئے گئے ہیں اور یہ الزام سارے تنازعے کو خونی طرف لے جاتے ہوئے نیتن یاہو کو ایران پر حملے کا جواز فراہم کرے گا۔
ہوسکتا ہے اسی دوران اسرائیل مصر کی نئی حکومت کو بھی پیغام دینا چاہ رہا ہو۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے بارے میں اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کا تاثر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس حملے نے مورسی کی حکومت کی کمزوری اور بزدلی کو عیاں کر دیا ہے۔ مصری حکومت غزہ میں ’’انسانی تباہی‘‘کا شور تو مچا رہی ہے لیکن اس نے غزہ کے دفاع کے لئے انگلی تک نہیں ہلائی۔
مذاکرات کا تناظر
حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر نام نہاد اقوامِ متحدہ کے خصی پن کا پول کھول دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ غزہ جائے گا، لیکن وہ کچھ بھی کر نہیں پائے گا۔ قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کئی قسم کی متضاد افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ حماس کے ایک ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس نئی جنگ بندی کی’’ 90فیصد شرائط پر راضی ہو چکے ہیں‘‘، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ باقی کی 10 فیصد شرائط کیا ہیں؟اسرائیلی حکام پہلے خبر رساں اداروں کو بتا رہے تھے قاہرہ کے ساتھ اسرائیلی حکومت مذاکرات کر رہی ہے، تاہم اب قاہرہ میں کسی اسرائیلی وفد کی موجودگی کی ہی تردید کی جارہی ہے۔ اس قسم کی کسی ڈیل کی بنیادیں بھی موجود ہیں۔ لیڈر شپ اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے صرفِ نظر حماس کو تل ابیب کے خلاف اپنے دور مار راکٹوں کی وجہ سے شہرت اور علامتی فتح ملے گی جبکہ اسرائیل زمینی حملہ کئے بغیر حماس کے دور مار راکٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے گا، کیونکہ شہر کی گلیوں میں جنگ اور خود کش بمبار مہنگے پڑ سکتے ہیں۔
حماس اسرائیل کی طرف سے اپنے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بند کرنے اور مصرکی طرف سے غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے بدلے عارضی جنگ بندی کرنا چاہے گا لیکن اسرائیل کی طرف سے ایسے کسی معاہدے کی منظوری مشکوک ہے۔ ایسی کسی ڈیل کی گارنٹی کون دے گا؟ جب تک مصر حماس کے راکٹوں کی بندش کی ذمہ داری نہ لے تب تک اسرائیل ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ لیکن اس سے مصر براہِ راست اس تنازعے میں ملوث ہو جائے گا اور مورسی کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی۔
دونوں فریقین ایسی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو دوسرے فریق کی پوزیشن کو کمزور کریں۔ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لئے حماس کو اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم کرنا پڑے گا جبکہ اسرائیل کو حماس کی زیرِ قیادت فلسطینی ریاست تسلیم کرنی ہو گی جوکہ غزہ میں میں حماس کی حکومت اور بعد میں مغربی کنارے میں حماس کے قبضے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
حماس اپنے راکٹ ختم نہیں کرسکتی جبکہ اسرائیل، حماس کی ایسے اسلحے تک رسائی برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے مرکزی علاقے کے لئے خطرہ ہوں۔ دور تک مار کرنے والے فجر5راکٹ تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ راکٹ حماس کی سٹریٹجک پوزیشن کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کناے میں حماس کی مدمقابل فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو بھی زیر کرنے میں مددگار ہیں۔ لہٰذا حماس کسی ایسی ڈیل کی مخالفت کرے گا جو اسے ان راکٹوں سے محروم کرے لیکن اسرائیل فجر 5راکٹوں کی حماس کے پاس موجودگی کو برادشت نہیں کرے گا۔ کسی معاہدے سے پہلے اسرائیل اور حماس حملے جاری رکھ کے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ غزہ پر براہِ راست حملہ فی الحال اسرائیل نے ملتوی کر دیا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت ایسا حملہ کرنے میں پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ اسرائیل اپنے جانی نقصان اور سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے زمینی حملہ نہیں کرنا چاہے گا لیکن اس سلسلے میں اس کی تیاری مکمل ہے۔ اور یہ خالی خولی لفاظی بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو اس ہفتے کے آخر تک زمینی حملہ کیا جاسکتا ہے۔
غزہ اور عرب انقلاب
یورپی طاقتیں اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کرے۔ یورپی سرمایہ دارخوفزدہ ہیں کہ خطے میں کسی قسم کا سنجیدہ مسئلہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’انسانیت‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقی مقاصد کچھ اور ہیں۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمزور معاشی بحالی اور تیل کی قیمتوں پر اس تنازعے کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ عرب کی سڑکوں پر کسی نئے انقلاب کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ ہیں۔ امن کی اپیلوں کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما ہیں۔ لیکن یورپی حکومتیں، یورپی یونین کو ٹوٹنے سے بچانے میں اتنی مصروف ہیں کہ غزہ کا معاملہ ان کے لئے ثانوی نوعیت کا ہے۔
امریکہ میں بالائی سطح تک خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن قاہرہ پہنچ رہی ہے لیکن عراق میں اپنی انگلیاں جلانے کے بعد واشنگٹن میں بیٹھے معززین مشرقِ وسطیٰ کے کسی اور تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ امریکی حکومت اسرائیل کی مخالفت نہیں کر سکتی ہے کیونکہ عرب انقلاب کے بعد خطے میں ان کا یہی ایک قابلِ بھروسہ حلیف بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکارانہ لفاظی کے باوجود اوباما نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو اسرائیل اس سے پہلے اتنا تنہا کبھی نہیں ہواہے۔ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مصر میں بننے والی حکومت پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2008ء میں ترکی امریکہ اور اسرائیل کا قریبی حلیف تھا لیکن مئی 2010ء میں غزہ کی طرف امداد لے جانے والے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے، جس میں کئی ترک شہری ہلاک ہوئے تھے، کے بعدترک اسرائیلی تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان نے حال ہی میں اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ بشارالاسد کی زیرِ قیادت شام ایک رکاوٹ تھا لیکن اس کا رویہ قابلِ پیش گوئی تھا۔ لیکن اب شام میں جاری انتشار لبنان تک پھیلنے کے باعث دمشق حکومت حزب اللہ کو قابو کرنے کے سلسلے میں قابلِ اعتماد نہیں رہی۔ غزہ کا بحران مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں مقیم فلسطینیوں کو مشتعل کرسکتا اوراردن کی بادشاہت ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک مصر ہے۔ مصری حکومت قاہرہ کی سڑکوں پر نئی جنگ کے خوف سے جنگ بندی کروانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ مصر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے جس میں حماس اور اسلامی جہاد کے سرکردہ رہنماشامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حکام بھی قاہرہ میں موجود ہیں۔ مصری حکومت کے مفادات اسرائیل کو زمینی حملے سے روکنے سے وابستہ ہیں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں حماس کا حمایتی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے، لیکن یہ حمایت منافقانہ تقریروں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ مورسی کو اسرائیل سے یہ وعدہ کرنا پڑے گا کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لئے سب کچھ کرے گا۔ اس کی اصلیت لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائے گی۔
حماس کے رہنما حزب اللہ کی طرز پر نام نہاد فتح کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ موجودہ بحران انہیں اسرائیل پر علامتی فتح جیتنے کے قابل بنائے گا۔ لیکن یہ محض ایک خواب ہے جس کا نتیجہ غزہ کی مکمل تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
غزہ کے لوگوں پر گہری مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جو واقعات ان کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں وہ ان کے بس سے باہر ہیں۔ وہ اسرائیلی
ظالموں کے ساتھ ساتھ مولویوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جنہوں نے انہیں موت اور تکالیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ حماس اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی حل موجودنہیں۔ صرف ایک حقیقی انقلابی قوت فلسطینیوں کو اس بحران سے باہر نکال سکتی ہے۔
اپنے تئیں اسرائیل یہ سب کچھ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کر رہا ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اسرائیل غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ خطے میں اور بین الاقوامی طور پر یہ تیزی سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔
ان ظالمانہ حملوں نے فلسطین کے پیچیدہ سوال کو مزید بل دے دئیے ہیں۔ موت اور تباہی کا ننگاناچ فلسطینیوں کی نئی نسل کو انتقام کی آگ سے بھر دے گا۔ ان حملوں سے آنے والی اسرائیلی نسلیں کس طرح محفوظ ہو ں گی یہ ایک معمہ ہے۔ فضائی حملے میں مرنے والا ہر بچہ انتقام کی پیاس کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس راستے پر اس بد قسمت خطے کے لوگوں کے لئے تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس جدوجہد میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) واضح طور پر مظلوم کے ساتھ اور ظالم کے خلاف صف آراء ہے۔ یہ سوال کہ پہل کس نے کی اور اس طرح کے دوسرے سفارتی آداب پر مبنی سوالات ہمارے لئے معنی نہیں رکھتے۔ ہم غزہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے اسرائیلی جارحیت پسندوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ ہم کسی بھی جنگ مخالف مظاہرے یا تحریک میں پیش پیش ہونگے۔ ہم مغربی حکومتوں کی منافقت اور ان کی ’’انسانیت‘‘ پر مبنی لفاظی کو سب کے سامنے ننگا کریں گے۔
ہمیں غزہ میں موجود نوجوانوں کی سب سے انقلابی پرتوں کے ساتھ رابطے بنانے ہونگے جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس کی رجعتی قیادت اور فلسطینی قیادت کے مصالحانہ اور بورژوا دھڑے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں وسیع تناظر تخلیق کرنا ہو گا۔ موجودہ تنازعہ مشرقِ وسطیٰ کی بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے اور اسے سیاق و سباق سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا۔
غزہ کا بحران، آنے والے بڑے بحران کاآغاز ہے۔ اس کی کڑی نیتن یاہو کے ایران پر فضائی حملے کے منصوبے سے ملتی ہے جو پورے مشرقِ وسطیٰ کو بھڑکا کے رکھ دے گا۔ اس کے معاشی و اقتصادی نتائج کا ابھی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے عرب دنیا اور اس سے باہر بھی عوامی ابھاروں کی نئی لہر کا آغاز ہوگا۔ حکومتیں گریں گی، لوگ سڑکوں پر آئیں گے، تیل کی قیمتیں قابو سے باہر ہو جائیں گی اور عالمی معیشت گہری کھائی میں جا گرے گی جیسا کہ 1973ء میں اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا۔
غزہ کا بحرا ن جلتاہوا تیل ثابت ہوسکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں جمع شدہ تمام بارودکو اڑا کے رکھ دے۔ یہ عرب انقلاب میں ایک نئے مرحلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں عالمی سطح پر ڈرامائی واقعات ہوں گے۔
20نومبر 2012ء
جیسا کہ تین دن پہلے لکھے گئے اس آرٹیکل میں تناظر پیش کیا گیا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ مصر نے اس سلسلے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن پر گزرتے دن کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و معاشی تضادات شدید ہوتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر ڈرامائی واقعات کو جنم دے سکتے ہیں۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عارضی جنگ بندیاں اور نام نہاد امن لمبے عرصے تک پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔
http://www.struggle.com.pk/gaza-what-does-it-mean/
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ اردو وکی پیڈیا کے تاریک دور کی علامت ہے جب اردو وکی پیڈیا پر لکھاریوں کی تحریر پر ایڈمنز کی طرف سے درخواست کی جاتی تھی کہ:
 

جاسمن

لائبریرین
غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت اور مغربی میڈیا
February 8, 2013
by admin

غزہ پر اسرائیلی جارحیت
اسرائیل نے 2008-09ء کے اپنے نام نہاد آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد غزہ پر نیا حملہ کردیا ہے۔ کاسٹ لیڈ آپریشن اکیس دن جاری رہا تھا جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں شہید کردی گئی تھیں۔ ان میں سے ہزار سے زیادہ قطعی شہری ہلاکتیں تھیں۔ پھر اس نے اس ترک فلوٹیلا پر حملہ کردیا جو غزہ کے محصور شہریوں کے لیے سامان خورد و نوش لے کر جارہا تھا۔ یہ جون 2010ء کا واقعہ ہے۔ اس میں نو افراد کو مارا گیا اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعہ پر فلسطینیوں نے بھی شدید احتجاج کیا اور یورپ سے بھی چند آوازیں سنائی دیں تو سننے والوں نے اسے بڑی تبدیلی قرار دیا۔ کہا گیا کہ مغربی میڈیا تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ میڈیا ہمیشہ سے اسرائیل کا پرجوش حامی رہا ہے۔ اب پھر فوجی آپریشن ہو رہا ہے، جس میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سینکڑوں زخمی کیے جاچکے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا کا دل ابھی تک مضطرب نہیں وا۔ اس میں کسی نوعیت کی آواز بلند نہیں ہورہی۔
فلسطینیوں پر جب بھی اسرائیل نے بمباری کی، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو جارحیت کے مرتکب کے بجائے حق بجانب قرار دیا۔ انہوں نے اس حمایت میں صہیونی ریاست کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ دوسرے ذرائع ابلاغ کا لب و لہجہ بھی کبھی زیادہ مختلف نہیں رہا۔ آپ ڈی این سی اور باراک اوباما کے دوبارہ انتخاب پر صرف دو اداروں کا رد عمل دیکھ لیں۔ یہ ایم ایس این بی سی اور مدر جونز (Mother Jones) میگزین ہیں۔ 16 نومبر کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق ترجمان جیمز رابن ایم ایس این بی سی کے میزبان ایلکس ویگنر کے پروگرام میں نمودار ہوئے۔ یکطرفہ مباحثے کے دوران میں رابن نے نیتن یاہو کو انتہائی ذہین کردار قرار دیا۔ انہوں نے امن مذاکرات نہ ہونے کا سب سے بڑا ذمہ دار فلسطینیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام دھرنے کی ذرہ بھر کوشش یا جسارت بھی نہیں کی۔
ویگنر اور رابن میں گہرا اتفاق رائے سامنے آیا اور وہ یہ تھا کہ رومنے صدر امریکہ ہوتے تو ان کا ردعمل یکسر مختلف ہوتا۔ یہ کس قدر مختلف ہوتا، اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والی امریکی سینٹ اتفاق رائے سے قرارداد منظور کرچکی تھی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ صدر باراک اوباما بار بار اپنی اس غیر مشروط اور غیر متزلزل حمایت کا اعلان کررہے ہیں جو وہ نیتن یاہو اور ان کے حالیہ جارحانہ اقدام کی کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور الگ تھلگ کردیا گیا ہے کہ فلسطین کے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ 15 نومبر کو اس حملے کے بارے میں مدر جونز نے صرف ایک اور منفرد ٹکڑا شائع کیا۔ اس میں یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا کہ کس خوبصورتی سے اسرائیل نے یہ اقدام کیا ہے، کس طرح اس نے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اس مہم میں اسرائیل نے کس خوبصورتی سے حماس کے راہنما احمد جابری کا صفایا کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ ان 100 راکٹوں کے جواب میں کیا ہے جو ان دنوں اسرائیل پر داغے گئے ہیں۔ اس کا تذکرہ Fairness and Accuvacy in Reporting میں بھی کیا گیا۔
ابھی گڈمین نے اپنے مؤقف کی حمایت میں فلسطینی صحافی محمد عمر کو ساتھ لیا جو غزہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایمی گڈمین اپنے شو Democracy Now میں وہ محمد عمر سے وہ بنیادی سوالات کرنے میں مکمل ناکام رہیں کہ موجودہ صورتحال کس طرح پیدا ہوئی۔ وہ خود بھی کوئی بات نہ کرسکیں۔ چند ایک ذرائع ابلاغ نے اپنے لبرل رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ لکھا اور کہا کہ آخر دنیا کی مضبوط فضائیہ کو بے ضرر سے چند راکٹوں کے جواب میں غزہ کی شہری آبادی پر کس طرح چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس طرح اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں نئی ہمدردی پیدا ہوگی۔ اس منطق میں چھپی فکر مندی چھپ نہیں سکی۔ اسرائیل کے لیے درد نمایاں ہے۔ اگر حماس کے یہ راکٹ طاقت ور ہوتے، جیسا کہ اب وہ میڈیا مں ظاہر ہو رہے ہیں تو کیا ان کے بجائے اسرائیل پر ہونے والی تنقید کا رخ تبدیل کیا جاسکے گا۔ فکر مندی تو یہ ہے کہ یہ اقدامات فلسطینیوں کو متاثرہ فریق ثابت کرتے رہیں گے، کیا اس طرح ان کی مزاحمت ختم ہوسکے گی، کیا یہ زیادہ مضبوط اور مستحکم نہیں ہو جائے گی۔
”یہ جنگ کس نے شروع کی؟” یہ دوسرا نکتہ ہے جس پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس تازہ جارحیت کو اس نئی بحث میں الجھایا جارہا ہے۔ اہم مبصرین اس حملے کے نظام الاوقات پر بحث کررہے ہیں۔ یہ مبصرین جو کچھ کہہ رہے ہیں، یہ ان کی آراء میں کوئی مصدقہ اور مستند حقائق نہیں ہیں۔ اب NPR سے لے کر نیویارک ٹائمز تک سب کہہ رہے ہیں کہ جوابی اقدام اسرائیل نے کیا ہے حملہ تو حماس نے کیا تھا۔
غزہ پر اسرائیل کے اتنے بڑے حملے کے اسباب پر بھی بعض سیاسی پنڈت ان ذرائع ابلاغ سے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اسرائیل کے آنے والے انتخابات ہیں جو 22 جنوری کو ہونے والے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس اقدام سے وزیر اعظم یاہو اور وزیر دفاع ایہود باراک کو کس قدر سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ دراصل اسرائیل مصر کی اخوان المسلمون کی حکومت ٹیسٹ کررہا ہے کہ وہ کس نوعیت کے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکی صدر اوباما کو بھی ٹسٹ کررہا ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب کے بعد کس پالیسی پر چلتے ہیں؟۔
ان مغربی پنڈتوں کے لیے اس طرح کے اندازے لگانا قابل فہم ہے اور وہ خاموش تماشائیوں کے ساتھ مل کر یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ غزہ پر ایک اور جارحیت کے لیے کیا ماحول پیدا کیا جائے۔ اس طرح غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جاری پالیسیوں اور دوسری طرف ”آہنی دیوار” کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے صہیونی راہنما زے ایو (Ze’ev) کی روح کو تسکین دی جاتی ہے جس کی حکمت عملی صہیونی 1948ء سے لے کر چل رہے ہیں۔ جان میرشمیر کہتے ہیں کہ آہنی دیوار وہ پالیسی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو اس حدتک مارنا مطلوب ہے جس کے نتیجہ میں وہ غلامی قبول کرلیں۔ توئہ تائب کرجائیں۔
جب ہم غزہ کی پٹی یا لبنان پر اسرائیلی جارحیت کو دیکھتے ہیں، اس میں ہمیشہ یہ نظر آتا ہے کہ سیاسی فائدہ پیش نظر ہے، ووٹ حاصل کرنا ہیں، ایک ایسے تاجر کے طور پر کام کرنا ہے جو اسلحہ کی تجارت کرتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ منطق ہے جس کو اس بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے کہ روزانہ کتنے کیلوریز ایک فلسطینی کھائے تاکہ محض زندہ رہ سکے، مرنہ جائے۔ یہ زہر آلود پالیسیاں ہیں وہ جان بوجھ کر چند ایک ٹرک اور بسیں اس محاصرے میں سے گزرنے دیتا ہے تاکہ جس قدر کیلوریز محض زندہ رہنے کے لیے فلسطینیوں کو درکار میں وہ بھی سمگل ہو کر آئیں۔
یہی منطق ہے جو اسرائیل کو مغربی کندے میں ایریا سی (Area C) میں بستیاں بنانے سے روکتی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں روکتی ہے۔ وہ ایریا بی میں وسیع پیمانے پر ادویات کا نشہ پھیلا رہا ہے۔ وہ ایریا اے میں روزانہ داخل ہوتا ہے، سیاسی راہنمائوں کو گرفتار کرتا ہے، کارکنوں کو جیلوں میں ڈالتا ہے، صحافیوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔
یہ ایک نو آبادیات کار کا ذہن ہے۔ اسے زمین کی ضرورت ہے۔ وہ یہ زمین چاہتا ہے اس پر بسنے والے لوگوں کو نہیں۔ جی میڈیا اس بارے میں بات کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسے بڑی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
تحریر: شارلوٹ سلور
ترجمہ: شہری لائیو ڈاٹ کام
(شارلوٹ سلور سان فرانسسکو کی صحافی ہیں۔ وہ سٹین فورٹ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں بھی کام کرتی ہیں۔)
 

قیصرانی

لائبریرین
غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟
  • November 23, 2012
’’جب سیاسی رہنما امن کی بات کریں تو عام لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے‘‘ (برتولت بریخت)
[تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: عمران کامیانہ]
15 نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو واضح طور پر حماس کو جنگی تنازعے میں الجھانا چاہ رہا تھاجس میں وہ کامیاب ہوا۔ حماس نے غزہ کی سرحد پر واقع اسرائیلی شہروں پر جواب میں راکٹ داغے جنہیں اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کرنے کا جواز بنایا۔ 16 اور 17 نومبر کی درمیانی شب اسرائیلی فضائیہ نے پولیس سٹیشنوں، حماس کی وزارتوں، مصر کی سرحد پر واقع سرنگوں سمیت غزہ کی پٹی میں کئی دوسرے اہداف کو نشانہ بنایا۔ بعد کے حملوں میں غیر ملکی صحافیوں کے زیرِ استعمال ایک عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی پراپیگنڈا مشین نے جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے فوجی کاروائی کو ’’دہشت گردوں کے حملوں‘‘ کا جواب قرار دیا۔ بڑی فرمانبرداری سے پیروی کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے تنازعے کو دو برابر طاقتوں کے درمیان جنگ قرار دیا، یعنی ’’اسرائیلی بمباری بمقابلہ حماس کے راکٹ‘‘۔ لیکن یہ تنازعہ مبالغہ آرائی کی حد تک دو غیر مساوی قوتوں کے درمیان ہے۔
غزہ ایک کھلا قید خانہ ہے جہاں 17 لاکھ لوگ محض 140 مربع کلومیٹر کے رقبے میں مقیم ہیں۔ یہ علاقہ مکمل طور ہر اپنے ہمسائے اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس خطے کی سب سے طاقتور فوجی طاقت موجود ہے۔ اسرائیلی ہتھیاروں کا خرچہ، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں، سالانہ 3ارب ڈالر کی امریکی امداد سے چلتاہے۔ غزہ کی طرف سے داغے جانے والے قدیم زمانے کے راکٹ کسی بھی طور پر اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے مد مقابل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جیٹ طیارے اور ڈرون دن رات غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔
اسرائیلی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ’’دہشتگردوں‘‘ اور حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ٹی وی کیمرے اس تمام تر پروپیگنڈا کا پول کھول رہے ہیں۔ اسرائیل کے ان دعووں کے بر عکس کہ اہداف کو بڑی احتیاط سے نشانہ بنایا جارہا ہے، مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کی ہے۔ چھوٹے بچوں کی لاشیں اٹھائے رشتہ داروں کے خوفناک مناظر نے دنیا بھر کے لوگوں کی رائے کو اثر انداز کیا ہے۔
جنگ بندی کی باتوں کے باوجود اسرائیل کی فضائی بمباری اور غزہ کی طرف سے دور تک مار کرنے والے راکٹوں کے حملے جاری ہیں۔ اسرائیل کی طرف جانے والے راکٹوں کے مناظر مورال کو بلند کریں یا نہ کریں، لیکن جنگی ہتھیار کے طور پر وہ بالکل بھی موثر نہیں ہیں۔ سوموار کی شام تک کم از کم 100فلسطینی جبکہ صرف 3 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہاں خون کے بدلے خون والا معاملہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کا جانی نقصان اسرائیل سے 30گنا زیادہ ہے۔
اسرائیل کے مطابق انہوں نے اپنے Iron Doom دفاعی نظام سے زیادہ تر راکٹوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا ہے اور اسرائیل میں ہونے والے کم جانی نقصان سے ایسا لگتا بھی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفاعی نظام نے 90 فیصد راکٹوں کو تباہ کیا ہے سراسر مبالغہ آرائی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ 16نومبر کو اسرائیلی کیبنٹ نے وزیرِ دفاع ایہود براک کی 75000ریزرو فوجی بلانے کی درخواست منظور کی ہے۔ یہ تعداد 2008-2009ء میں غزہ پر حملے کے دوران فوجیوں سے زیادہ ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، آرٹلری اور فوجی بڑی تعداد میں بارڈر کی طرف لائے جا رہے ہیں۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ ایسا صرف دھمکی اور دہشت کے لئے کیا جارہا ہے یا پھر اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تیاری کی جارہی ہے؟
اس سب کا مقصد کیا ہے؟
اس وقت غزہ پر حملے کرنے کے پیچھے اسرائیل کے کیا مقاصدہو سکتے ہیں؟
حملے کے اوقاتِ کار محض اتفاق نہیں ہو سکتے۔ آج سے چار سال پہلے، 4نومبر 2008ء کو جب امریکی صدارتی الیکشنوں کی تیاری کر رہے تھے، اسرائیلی فوج ٹینکوں، توپوں اور بلڈوزر لے کر غزہ میں گھس گئی تھی۔ اس وقت اس کا مقصد حماس کے زیرِ اثر اسلحہ سمگل کرنے والی سرنگوں کی تباہی بتایا گیا تھا۔ حماس نے مارٹر اور راکٹوں سے جواب دیا۔ 27 دسمبر 2008ء کو ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کا آغاز کیا گیا جس میں 7دن کی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ 15دن کا زمینی حملہ بھی شامل تھا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فوج کے مطابق صرف 10 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں سے 4فرینڈلی فائر کا نشانہ بنے۔ حماس کی طرف سے داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں سے صرف 3اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1166فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے 709 کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جنگجو تھے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نیتن یاہو ایران پر بمباری کرکے اس کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ نیتن یاہوامید کررہا تھا کہ امریکی الیکشنوں میں مٹ رومنی جیتے گا۔ ریپبلکن ایران پر حملے کی حمایت کے لئے مشہور ہیں۔
اوباما امریکی سرمایہ داری کا زیادہ محتاط نمائندہ ہے اور ایران پر فضائی بمباری سے برآمد ہونے والے نتائج کے بارے میں پریشان ہے۔ امریکی انتخابات سے کچھ ہی دنوں بعد نیتن یاہو یہ پیغام واشنگٹن بھیجنا چاہ رہا ہے کہ ’’اوباما کا جو دل چاہے وہ کہے، لیکن دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘‘۔
یہ کہا گیا ہے کہ غزہ میں موجود کئی گروپس دور تک مار کرنے والے راکٹ مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹ ایران سے درآمد کئے گئے ہیں اور یہ الزام سارے تنازعے کو خونی طرف لے جاتے ہوئے نیتن یاہو کو ایران پر حملے کا جواز فراہم کرے گا۔
ہوسکتا ہے اسی دوران اسرائیل مصر کی نئی حکومت کو بھی پیغام دینا چاہ رہا ہو۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے بارے میں اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کا تاثر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس حملے نے مورسی کی حکومت کی کمزوری اور بزدلی کو عیاں کر دیا ہے۔ مصری حکومت غزہ میں ’’انسانی تباہی‘‘کا شور تو مچا رہی ہے لیکن اس نے غزہ کے دفاع کے لئے انگلی تک نہیں ہلائی۔
مذاکرات کا تناظر
حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر نام نہاد اقوامِ متحدہ کے خصی پن کا پول کھول دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ غزہ جائے گا، لیکن وہ کچھ بھی کر نہیں پائے گا۔ قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کئی قسم کی متضاد افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ حماس کے ایک ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس نئی جنگ بندی کی’’ 90فیصد شرائط پر راضی ہو چکے ہیں‘‘، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ باقی کی 10 فیصد شرائط کیا ہیں؟اسرائیلی حکام پہلے خبر رساں اداروں کو بتا رہے تھے قاہرہ کے ساتھ اسرائیلی حکومت مذاکرات کر رہی ہے، تاہم اب قاہرہ میں کسی اسرائیلی وفد کی موجودگی کی ہی تردید کی جارہی ہے۔ اس قسم کی کسی ڈیل کی بنیادیں بھی موجود ہیں۔ لیڈر شپ اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے صرفِ نظر حماس کو تل ابیب کے خلاف اپنے دور مار راکٹوں کی وجہ سے شہرت اور علامتی فتح ملے گی جبکہ اسرائیل زمینی حملہ کئے بغیر حماس کے دور مار راکٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے گا، کیونکہ شہر کی گلیوں میں جنگ اور خود کش بمبار مہنگے پڑ سکتے ہیں۔
حماس اسرائیل کی طرف سے اپنے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بند کرنے اور مصرکی طرف سے غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے بدلے عارضی جنگ بندی کرنا چاہے گا لیکن اسرائیل کی طرف سے ایسے کسی معاہدے کی منظوری مشکوک ہے۔ ایسی کسی ڈیل کی گارنٹی کون دے گا؟ جب تک مصر حماس کے راکٹوں کی بندش کی ذمہ داری نہ لے تب تک اسرائیل ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ لیکن اس سے مصر براہِ راست اس تنازعے میں ملوث ہو جائے گا اور مورسی کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی۔
دونوں فریقین ایسی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو دوسرے فریق کی پوزیشن کو کمزور کریں۔ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لئے حماس کو اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم کرنا پڑے گا جبکہ اسرائیل کو حماس کی زیرِ قیادت فلسطینی ریاست تسلیم کرنی ہو گی جوکہ غزہ میں میں حماس کی حکومت اور بعد میں مغربی کنارے میں حماس کے قبضے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
حماس اپنے راکٹ ختم نہیں کرسکتی جبکہ اسرائیل، حماس کی ایسے اسلحے تک رسائی برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے مرکزی علاقے کے لئے خطرہ ہوں۔ دور تک مار کرنے والے فجر5راکٹ تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ راکٹ حماس کی سٹریٹجک پوزیشن کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کناے میں حماس کی مدمقابل فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو بھی زیر کرنے میں مددگار ہیں۔ لہٰذا حماس کسی ایسی ڈیل کی مخالفت کرے گا جو اسے ان راکٹوں سے محروم کرے لیکن اسرائیل فجر 5راکٹوں کی حماس کے پاس موجودگی کو برادشت نہیں کرے گا۔ کسی معاہدے سے پہلے اسرائیل اور حماس حملے جاری رکھ کے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ غزہ پر براہِ راست حملہ فی الحال اسرائیل نے ملتوی کر دیا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت ایسا حملہ کرنے میں پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ اسرائیل اپنے جانی نقصان اور سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے زمینی حملہ نہیں کرنا چاہے گا لیکن اس سلسلے میں اس کی تیاری مکمل ہے۔ اور یہ خالی خولی لفاظی بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو اس ہفتے کے آخر تک زمینی حملہ کیا جاسکتا ہے۔
غزہ اور عرب انقلاب
یورپی طاقتیں اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کرے۔ یورپی سرمایہ دارخوفزدہ ہیں کہ خطے میں کسی قسم کا سنجیدہ مسئلہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’انسانیت‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقی مقاصد کچھ اور ہیں۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمزور معاشی بحالی اور تیل کی قیمتوں پر اس تنازعے کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ عرب کی سڑکوں پر کسی نئے انقلاب کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ ہیں۔ امن کی اپیلوں کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما ہیں۔ لیکن یورپی حکومتیں، یورپی یونین کو ٹوٹنے سے بچانے میں اتنی مصروف ہیں کہ غزہ کا معاملہ ان کے لئے ثانوی نوعیت کا ہے۔
امریکہ میں بالائی سطح تک خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن قاہرہ پہنچ رہی ہے لیکن عراق میں اپنی انگلیاں جلانے کے بعد واشنگٹن میں بیٹھے معززین مشرقِ وسطیٰ کے کسی اور تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ امریکی حکومت اسرائیل کی مخالفت نہیں کر سکتی ہے کیونکہ عرب انقلاب کے بعد خطے میں ان کا یہی ایک قابلِ بھروسہ حلیف بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکارانہ لفاظی کے باوجود اوباما نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو اسرائیل اس سے پہلے اتنا تنہا کبھی نہیں ہواہے۔ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مصر میں بننے والی حکومت پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2008ء میں ترکی امریکہ اور اسرائیل کا قریبی حلیف تھا لیکن مئی 2010ء میں غزہ کی طرف امداد لے جانے والے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے، جس میں کئی ترک شہری ہلاک ہوئے تھے، کے بعدترک اسرائیلی تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان نے حال ہی میں اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ بشارالاسد کی زیرِ قیادت شام ایک رکاوٹ تھا لیکن اس کا رویہ قابلِ پیش گوئی تھا۔ لیکن اب شام میں جاری انتشار لبنان تک پھیلنے کے باعث دمشق حکومت حزب اللہ کو قابو کرنے کے سلسلے میں قابلِ اعتماد نہیں رہی۔ غزہ کا بحران مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں مقیم فلسطینیوں کو مشتعل کرسکتا اوراردن کی بادشاہت ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک مصر ہے۔ مصری حکومت قاہرہ کی سڑکوں پر نئی جنگ کے خوف سے جنگ بندی کروانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ مصر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے جس میں حماس اور اسلامی جہاد کے سرکردہ رہنماشامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حکام بھی قاہرہ میں موجود ہیں۔ مصری حکومت کے مفادات اسرائیل کو زمینی حملے سے روکنے سے وابستہ ہیں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں حماس کا حمایتی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے، لیکن یہ حمایت منافقانہ تقریروں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ مورسی کو اسرائیل سے یہ وعدہ کرنا پڑے گا کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لئے سب کچھ کرے گا۔ اس کی اصلیت لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائے گی۔
حماس کے رہنما حزب اللہ کی طرز پر نام نہاد فتح کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ موجودہ بحران انہیں اسرائیل پر علامتی فتح جیتنے کے قابل بنائے گا۔ لیکن یہ محض ایک خواب ہے جس کا نتیجہ غزہ کی مکمل تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
غزہ کے لوگوں پر گہری مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جو واقعات ان کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں وہ ان کے بس سے باہر ہیں۔ وہ اسرائیلی
ظالموں کے ساتھ ساتھ مولویوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جنہوں نے انہیں موت اور تکالیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ حماس اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی حل موجودنہیں۔ صرف ایک حقیقی انقلابی قوت فلسطینیوں کو اس بحران سے باہر نکال سکتی ہے۔
اپنے تئیں اسرائیل یہ سب کچھ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کر رہا ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اسرائیل غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ خطے میں اور بین الاقوامی طور پر یہ تیزی سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔
ان ظالمانہ حملوں نے فلسطین کے پیچیدہ سوال کو مزید بل دے دئیے ہیں۔ موت اور تباہی کا ننگاناچ فلسطینیوں کی نئی نسل کو انتقام کی آگ سے بھر دے گا۔ ان حملوں سے آنے والی اسرائیلی نسلیں کس طرح محفوظ ہو ں گی یہ ایک معمہ ہے۔ فضائی حملے میں مرنے والا ہر بچہ انتقام کی پیاس کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس راستے پر اس بد قسمت خطے کے لوگوں کے لئے تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس جدوجہد میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) واضح طور پر مظلوم کے ساتھ اور ظالم کے خلاف صف آراء ہے۔ یہ سوال کہ پہل کس نے کی اور اس طرح کے دوسرے سفارتی آداب پر مبنی سوالات ہمارے لئے معنی نہیں رکھتے۔ ہم غزہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے اسرائیلی جارحیت پسندوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ ہم کسی بھی جنگ مخالف مظاہرے یا تحریک میں پیش پیش ہونگے۔ ہم مغربی حکومتوں کی منافقت اور ان کی ’’انسانیت‘‘ پر مبنی لفاظی کو سب کے سامنے ننگا کریں گے۔
ہمیں غزہ میں موجود نوجوانوں کی سب سے انقلابی پرتوں کے ساتھ رابطے بنانے ہونگے جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس کی رجعتی قیادت اور فلسطینی قیادت کے مصالحانہ اور بورژوا دھڑے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں وسیع تناظر تخلیق کرنا ہو گا۔ موجودہ تنازعہ مشرقِ وسطیٰ کی بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے اور اسے سیاق و سباق سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا۔
غزہ کا بحران، آنے والے بڑے بحران کاآغاز ہے۔ اس کی کڑی نیتن یاہو کے ایران پر فضائی حملے کے منصوبے سے ملتی ہے جو پورے مشرقِ وسطیٰ کو بھڑکا کے رکھ دے گا۔ اس کے معاشی و اقتصادی نتائج کا ابھی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے عرب دنیا اور اس سے باہر بھی عوامی ابھاروں کی نئی لہر کا آغاز ہوگا۔ حکومتیں گریں گی، لوگ سڑکوں پر آئیں گے، تیل کی قیمتیں قابو سے باہر ہو جائیں گی اور عالمی معیشت گہری کھائی میں جا گرے گی جیسا کہ 1973ء میں اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا۔
غزہ کا بحرا ن جلتاہوا تیل ثابت ہوسکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں جمع شدہ تمام بارودکو اڑا کے رکھ دے۔ یہ عرب انقلاب میں ایک نئے مرحلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں عالمی سطح پر ڈرامائی واقعات ہوں گے۔
20نومبر 2012ء
جیسا کہ تین دن پہلے لکھے گئے اس آرٹیکل میں تناظر پیش کیا گیا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ مصر نے اس سلسلے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن پر گزرتے دن کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و معاشی تضادات شدید ہوتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر ڈرامائی واقعات کو جنم دے سکتے ہیں۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عارضی جنگ بندیاں اور نام نہاد امن لمبے عرصے تک پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔
http://www.struggle.com.pk/gaza-what-does-it-mean/
جس تسلسل سے آپ بی بی سی کی اردو سائٹ کے تصویری متن لگاتی ہیں، اس سے مجھے غلط فہمی ہوئی کہ آپ نے شاید بی بی سی اردو سے یا کسی اور غیر جانبدار سائٹس یا جگہوں سے مطالعہ کیا ہوگا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت اور مغربی میڈیا
February 8, 2013
by admin

غزہ پر اسرائیلی جارحیت
اسرائیل نے 2008-09ء کے اپنے نام نہاد آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد غزہ پر نیا حملہ کردیا ہے۔ کاسٹ لیڈ آپریشن اکیس دن جاری رہا تھا جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں شہید کردی گئی تھیں۔ ان میں سے ہزار سے زیادہ قطعی شہری ہلاکتیں تھیں۔ پھر اس نے اس ترک فلوٹیلا پر حملہ کردیا جو غزہ کے محصور شہریوں کے لیے سامان خورد و نوش لے کر جارہا تھا۔ یہ جون 2010ء کا واقعہ ہے۔ اس میں نو افراد کو مارا گیا اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعہ پر فلسطینیوں نے بھی شدید احتجاج کیا اور یورپ سے بھی چند آوازیں سنائی دیں تو سننے والوں نے اسے بڑی تبدیلی قرار دیا۔ کہا گیا کہ مغربی میڈیا تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ میڈیا ہمیشہ سے اسرائیل کا پرجوش حامی رہا ہے۔ اب پھر فوجی آپریشن ہو رہا ہے، جس میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سینکڑوں زخمی کیے جاچکے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا کا دل ابھی تک مضطرب نہیں وا۔ اس میں کسی نوعیت کی آواز بلند نہیں ہورہی۔
فلسطینیوں پر جب بھی اسرائیل نے بمباری کی، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو جارحیت کے مرتکب کے بجائے حق بجانب قرار دیا۔ انہوں نے اس حمایت میں صہیونی ریاست کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ دوسرے ذرائع ابلاغ کا لب و لہجہ بھی کبھی زیادہ مختلف نہیں رہا۔ آپ ڈی این سی اور باراک اوباما کے دوبارہ انتخاب پر صرف دو اداروں کا رد عمل دیکھ لیں۔ یہ ایم ایس این بی سی اور مدر جونز (Mother Jones) میگزین ہیں۔ 16 نومبر کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق ترجمان جیمز رابن ایم ایس این بی سی کے میزبان ایلکس ویگنر کے پروگرام میں نمودار ہوئے۔ یکطرفہ مباحثے کے دوران میں رابن نے نیتن یاہو کو انتہائی ذہین کردار قرار دیا۔ انہوں نے امن مذاکرات نہ ہونے کا سب سے بڑا ذمہ دار فلسطینیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام دھرنے کی ذرہ بھر کوشش یا جسارت بھی نہیں کی۔
ویگنر اور رابن میں گہرا اتفاق رائے سامنے آیا اور وہ یہ تھا کہ رومنے صدر امریکہ ہوتے تو ان کا ردعمل یکسر مختلف ہوتا۔ یہ کس قدر مختلف ہوتا، اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والی امریکی سینٹ اتفاق رائے سے قرارداد منظور کرچکی تھی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ صدر باراک اوباما بار بار اپنی اس غیر مشروط اور غیر متزلزل حمایت کا اعلان کررہے ہیں جو وہ نیتن یاہو اور ان کے حالیہ جارحانہ اقدام کی کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور الگ تھلگ کردیا گیا ہے کہ فلسطین کے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ 15 نومبر کو اس حملے کے بارے میں مدر جونز نے صرف ایک اور منفرد ٹکڑا شائع کیا۔ اس میں یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا کہ کس خوبصورتی سے اسرائیل نے یہ اقدام کیا ہے، کس طرح اس نے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اس مہم میں اسرائیل نے کس خوبصورتی سے حماس کے راہنما احمد جابری کا صفایا کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ ان 100 راکٹوں کے جواب میں کیا ہے جو ان دنوں اسرائیل پر داغے گئے ہیں۔ اس کا تذکرہ Fairness and Accuvacy in Reporting میں بھی کیا گیا۔
ابھی گڈمین نے اپنے مؤقف کی حمایت میں فلسطینی صحافی محمد عمر کو ساتھ لیا جو غزہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایمی گڈمین اپنے شو Democracy Now میں وہ محمد عمر سے وہ بنیادی سوالات کرنے میں مکمل ناکام رہیں کہ موجودہ صورتحال کس طرح پیدا ہوئی۔ وہ خود بھی کوئی بات نہ کرسکیں۔ چند ایک ذرائع ابلاغ نے اپنے لبرل رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ لکھا اور کہا کہ آخر دنیا کی مضبوط فضائیہ کو بے ضرر سے چند راکٹوں کے جواب میں غزہ کی شہری آبادی پر کس طرح چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس طرح اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں نئی ہمدردی پیدا ہوگی۔ اس منطق میں چھپی فکر مندی چھپ نہیں سکی۔ اسرائیل کے لیے درد نمایاں ہے۔ اگر حماس کے یہ راکٹ طاقت ور ہوتے، جیسا کہ اب وہ میڈیا مں ظاہر ہو رہے ہیں تو کیا ان کے بجائے اسرائیل پر ہونے والی تنقید کا رخ تبدیل کیا جاسکے گا۔ فکر مندی تو یہ ہے کہ یہ اقدامات فلسطینیوں کو متاثرہ فریق ثابت کرتے رہیں گے، کیا اس طرح ان کی مزاحمت ختم ہوسکے گی، کیا یہ زیادہ مضبوط اور مستحکم نہیں ہو جائے گی۔
”یہ جنگ کس نے شروع کی؟” یہ دوسرا نکتہ ہے جس پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس تازہ جارحیت کو اس نئی بحث میں الجھایا جارہا ہے۔ اہم مبصرین اس حملے کے نظام الاوقات پر بحث کررہے ہیں۔ یہ مبصرین جو کچھ کہہ رہے ہیں، یہ ان کی آراء میں کوئی مصدقہ اور مستند حقائق نہیں ہیں۔ اب NPR سے لے کر نیویارک ٹائمز تک سب کہہ رہے ہیں کہ جوابی اقدام اسرائیل نے کیا ہے حملہ تو حماس نے کیا تھا۔
غزہ پر اسرائیل کے اتنے بڑے حملے کے اسباب پر بھی بعض سیاسی پنڈت ان ذرائع ابلاغ سے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اسرائیل کے آنے والے انتخابات ہیں جو 22 جنوری کو ہونے والے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس اقدام سے وزیر اعظم یاہو اور وزیر دفاع ایہود باراک کو کس قدر سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ دراصل اسرائیل مصر کی اخوان المسلمون کی حکومت ٹیسٹ کررہا ہے کہ وہ کس نوعیت کے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکی صدر اوباما کو بھی ٹسٹ کررہا ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب کے بعد کس پالیسی پر چلتے ہیں؟۔
ان مغربی پنڈتوں کے لیے اس طرح کے اندازے لگانا قابل فہم ہے اور وہ خاموش تماشائیوں کے ساتھ مل کر یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ غزہ پر ایک اور جارحیت کے لیے کیا ماحول پیدا کیا جائے۔ اس طرح غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جاری پالیسیوں اور دوسری طرف ”آہنی دیوار” کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے صہیونی راہنما زے ایو (Ze’ev) کی روح کو تسکین دی جاتی ہے جس کی حکمت عملی صہیونی 1948ء سے لے کر چل رہے ہیں۔ جان میرشمیر کہتے ہیں کہ آہنی دیوار وہ پالیسی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو اس حدتک مارنا مطلوب ہے جس کے نتیجہ میں وہ غلامی قبول کرلیں۔ توئہ تائب کرجائیں۔
جب ہم غزہ کی پٹی یا لبنان پر اسرائیلی جارحیت کو دیکھتے ہیں، اس میں ہمیشہ یہ نظر آتا ہے کہ سیاسی فائدہ پیش نظر ہے، ووٹ حاصل کرنا ہیں، ایک ایسے تاجر کے طور پر کام کرنا ہے جو اسلحہ کی تجارت کرتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ منطق ہے جس کو اس بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے کہ روزانہ کتنے کیلوریز ایک فلسطینی کھائے تاکہ محض زندہ رہ سکے، مرنہ جائے۔ یہ زہر آلود پالیسیاں ہیں وہ جان بوجھ کر چند ایک ٹرک اور بسیں اس محاصرے میں سے گزرنے دیتا ہے تاکہ جس قدر کیلوریز محض زندہ رہنے کے لیے فلسطینیوں کو درکار میں وہ بھی سمگل ہو کر آئیں۔
یہی منطق ہے جو اسرائیل کو مغربی کندے میں ایریا سی (Area C) میں بستیاں بنانے سے روکتی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں روکتی ہے۔ وہ ایریا بی میں وسیع پیمانے پر ادویات کا نشہ پھیلا رہا ہے۔ وہ ایریا اے میں روزانہ داخل ہوتا ہے، سیاسی راہنمائوں کو گرفتار کرتا ہے، کارکنوں کو جیلوں میں ڈالتا ہے، صحافیوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔
یہ ایک نو آبادیات کار کا ذہن ہے۔ اسے زمین کی ضرورت ہے۔ وہ یہ زمین چاہتا ہے اس پر بسنے والے لوگوں کو نہیں۔ جی میڈیا اس بارے میں بات کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسے بڑی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
تحریر: شارلوٹ سلور
ترجمہ: شہری لائیو ڈاٹ کام
(شارلوٹ سلور سان فرانسسکو کی صحافی ہیں۔ وہ سٹین فورٹ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں بھی کام کرتی ہیں۔)
چند باتیں وضاحت طلب ہیں:
کیا یہودی، جن کی کنجوسی پر ہمارے ہاں محاوروں کا قال نہیں، کیا اتنے دیالو ہیں کہ لاکھوں یا کروڑوں ڈالر کی مالیت کا جنگی سامان اس طرح پھونکیں گے کہ دس یا بارہ یا بیس فلسطینی مارے جائیں؟ اگر ان کو مارنا ہی ہے تو ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ پورے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں، آخر کتنی بار وہ ایک سے زیادہ عرب ممالک کی مسلح جارحیت کا سامنا کر کے ان کو شکستِ فاش بھی دے ہی چکے ہیں۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایک جنگی جہاز یا ہیلی کاپٹر کی ایک گھنٹے کی پرواز کی کیا قیمت ہوتی ہے؟ چاہے وہ محض اڑان بھر کر واپس لوٹ آئے؟ ایک بم کی قیمت بتائیے اگر معلوم ہو تو؟
کیا اسرائیل پر راکٹ حملے کرنا اچھی بات ہے؟ جس میں ٹارگیٹ کوئی فوجی نہیں بلکہ عام شہری ہوتے ہیں؟ یعنی پہلوان کو گالی دو، جب وہ مارے تو پھر اس کے خلاف شور مچا دو کہ بچے کو مار رہا ہے :)
اسلام کی آمد سے قبل سرزمین اسرائیل پر کون سا مذہب تھا؟ عیسائیت کی آمد سے قبل یہاں کون سے مذہب کے پیروکار رہتے تھے؟
اسرائیل میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں سے کس مذہب کے مذہبی مقامات ہیں؟ مسلمانوں کے قبلہ اول (جو کہ پہلے خانہ کعبہ تھا، بعد میں عارضی طور پر بیت المقدس اور پھر دوبارہ خانہ کعبہ بنا) کے علاوہ اور کیا ہے؟ انبیاء کی قبور اور ان کی جائے پیدائش؟ وہ انبیا تو عیسائیت اور یہودیت میں بھی اہمیت رکھتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
حکومتی سطح پر واجب القتل کا ثبوت دیجئے :)
حکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
10463-ahmadi-1330501932-937-640x480.jpg

اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
 

قیصرانی

لائبریرین
حکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
10463-ahmadi-1330501932-937-640x480.jpg

اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
مجھے علم ہے کہ قادیانی یا مرزائی یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے لیکن یہاں مرزائی سے پہلے کے حرف پر صاف چونا پھرا ہوا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ماننے میں جھجھک ہو رہی ہے کہ یہاں بات صرف مرزائی کو پھانسی کی ہو رہی ہے، اگر جنرلی لکھا جاتا تو یہاں لفظ مرزائی کی جگہ مرزائیوں ہوتا
 

قیصرانی

لائبریرین
حکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
10463-ahmadi-1330501932-937-640x480.jpg

اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
آپ کے دیئے ہوئے لنک کی تصویر فوٹو شاپ ہونے سے قبل کچھ ایسی تھی
sand-art-5.jpg

فوٹو شاپ کے بعد
muslims-vs-qadiani-380x262.jpg
 

arifkarim

معطل
مجھے علم ہے کہ قادیانی یا مرزائی یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے لیکن یہاں مرزائی سے پہلے کے حرف پر صاف چونا پھرا ہوا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ماننے میں جھجھک ہو رہی ہے کہ یہاں بات صرف مرزائی کو پھانسی کی ہو رہی ہے، اگر جنرلی لکھا جاتا تو یہاں لفظ مرزائی کی جگہ مرزائیوں ہوتا
ہو سکتا ہے یہ کسی مرزائی کے بارہ میں لکھا ہو جو پولیس کی تحویل میں ہو یا جسکو گرفتار کرنے سے متعلق مقامی آبادی کو اکسایا جا رہا ہو؟ باقی جہاں تک قادیانی آبادی کیخلاف پاکستان میں منظم طریقے سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اسکی تفاصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Persecution_of_Ahmadis#Pakistan
http://www.persecutionofahmadis.org/
حالیہ دور میں اس قسم کا سب سے بڑا سانحہ 28 مئی 2010 لاہور میں پیش آیا جب تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسک اسلامی شدت پسند تنظیموں نے قادیانی مذہب سے متاثر ہوکر 94 نہتے مرزائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ 120 افراد کو زخمی بھی کر دیا جبکہ وہ جمعہ کے روز اپنی عبادت گاہ میں "نماز" ادا کر رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس اسلامی دہشت گرد حملے میں دو جہادی جنگجوؤں کو خود قادیانیوں نے زندہ پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/May_2010_attacks_on_Ahmadi_mosques_in_Lahore
 

قیصرانی

لائبریرین
ہو سکتا ہے یہ کسی مرزائی کے بارہ میں لکھا ہو جو پولیس کی تحویل میں ہو یا جسکو گرفتار کرنے سے متعلق مقامی آبادی کو اکسایا جا رہا ہو؟ باقی جہاں تک قادیانی آبادی کیخلاف پاکستان میں منظم طریقے سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اسکی تفاصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Persecution_of_Ahmadis#Pakistan
http://www.persecutionofahmadis.org/
حالیہ دور میں اس قسم کا سب سے بڑا سانحہ 28 مئی 2010 لاہور میں پیش آیا جب تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسک اسلامی شدت پسند تنظیموں نے قادیانی مذہب سے متاثر ہوکر 94 نہتے مرزائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ 120 افراد کو زخمی بھی کر دیا جبکہ وہ جمعہ کے روز اپنی عبادت گاہ میں "نماز" ادا کر رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس اسلامی دہشت گرد حملے میں دو جہادی جنگجوؤں کو خود قادیانیوں نے زندہ پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/May_2010_attacks_on_Ahmadi_mosques_in_Lahore
دیکھئے، میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے اس بارے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے بارے کیا رائے رکھی جاتی ہے۔ ابھی آپ میرا نکتہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ کسی ایک شخص کے خلاف اس طرح کی وال چاکنگ مہم تبھی شروع کی جاتی ہے جب مقابلہ الطاف حسین اور عمران خان کا ہو۔ باقی کسی جیل میں یا تھانے میں قید کسی کے خلاف اس طرح وال چاکنگ نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے
 

قیصرانی

لائبریرین
حکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
10463-ahmadi-1330501932-937-640x480.jpg

اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
ویسے آپ فانٹس کے ماہر ہیں۔ فوٹو شاپ وغیرہ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس تصویر پر ذرا غور کیجئے
"مرزائی" اور "کو پھانسی دو" دو الگ ہاتھ کی تحریریں ہیں۔ دونوں میں نہ صرف "ی" کا دائرہ کافی فرق ہے بلکہ "کو پھانسی دو" بائیں جانب جھکے ہوئے جبکہ مرزائی بالکل سیدھا لکھا ہے، یعنی تسلسل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ "مرزائی" کا الف اور "پھانسی" کا الف دو الگ انداز سے لکھے گئے ہیں۔ حروف کے سائز کا فرق بھی اہمیت رکھتا ہے۔ "پھا" بھی کچھ عجیب لکھا گیا ہے۔ "مرزائی" کے اوپر ت کے دو نقطے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پھانسی کے نیچے جو لکھا ہے، وہ بھی شاید پھانسی ہی ہے۔ دوسرا "مرزائی" کے اوپر ء سے ایک نیم قوس بنی ہے جو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ گڑبڑ ہے
تاہم میں ابھی بھی اسی بات کو مانتا ہوں کہ پاکستان میں احمدیوں یا قادیانیوں یا مرزائیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے
 

arifkarim

معطل
ویسے آپ فانٹس کے ماہر ہیں۔ فوٹو شاپ وغیرہ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس تصویر پر ذرا غور کیجئے
"مرزائی" اور "کو پھانسی دو" دو الگ ہاتھ کی تحریریں ہیں۔ دونوں میں نہ صرف "ی" کا دائرہ کافی فرق ہے بلکہ "کو پھانسی دو" بائیں جانب جھکے ہوئے جبکہ مرزائی بالکل سیدھا لکھا ہے، یعنی تسلسل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ "مرزائی" کا الف اور "پھانسی" کا الف دو الگ انداز سے لکھے گئے ہیں۔ حروف کے سائز کا فرق بھی اہمیت رکھتا ہے۔ "پھا" بھی کچھ عجیب لکھا گیا ہے۔ "مرزائی" کے اوپر ت کے دو نقطے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پھانسی کے نیچے جو لکھا ہے، وہ بھی شاید پھانسی ہی ہے۔ دوسرا "مرزائی" کے اوپر ء سے ایک نیم قوس بنی ہے جو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ گڑبڑ ہے
تاہم میں ابھی بھی اسی بات کو مانتا ہوں کہ پاکستان میں احمدیوں یا قادیانیوں یا مرزائیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے

اوپر والی تصویر صرف ایک ریفرنس ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فوٹوشاپڈ ہو۔ خیر اس قسم کے پوسٹرز، اشتہارات پاکستان میں معمول کا حصہ ہیں۔ اس ماہ اسی قسم کا ایک شرپسند پوسٹر ختم نبوت والوں نے شرقپور میں چسپاں کیا ہوا تھا۔ کچھ قادیانیوں نے احتجاج میں آکر اسے پھاڑ دیا۔ جوا باً مقامی آبادی نے ان پر توہین رسالت کا الزام لگا کر اندر کروادیا۔ ابھی وہ پولیس کی تحویل ہی میں تھے کہ ایک 16 سالہ لڑکا جو میٹرک کا طالب علم تھا، اندر داخل ہوا اور ایک قادیانی پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے وہیں ختم کر دیا۔ یقیناً اس چھوٹی سی عمر کے لڑکے کو کسی باہر کے بندے نے یہ "نیک" کام کرنے پر اکسایا تھا:
http://www.dailypakistan.com.pk/crime-and-justice/17-May-2014/103117
http://www.themuslimtimes.org/2014/...used-ahmadi-man-gunned-down-in-police-station
 

قیصرانی

لائبریرین
اوپر والی تصویر صرف ایک ریفرنس ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فوٹوشاپڈ ہو۔ خیر اس قسم کے پوسٹرز، اشتہارات پاکستان میں معمول کا حصہ ہیں۔ اس ماہ اسی قسم کا ایک شرپسند پوسٹر ختم نبوت والوں نے شرقپور میں چسپاں کیا ہوا تھا۔ کچھ قادیانیوں نے احتجاج میں آکر اسے پھاڑ دیا۔ جوا باً مقامی آبادی نے ان پر توہین رسالت کا الزام لگا کر اندر کروادیا۔ ابھی وہ پولیس کی تحویل ہی میں تھے کہ ایک 16 سالہ لڑکا جو میٹرک کا طالب علم تھا، اندر داخل ہوا اور ایک قادیانی پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے وہیں ختم کر دیا۔ یقیناً اس چھوٹی سی عمر کے لڑکے کو کسی باہر کے بندے نے یہ "نیک" کام کرنے پر اکسایا تھا:
http://www.dailypakistan.com.pk/crime-and-justice/17-May-2014/103117
http://www.themuslimtimes.org/2014/...used-ahmadi-man-gunned-down-in-police-station
میں اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر رہا کہ قادیانیوں کے ساتھ پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اوپر آپ کی پیش کردہ تصویر پر بات کر رہا ہوں :)
 

arifkarim

معطل
میں اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر رہا کہ قادیانیوں کے ساتھ پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اوپر آپ کی پیش کردہ تصویر پر بات کر رہا ہوں :)
چلیں پھر اس پر بھی بات کر لیں۔ یقیناً یہ بھی فوٹوشاپ کا کمال ہے:)
anti-qadiani-lahore.jpg

B-021.jpg

mtkn_poster_fbd_2011_06.png

ahmadi_pakistan.jpg

anti-ahmadi-stickers.jpg


اس اسلامی شدت پسندی کا موازنہ کچھ دہائیوں قبل مغربی تعصبات سے کر لیں جو وہ سیاہ فام اور یہود لوگوں کیخلاف رکھتے تھے:
6330032411_2359750d96_z.jpg

boycott.jpg
 
Top