نواز شریف صاحب مثالی کردار کے حامل نہیں رہے۔ سول بالادستی کے ہم بھی حامی ہیں تاہم شریف خاندان کی جانب سے اس نعرے کا بلند کیا جانا کافی عجیب ہے۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ اگر نواز شریف صاحب کسی بھی طرح 'قربانی' دے گئے اور انہیں سزا سنا دی گئی اور 'دیگر' کو چھوڑ دیا گیا تو ان کا 'بیانیہ' زور پکڑ جائے گا جس کی لپیٹ میں ہماری دیگر 'سیاسی قیادت' بھی آئے گی اور یہ سلسلہ چل نکلا تو مقدس گایوں کو بھی اس احتسابی عمل کا حصہ بننا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کو ایک کنارے کی طرف دھکیلنے اور شہباز شریف کے ذریعے ان پر 'خاطرخواہ' دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کس قدر کارگرثابت ہوتی ہے؟ فی الوقت تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو کسی نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ 'میاں صاحب! ڈٹے رہیں، آپ کے مخالفین کون سا دُودھ کے دھلے ہیں؟' نواز شریف صاحب اگر اتنا عرصہ اقتدار میں رہے ہیں تو یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے ذہن میں بھی ابھی بہت سے آپشن ہوں گے۔ ہمارے خیال میں وہ بڑی مہارت سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں۔ اُن کی پارٹی میں اب تک شکست و ریخت کے واضح آثار نہیں ہیں۔ شہباز شریف کو صدر نامزد کر دیا گیا ہے۔ اور ادھر عام انتخابات بھی سرپر آ چکے۔ اگرنواز شریف صاحب کو سزا ہو جاتی ہے تو 'ہمدردی' کا ووٹ نون لیگ لے اڑے گی اور شہباز شریف دلہا میاں بن جائیں گے اور بالفرض محال انہیں سزا نہیں ہوتی ہے تو وہ خود جلسوں میں جائیں گے اور اپنی بے گناہی کی داستانیں سناتے پھریں گے۔ یعنی کہ، دونوں صورتوں میں ان کا 'بیانیہ'تیار ہے اور اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ مسلم لیگ نون کا حال پیپلز پارٹی جیسا ہو گا۔ یہ تو ہے سیاسی منظرنامے کی معروضی صورت حال!