چھوٹا منہ اور بڑی بات

شمشاد

لائبریرین
ماوراء اس کی تو میں بھی ضمانت دیتا ہوں کہ محب کبھی غصے میں نہیں آئے، لیکن تم کیوں ان کو غصے میں دیکھنا چاہتی ہو؟

اور ہاں تم بھی تو کبھی غصے میں نہیں آئی، پھر ایسا کیوں؟
 

شمشاد

لائبریرین
محب اس کا غصہ جعلی ہوتا ہے۔ کبھی اصلی نہیں آیا اسے۔ کوشش تو بہت کرتی ہے کہ اوروں کو ڈرائے لیکن آج تک اس سے کبھی کوئی بچہ بھی نہیں ڈرا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یار اب آپ سب پول سب کے سامنے تو نہ کھلواؤ۔ وہ تو کہتی ہے کہ میں معصوم بچوں سے بہت پیار کرتی ہوں لیکن وہ تو معصوم ہیں ناں وہ تو یہ بات نہیں جانتے ناں :wink:
 

شمشاد

لائبریرین
گہری ہوتی جا رہی ہے؟ کیوں کیا اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی جا رہی ہے؟
 

ماوراء

محفلین
ارے، میں تو خود بہت معصوم ہوں۔ میں بھلا کیوں کسی پر غصہ کروں گی۔ شمشاد بھائی کی بات درست تھی کہ رات کو شاید کچھ زیادہ ہی گرمی تھی۔ :lol:
 

سیما علی

لائبریرین
“ذرا سی بات“
”ذر
ا سی بات افسانہ بن جاتی ہے”
نے شروع کیا افسانے کا تعارف جناب آصف فرخی مرحوم
ان کی چند اور تحریریں جو میں نے پڑھیں ، اتفاق سے وہ اتنی آسان نہ تھیں ، مجھ جیسے کے لیے تو اچھی خاصی مشکل تھیں ۔ یوں کہ اگر ذہن پر ذرا بھی زور دینا پڑے تو بھاری پتھر جان کے چھوڑ دینا بہتر لگتا ہے ۔
خیر میری بات چھوڑئیے آصف فرخی صاحب کا لکھا افسانے کا تعارف دیکھیے ۔
ذرا سی بات افسانہ بن جاتی ہے ۔ نہ جانے کہاں سے خوشی امنڈ آتی ہے ہے اور رگوں میں کبھی تیز کبھی دھیرے دھیرے بہنے لگتی ہے ، اداسی بال کھولے اچانک گھر آنگن میں اتر آتی ہے یا کسی انجانی حقیقت کا بھید کھل جاتا ہے اور یہ انکشاف بجلی کے کوندے کی طرح لپک جاتا ہے ۔ ایسے ہی لمحے افسانے کو جنم دیتے ہیں اور دیر تک ساتھ چلتے ہیں۔ زندگی ایسے لمحوں اور افسانوں سے عبارت ہے ۔ تاروں بھری رات ہو تو اس طرف جب بھی نظر پڑے ، ایسا لگتا ہے آسمان پر ہزاروں افسانے جگمگا رہے ہیں ۔ افسانہ ذرا سی دیر کا قصہ ہے ، لمحے بھر کی بات ۔ لیکن ان چند لمحوں میں جیسے پوری زندگی سما سکتی ہے ، صدیاں بیت جاتی ہیں اور اتنی مدت کے لیے وقت بھی ٹھہر جاتا ہے ۔ ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی ایک کیفیت ایک جھلک دکھا جاتی ہے ۔ ستاروں کی طرح افسانوں کی یہ مہربان روشنی اپنی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے ۔اور جوں ہی آپ اس کے بلاوے پر چلے ، ایک قدم بھی اٹھایا تو زندگی ایک نٸی ترتیب کے ساتھ بیان ہونے لگتی ہے ۔
یہ افسانے کی زندگی ہے جس کا خوبصورت اظہار بعض جگہ اتنے حسن اور مہارت اور مناسبت کے ساتھ ہوا ہے کہ کہ اردو افسانے میں پوی دنیا آباد نظر آنے لگتی ہے ۔
ایسی دنیا جو اپنی دریافت کے لیے افسانوں کے مطالعے کی مرہونِ منت ہے ۔

یہ بارہ سطروں کا ایک( پہلا) پیرا گراف ہے دو پیراگراف اور ہیں ایک سولہ سطروں کا اور ایک نو سطروں کا ۔
یہ آصف فرخی کے اندازِ بیان کا مکمل تعارف نہیں ۔
وہ ایک کثیرالمطالعہ شخص تھے پیشے کے لحاظ سے ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے ، دستِ شفا کے بارے میں وہ بتا سکتے ہیں جن کا انہوں نے علاج کیا ہو ۔
ادب ( عالمی ادب ) کے نبض شناس ان کے جیسے شاید ہی چند اور ہوں ۔

مختلف مضامین کے لیے مناسب اسلوب اختیار کرتے ۔
جیسے کہ سنا ہے عشق اور مشک نہیں چھپتے ، ایسے ہی ان کا علم ان کی تحریروں سے عیاں ہو تا ہے ۔
“ ایسے شروع کیا افسانے کا تعارف جناب آصف فرخی مرحوم نے ۔
ان کی چند اور تحریریں جو میں نے پڑھیں ، اتفاق سے وہ اتنی آسان نہ تھیں ، مجھ جیسے کے لیے تو اچھی خاصی مشکل تھیں ۔ یوں کہ اگر ذہن پر ذرا بھی زور دینا پڑے تو بھاری پتھر جان کے چھوڑ دینا بہتر لگتا ہے ۔
خیر میری بات چھوڑیئے آصف فرخی صاحب کا لکھا افسانے کا تعارف دیکھیے ۔
ذرا سی بات افسانہ بن جاتی ہے ۔ نہ جانے کہاں سے خوشی امنڈ آتی ہے ہے اور رگوں میں کبھی تیز کبھی دھیرے دھیرے بہنے لگتی ہے ، اداسی بال کھولے اچانک گھر آنگن میں اتر آتی ہے یا کسی انجانی حقیقت کا بھید کھل جاتا ہے اور یہ انکشاف بجلی کے کوندے کی طرح لپک جاتا ہے ۔ ایسے ہی لمحے افسانے کو جنم دیتے ہیں اور دیر تک ساتھ چلتے ہیں۔ زندگی ایسے لمحوں اور افسانوں سے عبارت ہے ۔ تاروں بھری رات ہو تو اس طرف جب بھی نظر پڑے ، ایسا لگتا ہے آسمان پر ہزاروں افسانے جگمگا رہے ہیں ۔ افسانہ ذرا سی دیر کا قصہ ہے ، لمحے بھر کی بات ۔ لیکن ان چند لمحوں میں جیسے پوری زندگی سما سکتی ہے ، صدیاں بیت جاتی ہیں اور اتنی مدت کے لیے وقت بھی ٹھہر جاتا ہے ۔ ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی ایک کیفیت ایک جھلک دکھا جاتی ہے ۔ ستاروں کی طرح افسانوں کی یہ مہربان روشنی اپنی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتی ہے ۔اور جوں ہی آپ اس کے بلاوے پر چلے ، ایک قدم بھی اٹھایا تو زندگی ایک نٸی ترتیب کے ساتھ بیان ہونے لگتی ہے ۔
یہ افسانے کی زندگی ہے جس کا خوبصورت اظہار بعض جگہ اتنے حسن اور مہارت اور مناسبت کے ساتھ ہوا ہے کہ کہ اردو افسانے میں پوی دنیا آباد نظر آنے لگتی ہے ۔
ایسی دنیا جو اپنی دریافت کے لیے افسانوں کے مطالعے کی مرہونِ منت ہے ۔

یہ بارہ سطروں کا ایک( پہلا) پیرا گراف ہے دو پیراگراف اور ہیں ایک سولہ سطروں کا اور ایک نو سطروں کا ۔
یہ آصف فرخی کے اندازِ بیان کا مکمل تعارف نہیں ۔
وہ ایک کثیرالمطالعہ شخص تھے پیشے کے لحاظ سے ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے ، دستِ شفا کے بارے میں وہ بتا سکتے ہیں جن کا انہوں نے علاج کیا ہو ۔
ادب ( عالمی ادب ) کے نبض شناس ان کے جیسے شاید ہی چند اور ہوں ۔

مختلف مضامین کے لیے مناسب اسلوب اختیار کرتے ۔
جیسے کہ سنا ہے عشق اور مشک نہیں چھپتے ، ایسے ہی ان کا علم ان کی تحریروں سے عیاں ہو تا ہے ۔
 
Top