چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
ہم کیسے سونگھتے ہیں؟


سونگھنے کی صلاحیت ہمارے خواص خمسہ سب سے زیادہ اہم ہے اور یہ ہماری خوراک اور محبوب پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔۔۔




سونگھنے یا اگر ہم درست اصطلاح کا استعمال کریں تو حس شامہ بہت ہی راست احساس ہے جس میں ہم اصل میں سونگھنے والی چیز کے بہت ہی خرد بینی ٹکڑے سانس کے ساتھ اندر لیتے ہیں۔ یہ ٹکڑے ہمارے حس شامہ سرحلمہ، ناک کے سوراخ میں موجود ایک لیس دار جھلی، سے ٹکراتے ہیں، جو دسیوں لاکھوں حس شامہ کے وصول کردہ عصبانی خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر حساسیہ خلیہ چھوٹے بال کی طرح کی ساخت سے گھیرا ہوا ہوتا ہے، جس کو ابداب کہتے ہیں یہ بو سے تعامل کرتا ہے اور حس شامہ کے اعصاب کو اشارے بھیجتا ہے جو اس سے حاصل کردہ اطلاعات کو دماغ میں بھیجتے ہیں تاکہ وہاں اسے بطور بو شناخت کیا جا سکے۔ انسان لگ بھگ 10,000 سے زیادہ بو کی شناخت کر سکتا ہے اور کوئی بھی دو فرد کسی بھی چیز کو سونگھ کر ایک جیسا احساس محسوس نہیں کر سکتے۔


سونگھنے کے بارے میں پانچ اہم حقائق

1۔ خواتین بہتر سونگھتی ہیں
تواتر کے ساتھ تجربوں میں ثابت ہوا ہے کہ خواتین کے سونگھنے کی صلاحیت مردوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے، اور تحقیق بتاتی ہے کہ خواتین اپنے بچے کی بو کو اس کے پیدا ہونے کے بعد چند دنوں میں پہچاننے لگتی ہیں۔

2 ۔بو ذائقے کو متاثر کرتی ہے
انسانی ناک اصل میں ذائقے کو محسوس کرنے کا اصل عضو ہے۔ ذوقی کلیاں صرف میٹھے ، کھٹے ، کڑوے اور نمکین کی شناخت کر سکتی ہیں، اس کے لئے باقی ہر چیز بو سے سمجھی جاتی ہے!

3 ۔اندھے لوگ بہتر سونگھ نہیں سکتے
یہ تصور عام ہے کہ اندھے لوگ بینا لوگوں سے زیادہ بہتر طور پر سونگھ سکتے ہیں۔ تاہم یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوا اور اکثر کی جانے والی تحقیقات اس حقیقت کی تردید کرتی ہیں۔

4۔ سونگھنے کی صلاحیت بچپن کے بعد بہتر نہیں ہوتی
تقریباً آٹھ برس کی عمر تک سونگھنے کی صلاحیت اپنے پورے جوبن پر آ جاتی ہے۔ سونگھنے کی صلاحیت بڑھتی عمر کے ساتھ کم ہوتی ہے۔

5۔ سونگھنے کا احساس پورے دن بہتر ہوتا رہتا ہے
جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو آپ کے سونگھنے کی حس شام کے مقابلے میں کہیں کم ہوتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہم کیسے سوچتے ہیں؟



خیالات کیا ہوتے ہیں؟ یہ سوال آنے والی کئی دہائیوں تک سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور فلسفیوں کو مصروف رکھے گا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ کس طرح سے 'خیالات' کی تشریح کرتے ہیں۔ محرک (جیسا کہ کسی سیب کو دیکھ کر اس کی شناخت کرنا کا عمل ہے) کے جواب میں سائنس دان معانقہ کی تشکیل، نمونوں کی شناخت اور دماغی سرگرمی کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ فلسفی اور کئی سائنس دان بھی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اعصابی جال ممکنہ طور پر ان ہزاروں خیالات و جذبات کو بیان نہیں کر سکتے جن سے ہمیں نمٹنا ہوتا ہے۔ ایک کھیل کا طبیب جب آپ کو دوڑنے کا کہتا ہے تب آپ پہلے سے متعین کردہ چلنے کے سلسلے کو تحریک دیتے ہیں اور یہ تحریک آپ کے دماغ سے آپ کے پٹھوں تک ایک سیکنڈ کے بھی کم عرصے میں پہنچ جاتی ہے۔ اگرچہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم اب جان گئے ہیں - جیسا کہ آپ کے دماغ کے کون سے حصّے کن مخصوص قسم کے خیالات اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔


مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
خلیے کی ساخت کی وضاحت


انسانی جسم میں لگ بھگ 75 کھرب خلیات ہوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ ہوتے کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں؟

خلیات زندگی ہیں اور خلیات زندہ ہوتے ہیں۔ آپ یہاں اس لئے زندہ و جاوید موجود ہیں کیونکہ آپ کے جسم کے اندر ہر خلیے کا ایک مخصوص فعل اور ایک بہت ہی مخصوص کرنے کا کام ہے۔ مختلف قسم کے خلیات ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک جسم کے مختلف نظاموں کو چلاتا ہے۔ ایک واحد خلیہ زندگی کی صلاحیت رکھنے والے جسم کے اندر زندہ مادوں کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ جب ان کی گروہ بندی پرتوں یا جھرمٹوں میں کی جاتی ہے تو ایک جیسے کام کرنے والے خلیات بافت یا ریشہ بناتے ہیں، جیسا کہ جلد یا پٹھے۔ ان خلیات کو کام کرنے کے لائق رکھنے کے لئے ہر وقت ہزار ہا کیمیائی تعاملات جاری رہتے ہیں۔

تمام جانوروں میں مرکزہ ہوتا ہے جو ایک انضباطی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے خلیات کو بتاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور خلیے کی جنیاتی اطلاعات (ڈی این اے) بھی اسی میں ہوتا ہے۔ خلیے کے اندر زیادہ تر مادّہ پانی، لجبجی چیز جیسا ہوتا ہے جس کو مایہ حیات کہتے ہیں، یہ خلیے کے گرد چکر لگاتا ہے اور اس کو ایک مہین بیرونی تہ تھامے رکھتی ہے جو خود دو پرتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مایہ حیات کے اندر متنوع فی قسم کی ساختیں ہوتی ہیں جن کو خلوی اعضاء کہتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا الگ کام ہوتا ہے جیسا کہ لحمیات - خلیے کے اہم کیمیائی عنصر - کو بنانا۔ خلوی اعضاء کی ایک اہم مثال ریبوسوم ہے؛ اس طرح کی بے تحاشہ ساختیں یا تو مایہ حیات کے ارد گرد تیرتی ہوئی یا بھر اندرونی جھلی کے ساتھ منسلک ہوئی پائی جاتی ہیں۔ امینو ایسڈز سے لحمیات بنانے کے لئے ریبوسوم انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔


اور خود لحمیات آپ کے خلیات کو بنانے حیاتی کیمیائی تعاملات کو جاری رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں جس کی ضرورت جسم کو ہوتی ہے تاکہ وہ نشو و نما پا کر نہ صرف بڑھ سکے بلکہ اپنے آپ کو تندرست رکھے اور مرمت بھی کرسکے۔




مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
مرکزے کے اندر


خلیے کے انضباطی مرکز (control center)کی چیر پھاڑ

مایہ حیات(cytoplasm) سے گھرا ہوا مرکزے میں خلیے کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے اور اس کے تمام افعال اور عملیات کو قابو رکھتا ہے جیسا کہ حرکت اور افزائش۔

خلیے کی دو اہم اقسام ہوتی ہیں: حقیقی المرکز(eukaryotic)اور بدائی المرکز( prokaryotic)۔ حقیقی المرکز خلیے میں مرکزہ جبکہ بدائی المرکز میں نہیں ہوتا ہے۔ کچھ حقیقی المرکز خلیات میں ایک سے زیادہ مرکزے ہوتے ہیں - جو کثیر مرکزائی (multinucleate)کہلاتے ہیں - یہ تب بنتے ہیں جب انشقاق یا تقسیم دو یا اس سے زائد مرکزے بناتا ہے۔

مرکزے کے قلب میں آپ کو نوات صغیر (nucleolus) ملے گا؛ یہ خاص جگہ ریبوسومز کی تشکیل کے لئے لازمی ہوتے ہیں۔ ریبوسومز امینو ایسڈز ہے لحمیات(proteins) بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو نمو و مرمت کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

اتنی اہمیت کے حامل ہونے کی وجہ سے مرکزہ خلیے کا سب سے محفوظ حصّہ ہوتا ہے۔ جانوروں کے خلیات میں یہ ہمیشہ اپنے مرکز کے قریب جبکہ جھلی سے دور واقع ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ حفاظتی جگہ کو حاصل کرنے کو یقینی بنا سکے۔ اطراف میں موجود لجبجے مایہ حیات کی طرح مرکزہ میں بھی خود نوات مایہ (nucleoplasm)بھرا ہوا ہوتا ہے، ایک چپچپا مائع جو اس کی ساختی سالمیت کو برقرار رکھتا ہے۔

اس کے برعکس پودوں کے خلیات میں مرکزہ دور دور موجود ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پودوں کے خلیات میں بڑی خالیہ (vacuole)اور اضافی حفاظت ہوتی ہے جس کی ضمانت خلیے کی دیوار دیتی ہے۔

مرکزے کے بغیر خلیات کس طرح زندہ رہتے ہیں؟

بدائی المرکز خلیات اپنے ساتھی حقیقی المرکز خلیات کے مقابلے میں کافی زیادہ سادے ہوتے ہیں۔ 100 گنا تک چھوٹے اور زیادہ تر جرثوموں کے نوع پر مشتمل، بدائی المرکز خلیات کے افعال دوسرے خلیات کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، لہٰذا جاندار کے انضباطی مرکز کا کردار ادا کرنے کے لئے ان کو مرکزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس کے برعکس ان خلیات کے ڈی این اے بجائے ایک مرکز میں رہنے کے خلیے کے ارد گرد حرکت کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی نہ تو کوئی سبز مایہ(chloroplasts)، نہ کوئی جھلی سے لپٹے خلوی اعضاء ہوتے ہیں اور وہ خلیے کی تقسیم حقیقی المرکز خلیات کی طرح بلا راست تقسیم (mitosis) یا تخفیفی تقسیم (meiosis) کی طرح نہیں کرتے۔

بدائی المرکز خلیات لاجنسی طور (asexually) پر ڈی این اے کے سالمات کے ساتھ اپنی نقل ایک عمل میں بناتے ہیں جو ثنائی انشقاق (binary fission) سے جانا جاتا ہے۔


چلیں ذرا جھانک کر دیکھتے ہیں کہ حقیقی المرکز خلیہ کے 'دماغ' کے اندر کیا چل رہا ہے۔

1 نووی مسام (Nuclear pore)
یہ راستے مرکزے اور مایہ حیات کے درمیان سالمات کی حرکات کو قابو میں رکھتے ہیں۔

2 نووی غلاف (Nuclear envelope)
مرکزے کے اندر موجود ڈی این اے کی حفاظت کرنے کے لئے ایک دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں اور مایہ حیات کی رسائی کو قاعدے میں رکھتے ہیں۔

3 نوات صغیر(Nucleolus)
لحمیات اور آر این اے سے بنے ہوتے ہیں، یہ مرکزے کا قلب ہوتے ہیں اور ریبوسومز کو بناتے ہیں۔

4 نوات مایہ(Nucleoplasm)
یہ نیم مائع، جزوی لجبجہ مادّہ نوات صغیر کے ارد گرد ہوتا ہے اور خلوی عضو کی ساخت کو برقرار رکھتا ہے۔

5 لونین (Chromatin)
لونیہ کو بناتے اور خلیے کی تقسیم کے عمل میں ڈی این اے کے سالمات کو کثیف کرکے مدد کرتے ہیں۔

مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
چیونٹیوں کی بستیاں کیسی نظر آتی ہیں؟



چیونٹیوں کی ایک فوج ایک ہفتے میں زیر زمین وسیع شہر تعمیر کر سکتی ہے۔

ایک اکیلی چیونٹی اپنے وزن سے 50 گنا زیادہ تک اٹھا سکتی ہے، لہٰذا ایک بستی کی صورت میں مل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انتہائی متاثر کن کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ اصل میں ایک ہفتے کے اندر ہی باغ کی چیونٹیاں ایک زیر زمین شہر بنا سکتی ہیں جو اتنا بڑا ہوسکتا ہے کہ جس میں ہزار ہا کیڑوں کی بستی سما سکے۔ گہری زمین کے اندر چیونٹیوں کے گھونسلے کثیر خانوں سے بنتے ہیں جو سرنگوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہر خانے کا مختلف کام ہوتا ہے؛ کچھ خوراک کا ذخیرہ کرنے کے لئے ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے نوجوانوں کی پود گاہ ہوتے ہیں باقی جگہ مصروف مزدور چیونٹیوں کے لئے ہوتی ہے۔ آپ ملکہ چیونٹی کو مرکزی خانے میں دیکھ سکتے ہیں جہاں وہ اپنے انڈے دیتی ہے۔ حیرت انگیز ساخت کے اضافے سے مسام دار برج زمین سے اوپر گھونسلے کو ہوا دار اور اندر یکساں درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔



دیمک کے بڑے شہر

پانچ میٹر تک لمبا، دیمک کا ٹیلہ مٹی، گوبر اور دیمک کے لعاب سے بنتا ہے اور اسے بنانے میں چار سے پانچ برس لگ جاتے ہیں۔ چیونٹیوں کی طرح دیمک بھی سماجی جانور ہیں اور اس طرح کی متاثر کن عمارتیں بنانے کے لئے مل کر کام کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹیلہ ٹھوس لگتا ہے تاہم حقیقت میں یہ مسام دار ہوتا ہے جس سے تمام جگہ ہوا گردش کرکے درجہ حرارت کو یکساں برقرار رکھتی ہے۔ مینار کو شمال اور جنوب کی سمت میں بنایا جاتا ہے تاکہ درجہ حرارت کو قابو کرنے میں مدد دے سکے۔ ہوا ٹیلہ میں ننھے خارجی سوراخوں سے داخل ہوتی ہے اور ڈھانچے میں گردش کرکے درجہ حرارت کو گراتی ہے اور کیڑوں کے لئے تازہ آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ جب ہوا گرم ہوتی ہے تو وہ اوپر اٹھ کر ٹیلے کی مرکزی چمنی سے خارج ہوجاتی ہے۔
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
سمندر کے مردہ خطے کیا ہوتے ہیں؟



سمندر کے ان وسیع بنجر خطوں کے پیچھے کی حیاتیات


مردہ خطوں کا نام اس حقیقت کی وجہ سے پڑا کہ وہ بہت ہی کم پودوں اور جانداروں کے رہنے کے لائق ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ آکسیجن کی عدم موجودگی ہوتی ہے جس کو 'قلیل آکسیجنی کیفیت' کہتے ہیں۔ قلیل آکسیجنی کیفیت کی صورتحال جھیلوں اور کھڑے پانی کے ذخیروں میں ہو سکتی ہے تاہم یہ صورتحال سمندر کے بڑے حصّوں میں بھی موجود ہوسکتی ہے۔

مردہ علاقہ یا خطے کی اہم وجہ یوٹروفِکیشن ( نائٹریٹ اور فاسفیٹس سے بھر پور پانی) ہے یعنی جب وہ معدنیات خاص طور پر جن کی بنیاد زرعی ہوتی ہے پانی میں شامل ہوجائیں۔ غذایت کی بلند ترین سطح پانی کی سطح پر کائی کا زبردست جوبن لانے کا سبب بنتی ہے۔ اس کے بعد یہ آکسیجن کو پانی میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے جو آسانی کے ساتھ اپنے نیچے ہر چیز کو تباہ کردیتی ہے۔

بہنے والے غذائیت بخش اجزاء کی زرعی ماہیت کی وجہ سے، مردہ خطے اکثر ساحل کے قریب ہوتے ہیں۔ کم از کم 146 معلوم ساحلی مردہ خطے پوری دنیا میں موجود ہے جس میں سب سے بڑا بحیرہ بالٹک اور میکسیکو کی خلیج میں واقع ہے۔


مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
ایک بیج کے اندر کیا ہوتا ہے؟


ان چھوٹی پھلیوں میں بڑے تاڑکے درخت یا خوبصورت گل لالہ بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔


بیج یا تخم ان پودوں کی اقسام کے باز تخلیقی جسم ہیں جو 'ملفوف تخم' - وہ پودے جن کے بیج بند بیضہ دانی میں ہوتے ہیں- اور - 'برہنہ تخم' - وہ گروہ جس میں مخروطی قسم کے درخت ہوتے ہیں - کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہر پودے کا بیج قطع نظر اس کے حجم یا مورث پودے کی نوع سے تین اہم حصّے رکھتا ہے:جنین، بیج پتہ، اور بیج کا غلاف۔

بیج کا جنین طفلی پودا ہوتا ہے، نوجوان جڑیں اور کونپل اس لائق ہوتی ہیں کہ نشوونما پا کر اس شاہانہ مثال میں ڈھل جائیں جیسے کبھی اس کے مورث ہوتے تھے۔ بیج پتہ یا 'خوراک کا ذخیرہ'، بیج کی غذائیت کا ذریعہ ہوتا ہے جس میں خاصے نشاستہ دار غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں جو اگنے کے بعد چند ہفتوں تک اس کو باقی رکھنے میں کام آتے ہیں، اس کے بعد نوجوان پودا ضیائی تالیف کی مدد سے اپنی خوراک خود تیار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ آخر میں بیج کا غلاف طفلی پودے کو ایک سخت حفاظتی پرت مہیا کرتا ہے جس کی مدد سے وہ سردیوں میں غنودگی میں چلا جاتا ہے اور جانوروں، ہواؤں اور پانی کی سرگرمی سے منتشر ہوتا ہے۔ اس کے بعد سادہ طور پر یہ اس وقت تک انتظار کرتا ہے تاوقتیکہ روشنی، حرارت، آکسیجن اور پانی اس کی نشوونما کی ابتداء کے لئے بہترین نہیں ہوجاتے۔

مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
کتے لوگوں کو کیوں چاٹتے ہیں؟


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کا کلبی ساتھی ایسا کیوں کرتا ہے؟



اگرچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کتے چاٹ کر انسانوں سے اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہیں تاہم دوسرے کئی نظریات بھی موجود ہیں جو اس برتاؤ کو بیان کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ شاید ہم کافی مزیدار ہیں۔ نمکین پسینہ اور خوراک کی باقیات نا صرف بہت ذائقہ دار ہوتی ہیں بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ہم کہاں تھے اور ہم نے کیا کھایا ہے۔ چاٹنا بھی ایک تہذیبی رویہ سمجھا جاتا ہے۔ پلے نا صرف اپنے آپ کو صاف رکھنے کے لئے چاٹنا سیکھتے ہیں بلکہ اسےا یک دوسرے سے بات چیت اور آگاہ کرنے اور آپس کے بندھن کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بالغ کتوں میں چاٹنے کا برتاؤ حکمران جھنڈ کے رکن کی اطاعت کو بھی ظاہر کرتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ کتے چاٹتے ہیں۔


مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
خلا نوردوں کا خلائی لباس کیسا ہوتا ہے؟



مریخ کا سفر کیسے لگے گا؟

مریخ کی طرف سفر کرنے والے خلا نوردوں کو صحت مند رہنے کے لئے حالت جنگ کا سامنا کرنا ہوتا ہے کیونکہ خلائی سفر کے اثرات جسم پر مختلف طریقوں سے پڑتے ہیں۔ خرد قوت ثقل خون کی گردش کو متاثر کرتی ہے جس سے ہڈیاں کمزور اور پٹھے لاغر ہوتے ہیں، یعنی کہ خلا نوردوں کو پٹھوں کو بربادی سے بچانے کے لئے مسلسل ورزش کرنی ہوتی ہے۔ اگرچہ مریخ پر قوت ثقل زمین کے مقابلے میں 38 فیصد ہوتی ہے تاہم کئی مسائل اس وقت کم ہو جاتے ہیں جب ایک مرتبہ خلا نورد وہاں اتر جائیں گے۔


سب سے زیادہ مہلک شعاعیں ہیں جو سورج اور خلائے بسیط سے آنے والی کائناتی اشعاع دونوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ کیونکہ مریخ کا اپنا مقناطیسی میدان نہیں ہے جو خلائی اشعاع کو واپس موڑ کر اپنی سطح کو اس سے محفوظ رکھ سکے، لہٰذا خلا نوردوں کو حفاظتی رہائش گاہوں میں رہنا پڑے گا۔ اور پھر نفسیاتی اثرات کی اضافی پریشانی کا بھی سامنا کرنا ہوگا اس کی وجہ زمین پر موجود ہر شخص سے الگ تنہا ایک عجیب ماحول میں رہنا ہو گا۔

مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
کون سی چیز سمندری پانی کو اتنا نمکین بناتی ہے؟


قدرتی مسالا جو سمندر کو ذائقہ دیتا ہے


سمندر میں زیادہ تر نمک خشکی پر ہونے والی سرگرمی سے آتا ہے۔ کرۂ ہوائی سے کاربن ڈائی آکسائڈ بارش میں شامل ہو جاتی ہے جس سے وہ اسے تیزابی کردیتی ہے۔ جب بارش خشکی پر چٹانوں کو کاٹتی ہے تو وہ راونوں کو آزاد کراتی ہے - جوہری ذرّات جن پر برقی بار ہوتا ہے۔ بالآخر دریا اور نہروں میں موجود یہ حل پذیر راون سمندر تک آجاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پودے اور جانور نکال لیتے ہیں جبکہ دوسرے راون - خاص طور پر سوڈیم اور کلورائد - باقی رہ کر زیادہ مرتکز ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں روان وہ ہوتے ہیں جو سمندر کے پانی کو نمکین کرتے ہیں ۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر تمام سمندر تبخیر ہوجائیں اور ان کا نمک زمین کی سطح پر برابر پھیلایا جائے تو یہ ایک 152 میٹر (500 فٹ) موٹی پرت بنا دے گی۔

مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
حرام مغز کیا کام کرتا ہے؟

حرام مغز اصل میں دماغ کا حصہ ہے اور ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔


سائنس دان پچھلے لگ بھگ 100 برسوں سے جانتے ہیں کہ حرام مغز اصل میں دماغ کا حصّہ ہے۔ ملیلو کے مطابق دماغ کے گرد باہر کی جانب خاکستری مغز (جس کی حفاظت کھوپڑی کرتی ہے) جبکہ اندر کی جانب محفوظ سفید مغز ہوتا ہے، تاہم حرام مغز میں ایسا اس کے برعکس ہوتا ہے: خاکستری مغز حرام مغز کے اندر جبکہ سفید مغز باہر کی جانب ہوتا ہے۔


مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
انسانی آنکھ کا اندرون


بصریات کی سائنس



قدرتی دنیا میں پائے جانے والے پیچیدہ ترین جسم میں سے ایک کا راز ہوا طشت از بام

انسانی آنکھ کی ساخت اتنی پیچیدہ ہے کہ - اس بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ - یہ ذہین صورت گری نہیں ہے، تاہم دوسرے جانوروں کی طرف دیکھ کر سائنس دان بتاتے ہیں کہ یہ سادہ روشن تاریک حساسیوں سے بتدریج لگ بھگ 10 کروڑ برس میں ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بنے ہیں۔ یہ بڑی حد تک کیمرے کی طرح کام کرتے ہیں، ان میں کھلنے کی جگہ جو روشنی کو اندر داخل ہونے دیتی ہے، ایک مجتمع کرنے والا عدسہ اور پیچھے کی جانب ایک جھلی ہوتی ہے۔

آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کی مقدار کو پردے میں موجود گشتی اور شعاعی پٹھے قابو رکھتے ہیں جو حالت سکون میں آنے کے لئے پتلی کے حجم پھیل و سکیڑ کر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ روشنی سب سے پہلے ایک سخت حفاظتی چادر میں سے گزرتی ہے جس کو قرنیہ کہتے ہیں اس کے بعد روشنی عدسے کی طرف جاتی ہے۔یہ قابل ترتیب حصّہ روشنی کو موڑکر آنکھ کے پیچھے موجود پردہ چشم پر مرکوز کرتا ہے۔

پردہ چشم کو دسیوں لاکھوں روشنی کو محسوس کرنے والے وصول کنندگان نے ڈھکا ہوا ہوتا ہے جو سلاخوں اور مخروطیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہر وصول کنندہ میں رنگدار سالمات ہوتے ہیں جو اس وقت صورت بدلتے ہیں جب ان پر روشنی پڑتی ہے جس سے ایک برقی پیغام نکلتا ہے جو بصری اعصاب کے ذریعہ دماغ تک سفر کرتا ہے۔

تین جہتوں میں دیکھنا


ہر آنکھ تھوڑی سی الگ تصویر دیکھتی ہے جس سے دماغ کو اس چیز کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔


ہماری آنکھیں صرف دو جہتی تصویر بنانے کے ہی قابل ہیں تاہم کچھ ہوشیار طریقہ کار کو اختیار کرکے دماغ ان چپٹی تصاویر کو سہ جہتی منظر میں تبدیل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ہماری آنکھیں ایک دوسرے سے لگ بھگ پانچ سینٹی میٹر (دو انچ) دور ہوتی ہیں، اس طرح سے ان میں سے ہر ایک دنیا کو تھوڑے سے مختلف زاویے سے دیکھتی ہے۔ دماغ ان دو تصاویر کا موازنہ کرکے تفاوت کا فائدہ اٹھا کر گہرائی کا فریب نظر دیتا ہے۔

حفاظتی نظام


کئی حفاظتی پرتوں سے آنکھوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ وہ پیچھے موجود ہڈی میں ملفوف اور پٹھوں کی تہوں اور جوڑوں کے بافتوں سے پیدا ہونے والی صدماتی امواج سے لگ بھگ مکمل طور پر حاجز ہوتی ہیں۔ سامنے کا حصّہ آنسوؤں سے نم اور پپوٹوں سے متواتر صاف ہوتا رہتا ہے، جبکہ بھنووں اور پلکوں کے بال کسی بھی گرنے والی دھول کو پکڑ لیتے ہیں۔

ہماری بصارت ساتھ سب سے زیادہ عام مسائل


بصارت کے مسائل

بعید نظری

اگر آنکھ بہت مختصر ہوگی، قرنیہ کافی چپٹا ہو یا عدسہ کافی پیچھے موجود ہو تو آنے والی روشنی پردہ چشم کے پیچھے مجتمع ہوگی جس سے قریبی اجسام بطور خاص تاریکی میں دھندلے نظر آئیں گے ۔

کوتاہ بینی

اگر آنکھ بہت زیادہ طویل ہوتی ہے یا قرنیہ اور عدسہ بہت زیادہ خم دار ہوتے ہیں تو روشنی آنکھ کے پیچھے ٹکرانے سے پہلے ہی مجتمع اور پردہ چشم پر پہنچتے وقت دوبارہ سے منتشر ہو جاتی ہے جس سے دور کے اجسام کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

رنگوں کا امتیاز نہ کر سکنا

اس انوکھی صورتحال کو اکثر ایکس لونیہ سے جوڑا جاتا ہے اور یہ خواتین کی نسبت مرد حضرات میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ آنکھ کے مخروطی خلیات میں کوئی خامی شناخت ہونے والے رنگوں کی تعداد کو کم کر دیتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
اڑن مچھلی کیسے اڑتی ہے؟



حیرت انگیز حقائق جو آپ کو معلوم ہونے چاہیں
ان ہوشیار چالوں کو دریافت کریں جس سے یہ آبی مخلوق ہوا میں تیرتی ہے





کیا یہ کوئی پرندہ ہے؟ کیا یہ کوئی ہوائی جہاز ہے؟ نہیں، یہ اصل میں یہ ایک مچھلی ہے۔ اگر ٹھیک طرح سے کہا جائے تو اڑن مچھلی حقیقت میں اڑتی نہیں ہے۔ وہ ہوا میں پھسلنے کے لئے اپنے پروں کو استعمال کرتی ہے، تاہم وہ انھیں پنکھوں کی طرح نہیں پھڑپھڑاتی۔ مچھلیوں نے اس چال کو پانی میں شکاریوں سے بچنے کے لئے بنایا ہے، تاہم وہ ہوا میں اس وقت تک معلق رہ سکتی ہیں جب تک ان کو سانس لینے کے لئے پانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہوا کو کس طرح صاف کیا جاتا ہے؟

حیرت انگیز حقائق جو آپ کو معلوم ہونے چاہیں
ہوا کو صاف کرنے والا آلہ کس طرح سے دھول اور بو کو چھان کر آپ کی دنیا کو صاف رکھتا ہے




زیادہ تر ہوا کو خالص بنانے والی آلات ہوا میں سے آلودگی کو چھان کر یا پھر سالمات کو راونوں میں تبدیل کرکے صاف کرتے ہیں۔ چھاننے کا نظام ہوا کو چھلنیوں کے سلسلے میں داخل کرنے سے پہلے مشین کے اندر کھینچنے کے لئے ایک پنکھا استعمال کرتا ہے۔ چھلنیاں عام طور پر جھاگ، فائبرگلاس یا کوئلہ کی ہوتی ہیں ، یہ تمام مادّے حد درجہ مسام دار ہوتے ہیں۔ اس عمل میں ہوا کے چھوٹے ذرّات گزر جاتے ہیں تاہم یہ بڑے دھول کے ذرّات کو پکڑ کر روک لیتا ہے۔ وہ ہوا کو خالص بنانے والے آلات جو صرف 0.3 فیصد 0.3 مائیکرومیٹر یا بڑے ذرّات کو گزرنے دیتے ہیں ان کو امریکی محکمہ توانائی سے اعلیٰ کارکردگی کا حامل جدا گانہ درجہ ملتا ہے۔ راونوں کا استعمال کرنے والے ہوا کو خالص بنانے والے آلات بھی ہوا کو کھنچنے کے لئے پنکھے کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہوا جب اس کے اندر چلی جاتی ہے تو بڑے ذرّات جیسا کہ تخم یا دھول کے ذرّات ایک اسے برقی میدان سے گزرتے ہیں جس کو علیحدہ کرنے والا ہالہ کہتے ہیں۔ یہ سالمات میں الیکٹران کی کمی یا بیشی کر دیتا ہے جس سے سالمات کو یا تو منفی یا پھر مثبت بار مل جاتی ہے۔ بار دار سالمات اس کے بعد دو میں سے کسی ایک دھاتی بار دار تختیوں کی جاذبی کشش سے ہوا کو خالص بنانے والے آلے کے اندر کھینچے جاتے ہیں جہاں وہ چپک جاتے ہیں اور یوں صاف ہوا اس میں سے گزر جاتی ہے۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
کان کس طرح کام کرتے ہیں

کانوں کی وضاحت


کیا آپ جانتے ہیں؟

کان کے پردے کو ہمارے لئے آواز کو سمجھنے کے لئے ہائیڈروجن کے جوہر کے قطر سے بھی کم حرکت کرنی پڑتی ہے۔
انسانی کان سے متعلق 5 اہم حقائق


1۔ سننے کی حد

انسانی کان 20 ہرٹز سے لے کر 20،000 ہرٹز تک کے درمیان کے تعدد کی آوازوں کو سن سکتے ہیں۔ اس سے اوپر اور نیچے کے تعدد کو سننے کی صلاحیت خلیات کے حجم اور ان کی حساسیت سے منسلک ہوتی ہے۔

2۔ پانی کے اندر سماعت


انسان جب پانی کے اندر ہو تو بہت زیادہ بلند پچ کی آوازوں (200،000 ہرٹز تک) کو سن سکتا ہے، کیونکہ ہم بیرونی اور چھوٹی کان کی ہڈیوں کو چھوڑ کر اپنی ہڈیوں کی وجہ سے 'سنتے' ہیں۔

3 ۔سمعی نقصان

سماعت کے نقصان کی سب سے عام وجہ عمر رسیدگی اور شور ہے۔ جب ہم بوڑھے ہوتے ہیں تو ہماری اونچے درجہ کے تعدد والی آوازوں کو سننے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے - اس کو 'پریس بائی اکیوسز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

4۔ ناگزیر موم

موم بیرونی صوتی نالی کو صاف اور چکنا رکھتا اور گندگی اور مردہ کھال کو کان سے دور منتقل کر دیتا ہے۔ اگر موم (کان کے میل) کی زیادتی کوئی مسئلہ کر رہا ہے تو اپنے معالج سے رجوع کریں۔

5۔ چکروں کے ذمہ دار

اندرونی کان میں وائرس/ جرثوموں کی وجہ سے ہونے والی سوزش جیسا کہ اندرونی کان کی سوزش چکر اور متلی کی کیفیت پیدا کر سکتی ہے۔ جب توازن بگڑتا ہے تو اس کا شکار چلنے یا کھڑے رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔



انسانی کان مختلف افعال انجام دیتے ہیں، یہ نا صرف آواز سے پیدا ہونے والے پیغامات کی ترسیل دماغ کو کرتے ہیں بلکہ یہ ہمارے جسم کو اپنا توازن قائم رکھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

جب انسانی کان کے بارے میں جان رہے ہوں تو جو بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ آواز صرف حرکت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ جب کوئی بولتا یا ڈھول بجاتا یا کسی بھی قسم کی حرکت کرتا ہے تو اس کے آس پاس کی ہوا میں خلل پڑتا ہے جس سے وہ متبادل بلند اور پست تعدد کی صوتی امواج پیدا کرتی ہے۔ کان ان امواج کا سراغ لگاتا ہے اور دماغ میں ان کو الفاظ، سروں یا آوازوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

ہوا سے بھرے جوف، پر پیچ راستوں سے بھرے سیال اور انتہائی حساس خلیات پر مشتمل، کان کے بیرونی، وسطی اور اندرونی حصّے ہوتے ہیں۔ بیرونی کان کھال سے ڈھکی لچک دار کرکری ہڈی کے پلّے پر مشتمل ہوتا ہے جو ‘بیرونی کان' یا 'پنا' کہلاتا ہے۔ اس کی صورت ایسے بنی ہوتے ہیں کہ آواز کی امواج کو جمع کرکے کان میں داخل ہونے اور دماغ میں منتقل کرنے سے پہلے افزودہ کر سکے۔ کان میں داخل ہوتے ہوئے صوتی امواج کا سب سے پہلے جس چیز سے سامنا ہوتا ہے وہ کَس کے کھنچے ہوئے خلیات کی چادر ہوتی ہے جو بیرونی اور وسطی کان کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ یہ خلیات کان کا پردہ یا پردے کی جھلی ہوتی ہے اور جب صوتی امواج اس سے ٹکراتی ہیں تو یہ مرتعش ہوتی ہے۔

کان کے پردے کے بعد کان کے وسطی حصّے میں ہوا سے بھرے جوف میں تین ننھی ہڈیاں ہوتی ہیں جو ' کان کی چھوٹی ہڈیاں' کہلاتی ہیں۔ یہ آپ کے پورے جسم میں سب سے چھوٹی ہڈیاں ہیں۔ کان کے پردے سے ٹکرانے والی آواز کی تھرتھراہٹ سب سے مَطرَقی ہڈی (ہتھوڑی- malleus) کہلانے والی پہلی کان کی چھوٹی ہڈی سے گزرتی ہیں۔ اس کے بعد موجیں سندان گوش (نہائی- incus) کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور اس کے بعد (رکابی ہڈی - stapes) رکاب کی طرف جاتی ہیں۔ رکاب بافتوں کی ایک مہین پرت پر زور لگاتی ہے جس کو 'بیضوی کھڑکی' کہتے ہیں، اور یہ جھلی سیال سے بھرے اندرونی حصّے میں آواز کی موجوں کو داخل ہونے کے قابل بناتی ہے۔

اندرونی کان صدف گوش (cochlea) کا گھر ہے، یہ پانی کی نالیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور تھرتھراہٹ کو موجوں کی صورت میں صدف گوش کی پیچ دار نالیوں کے ساتھ لے جاتی ہیں۔ صدف گوش کے وسط میں کورٹی کا ایک عضو ہوتا ہے جو ننھے حساسی بالوں کے خلیات کے ساتھ قطار بند ہوتا ہے، یہ خلیات تھرتھراہٹ کو وصول کرکے اعصابی دھڑکنیں پیدا کرتے ہیں جو دماغ کی طرف برقی اشاروں کی صورت میں بھیجی جاتی ہیں۔ دماغ ان اشاروں کو آواز کے طور پر شناخت کر سکتا ہے۔
دہلیزی نظام


کان کے اندر دہلیز اور نیم مدور نالیاں (Semicircular canal) ہوتی ہیں جن کی خاصیت حساس خلیات کے ہوتی ہے۔ نیم مدور نالیاں اور گہری داغوں سے آنے والی اطلاعات سر کی حرکت کی سمت میں وصول کنندگان کو آگے بڑھائی جاتی ہیں جو دماغ کو برقی اشارے اعصابی دھڑکن کی صورت میں بھیجتے ہیں۔
توازن کا احساس


دہلیزی نظام کے افعال آپ کو یہ احساس دیتے ہیں کہ آپ کا سر قوت ثقل کی نسبت کہاں پر ہے۔ یہ آپ کو نا صرف اس ادراک کے قابل کرتا ہے کہ آیا آپ کا سر سیدھا ہے یا نہیں بلکہ آپ کے سر گھماتے وقت ساکن اجسام پر نظروں کو ٹکانے میں بھی آپ کو مدد دیتا ہے۔

اس کے علاوہ اندرونی کان کے اندر واقع نیم مدور نالیوں کا تعلق آواز سے کم اور آپ کے سر کی حرکت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک بار بھر سیال سے بھری یہ حلقہ دار تنگ راستے اندرونی رفتار پیما کی طرح کام کرتے ہیں جو اسراع (یعنی کہ آپ کے سر کی حرکت) کا سراغ تین مختلف سمتوں میں حلقوں کی مختلف سطحوں پر مقام کی وجہ سے لگا سکتے ہیں۔ کورٹی کے عضو کی طرح نیم مدور نالیوں میں ننھے بال کے خلیات ہوتے ہیں جو حرکت کو محسوس کر لیتے ہیں۔ یہ نالیاں آپ کے دماغ کے پیچھے موجود سمعی اعصاب سے جڑی ہوتی ہیں۔

آپ کے توازن کو قائم رکھنے کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ آپ کے دماغ کا وہ حصّہ جو اس کام کے لئے مختص ہوتا ہے اس میں اتنے ہی خلیات موجود ہوتے ہیں جتنے کہ باقی دماغ کے کل خلیات۔


مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانی کس طرح صاف کیا جاتا ہے؟



آئیے صفائی کے اس عمل کو دیکھتے ہیں جو پانی کو پینے کے لئے محفوظ بناتا ہے




وہ پانی جو آپ کی ٹونٹی میں سے بہ رہا ہوتا ہے اس کی شروعات آسمان سے بارش برسنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ دریاؤں اور جھیلوں میں بطور سطح آب یا پھر زمین کی سطح کے نیچے بطور زیر زمین پانی کے جمع ہو جاتا ہے، تاہم اس کو صاف کئے بغیر پینا مضر صحت ہوتا ہے۔ اس پانی میں گندگی، آلودگی اور خرد بینی اجسام شامل ہوتے ہیں جو گندی بیماریاں جیسا کہ ٹائیفائڈ، ہیضہ اور پیچش کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم اس سے پہلے کہ یہ آپ کے گھر پہنچے ان نقصان دہ نجاسات کو دور کرنے کے لئے پینے کے پانی کو چھانا اور وبائی اثرات سے پاک (عفونت ربائی) کیا جاتا ہے۔

صفائی کا عمل اکثر ہر پانی کے منبع کے لئے الگ سے مخصوص ہوتا ہے کیونکہ اس میں سے کچھ کو دوسروں کی نسبت زیادہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر زیر زمین پانی کو جزوی طور پر چھانا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین میں موجود مٹی اور چٹانوں سے رستا ہے، عموماً جب اس کو زمین سے نکالا جاتا ہے تو اس کو صفائی کی کم ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم، سطح آب کو صفائی کے چند مزید مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ بڑی مقدار میں اس سے دھول اور چھوٹی نجاسات کو نکالا جا سکے۔ کچھ مصفی پلانٹس پانی میں مزید اجزاء کا اضافہ کر دیتے ہیں، جیسا کہ فلورائیڈ تاکہ دانتوں کے مسائل سے بچا جا سکے یا چونا تاکہ اس کو نرم کرکے کیلشیم کے ذرّات کو نکالا جا سکے۔

ہر مرتبہ جب آپ پینے کا صاف پانی پی رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ان انجینیروں کو شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے یہ مصفی پانی کے پلانٹ بنائے تاکہ آپ کی صحت محفوظ رہ سکے۔ وہ مسلسل پانی کو صاف کرنے کے لئے نئے طریق ہائے کار کی جانچ کرتے رہتے ہیں جو زیادہ سستے ہوں اور توانائی کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال کر سکیں۔ ان میں سے ایک طریقہ شمسی دافع چھوت ہے جس میں سورج کی بالائے بنفشی اشعاع کا استعمال ہوتا ہے تاکہ پانی میں موجود نقصان پہنچانے والے جراثیم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
کس طرح الٹرا ساؤنڈ اسکینر کام کرتا ہے؟

اس طبی مشین کے اندر استعمال ہونے والی سائنس کو قریب سے دیکھتے ہیں



الٹرا ساؤنڈ طریقہ کار کئی طبی وجوہات کی بنا پر استعمال کیا جاتا ہے، اس کا سب سے عام استعمال جنین کی بڑھوتری کی نگرانی میں کیا جاتا ہے۔ الٹراسونوگرافی بلند تعدد کی صوتی امواج کو جسم میں سے گزارتا ہے اور پھر ان سے حاصل کردہ گونج سے اندرونی ساخت کا دو جہتی خاکہ بناتا ہے۔ مبدل توانائی(transducer) کھوجی جس کو جلد پر رکھا جاتا ہے بطور خاص اس لئے بنایا گیا ہے کہ ان امواج کو پیدا اور وصول کر سکے۔ یہ ایسا ایک داب برقی (piezoelectric) اثر کہلانے والے اصول کو استعمال کرکے کرتا ہے۔ سنگ مردار کی قلمیں - داب برقی قلمیں - مبدل توانائی کھوجی کے اندر تیزی سے شکل بدلتی ہیں اور جب ان میں سے برقی رو گزرتی ہے تو مرتعش ہوتی ہیں۔ اس سے صوتی امواج پیدا ہوتی ہیں جو آزادی کے ساتھ جسم کے اندر موجود سیال اور نرم بافتوں کے اندر سے سفر کرتی ہیں۔ بہرحال ایک مرتبہ جب وہ کثیف ساخت میں پہنچ جاتی ہیں تو وہ بطور گونج کے مبدل توانائی کھوجی میں واپس آتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر، کھوجی کے اندر موجود قلمیں برقی رو کو خارج کرتی ہیں جو مرکزی عمل کار یونٹ میں چلی جاتی ہیں۔ پھر جمع کی گئی معلومات سے اسکرین پر ایک تصویر بنائی جاتی ہے۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
ڈیم کیسے بنائے جاتے ہیں؟

زبردست قدرتی قوتوں کو برداشت کرنے والے یہ ڈھانچے کس طرح سے بنائے جاتے ہیں


کسی بھی ڈیم کو بنانے کے دوران انفرادی مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی زمین یا پانی کا نظام بعینہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ڈیم کو بنانے کے لئے سب سے اچھی جگہوں میں سے ایک تنگ دریائی وادی ہوتی ہے جس کے اطراف میں کھڑی چٹانیں ہوں جو اس کے ڈھانچے کو سہارا دے سکیں۔ سب سے پہلے مرحلے پر آپ کو پانی کو اس علاقے سے موڑنا ہوگا جہاں آپ اسے بنانا چاہتے ہیں اور چٹانی ماحول میں بڑے ڈیموں کے لئے زمین میں نہر بنانے کے لئے بارود کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پرایک زیر آب علاقے سے پانی کو دور رکھنے کے لئے عارضی رکاوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایتی طور پرگیلا کنکریٹ سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ سخت ہوکر ڈیم کی درکار صورت اکو ختیار کرلے ۔ دریں اثنا ثقلی ڈیموں جیسا کہ تین دروں والا چین کا ڈیم ہے، کی دیواریں سیدھی ڈھلانوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور پانی کو روکنے کے لئے صرف اپنے زبردست وزن پر انحصار کرتے ہیں۔ محرابی ڈیم جس طرح یو ایس میں موجود ہوور ڈیم ہے وہ اپنی خم دار صورت کو دباؤ کو متوازن کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ پشتے والے ڈیم اپنی قوت کنکریٹ کے ستونوں سے حاصل کرتے ہیں جو ڈھانچے کے ساتھ قطار بند ہوتے ہیں اور بند والا ڈیم بتدریج ڈھلوان ہوتا ہے اور زمین کو دبا کر بنایا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کا وزن کروڑ ہا ٹن ہوتا ہے جو مضبوط بنیاد کو بناتا ہے جو سطح زمین سے کہیں زیادہ گہرائی میں ہوتی ہیں۔


پشتے والا ڈیم

پشتے والا ڈیم اس وقت استعمال ہوتا ہے جب اطراف کی چٹانیں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ ٹھوس بنیاد مہیا کرسکیں۔ ٹھوس کنکریٹ کے پشتوں کے سلسلے ڈیم کے بہاؤ کے ساتھ قطار بند ہوتے ہیں اور وہ ضروری طاقت مہیا کرتے ہیں جسے ان کو تھام کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پشتے ڈھانچے میں وزن کا اضافہ کرتے ہیں اور سطح کو دھکیلتے ہیں اور ڈیم میں مزید لنگر کاری کرتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر سہارا پشتوں سے ملتا ہے لہٰذا ڈیم کی دیوار یا تو چپٹی ہوتی ہے یا پھر خم دار۔

بند والا ڈیم

زمین کے بند سے بنے یہ ڈیم اپنے زبردست وزن اور ڈھلوانی صورت پر پانی کو روکنے کا انحصار کرتے ہیں۔ کنکریٹ، پلاسٹک یا کسی بھی دوسرے مادّے کی بھی ایک دشوار گزار پرت بہاؤ کی طرف ہوسکتی ہے بشرطیکہ زمین پر ذرّات کا حجم اتنا ہو کہ اس میں سے پانی رس سکے۔ مٹی سے بھرے ڈیم مکمل طور پر کسی ایک مادّے کی قسم سے الگ بنائے جاسکتے ہیں تاہم ان کو ایک ایسی پرت کی ضرورت ہوتی ہے جو رستے ہوئے پانی کو جمع کرکے نکاسی کرسکے تاکہ ساخت کی بناوٹ کو قائم رکھنے کو یقینی بنا سکے۔

محرابی ڈیم

تنگ چٹانی آبی راستوں کے لئے جس میں کھڑی دیواریں ہوتی ہیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ ڈھانچے کو سہارا دے سکیں، یہ ٹھوس کنکریٹ کے ڈھانچے ہوتے ہیں جو بہاؤ کے مخالف خم دار ہوکر محراب کو بناتے ہیں۔ پانی کا دباؤ ڈھانچے کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لئے یکساں تقسیم ہوتا ہے بعینہ جس طرح ایک محرابی پل ہوتا ہے۔ ڈیم کا وزن اس کو زمین پر دھکیلتا ہے اور یوں اس کو مضبوط کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ مثالیں جو افقی اور عمودی دہری خم دار ہوتی ہیں ان کو اکثر گنبدی ڈیم کہا جاتا ہے۔


ڈیم کی تاریخ

سب سے پہلا ڈیم ثقلی ڈیم تھا جو صرف راج مزدوروں نے بنایا تھا۔ قدیم مصری پہلے لوگ تھے جنہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ڈیم سیلابوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ 2650 قبل مسیح میں بڑے بند والے ڈیم پر کام شروع ہوا جس کو سد الکفرہ کہتے ہیں۔ 110 میٹر (360 فٹ) لمبا اور 14 میٹر (46 فٹ) اونچا یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہوتا تاہم اس کے بننے سے پہلے ہی سیلاب نے اس کو تباہ کردیا۔ تقریباً 2000 قبل مسیح میسوپوٹامیا میں مرڈک ڈیم سب سے پہلا بند والا ڈیم تھا جس کا مقصد سیلاب کی روک تھام اور فصلوں کو پانی دینا تھا۔

رومیوں نے ڈیموں کی تعمیر کو اپنایا وہ ان کا استعمال کرتے ہوئے پانی کو نئے طریقوں سے ذخیرہ، تقسیم اور منتقل کرتے تھے - اور کم از کم آج بھی دو رومی ڈیم استعمال ہورہے ہیں۔ جدید ڈیم کی تعمیر انیسویں صدی کے وسط میں اس وقت زورو شور سے شروع ہوئی جب ساختی نظریہ اور مادّی سائنس کے علم کی روشنی چمکی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
پاور اسٹیئرنگ کیوں کام کرتا ہے؟

اس باکمال نظام نے اصل میں اسٹیئرنگ کو دوبارہ سے ایجاد کیا ہے



جب پہیے کو گھمایا جاتا ہے تو پاور اسٹیئرنگ اضافی قوت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ہائیڈرالک (مائع [جیسے تیل یا پانی]کے تنگ نلی سے گزرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ سے چلنے والے) نظام کے ذریعہ کام کرتا ہے جہاں انجن سے نکلنے والی پٹی میں پمپ ہائیڈرالک سیالی دباؤ پیدا کرتا ہے۔ یہ سیالی دباؤ سلنڈر کے اندر پسٹن کو حرکت دیتا ہے جو چرخی اور گراری والے اسٹیئرنگ نظام میں لگے ہوئے گیئرز پر طاقت لگاتے ہیں۔ جب ڈرائیور اسٹیئرنگ وہیل کو موڑتا ہے تو یہ سلنڈر میں والو کو کھول دیتا ہے جس سے اس میں سیال داخل ہو جاتا ہے اور پسٹن کو حرکت دیتا ہے جس سے اضافی قوت پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال ہائیڈرالک سے چلنے والا اسٹیئرنگ اس پمپ کی وجہ سے انجن پر اضافی کھنچاؤ پیدا کرتا ہے جس کا مطلب ہوا کہ انجن کی کارکردگی (اور ایم پی جی بھی) کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کنندگان نے برقی قوت سے چلنے والا اسٹیئرنگ بنایا ہے (ای پی اے ایس)۔ یہ اسٹیئرنگ کے شکنجے کے اوپر لگی برقی موٹر کے ذریعہ کام کرتا ہے اور اسٹیئرنگ کو گولائی میں انجن سے آزادانہ طور پر کام کرنے پر مجبور کرتا ہے اس طرح سے ایندھن کی بچت ہوتی ہے۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہیلی کوپٹر کیسے اڑایا جاتا ہے؟

وہ کون سی چیز ہے جو آپ کو اس قسم کی منفرد ہوائی سواری کو اڑانے کے قابل بناتی ہے




انجینئرنگ کے اس ناقابل یقین شاہکار کو اڑانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کو اڑانے کے لئے زبردست ذہنی اور جسمانی ارتباط کی ضرورت ہوتی ہے؛ پرواز کے کنٹرولز کو چلانے کے لئے ہر ہاتھ اور پیر کو ایک دوسرے سے الگ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی بھی ممکنہ پائلٹ کے لئے اوّلین شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پائلٹ بننے کی تربیت میں کافی وقت اور پیسہ درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ تجارتی پرواز اڑانا چاہیں تو اس کے لئے عام طور پر 1,000 رجسٹرڈ پروازی گھنٹے اور بے شمار تحریری امتحان درکار ہوتے ہیں۔​
مصنف: Zuhair Abbas
 
Top