اسرائیل کے مظالم فلسطینی دہشتگردوں کے اسرائیلی شہریوں کیخلاف معمول کے مطابق خودکش حملوں، قاتلانہ حملوں، پتھراؤ کی جوابی کاروائی ہے:1- اسرائیل کے مظالم اصل میں جھوٹی کہانیاں ہیں
جی بالکل۔ اگر ایک متحد ہندوستان کا 1947 میں ہندو اور مسلم اکثریت علاقوں میں بٹوارا ہو سکتا ہے تو ایک سال بعد 1948 میں یہی بٹوارا فلسطین میں یہودی اور مسلم اکثریت علاقوں میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ یا تو پاکستانی ریاست کے قیام کو غیر منصفانہ کہیں یا پھر یہودی ریاست کے قیام کو تسلیم کریں۔ وگرنہ آپ منافق ہی کہلائیں گے۔2- اسرائیل کا قیام مبنی بر انصاف ہے
کیونکہ اس سے برصغیری مسلمانوں کی ساخت کو عسکری، اقتصادی، معاشی، سیاسی، سماجی نقصان پہنچا۔ ایک متحد ہندوستان میں سیکولر جمہوریت کے اندر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کہیں زیادہ ہوتا جو کہ اب تین مختلف حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ یوں وہ اپنے مفاد کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ ہندو اور سکھ اکثریت اس بٹوارے سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔3-قیام پاکستان کو کوئ جواز نہیں تھا ۔
اسرائیل میں تمام اقلیتوں سے مسلم اکثریت ممالک کے برخلاف بہت اچھا اسلوک کیا جاتا ہے۔ اسوقت اسرائیل میں بہائی، قادیانی، سنی، شیعہ، سامری، سنی ، عیسائی ، دروزی اور بدو اقلیت موجود ہے۔ اور ہر اقلیت کو اپنے اپنے مذاہب پر آزادی کیساتھ عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہی خوبی اسلامی ممالک کو کھٹکتی ہے۔4- اسرائیل میں مسلم افراد ( قادیانی افراد) کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے !!!!!!!!!
ہاہاہا۔ ذرا پاکستان، ایران، سعودی عرب میں مذہبی آزادی سے متعلق حکومتی قوانین کا مطالعہ کرلیں۔5- مسلم ممالک میں اقلیتوں سے برا سلوک کیا جاتا ہے (افراد کی سطح پر کہا جا سکتا ہے نا کہ حکومتی سطح پر)
اب فیصلہ کرنا اسان ہے کہ ایک غیر معروف رائٹر کی غیر معروف بات سنی جائے گی
یا کہ مستند افراد کی بات جو تواتر سے بچپن سے سنتے آئے ہیں ان پر یقین کیا جائے گا
لگتا ہے آپ بھی اس اسلامی پیکیج والی سوچ سے متاثر ہیں۔ لینا ہے تو پورا لو وگرنہ بالکل نہ لو۔ثابت ہؤا کہ یہ اور اس جیسی ساری تحریریں اُن لوگوں کی ہیں جو اسلام دشمن ہیں۔ یہ تو ابھی چیدہ چیدہ مطالعہ ہے۔۔۔ اور نجانے کیا ہو؟
اور ہم اور ہمارے عارف کریمز کتنے متاثر ہو جاتے ہیں اِن "غیر جانبدار" تحریروں سے۔
سید ذیشان! آپ بھی دیکھیے۔ایک تحریر محرم پہ بھی ہے۔
منتظر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آپکی خواہش پر اسکی دوسری قسط یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ امید ہے اسبار پُرمزاح ریٹنگ کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گےمنتظر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ اردو وکی پیڈیا کے تاریک دور کی علامت ہے جب اردو وکی پیڈیا پر لکھاریوں کی تحریر پر ایڈمنز کی طرف سے درخواست کی جاتی تھی کہ:http://ur.wikipedia.org/wiki/اسرائیل
یہاں پر تو کچھ اور ہی حقائق ہیں۔
- ( رائج | سابقہ) 12:23, 10 جون 2006 خاور (تبادلۂ خیال | شراکت) . . (1,720 لکمہ جات) (-22) . . (اچهے انسان هونے كا ثبوت ديں گالياں نه لكهيں ۔ يه انسائكلوپيڈيا هے ۔) (استرجع | شکریہ)
- ( رائج | سابقہ) 12:22, 10 جون 2006 خاور (تبادلۂ خیال | شراکت) . . (1,742 لکمہ جات) (-9) . . (اچهے انسان هونے كا ثبوت ديں گالياں نه لكهيں ۔ يه انسائكلوپيڈيا هے ۔) (استرجع | شکریہ)
- ( رائج | سابقہ) 12:22, 10 جون 2006 خاور (تبادلۂ خیال | شراکت) . . (1,751 لکمہ جات) (-10) . . (اچهے انسان هونے كا ثبوت ديں گالياں نه لكهيں ۔ يه انسائكلوپيڈيا هے ۔) (استرجع | شکریہ)
- ( رائج | سابقہ) 12:22, 10 جون 2006 خاور (تبادلۂ خیال | شراکت) . . (1,761 لکمہ جات) (-10) . . (اچهے انسان هونے كا ثبوت ديں گالياں نه لكهيں ۔ يه انسائكلوپيڈيا هے ۔) (استرجع | شکریہ)
- ( رائج | سابقہ) 11:08, 10 جون 2006 81.35.253.180 (تبادلۂ خیال) . . (1,771 لکمہ جات) (+21) . . (←تاريخ) (استرجع)
جس تسلسل سے آپ بی بی سی کی اردو سائٹ کے تصویری متن لگاتی ہیں، اس سے مجھے غلط فہمی ہوئی کہ آپ نے شاید بی بی سی اردو سے یا کسی اور غیر جانبدار سائٹس یا جگہوں سے مطالعہ کیا ہوگاغزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟
’’جب سیاسی رہنما امن کی بات کریں تو عام لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے‘‘ (برتولت بریخت)
- November 23, 2012
[تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: عمران کامیانہ]
15 نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو واضح طور پر حماس کو جنگی تنازعے میں الجھانا چاہ رہا تھاجس میں وہ کامیاب ہوا۔ حماس نے غزہ کی سرحد پر واقع اسرائیلی شہروں پر جواب میں راکٹ داغے جنہیں اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کرنے کا جواز بنایا۔ 16 اور 17 نومبر کی درمیانی شب اسرائیلی فضائیہ نے پولیس سٹیشنوں، حماس کی وزارتوں، مصر کی سرحد پر واقع سرنگوں سمیت غزہ کی پٹی میں کئی دوسرے اہداف کو نشانہ بنایا۔ بعد کے حملوں میں غیر ملکی صحافیوں کے زیرِ استعمال ایک عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی پراپیگنڈا مشین نے جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے فوجی کاروائی کو ’’دہشت گردوں کے حملوں‘‘ کا جواب قرار دیا۔ بڑی فرمانبرداری سے پیروی کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے تنازعے کو دو برابر طاقتوں کے درمیان جنگ قرار دیا، یعنی ’’اسرائیلی بمباری بمقابلہ حماس کے راکٹ‘‘۔ لیکن یہ تنازعہ مبالغہ آرائی کی حد تک دو غیر مساوی قوتوں کے درمیان ہے۔
غزہ ایک کھلا قید خانہ ہے جہاں 17 لاکھ لوگ محض 140 مربع کلومیٹر کے رقبے میں مقیم ہیں۔ یہ علاقہ مکمل طور ہر اپنے ہمسائے اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس خطے کی سب سے طاقتور فوجی طاقت موجود ہے۔ اسرائیلی ہتھیاروں کا خرچہ، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں، سالانہ 3ارب ڈالر کی امریکی امداد سے چلتاہے۔ غزہ کی طرف سے داغے جانے والے قدیم زمانے کے راکٹ کسی بھی طور پر اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے مد مقابل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جیٹ طیارے اور ڈرون دن رات غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔
اسرائیلی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ’’دہشتگردوں‘‘ اور حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ٹی وی کیمرے اس تمام تر پروپیگنڈا کا پول کھول رہے ہیں۔ اسرائیل کے ان دعووں کے بر عکس کہ اہداف کو بڑی احتیاط سے نشانہ بنایا جارہا ہے، مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کی ہے۔ چھوٹے بچوں کی لاشیں اٹھائے رشتہ داروں کے خوفناک مناظر نے دنیا بھر کے لوگوں کی رائے کو اثر انداز کیا ہے۔
جنگ بندی کی باتوں کے باوجود اسرائیل کی فضائی بمباری اور غزہ کی طرف سے دور تک مار کرنے والے راکٹوں کے حملے جاری ہیں۔ اسرائیل کی طرف جانے والے راکٹوں کے مناظر مورال کو بلند کریں یا نہ کریں، لیکن جنگی ہتھیار کے طور پر وہ بالکل بھی موثر نہیں ہیں۔ سوموار کی شام تک کم از کم 100فلسطینی جبکہ صرف 3 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہاں خون کے بدلے خون والا معاملہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کا جانی نقصان اسرائیل سے 30گنا زیادہ ہے۔
اسرائیل کے مطابق انہوں نے اپنے Iron Doom دفاعی نظام سے زیادہ تر راکٹوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا ہے اور اسرائیل میں ہونے والے کم جانی نقصان سے ایسا لگتا بھی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفاعی نظام نے 90 فیصد راکٹوں کو تباہ کیا ہے سراسر مبالغہ آرائی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ 16نومبر کو اسرائیلی کیبنٹ نے وزیرِ دفاع ایہود براک کی 75000ریزرو فوجی بلانے کی درخواست منظور کی ہے۔ یہ تعداد 2008-2009ء میں غزہ پر حملے کے دوران فوجیوں سے زیادہ ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، آرٹلری اور فوجی بڑی تعداد میں بارڈر کی طرف لائے جا رہے ہیں۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ ایسا صرف دھمکی اور دہشت کے لئے کیا جارہا ہے یا پھر اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تیاری کی جارہی ہے؟
اس سب کا مقصد کیا ہے؟
اس وقت غزہ پر حملے کرنے کے پیچھے اسرائیل کے کیا مقاصدہو سکتے ہیں؟
حملے کے اوقاتِ کار محض اتفاق نہیں ہو سکتے۔ آج سے چار سال پہلے، 4نومبر 2008ء کو جب امریکی صدارتی الیکشنوں کی تیاری کر رہے تھے، اسرائیلی فوج ٹینکوں، توپوں اور بلڈوزر لے کر غزہ میں گھس گئی تھی۔ اس وقت اس کا مقصد حماس کے زیرِ اثر اسلحہ سمگل کرنے والی سرنگوں کی تباہی بتایا گیا تھا۔ حماس نے مارٹر اور راکٹوں سے جواب دیا۔ 27 دسمبر 2008ء کو ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کا آغاز کیا گیا جس میں 7دن کی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ 15دن کا زمینی حملہ بھی شامل تھا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فوج کے مطابق صرف 10 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں سے 4فرینڈلی فائر کا نشانہ بنے۔ حماس کی طرف سے داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں سے صرف 3اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1166فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے 709 کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جنگجو تھے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نیتن یاہو ایران پر بمباری کرکے اس کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ نیتن یاہوامید کررہا تھا کہ امریکی الیکشنوں میں مٹ رومنی جیتے گا۔ ریپبلکن ایران پر حملے کی حمایت کے لئے مشہور ہیں۔
اوباما امریکی سرمایہ داری کا زیادہ محتاط نمائندہ ہے اور ایران پر فضائی بمباری سے برآمد ہونے والے نتائج کے بارے میں پریشان ہے۔ امریکی انتخابات سے کچھ ہی دنوں بعد نیتن یاہو یہ پیغام واشنگٹن بھیجنا چاہ رہا ہے کہ ’’اوباما کا جو دل چاہے وہ کہے، لیکن دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘‘۔
یہ کہا گیا ہے کہ غزہ میں موجود کئی گروپس دور تک مار کرنے والے راکٹ مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹ ایران سے درآمد کئے گئے ہیں اور یہ الزام سارے تنازعے کو خونی طرف لے جاتے ہوئے نیتن یاہو کو ایران پر حملے کا جواز فراہم کرے گا۔
ہوسکتا ہے اسی دوران اسرائیل مصر کی نئی حکومت کو بھی پیغام دینا چاہ رہا ہو۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے بارے میں اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کا تاثر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس حملے نے مورسی کی حکومت کی کمزوری اور بزدلی کو عیاں کر دیا ہے۔ مصری حکومت غزہ میں ’’انسانی تباہی‘‘کا شور تو مچا رہی ہے لیکن اس نے غزہ کے دفاع کے لئے انگلی تک نہیں ہلائی۔
مذاکرات کا تناظر
حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر نام نہاد اقوامِ متحدہ کے خصی پن کا پول کھول دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ غزہ جائے گا، لیکن وہ کچھ بھی کر نہیں پائے گا۔ قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کئی قسم کی متضاد افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ حماس کے ایک ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس نئی جنگ بندی کی’’ 90فیصد شرائط پر راضی ہو چکے ہیں‘‘، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ باقی کی 10 فیصد شرائط کیا ہیں؟اسرائیلی حکام پہلے خبر رساں اداروں کو بتا رہے تھے قاہرہ کے ساتھ اسرائیلی حکومت مذاکرات کر رہی ہے، تاہم اب قاہرہ میں کسی اسرائیلی وفد کی موجودگی کی ہی تردید کی جارہی ہے۔ اس قسم کی کسی ڈیل کی بنیادیں بھی موجود ہیں۔ لیڈر شپ اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے صرفِ نظر حماس کو تل ابیب کے خلاف اپنے دور مار راکٹوں کی وجہ سے شہرت اور علامتی فتح ملے گی جبکہ اسرائیل زمینی حملہ کئے بغیر حماس کے دور مار راکٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے گا، کیونکہ شہر کی گلیوں میں جنگ اور خود کش بمبار مہنگے پڑ سکتے ہیں۔
حماس اسرائیل کی طرف سے اپنے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بند کرنے اور مصرکی طرف سے غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے بدلے عارضی جنگ بندی کرنا چاہے گا لیکن اسرائیل کی طرف سے ایسے کسی معاہدے کی منظوری مشکوک ہے۔ ایسی کسی ڈیل کی گارنٹی کون دے گا؟ جب تک مصر حماس کے راکٹوں کی بندش کی ذمہ داری نہ لے تب تک اسرائیل ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ لیکن اس سے مصر براہِ راست اس تنازعے میں ملوث ہو جائے گا اور مورسی کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی۔
دونوں فریقین ایسی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو دوسرے فریق کی پوزیشن کو کمزور کریں۔ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لئے حماس کو اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم کرنا پڑے گا جبکہ اسرائیل کو حماس کی زیرِ قیادت فلسطینی ریاست تسلیم کرنی ہو گی جوکہ غزہ میں میں حماس کی حکومت اور بعد میں مغربی کنارے میں حماس کے قبضے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
حماس اپنے راکٹ ختم نہیں کرسکتی جبکہ اسرائیل، حماس کی ایسے اسلحے تک رسائی برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے مرکزی علاقے کے لئے خطرہ ہوں۔ دور تک مار کرنے والے فجر5راکٹ تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ راکٹ حماس کی سٹریٹجک پوزیشن کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کناے میں حماس کی مدمقابل فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو بھی زیر کرنے میں مددگار ہیں۔ لہٰذا حماس کسی ایسی ڈیل کی مخالفت کرے گا جو اسے ان راکٹوں سے محروم کرے لیکن اسرائیل فجر 5راکٹوں کی حماس کے پاس موجودگی کو برادشت نہیں کرے گا۔ کسی معاہدے سے پہلے اسرائیل اور حماس حملے جاری رکھ کے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ غزہ پر براہِ راست حملہ فی الحال اسرائیل نے ملتوی کر دیا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت ایسا حملہ کرنے میں پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ اسرائیل اپنے جانی نقصان اور سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے زمینی حملہ نہیں کرنا چاہے گا لیکن اس سلسلے میں اس کی تیاری مکمل ہے۔ اور یہ خالی خولی لفاظی بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو اس ہفتے کے آخر تک زمینی حملہ کیا جاسکتا ہے۔
غزہ اور عرب انقلاب
یورپی طاقتیں اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کرے۔ یورپی سرمایہ دارخوفزدہ ہیں کہ خطے میں کسی قسم کا سنجیدہ مسئلہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’انسانیت‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقی مقاصد کچھ اور ہیں۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمزور معاشی بحالی اور تیل کی قیمتوں پر اس تنازعے کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ عرب کی سڑکوں پر کسی نئے انقلاب کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ ہیں۔ امن کی اپیلوں کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما ہیں۔ لیکن یورپی حکومتیں، یورپی یونین کو ٹوٹنے سے بچانے میں اتنی مصروف ہیں کہ غزہ کا معاملہ ان کے لئے ثانوی نوعیت کا ہے۔
امریکہ میں بالائی سطح تک خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن قاہرہ پہنچ رہی ہے لیکن عراق میں اپنی انگلیاں جلانے کے بعد واشنگٹن میں بیٹھے معززین مشرقِ وسطیٰ کے کسی اور تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ امریکی حکومت اسرائیل کی مخالفت نہیں کر سکتی ہے کیونکہ عرب انقلاب کے بعد خطے میں ان کا یہی ایک قابلِ بھروسہ حلیف بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکارانہ لفاظی کے باوجود اوباما نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو اسرائیل اس سے پہلے اتنا تنہا کبھی نہیں ہواہے۔ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مصر میں بننے والی حکومت پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2008ء میں ترکی امریکہ اور اسرائیل کا قریبی حلیف تھا لیکن مئی 2010ء میں غزہ کی طرف امداد لے جانے والے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے، جس میں کئی ترک شہری ہلاک ہوئے تھے، کے بعدترک اسرائیلی تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان نے حال ہی میں اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ بشارالاسد کی زیرِ قیادت شام ایک رکاوٹ تھا لیکن اس کا رویہ قابلِ پیش گوئی تھا۔ لیکن اب شام میں جاری انتشار لبنان تک پھیلنے کے باعث دمشق حکومت حزب اللہ کو قابو کرنے کے سلسلے میں قابلِ اعتماد نہیں رہی۔ غزہ کا بحران مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں مقیم فلسطینیوں کو مشتعل کرسکتا اوراردن کی بادشاہت ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک مصر ہے۔ مصری حکومت قاہرہ کی سڑکوں پر نئی جنگ کے خوف سے جنگ بندی کروانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ مصر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے جس میں حماس اور اسلامی جہاد کے سرکردہ رہنماشامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حکام بھی قاہرہ میں موجود ہیں۔ مصری حکومت کے مفادات اسرائیل کو زمینی حملے سے روکنے سے وابستہ ہیں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں حماس کا حمایتی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے، لیکن یہ حمایت منافقانہ تقریروں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ مورسی کو اسرائیل سے یہ وعدہ کرنا پڑے گا کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لئے سب کچھ کرے گا۔ اس کی اصلیت لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائے گی۔
حماس کے رہنما حزب اللہ کی طرز پر نام نہاد فتح کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ موجودہ بحران انہیں اسرائیل پر علامتی فتح جیتنے کے قابل بنائے گا۔ لیکن یہ محض ایک خواب ہے جس کا نتیجہ غزہ کی مکمل تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
غزہ کے لوگوں پر گہری مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جو واقعات ان کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں وہ ان کے بس سے باہر ہیں۔ وہ اسرائیلی
ظالموں کے ساتھ ساتھ مولویوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جنہوں نے انہیں موت اور تکالیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ حماس اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی حل موجودنہیں۔ صرف ایک حقیقی انقلابی قوت فلسطینیوں کو اس بحران سے باہر نکال سکتی ہے۔
اپنے تئیں اسرائیل یہ سب کچھ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کر رہا ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اسرائیل غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ خطے میں اور بین الاقوامی طور پر یہ تیزی سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔
ان ظالمانہ حملوں نے فلسطین کے پیچیدہ سوال کو مزید بل دے دئیے ہیں۔ موت اور تباہی کا ننگاناچ فلسطینیوں کی نئی نسل کو انتقام کی آگ سے بھر دے گا۔ ان حملوں سے آنے والی اسرائیلی نسلیں کس طرح محفوظ ہو ں گی یہ ایک معمہ ہے۔ فضائی حملے میں مرنے والا ہر بچہ انتقام کی پیاس کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس راستے پر اس بد قسمت خطے کے لوگوں کے لئے تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس جدوجہد میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) واضح طور پر مظلوم کے ساتھ اور ظالم کے خلاف صف آراء ہے۔ یہ سوال کہ پہل کس نے کی اور اس طرح کے دوسرے سفارتی آداب پر مبنی سوالات ہمارے لئے معنی نہیں رکھتے۔ ہم غزہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے اسرائیلی جارحیت پسندوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ ہم کسی بھی جنگ مخالف مظاہرے یا تحریک میں پیش پیش ہونگے۔ ہم مغربی حکومتوں کی منافقت اور ان کی ’’انسانیت‘‘ پر مبنی لفاظی کو سب کے سامنے ننگا کریں گے۔
ہمیں غزہ میں موجود نوجوانوں کی سب سے انقلابی پرتوں کے ساتھ رابطے بنانے ہونگے جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس کی رجعتی قیادت اور فلسطینی قیادت کے مصالحانہ اور بورژوا دھڑے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں وسیع تناظر تخلیق کرنا ہو گا۔ موجودہ تنازعہ مشرقِ وسطیٰ کی بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے اور اسے سیاق و سباق سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا۔
غزہ کا بحران، آنے والے بڑے بحران کاآغاز ہے۔ اس کی کڑی نیتن یاہو کے ایران پر فضائی حملے کے منصوبے سے ملتی ہے جو پورے مشرقِ وسطیٰ کو بھڑکا کے رکھ دے گا۔ اس کے معاشی و اقتصادی نتائج کا ابھی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے عرب دنیا اور اس سے باہر بھی عوامی ابھاروں کی نئی لہر کا آغاز ہوگا۔ حکومتیں گریں گی، لوگ سڑکوں پر آئیں گے، تیل کی قیمتیں قابو سے باہر ہو جائیں گی اور عالمی معیشت گہری کھائی میں جا گرے گی جیسا کہ 1973ء میں اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا۔
غزہ کا بحرا ن جلتاہوا تیل ثابت ہوسکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں جمع شدہ تمام بارودکو اڑا کے رکھ دے۔ یہ عرب انقلاب میں ایک نئے مرحلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں عالمی سطح پر ڈرامائی واقعات ہوں گے۔
20نومبر 2012ء
جیسا کہ تین دن پہلے لکھے گئے اس آرٹیکل میں تناظر پیش کیا گیا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ مصر نے اس سلسلے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن پر گزرتے دن کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و معاشی تضادات شدید ہوتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر ڈرامائی واقعات کو جنم دے سکتے ہیں۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عارضی جنگ بندیاں اور نام نہاد امن لمبے عرصے تک پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔
http://www.struggle.com.pk/gaza-what-does-it-mean/
چند باتیں وضاحت طلب ہیں:غزہ پر اسرائیلی تازہ جارحیت اور مغربی میڈیا
February 8, 2013
by admin
غزہ پر اسرائیلی جارحیت
اسرائیل نے 2008-09ء کے اپنے نام نہاد آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد غزہ پر نیا حملہ کردیا ہے۔ کاسٹ لیڈ آپریشن اکیس دن جاری رہا تھا جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں شہید کردی گئی تھیں۔ ان میں سے ہزار سے زیادہ قطعی شہری ہلاکتیں تھیں۔ پھر اس نے اس ترک فلوٹیلا پر حملہ کردیا جو غزہ کے محصور شہریوں کے لیے سامان خورد و نوش لے کر جارہا تھا۔ یہ جون 2010ء کا واقعہ ہے۔ اس میں نو افراد کو مارا گیا اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعہ پر فلسطینیوں نے بھی شدید احتجاج کیا اور یورپ سے بھی چند آوازیں سنائی دیں تو سننے والوں نے اسے بڑی تبدیلی قرار دیا۔ کہا گیا کہ مغربی میڈیا تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ میڈیا ہمیشہ سے اسرائیل کا پرجوش حامی رہا ہے۔ اب پھر فوجی آپریشن ہو رہا ہے، جس میں کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ سینکڑوں زخمی کیے جاچکے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا کا دل ابھی تک مضطرب نہیں وا۔ اس میں کسی نوعیت کی آواز بلند نہیں ہورہی۔
فلسطینیوں پر جب بھی اسرائیل نے بمباری کی، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو جارحیت کے مرتکب کے بجائے حق بجانب قرار دیا۔ انہوں نے اس حمایت میں صہیونی ریاست کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ دوسرے ذرائع ابلاغ کا لب و لہجہ بھی کبھی زیادہ مختلف نہیں رہا۔ آپ ڈی این سی اور باراک اوباما کے دوبارہ انتخاب پر صرف دو اداروں کا رد عمل دیکھ لیں۔ یہ ایم ایس این بی سی اور مدر جونز (Mother Jones) میگزین ہیں۔ 16 نومبر کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق ترجمان جیمز رابن ایم ایس این بی سی کے میزبان ایلکس ویگنر کے پروگرام میں نمودار ہوئے۔ یکطرفہ مباحثے کے دوران میں رابن نے نیتن یاہو کو انتہائی ذہین کردار قرار دیا۔ انہوں نے امن مذاکرات نہ ہونے کا سب سے بڑا ذمہ دار فلسطینیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام دھرنے کی ذرہ بھر کوشش یا جسارت بھی نہیں کی۔
ویگنر اور رابن میں گہرا اتفاق رائے سامنے آیا اور وہ یہ تھا کہ رومنے صدر امریکہ ہوتے تو ان کا ردعمل یکسر مختلف ہوتا۔ یہ کس قدر مختلف ہوتا، اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والی امریکی سینٹ اتفاق رائے سے قرارداد منظور کرچکی تھی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ صدر باراک اوباما بار بار اپنی اس غیر مشروط اور غیر متزلزل حمایت کا اعلان کررہے ہیں جو وہ نیتن یاہو اور ان کے حالیہ جارحانہ اقدام کی کررہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور الگ تھلگ کردیا گیا ہے کہ فلسطین کے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ 15 نومبر کو اس حملے کے بارے میں مدر جونز نے صرف ایک اور منفرد ٹکڑا شائع کیا۔ اس میں یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا کہ کس خوبصورتی سے اسرائیل نے یہ اقدام کیا ہے، کس طرح اس نے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اس مہم میں اسرائیل نے کس خوبصورتی سے حماس کے راہنما احمد جابری کا صفایا کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ ان 100 راکٹوں کے جواب میں کیا ہے جو ان دنوں اسرائیل پر داغے گئے ہیں۔ اس کا تذکرہ Fairness and Accuvacy in Reporting میں بھی کیا گیا۔
ابھی گڈمین نے اپنے مؤقف کی حمایت میں فلسطینی صحافی محمد عمر کو ساتھ لیا جو غزہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایمی گڈمین اپنے شو Democracy Now میں وہ محمد عمر سے وہ بنیادی سوالات کرنے میں مکمل ناکام رہیں کہ موجودہ صورتحال کس طرح پیدا ہوئی۔ وہ خود بھی کوئی بات نہ کرسکیں۔ چند ایک ذرائع ابلاغ نے اپنے لبرل رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف یہ لکھا اور کہا کہ آخر دنیا کی مضبوط فضائیہ کو بے ضرر سے چند راکٹوں کے جواب میں غزہ کی شہری آبادی پر کس طرح چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس طرح اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں نئی ہمدردی پیدا ہوگی۔ اس منطق میں چھپی فکر مندی چھپ نہیں سکی۔ اسرائیل کے لیے درد نمایاں ہے۔ اگر حماس کے یہ راکٹ طاقت ور ہوتے، جیسا کہ اب وہ میڈیا مں ظاہر ہو رہے ہیں تو کیا ان کے بجائے اسرائیل پر ہونے والی تنقید کا رخ تبدیل کیا جاسکے گا۔ فکر مندی تو یہ ہے کہ یہ اقدامات فلسطینیوں کو متاثرہ فریق ثابت کرتے رہیں گے، کیا اس طرح ان کی مزاحمت ختم ہوسکے گی، کیا یہ زیادہ مضبوط اور مستحکم نہیں ہو جائے گی۔
”یہ جنگ کس نے شروع کی؟” یہ دوسرا نکتہ ہے جس پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس تازہ جارحیت کو اس نئی بحث میں الجھایا جارہا ہے۔ اہم مبصرین اس حملے کے نظام الاوقات پر بحث کررہے ہیں۔ یہ مبصرین جو کچھ کہہ رہے ہیں، یہ ان کی آراء میں کوئی مصدقہ اور مستند حقائق نہیں ہیں۔ اب NPR سے لے کر نیویارک ٹائمز تک سب کہہ رہے ہیں کہ جوابی اقدام اسرائیل نے کیا ہے حملہ تو حماس نے کیا تھا۔
غزہ پر اسرائیل کے اتنے بڑے حملے کے اسباب پر بھی بعض سیاسی پنڈت ان ذرائع ابلاغ سے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اسرائیل کے آنے والے انتخابات ہیں جو 22 جنوری کو ہونے والے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس اقدام سے وزیر اعظم یاہو اور وزیر دفاع ایہود باراک کو کس قدر سیاسی فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ دراصل اسرائیل مصر کی اخوان المسلمون کی حکومت ٹیسٹ کررہا ہے کہ وہ کس نوعیت کے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکی صدر اوباما کو بھی ٹسٹ کررہا ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب کے بعد کس پالیسی پر چلتے ہیں؟۔
ان مغربی پنڈتوں کے لیے اس طرح کے اندازے لگانا قابل فہم ہے اور وہ خاموش تماشائیوں کے ساتھ مل کر یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ غزہ پر ایک اور جارحیت کے لیے کیا ماحول پیدا کیا جائے۔ اس طرح غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جاری پالیسیوں اور دوسری طرف ”آہنی دیوار” کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے صہیونی راہنما زے ایو (Ze’ev) کی روح کو تسکین دی جاتی ہے جس کی حکمت عملی صہیونی 1948ء سے لے کر چل رہے ہیں۔ جان میرشمیر کہتے ہیں کہ آہنی دیوار وہ پالیسی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو اس حدتک مارنا مطلوب ہے جس کے نتیجہ میں وہ غلامی قبول کرلیں۔ توئہ تائب کرجائیں۔
جب ہم غزہ کی پٹی یا لبنان پر اسرائیلی جارحیت کو دیکھتے ہیں، اس میں ہمیشہ یہ نظر آتا ہے کہ سیاسی فائدہ پیش نظر ہے، ووٹ حاصل کرنا ہیں، ایک ایسے تاجر کے طور پر کام کرنا ہے جو اسلحہ کی تجارت کرتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ منطق ہے جس کو اس بے رحمی سے استعمال کیا جارہا ہے کہ روزانہ کتنے کیلوریز ایک فلسطینی کھائے تاکہ محض زندہ رہ سکے، مرنہ جائے۔ یہ زہر آلود پالیسیاں ہیں وہ جان بوجھ کر چند ایک ٹرک اور بسیں اس محاصرے میں سے گزرنے دیتا ہے تاکہ جس قدر کیلوریز محض زندہ رہنے کے لیے فلسطینیوں کو درکار میں وہ بھی سمگل ہو کر آئیں۔
یہی منطق ہے جو اسرائیل کو مغربی کندے میں ایریا سی (Area C) میں بستیاں بنانے سے روکتی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں روکتی ہے۔ وہ ایریا بی میں وسیع پیمانے پر ادویات کا نشہ پھیلا رہا ہے۔ وہ ایریا اے میں روزانہ داخل ہوتا ہے، سیاسی راہنمائوں کو گرفتار کرتا ہے، کارکنوں کو جیلوں میں ڈالتا ہے، صحافیوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔
یہ ایک نو آبادیات کار کا ذہن ہے۔ اسے زمین کی ضرورت ہے۔ وہ یہ زمین چاہتا ہے اس پر بسنے والے لوگوں کو نہیں۔ جی میڈیا اس بارے میں بات کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسے بڑی تبدیلی کہا جاتا ہے۔
تحریر: شارلوٹ سلور
ترجمہ: شہری لائیو ڈاٹ کام
(شارلوٹ سلور سان فرانسسکو کی صحافی ہیں۔ وہ سٹین فورٹ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں بھی کام کرتی ہیں۔)
حکومتی سطح پر واجب القتل کا ثبوت دیجئے---
پاکستان میں قادیانی اقلیت حکومتی سطح پر بین ہے اور واجب القتل ہے۔
---
حکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:حکومتی سطح پر واجب القتل کا ثبوت دیجئے
مجھے علم ہے کہ قادیانی یا مرزائی یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے لیکن یہاں مرزائی سے پہلے کے حرف پر صاف چونا پھرا ہوا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ماننے میں جھجھک ہو رہی ہے کہ یہاں بات صرف مرزائی کو پھانسی کی ہو رہی ہے، اگر جنرلی لکھا جاتا تو یہاں لفظ مرزائی کی جگہ مرزائیوں ہوتاحکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
آپ کے دیئے ہوئے لنک کی تصویر فوٹو شاپ ہونے سے قبل کچھ ایسی تھیحکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
ہو سکتا ہے یہ کسی مرزائی کے بارہ میں لکھا ہو جو پولیس کی تحویل میں ہو یا جسکو گرفتار کرنے سے متعلق مقامی آبادی کو اکسایا جا رہا ہو؟ باقی جہاں تک قادیانی آبادی کیخلاف پاکستان میں منظم طریقے سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اسکی تفاصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہیں:مجھے علم ہے کہ قادیانی یا مرزائی یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے لیکن یہاں مرزائی سے پہلے کے حرف پر صاف چونا پھرا ہوا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ماننے میں جھجھک ہو رہی ہے کہ یہاں بات صرف مرزائی کو پھانسی کی ہو رہی ہے، اگر جنرلی لکھا جاتا تو یہاں لفظ مرزائی کی جگہ مرزائیوں ہوتا
دیکھئے، میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے اس بارے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے بارے کیا رائے رکھی جاتی ہے۔ ابھی آپ میرا نکتہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ کسی ایک شخص کے خلاف اس طرح کی وال چاکنگ مہم تبھی شروع کی جاتی ہے جب مقابلہ الطاف حسین اور عمران خان کا ہو۔ باقی کسی جیل میں یا تھانے میں قید کسی کے خلاف اس طرح وال چاکنگ نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گےہو سکتا ہے یہ کسی مرزائی کے بارہ میں لکھا ہو جو پولیس کی تحویل میں ہو یا جسکو گرفتار کرنے سے متعلق مقامی آبادی کو اکسایا جا رہا ہو؟ باقی جہاں تک قادیانی آبادی کیخلاف پاکستان میں منظم طریقے سے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اسکی تفاصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Persecution_of_Ahmadis#Pakistan
http://www.persecutionofahmadis.org/
حالیہ دور میں اس قسم کا سب سے بڑا سانحہ 28 مئی 2010 لاہور میں پیش آیا جب تحریک طالبان پاکستان اور اس سے منسک اسلامی شدت پسند تنظیموں نے قادیانی مذہب سے متاثر ہوکر 94 نہتے مرزائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ 120 افراد کو زخمی بھی کر دیا جبکہ وہ جمعہ کے روز اپنی عبادت گاہ میں "نماز" ادا کر رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس اسلامی دہشت گرد حملے میں دو جہادی جنگجوؤں کو خود قادیانیوں نے زندہ پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/May_2010_attacks_on_Ahmadi_mosques_in_Lahore
ویسے آپ فانٹس کے ماہر ہیں۔ فوٹو شاپ وغیرہ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس تصویر پر ذرا غور کیجئےحکومتی سطح پر بین ہے لیکن اسلامی علمائی سطح پر واجب القتل ہے:
اگر حکومت چاہتی تو ایسے قوانین متعارف کرواتی جس میں قادیانی آبادی کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں، انکے خلاف قتال کے فتٰوی دینے والوں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ لیکن نہیں، الٹا ان اسلامی شدت پسند جماعتوں اور تنظیموں کی ہر پاکستانی حکومت، عدلیہ ، میڈیا نے پشت پناہی کی ہے۔ یعنی بِلاواسطہ وہ اسکام میں علما دین کے شانہ بشانہ کھڑے جنت کی ٹکٹیں بیچ رہے ہیں:
http://www.mena-post.com/2014/01/27/you-are-a-qadiani-i-am-going-to-kill-you/
ویسے آپ فانٹس کے ماہر ہیں۔ فوٹو شاپ وغیرہ سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس تصویر پر ذرا غور کیجئے
"مرزائی" اور "کو پھانسی دو" دو الگ ہاتھ کی تحریریں ہیں۔ دونوں میں نہ صرف "ی" کا دائرہ کافی فرق ہے بلکہ "کو پھانسی دو" بائیں جانب جھکے ہوئے جبکہ مرزائی بالکل سیدھا لکھا ہے، یعنی تسلسل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ "مرزائی" کا الف اور "پھانسی" کا الف دو الگ انداز سے لکھے گئے ہیں۔ حروف کے سائز کا فرق بھی اہمیت رکھتا ہے۔ "پھا" بھی کچھ عجیب لکھا گیا ہے۔ "مرزائی" کے اوپر ت کے دو نقطے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پھانسی کے نیچے جو لکھا ہے، وہ بھی شاید پھانسی ہی ہے۔ دوسرا "مرزائی" کے اوپر ء سے ایک نیم قوس بنی ہے جو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ گڑبڑ ہے
تاہم میں ابھی بھی اسی بات کو مانتا ہوں کہ پاکستان میں احمدیوں یا قادیانیوں یا مرزائیوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے
میں اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر رہا کہ قادیانیوں کے ساتھ پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اوپر آپ کی پیش کردہ تصویر پر بات کر رہا ہوںاوپر والی تصویر صرف ایک ریفرنس ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فوٹوشاپڈ ہو۔ خیر اس قسم کے پوسٹرز، اشتہارات پاکستان میں معمول کا حصہ ہیں۔ اس ماہ اسی قسم کا ایک شرپسند پوسٹر ختم نبوت والوں نے شرقپور میں چسپاں کیا ہوا تھا۔ کچھ قادیانیوں نے احتجاج میں آکر اسے پھاڑ دیا۔ جوا باً مقامی آبادی نے ان پر توہین رسالت کا الزام لگا کر اندر کروادیا۔ ابھی وہ پولیس کی تحویل ہی میں تھے کہ ایک 16 سالہ لڑکا جو میٹرک کا طالب علم تھا، اندر داخل ہوا اور ایک قادیانی پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے وہیں ختم کر دیا۔ یقیناً اس چھوٹی سی عمر کے لڑکے کو کسی باہر کے بندے نے یہ "نیک" کام کرنے پر اکسایا تھا:
http://www.dailypakistan.com.pk/crime-and-justice/17-May-2014/103117
http://www.themuslimtimes.org/2014/...used-ahmadi-man-gunned-down-in-police-station
چلیں پھر اس پر بھی بات کر لیں۔ یقیناً یہ بھی فوٹوشاپ کا کمال ہےمیں اس بات سے ہرگز انکار نہیں کر رہا کہ قادیانیوں کے ساتھ پاکستان میں کیا ہوتا ہے۔ میں صرف اوپر آپ کی پیش کردہ تصویر پر بات کر رہا ہوں