چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
ملٹی کاپٹر کس طرح سے اڑان بھرتے ہیں ؟

سائنس اور ٹیکنالوجی جس نے تجارتی ڈرونز کو ہوا میں محو پرواز کیا


ڈرونز جن کو بغیر انسان کی ہوائی گاڑیاں یا یو اے ویز بھی کہا جاتا ہے عسکری استعمال میں موجود دیوہیکل مشینوں سے لے کر ان کھلونوں تک جن کو آپ اپنے گھر میں اڑاتے ہیں، تک ہر قسم کی صورت اور حجم میں بنائی جاتی ہیں، ۔ بہرحال یہ تمام کے تمام دور سے بیٹھ کر ہی چلائے جاتے ہیں تاہم جن طریقوں کا استعمال کرکے یہ ہوا میں اڑتے ہیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں ۔

معمول کے ہوائی جہاز کی طرح اڑنے والے ڈرونز انجن یا دھکیلو کا استعمال کرتے ہیں تاکہ دھکیل پیدا ہو سکے، یہ ان کو آگے کی طرف دھکا دیتے اور ہوا کو تیزی سے پروں کے اوپر سے بہاتے ہیں ۔ پروں کی خمیدہ صورت ہوا کو موڑتی ہے جس سے اوپر اور نیچے ہوا کے دباؤ میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ جب پر کے نیچے ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے تواس سے اٹھان پیدا ہوتی ہے جو ڈرون کو اوپر کی طرف اٹھاتی ہے۔

بہرحال وی ٹی او ایل (عمودی اٹھان اور نزول) ڈرونز کو اڑنے کے لئے رن وے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ دھکیل کو نیچے کی طرف بھیجنے کے لئے انجن یا دھکیلو کا استعمال کرتے ہیں جس سے اٹھان پیدا ہوتی ہے اور ان کو زمین سے بلند کر دیتی ہے۔ یہ طریقہ تجارتی ڈرونز کا پسندیدہ ہے اور اکثر ملٹی کاپٹرز میں استعمال کیا جاتا ہے۔

ان چھوٹی اڑنے والی مشینوں میں چار یا اس سے زیادہ افقی دھکیلو پنکھے ہوتے ہیں جو کافی زیادہ دھکیل پیدا کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ زمین سے اوپر معلق ہو جاتے ہیں۔ دھکیلو پنکھے مخالف سمت میں گھومتے ہیں تاکہ ملٹی کاپٹر کے گھماؤ کو قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے۔ ان کو ڈرونز کی سمت تبدیل کرنے کے لئے بھی ان کی رفتار کو بڑھا یا کم کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے جس پر مخصوص دھکیلو پنکھے گھومتے ہیں۔ مثال کے طور پر بائیں طرف دھکیلو پنکھے کو تیزی سے گھما کر وہ اس طرف مزید اٹھان پیدا کر سکتے ہیں جس سے ڈرون بائیں طرف جھک جاتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چاکلیٹ فاؤنٹین کی طبیعیات

دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے دعوت ضیافت کا اہم مزیدار حصّہ آپ کو مائع کی حرکیات کے بارے میں کیا سکھاتا ہے



دعوتوں میں مزیدار ضیافت سے تواضع کرنے کے علاوہ چاکلیٹ فاؤنٹین غیر نیوٹنی مائع کی سائنس کو سمجھنے کے لئے بھی مفید ہیں - غیر نیوٹنی مائع وہ مائع ہوتے ہیں جن کی لزوجیت تغیر پذیر ہوتی ہے اور جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان پر کتنی قوت - حرکت - لگائی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن میں ریاضی کے طلباء نے اس موضوع پر ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے مزیدار پگھلی ہوئی چاکلیٹ کے بہاؤ کا مختلف طریقوں سے مشین کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوران تجزیہ کیا۔

پہلے ایک پمپ دباؤ کو پیدا کرتا ہے تاکہ چاکلیٹ کو اوپر مرکزی پائپ میں پھینک سکے پھر وہ اس کو مہین کرتا ہے تاکہ وہ گنبد نما چیز سے باہر بہہ سکے۔ بہرحال سب سے زیادہ دلچسپ حصّہ اس چیز سے متعلق ہے کہ اس کے بعد کس طرح سے چاکلیٹ چلمن کی طرح آبشار کی صورت نیچے گرتی ہے۔ بجائے براہ راست نیچے پیالے میں گرنے کے چاکلیٹ فاؤنٹین کے وسط میں کھنچتی ہے۔ یہ بعینہ ایسا ہی ہے کہ جیسے نیوٹنی سیال پانی کے ساتھ پانی کی گھنٹی میں کرتا ہے، جس سے طلباء نے نتیجہ اخذ کیا کہ سطحی دباؤ کی وجہ سے ترچھا بہاؤ پیدا ہوتا ہے قلم کے اوپر ایک سکہ رکھ کر اس کو نلکے کے نیچے عمودی رکھ کر آپ اپنی خود کی پانی کی گھنٹی بنا سکتے ہیں جس میں پانی گھنٹی کی صورت میں قلم کے گرد بہنے لگے گا ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
اڑن تختہ



وہ اڑن تختہ جو اصل میں آپ خرید سکتے ہیں

آخر کار! ایک اڑن تختہ جو پتھریلی زمین اور پانی کے اوپر اڑ سکتا ہے


2015ء میں جب لیکسس نے اپنے مستقبل کے ہموار اڑن تختے سے پردہ کشائی کی تو لوگوں کو خاصی مایوسی ہوئی کیونکہ وہ صرف خاص مقناطیسی راستوں پر ہی معلق رہ سکتا تھا اور عام فروخت کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ تاہم اس برس بیک ٹو دی فیوچر II کا خواب بالآخر حقیقت کا روپ دھار گیا کیونکہ اے آر سی اے اسپیس کارپوریشن نے ایک ایسے تجارتی آلے پر سے پردہ اٹھایا ہے جو کسی بھی علاقے میں معلق رہ سکتا ہے۔

آرکا بورڈ 36 ہوائی پنکھوں کا استعمال کرکے اتنی قوت دھکیل کو پیدا کرتا ہے جس سے اس تختے کو زمین سے 30 سینٹی میٹر تک کی اٹھان مل جاتی ہے۔ پنکھے برقی موٹرز سے چلتے ہیں جس میں سے ہر ایک کو قوت لیتھیم - آئن پولیمر کی بیٹری سے ملتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک سے زیادہ بیٹریوں نے کام کرنا چھوڑ بھی دیا یا موٹرز نہیں چلی تب بھی تختے کے پاس اتنے فعال پنکھے موجود ہوں گے جو اس کو ہوا میں معلق رکھیں گے۔ بیرونی فریم فضائیات کے درجہ کے مرکب مادّوں سے بنا ہے جس سے اس کو ناقابل تصور طور پر سبک بنا دیتا ہے، اور اس میں نظام کو توازن بخشنے کے لئے ایک پہلے سے بنا ہوا نظام بھی موجود ہے۔ جب اس کو چلایا جاتا ہے تو آپ اس اڑن تختے کو اپنے فون سے بذریعہ بلیو توتھ اڑا سکتے ہیں، تاہم آپ فون سے اڑانے کی سہولت کو بند کر کے اپنے جسم کی حرکت سے بھی اسے چلا سکتے ہیں جس طرح سے اسکیٹ بورڈ کو چلایا جاتا ہے۔ رفتار کو قابو کرنے والے حساسئے آرکا بورڈ کی رفتار کو 20 کلومیٹر فی گھنٹہ تک محدود رکھتے ہیں، اور اگر آپ حادثاتی طور پر اس پر سے اڑنے کے دوران گر جائیں تو یہ اس تختے کو سیدھا رکھتے ہیں۔

بدقسمتی سے فی الوقت یہ ایک مرتبہ چارج ہونے پر صرف چھ منٹ تک ہی چل سکتا ہے، تاہم خصوصی آرکا ڈوک وائرلیس چارجر اس کو دوبارہ پوری توانائی صرف 35 منٹ میں دے دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس مکمل بنڈل کی قیمت 19,900$ (تقریباً 13,900£) ہے اور پہلا تختہ اپریل 2016ء سے بازار میں دستیاب ہو گا۔

 

زہیر عبّاس

محفلین
زلزلے کیوں آتے ہیں؟

زلزلے کیوں آتے ہیں؟


تباہ کن مظہر کے پیچھے جو زمین کو حرکت دیتے ہیں


زلزلے اس پیدا ہوئے دباؤ کی وجہ سے آتے ہیں جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ارضی سختائے ہوئی پرتیں (Plate tectonic) آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ پرتیں ایک دوسری سے پھسلتی ہوئی ٹکراتی ہیں اور توانائی کی عظیم مقدار کو خارج کرتی ہیں، اور زلزلے کی امواج یا لہروں کو زمین میں سے گزارتی ہیں۔ جس نقطہ پر دراڑیں پیدا ہوتی ہیں وہ اکثر سطح زمین سے کئی کلومیٹر نیچے ہوتا ہے جس کو زیر مرکز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نقطہ کے براہ راست سطح زمین کے اوپر کا علاقہ بر مرکز یا زلزلے کا مرکز کہلاتا ہے، یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سب سے زیادہ تباہی پھیلتی ہے۔ زلزلے کی مختلف نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں جن کا انحصار رخنی خط (fault line) پر ہوتا ہے، تاہم جب زلزلے پانی کے اندر آتا ہے تو یہ ایسی لہروں کو جنم دیتا ہے جو عظیم تباہی پھیلانے کی اہل ہوتی ہیں – ان کو سونامی کہا جاتا ہے۔​




 

زہیر عبّاس

محفلین
کیڑا پانی پر کیسے چلتا ہے؟



کیڑا پانی پر کیسے چلتا ہے؟

کیڑے کا پانی پر تیرنے کا راز ہوا آشکار

لقمہ ماہی کو خون چوسنے والے کیڑوں کی جماعت میں درجہ بند کیا جاتا ہے اور یہ یا تو تازہ پانی کے اوپر یا اس کے ارد گرد رہتے ہیں۔ پانی سے زیادہ موٹے ہونے کے باوجود، یہ پانی کی سطح پر ڈوبے بغیر تیرتے رہتے ہیں۔ ان کے پیر اس طرح سے مڑتے ہیں کہ پانی کی صورت لچک دار ورق کی طرح بگڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ اس کے ننھے بال ہوتے ہیں جو پانی کی سطح اور اس کی ٹانگوں کے درمیان ہوا کے بلبلے کو قید کر لیتے ہیں۔ اس کی درمیانی ٹانگیں چپو کی طرح کام کرتی ہیں جس سے یہ حرکت کر سکتا ہے، جبکہ اس کی لمبی پچھلی ٹانگیں اس کو مڑنے بلکہ جب یہ پانی پر پھسلتا ہے تو روکنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔ اس کی اگلی ٹانگیں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ یہ اپنے راستے میں آنے والے شکار کو زندہ یا مردہ پکڑ سکتا ہے۔ جس رفتار سے لقمہ ماہی چلتا ہے اس وجہ سے یہ خود شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔​



 

زہیر عبّاس

محفلین
لیگرینج نقاط اور انکا استعمال

جانئے کہ کس طرح سے لیگرینجین نقاط کائناتی توازن کو برقرار رکھنے کے قابل بناتے ہیں



زمین اور سورج جیسے اجسام جو ثقلی طور پر بندھے ہوتے ہیں ان کے درمیان پانچ ثقلی طور پر پائیدار علاقے موجود ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں ان دونوں جسم کی ثقلی قوت ایک دوسرے کو زائل کر دیتی ہے اور کوئی بھی چیز جو ان علاقوں میں موجود ہو گی جن کو لیگرینجین نقاط (یا سادہ طور پر لیگرینج نقاط) کہتے ہیں، وہ ساکن رہے گی۔

لیگرینجین نقاط دلچسپ ہوتے ہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ خلائی کھوج کے لئے ناقابل تصور طور پر مفید ہوتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ یہ کہاں واقع ہوتے ہیں چلیں زمین اور سورج کے نظام کا تجزیہ کریں۔ زمین، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، سورج کے گرد ایک مستحکم مدار میں ہے۔ ہمارا سیارہ اور ستارہ ایک دوسرے کو کھینچ رہے ہیں۔ جب آپ زمین سے دور سفر کرنا چاہیں گے تو سیارے کی ثقل آپ کو واپس کھینچ لے گی۔ اسی وقت بہرحال سورج کی ثقل آپ کو نظام شمسی کے اندرون کی طرف کھینچے گی۔ زمین سے دور سورج کی سمت میں سفر کرنے سے آپ سورج میں گر سکتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر آپ زمین سے تھوڑے فاصلے پر اس رفتار سے سفر کریں جو سیارے کی ثقل سے فرار کے لئے کافی نہ ہو تو آپ واپس کھینچ لئے جائیں گے۔

بہرحال زمین اور سورج کے نظام کے گرد بلکہ اس طرح کے کسی بھی نظام میں جیسا کہ زہرہ اور سورج میں کچھ ایسے نقاط موجود ہوتے ہیں جہاں ہر جسم کی ثقل لامحالہ طور پر 'زائل' ہو جائے گی۔ تصویر میں آپ ان علاقوں کو دیکھنے کے قابل ہوں گے جہاں یہ نقاط واقع ہوتے ہیں۔

لیگرینجین نقاط کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی جسم ان میں رکھا جائے تو وہ ساکن رہے گا، اگر وہ پہلے سے ہی حرکت میں نہ ہو تاوقتیکہ وہ کسی اور چیز پر ردعمل نہ ظاہر کرے۔ یہی بات لیگرینجین نقاط کو کئی خلائی جہازوں کے لئے رکنے کی اہم جگہ بن جاتی ہے۔

ثقلی طور پربے اثر خلاء​


پچھلے چند عشروں کے دوران کئی خلائی جہازوں نے زمین اور سورج کے نظام کے لیگرینجین نقاط بطور خاص ایل 1اور ایل 2 کا استعمال کئی وجوہات کی بنا پر کیا ہے ۔

ایل 1 زمین اور سورج کے درمیان پائیداری والا ایک علاقہ ہے۔ سورج کا مشاہدہ کرنے والی دوربینوں کے لئے یہ اہم جگہ ہے کیونکہ یہاں سے زمینی مداخلت کے بغیر پورے برس سورج کا مکمل نظارہ حاصل کر سکتی ہیں۔ مزید براں ان کو اس مقام پر رہنے کے لئے زیادہ ایندھن بھی نہیں پھونکنا پڑتا ہے۔

ایل 2 زمین کے سامنے خلائی رصدگاہوں کے لئے اچھی جگہ ہے کیونکہ وہ وہاں سے کائنات کا نظارہ زمین کی کسی بھی رکاوٹ کے بغیر کر سکتی ہے۔ اس کو مستقبل کے خلائی اسٹیشن کے لئے بھی کہا جاتا ہے جس کو نظام شمسی میں مزید آگے جانے والے انسان بردار خلائی جہاز کے لئے 'رکنے کی جگہ' کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اسی دوران لیگرینجین نقاط ایل 4 اور ایل 5 کئی سیارچوں کی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں اور ان کو مستقبل کے سیارچوں پر سفر کرنے والے خلائی جہاز کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لئے مددگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
پہاڑوں پر کاشتکاری



مرتفعی کھیتی یا پہاڑی چبوتروں پر کھیتی کرنا ایک قدیم مہارت ہے جو فصلوں کو اگانے اور پہاڑی مٹی کی صحت کو قائم رکھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، نظام کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ نمی اور معدنیات زمین میں ہی قید رہیں۔ کسان خشک زمین، کھڑی یا زیادہ بارانی علاقے میں اپنی فصل کی پیداوار کو بڑھانے اور کٹاؤ سے ہونے والے نقصان سے بچانے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک چبوترے کا نظام کثیر پودوں کے بچھونے کی قطاروں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک پہاڑ یا پہاڑی کی دوسری جانب ایک دوسرے کے اوپر ہوتی ہے۔ ہر علاقہ جھکی ہوئی دیوار سے سہارا لیتا ہے - عام طور پر خشک پتھروں کی ساخت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ مٹی کی سطح اور معدنیات کی بندش بہاؤ کو محدود کر کے برقرار رکھے۔ اس کے علاوہ خشک علاقوں میں، دیواریں وہاں موجود محدود نمی کو بھی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔

مرتفعی کھیت یا پہاڑی چبوتروں پر بنے کھیتوں کی دو اہم اقسام ہیں۔ پہلی قسم رکاوٹی پہاڑی چبوترے ہیں جو کم بارانی علاقوں میں استعمال ہوتے ہیں اور اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ کو ممکنہ حد تک روک کر رکھا جائے جو بعد میں فصلوں کو آب پاشی کے کام آتا ہے یا پھر نیچے موجود پہاڑی چبوتروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ دوسری قسم درجہ بند مرتفعی کھیت یا پہاڑی چبوترا ہے جو ذرا ڈھلان کی طرف بنایا جاتا ہے اور اس کا مقصد پانی کے بہاؤ کو روک کر کاریز میں لے جانا ہے تاکہ وہ دوسری سطحوں کو بہا کرنہ لے جائے۔ زیادہ تر چبوترے والے کھیت میں ان دونوں اقسام کا استعمال ہوتا ہے۔

چبوترے کا نظام فصلوں کی منضبط آب پاشی کو کھیت کے علاقوں میں کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ کام گہری نالیوں سے حاصل کیا جاتا ہے جو مقید پانی کو بتدریج قطرہ قطرہ کر کے مرحلہ وار قطاروں میں قوت ثقل کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بھیجتی ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟

فلپائن سلسلہ کوہ کے چاول کے معلق باغ یونیسکو کاعالمی ثقافتی ورثہ ہیں۔


پہاڑوں پر کاشت کاری سے متعلق پانچ اہم حقائق

1 انکا سلطنت​

جنوبی امریکہ کی انکا تہذیب بڑی حد تک عظیم شہر جیسے کہ ماچو پیچو مرتفعی باغ کی پشت پر بنی ہے جو اپنی پیدا کردہ خوراک سے اس کو سہارا دیتے تھے۔
2 معلق باغات​

بابل کے افسانوی معلق باغات مصوری میں اکثر مرتفع کے طور پر دکھائے جاتے ہیں جس میں ایک کے اوپر ایک پرت کا سلسلہ حاری نباتات اور جانوروں کی کفالت کرتا ہے۔
3 چاول کی دھن​

پوری دنیا میں مرتفعی کھیتی مختلف فصلوں کو اگانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ان میں گندم اور زیتون شامل ہیں بہرحال چین اور جنوب مشرق ایشیا میں اب تک سب سے زیادہ عام چاول ہے۔
4 اینڈیز نژاد​

مرتفعی کاشت کاری کئی صدیوں سے استعمال میں ہے تاہم خیال ہے کہ اس کی ابتداء جنوبی امریکہ میں واقع انڈیز پہاڑیوں کے واری لوگوں نے کی تھی۔
5 بحالی​

پیرو، جنوبی امریکہ میں فی الوقت کافی بڑا بحالی کا پروگرام جاری ہے جس کا مقصد مرتفعی کاشت کاری کا احیاء کرنا ہے جو کافی عرصے سے ناقابل استعمال ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
بغیر پنکھڑیوں کا پنکھا



کس طرح سے ایک دائرہ بغیر متحرک حصّوں کے ہوا کو پیدا کر سکتا ہے ؟



ظاہری صورت پر مت جائیے ایک بغیر پنکھڑی کے نظر آنے والے پنکھے میں اصل میں ایک مخفی پنکھا اس کی جسم کے اہم حصّے کے اندر موجود ہوتا ہے۔ تاہم جس طرح سے یہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پیدا کرتا ہے وہ عام روایتی پنکھوں سے کافی الگ ہے۔ ایک روایتی پنکھے کی پنکھڑی ہوا کو آپ کی طرف بھیجتے ہوئے اس کو کاٹتی ہے جس سے کافی تلاطم اور شور پیدا ہوتا ہے۔ ایک پنکھڑی کے بغیر پنکھا کافی ملائم، متواتر ہوا کے جھونکے دیتا ہے جو بہت ہی حلم اور خاموشی سے آپ کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔

ہوا کے بہاؤ کے علاوہ بھی بغیر پنکھ کے پنکھے کے کافی زیادہ دوسرے فوائد ہیں۔ وہ ایئر کنڈیشن یونٹس یا روایتی پنکھوں کے مقابلے میں کافی اچھی کارکردگی کے حامل اور آسانی سے صاف ہونے والے ہوتے ہیں۔ ان میں بیرونی گھومنے والی پنکھ بھی نہیں ہوتے جو اکثر و بیشتر بچوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
خسرہ کو سمجھئے

جانئے بچپن کی بدنام زمانہ بیماری کے پیچھے کی حیاتیات اور اس وجہ کو کہ آیا یہ کیوں کبھی بھی نہیں جاتی


چکن پاکس خسرہ منطقہ کے وائرس کی ایک قسم ہے جس سے ہم میں سے اکثریت کا واسطہ بچپن میں پڑا ہے۔ زیادہ تر دس برس سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے، یہ وائرس کھانسی، چھینکنے یا مشترک چیزوں کے استعمال کی منتقلی سے پھیلتا ہے، اسی وجہ سے اسکول اس کے پھیلانے کی اہم جگہ ہیں۔

سب سے زیادہ مشہور علامات میں کھجلانے والے سرخ نشانوں کا ظہور ہے، جن کا حجم 10-20 ملی میٹر (0.4-0.8 انچ) کا ہوتا ہے۔ ان کی حد متغیر ہو سکتی ہے تاہم زیادہ تر صورتوں میں یہ چہرے، بازوؤں، ٹانگوں، پیٹ اور پیٹھ کو ڈھانک لیتے ہیں۔ یہ سیال سے بھرے چھالوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اکثر بخار بھی ان کے ساتھ ہی آتا ہے۔ چھالے پھٹ جاتے ہیں اور کھرنڈ بن کر چند دنوں میں ہی گر جاتے ہیں، تاہم ان کی جگہ لینے کے لئے نئے نشانوں کی لہر آ جاتی ہے، عام طور پر جسم کو دوبارہ صحتیاب ہونے کے لئے ایک سے دو ہفتے کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ خسرہ شاذ و نادر ہی سنگین صورتحال اختیار کرتی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان نشانوں کے کھرنڈ سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے کیونکہ اس سے یہ متعدی مرض مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔

ویکسین صرف انتہائی حالات میں اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کسی فرد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یا وہ خاص طور پر بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

پھیلنے کے بعد، خسرہ مکمل طور پر غائب نہیں ہو جاتی۔ بیماری آپ کے جسم میں خوابیدہ حالت میں ہوتی ہے کیونکہ آپ کے حفاظتی نظام نے اس کو لپیٹ لیا ہوتا ہے۔ متعدی بیماری دوبارہ سے لوٹ آ سکتی ہے اور داپھڑ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اکثر 50 برس کے بعد کے لوگوں میں داپھڑ جسم کے مخصوص حصّوں میں بن جاتا ہے اور علامات واپس آ جاتی ہیں۔ اوسطاً ہر سال برطانیہ میں ہر 1,000 میں سے تین لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔


کیا آپ جانتے ہیں ؟
حاملہ خواتین جو خسرہ سے متاثر ہوتی ہیں وہ پیٹ میں موجود اپنے ہونے والے بچے کو بھی اس بیماری سے متاثر کر سکتی ہیں۔

بالغوں کی خسرہ

90 فیصد بالغ اس سے محفوظ ہوتے ہیں بشرطیکہ پچپن میں ان کو یہ بیماری ہو تاہم یہ بالغوں اور نوجوانوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر آپ کو بعد میں کسی وقت خسرہ ہو جائے تو تمام علامات زیادہ شدت سے، زیادہ دائمی درد، سر درد اور گلے کی سوزش ہوں گی؛ لہٰذا اس وقت اس کے علاج کی بذریعہ درد کشا اور سکون بخش کریم زیادہ ضرورت ہو گی۔ بیماری بالغوں کو زیادہ ڈرامائی طور پر متاثر کرتی ہے کیونکہ اس وقت تک یہ دوسری اقسام میں بدل چکی ہوتی ہے، جیسا کہ نملۂ منطقی (herpes zoster)
یا زیادہ خراب صورتحال میں دماغ کی سوزش(encephallitis)، مابعد تبخالی عصبی درد ( Post Herpetic Neuralgia )یا نمونیا۔ بہرحال اس طرح کی کسی بھی صورتحال کے وقوع پذیر ہونے کا امکان دس فیصد ہوتا ہے۔​


خسرہ سے متعلق پانچ اہم حقائق

1 ۔نبض پر

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چکن پاکس (خسرہ-لاکڑا کاکڑا- چھوٹی چیچک ) کے دھبے ایشیائی کھانوں میں انتہائی مقبول چھولوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں تاہم اس کا مرغی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

2 ۔مرغی کا بچہ

کیونکہ یہ مرض بوڑھوں کے مقابلے میں بچوں کو زیادہ تنگ کرتا ہے لہٰذا لفظ 'چکن' کا استعمال مرغی کے بجائے بچوں کے مرض کی شہرت کی وجہ سے مستعمل ہوا ہے۔

3 ۔مرغی کو الزام

ماضی میں اس وائرس سے متعلق عمومی خیال تھا کہ یہ دیہی پرندے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بہرحال بعد میں وہ ان الزامات میں مکمل طور پر بے قصور ثابت ہوئی۔

4۔ بزدلانہ بیماری

1755ء میں سیموئیل جانسن کی ڈکشنری میں نام دینے کی وجہ وہ حقیقت تھی جس میں متاثر ہونے والے کی بیماری کو چیچک کے مقابلے میں کم خطرناک بتایا گیا تھا۔

5 چونچ سے مرتبہ

توضیحات میں شاید سب سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ ماضی میں داپھڑ کو اس طرح سے بیان کیا جاتا تھا جیسے کہ مرغی نے متواتر آپ کی جلد پر چونچ ماری ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
زہیر صاحب ایک استدعا یہ ہے کہ کیا ممکن ہے کہ آپ نامانوس اردو اصطلاحات کو واوین میں انگریزی میں بھی لکھ دیں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے، مثلا "تبخالی عصبی درد"۔ اگر اس کی انگریزی ساتھ ہوتی تو یہ اصطلاح سمجھ میں آ جاتی ہے اور یہ بھی علم ہو جاتا کہ تبخالی کس چیز کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور ایسے ہی نملۂ منطقی وغیرہ وغیرہ۔
والسلام
 

زہیر عبّاس

محفلین
زہیر صاحب ایک استدعا یہ ہے کہ کیا ممکن ہے کہ آپ نامانوس اردو اصطلاحات کو واوین میں انگریزی میں بھی لکھ دیں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے، مثلا "تبخالی عصبی درد"۔ اگر اس کی انگریزی ساتھ ہوتی تو یہ اصطلاح سمجھ میں آ جاتی ہے اور یہ بھی علم ہو جاتا کہ تبخالی کس چیز کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور ایسے ہی نملۂ منطقی وغیرہ وغیرہ۔
جی وارث صاحب ضرور ! آئندہ سے خیال رکھوں گا ۔
مراسلے کی تدوین کرکے اس میں انگریزی ساتھ شامل کر دی ہے ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانی کی کمی اور ہمارا جسم

سوال:پانی کے بغیر آپ کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں ؟


الف۔ ایک دن

ب۔ تین دن

ج۔ 70 برس


جواب:زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ تین دن پانی کے بغیر رہ سکتا ہے۔ بہرحال بھارتی پرہلاد جانی کا دعویٰ ہے کہ وہ پانی کے بغیر 70 برس سے رہ رہا ہے۔ یہ متنازعہ عمل 'بریتھرینزم' کہلاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ جسم صرف سورج کی روشنی پر زندہ رہ سکتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟

ہم سرایتی(isotonic) آب ربانی (dehydration)میں ہم جسم میں موجود نمک کے برابر پانی کو ضائع کرتے ہیں تاہم خون میں سوڈیم کی زیادتی کی وجہ سے ہم زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔


دیکھئے اس وقت ہمارے اندر کیا ہوتا ہے جب ہم اپنی پیاس نہیں بجھاتے


صرف سانس لے کر، پسینہ نکال کر اور پیشاب کر کے ایک اوسط آدمی ایک دن میں دس پانی کے کپ ضائع کرتا ہے۔ ہمارا جسم 75 فیصد پانی پر مشتمل ہے لہٰذا پانی کی کمی کا خطرہ اکثر بنا رہتا ہے۔ پانی ہمارے نظام کو قائم رکھنے کے لئے لازمی جز ہے اور یہ لامحدود افعال انجام دیتا ہے۔

جلد کو چکنا رکھنا، فضلے کو نکالنا، اور فشار خون اور کولیسٹرول کی سطح کو قائم رکھنا اس کے اہم کاموں میں سے کچھ کام ہیں۔

بنیادی طور پر پانی کی کمی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کے جسم میں سیال کا اندراج اس کے اخراج سے کم ہو۔ آپ کے جسم میں موجود نمکیات کا تناسب تلپٹ ہو جاتا ہے اور نمک اور شکر کی سطحیں پاگل ہو جاتی ہیں۔ خامری سرگرمی آہستہ ہو جاتی ہے، زہر آسانی سے جمع ہو جاتے ہیں اور سانس لینا مزید مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ پھیپھڑوں کو سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔

بچے اور نو عمر لوگ سب سے زیادہ حساس ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم دوسری عمر کے گروہوں کی طرح لچک دار نہیں ہوتے۔ طویل عرصے سے سفارش کی جاتی رہی ہے کہ دن میں آٹھ گلاس یا دو لیٹر(0.5 گیلن) پانی کو پیا جائے۔ مزید حالیہ تحقیق غیر حتمی ہے کیونکہ اس سے تھوڑا سا زیادہ اور کم دونوں کو صحت مند سمجھا جاتا ہے۔



زیادہ پانی؟​


آبیدگی (Hydration)توازن تلاش کرنے کا نام ہے۔ نمی کی بہت زیادہ کمی یا اضافہ دونوں ہی نقصان دہ ہوتے ہیں ؛ اور یہ تسمیم آب (water intoxication)سے جانی جاتی ہے۔ اگر بہت زیادہ مائع آپ کے جسم میں موجود ہو گا تو وہ غذائی اجزاء جیسا کہ الیکٹرولائٹس اور سوڈیم تحلیل ہو جائیں گے اور نتیجتاً جسم کو نقصان پہنچے گا۔ آپ کے خلیات پھول کر پھیل جائیں گا اور پھٹ بھی سکتے ہیں، اور اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہترین علاج الیکٹرولائٹس پر مشتمل سیال کو درون ورید (IV)سے لے لیا جانا ہے۔ تسمیم آب خون میں سوڈیم کی قلت کی صرف ایک قسم ہے جس میں حد سے زیادہ پسینے کا اخراج، معدے اور گردوں کے مسائل شامل ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
آگمنٹڈ رئیلیٹی (افزودہ حقیقت)

گوگل چاہتا ہے کہ فروزاں حقیقت کے میدان میں گلاس کے ذریعہ انقلاب برپا کر دے


کسی زمانے میں ایسا سمجھا جاتا تھا کہ افزودہ حقیقت کی ٹیکنالوجی ایک دھوکا ہے تاہم اب متنوع فیہ گیجٹز اور برقی آلات کے ساتھ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا ناگزیر حصّہ بنتی نظر آ رہی ہے اور یہ ہمیں اضافی اطلاعات سے مطلع کریں گی۔ مثال کے طور پر -گوگل گلاس کی طرح -اسمارٹ گلاسز پہن کر گم ہو جانا ماضی کا قصہ پارینہ بن جائے گا، براہ راست جی پی ایس، نقشے کو آپ کی آنکھ کے سامنے فوری رکھ دے گا۔ اسی طرح سے جب خریداری کی جاری ہوگی فروزاں حقیقی اطلاعاتی نظام صارف کو ایک مجازی خریداری کی فہرست بنانے یا کھانا پکانے کی ترکیب اور اطلاعات چیزوں کو جائزہ لیتے ہوئے ہی فراہم کر دے گا۔ بلکہ جب کھیل کے مقابلے چل رہے ہوں گے جیسا کہ دائروی گالف، تو اس وقت فروزاں حقیقی اطلاعات کھیل کے مزہ کو دوچند کر سکتی ہیں۔ افزودہ حقیقت شاٹ مارنے سے پہلے ہی براہ راست سوراخ کا فاصلہ، کورس ڈیٹا، اور ہوا کی رفتار/ سمت بتا دے گی۔ اس کے امکانی اطلاقیے لامحدود ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
اینٹی لیزر

ننھا آلہ جو اپنے راستے میں آنے والی لیزر کو روک سکتا ہے


لیزر کی توانائی کو جذب کرنے والے ا یک آلے کو بنانے کی پریشانی کا سامنا کرنے کے بعد ییل میں واقع محققین نے دیکھا کہ کس طرح سے لیزر کی روشنی پیدا کی جاتی ہے اورپھر انہوں نے سادہ طور پر اس عمل کو الٹ دیا۔ 2011ء میں جس چیز کو انہوں نے پیدا کیا وہ پہلی ضد لیزر یا مربوط مکمل جاذب (سی پی اے ) تھا۔

روایتی لیزر نفع مادّہ کہلانے والے جوہروں میں ہیجان برپا کر کے کام کرتی ہے۔ جب یہ ہیجان انگیز جوہر واپس کم ہیجان والی حالت میں آتے ہیں تو وہ ایک جیسی طول موج کے فوٹون خارج کرتے ہیں جس سے تال میل لئے ہوئے روشنی کی امواج پیدا ہوتی ہیں۔ لیزر افزوں گر جوف (laser amplification cavity)کے اندر آئینے ان فوٹون کو آگے پیچھے اچھالتے ہیں جس سے ہیجان انگیز جوہر ایک جیسی طول موج کے فوٹون خارج کرتے ہیں۔ نتیجہ ایک جیسے تعدد اور سمت کی زبردست تعداد میں فوٹون کے اخراج کی صورت میں نکلتا ہے جس سے ایک شدید روشنی کی توانائی کی مرتکز کرن پیدا ہوتی ہے۔

ییل میں مظاہرہ کی گئی ضد لیزر اس بنیادی قدم کو لے کر بدل دیتی ہے۔ سب سے پہلے ایک لیزر کی کرن دو حصّوں میں ٹوٹتی ہے اور ٹوٹنے والی دو کرنوں میں سے ایک کرن کچھ اس طرح تبدیل ہوجاتی ہے جس سے وہ اپنی ساتھی کرن سے ایک قدم آگے آ جاتی ہے۔ دو آنے والی لیزر کی کرنوں کو سلیکان کے ایک چھوٹی سی سل کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ سیلکان کی سطح بطور یکطرفہ دروازے کی طرح کام کرتی ہے جو روشنی کو داخل تو ہونے دیتی ہے لیکن نکلنے نہیں دیتی۔ جب سلیکان کے اندر دو کرنیں اچھلتی ہیں، تو وہ ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے توانائی کو بتدریج ضائع کر دیتی ہیں۔ ہرچند کہ موجودہ تجرباتی نمونہ 99.4 فیصد روشنی کو جذب کر سکتا ہے تاہم نظریاتی طور پر اس کو 99.99 فیصد تک مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

مزید براں مختلف مادوں سے لیزر کی روشنی کے پیدا کرنے کے عمل کو الٹ کر اس تفتیش کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے مادّہ روشنی کو جذب کرتا ہے۔


ہم نے ییل یونیورسٹی کے اطلاقی طبیعیات کے پروفیسر اے ڈگلس اسٹون سے ان کی بنائی ہوئی ضد لیزر جدت طرازی میں ان کے کردار کے بارے میں پوچھا۔​


ایک ضد لیزر میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟

اے ڈی ایس: ہمیں احساس ہوا کہ ضد لیزر کی قوت ایک ایسی قوت تھی کہ جب آپ ایک غیر شفاف مادّے سے روشنی کے درست نمونے کو ٹکراتے ہیں تو وہ مادّے میں سرایت کر کے جذب ہو سکتی ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک نیا اصول ہے۔

اس کے کیا اطلاقیے ہو سکتے ہیں ؟

اے ڈی ایس: فرض کیجئے کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ شمسی خانے کے اندر کیا چل رہا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ خانے میں روشنی کہاں جذب ہو رہی ہے، جمع کرنے والی توانائی کی جگہ پر خانے کا مؤثر پن مختلف ہو گا۔ ہم روشنی کو خانے کے اندر گہرائی میں توجہ مرتکز کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ چیزوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ اگر آپ شمسی خانے کو بے عیب بنانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت زیادہ ولولے والی بات ہو گی اگرچہ اس کی گونج ابھی تک عوام الناس میں نہیں ہوئی ہے !

لہٰذا کیا ضد لیزر کے براہ راست کوئی دفاعی اطلاقیے نہیں ہیں ؟

اے ڈی ایس: جب ہماری تحقیق شایع ہوئی تھی کافی سارے لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ کسی طرح سے لیزر [ہتھیاروں ] سے تحفظ دینے کی چیز ہے۔ ایک آئینہ اس سے محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ بہتر ہے - کسی لیزر کو واپس اچھالنا اس کو جذب کرنے کی کوشش کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ ہم نے جو چیز بنائی ہے وہ منتخب جاذبی تیکنیک ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
خون خوار مچھلی





بظاہر عظیم سفید شارک اور پرینہا ایک جیسی تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ ایک ٹھنڈے بحری پانی میں رہتی ہے جبکہ دوسری جنوبی امریکہ کے آبی راستوں اور جھیلوں میں رہتی ہے۔ ایک مجرد زندگی کو پسند کرتی ہے جبکہ دوسری جھنڈ میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ عظیم سفید شارک میں سب سے بڑی چھ میٹر (20 فٹ) تک لمبی ہو سکتی ہیں جبکہ پریہنا 40 سینٹی میٹر یا (16 انچ) تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ تاہم ان میں ایک چیز مشترک ہو سکتی ہے : خوفناک فلموں نے ان کی شہرت کو تباہ کر دیا ہے۔ بلاشبہ ایک اور خاصیت دونوں مچھلیوں میں ایسی مشترک ہے جو ان کو بدنام زمانہ بناتی ہے : متاثر کن پیسنے والے دانتوں کی جوڑیاں۔ سفید شارک کے برعکس، پریہنا کے جبڑوں میں صرف ایک قطار ہوتی ہے تاہم یہ بات اسے کم تر نہیں بناتی۔ ہر دانت ریزر کی طرح تیز دھار اور مثلثی ہوتا ہے اور یہ قینچی کی طرح لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبڑا بہت ہی طاقت ور پٹھوں کے ساتھ ہوتا ہے جو زبردست چبانے کی طاقت دیتا ہے۔ مل کر ان تمام باتوں کی مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے شکار کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کے گوشت کے ٹکڑے آسانی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔

تاہم صرف اس کے لئے کہ ان کے پاس ترکیبی ذارئع ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ متواتر لوگوں کو ان کی ہڈیوں سے محروم کرنے کے لئے ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ انسانوں پر حملے کرنے کے مندرج واقعات شاذو نادر ہیں - اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ کہ انہیں ہم سے خطرہ ہے کیونکہ ایمیزون کے رہنے والوں کی یہ پسندیدہ خوراک ہے۔ عام طور پر وہ اپنے سے چھوٹوں زیادہ طور پر دوسری مچھلیوں اور کیڑوں کا شکار کرتی ہیں، اس کے علاوہ وہ نہروں میں پہنچنے والے مردہ جانوروں کی صفائی بھی کرتی ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ موقع پرست ہیں، لہٰذا اگر کوئی ہرن یا خرطوم دار ندی کو پار کرتے ہوئے مٹی میں پھنس جائے تو ضیافت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جھنڈ میں رہنے سے نہ صرف تعداد میں محفوظ رہ سکتی ہیں بلکہ جب خوراک کی تلاش کرتی ہیں تو ان کو کامیابی کا زیادہ امکان ملتا ہے۔ عام طور پر وہ طلوع فجر یا نیم تاریکی میں 20 سے 30 انفرادی مچھلیوں کے گروہ میں گھاس کے سائے میں رہ کر شکار کرتی ہیں - تاہم جب موسم گرما میں پانی کی سطح گر جاتی ہے تو گروہ کا حجم دوگنا ہو جاتا ہے۔

مچھلیاں پیچیدہ رابطوں کی صلاحیت کا بھی اظہار کرتی ہیں، اپنے تیرنے والے پروں کو مرتعش کر کے مختلف 'بھونک' اور 'آواز' پیدا کرتی ہیں۔ یہ آواز کے مظاہرے گروہ کے اندر نسل کو آگے بڑھانے اور خوراک کے حقوق پر ہونے والے تنازعات سے خاص طور پر بچاؤ کے لئے بہترین ہوتے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟

'پرینہا' کا نام برازیلی مقامی ٹوپی زبان سے مچھلی ('پری') اور دانت ('رینہا') سے نکلا ہے۔

ایمیزونی قاتل

پرینہا کی خون کی پیاسی کے طور پر شہرت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ تھیوڈور روزویلٹ کے برازیل کے 1913ء کے دورے سے ہوئی تھی۔ اپنے اس دورے کے دوران کہا جاتا ہے کہ اس نے گائے کے ڈھانچے کو مچھلیوں کو سیکنڈوں میں اڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے اپنے اس تجربے کی بابت اپنی کتاب برازیل کے بیابانوں میں سے گزرتے ہوئے میں ذکر کیا جو اگلے برس شایع ہوئی تھی۔ اس نے انھیں ایسا بیان کیا: '۔ ۔ ۔ دنیا کی سب سے خون خوار مچھلی [۔ ۔ ۔ ] وہ پانی میں غفلت سے ڈالے ہاتھ سے انگلی کو چبا جائیں گی، وہ تیراکوں کو مسخ کر دیتی ہیں [۔ ۔ ۔ ] وہ کسی بھی غافل زخمی آدمی یا جانور کو زندہ نگل سکتی ہیں۔ ' اس کے تجربے کی درستگی میں کافی شک و شبہات اٹھائے گئے ہیں تاہم بدنامی تو جڑ ہی گئی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
خود سے توازن قائم رکھنے والی بائیک

جائروزاسکوپ بائیک (گردش نما بائیک)

خود توازن میں رہنے والی سائیکل کے ساتھ کبھی آپ کو اپنے گھٹنوں کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا

جائروبائیک کی سرمایہ کاری کک اسٹارٹر جیسی کراوڈ فنڈنگ سائٹ سے کی گئی جو اس سائٹ پر ہونے والی کسی بھی بچوں کی مصنوعات کے لئے سب سے زیادہ سرمایہ حاصل کرنے والی مصنوع ہے۔

گردش نما اثر(gyroscopic effect) وہ قوت ہے جو کسی جسم کو اس وقت تک گھماتی ہے جب تک کوئی چیز اسے روکتی نہیں۔ بنیادی طور پر یہ نیوٹن کے حرکت کے پہلے قانون کا استعمال کرتا ہے جو کہتا ہے کہ ایک جسم اس وقت تک حرکت میں رہے گا تاوقتیکہ دوسری قوت اس کو تبدیل نہ کر دے۔ جس طرح سے قوت ثقل اجسام کو زیادہ ضخیم جسم کی طرف کھینچتی ہے، گردش نما اثر قرص کو اس کے اصل مقام پر کھینچتا ہے چاہئے اس پر کوئی قوت لگائی بھی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ گھومتے ہوئے لٹو کو دباتے ہیں تو وہ اطراف میں حرکت کرتے ہوئے گھومنا جاری رکھتا ہے۔

جائرو بائیک نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال بچوں کو سواری سکھانے کے عمل میں انقلاپ کو برپا کرنے کے لئے کیا ہے ۔

سی ای او' راب بوڈیل' بتاتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتی ہے : "جب بائیک 14 سے 20 کلومیٹر (8.7 تا 12.4 میل) فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچتی ہے تو وہ زیادہ متوازن ہو جاتی ہے کیونکہ اس رفتار پر پہیے قدرتی طور پر گردش نما ہو جاتے ہیں، " وہ کہتے ہیں۔ "ایک جائرو بائیک میں، بائیک کے سامنے کے پہیہ میں ایک اڑن پہیہ ہوتا ہے جس کا زیادہ تر وزن اس کے باہری کگر میں ہوتا ہے جو بائیک کے پہیے کی حرکت کی نقل کرتا ہے۔ سامنے کے پہیے کے اندر اس اڑن پہیےکو رکھ کر اور بہت تیزی سے گھما کر بائیک جلد ہی 14 سے 20 کلومیٹر (8.7 تا 12.4 میل) فی گھنٹہ رفتار تک کا سفر کرنا شروع کر دیتی ہے جس سے تیز رفتار استحکام ہلکی رفتار پر مل جاتا ہے۔ "

سکھانے کے لئے یہ بہت مدد گار ہے کیونکہ بچے کی جبلت پیڈل کو آہستہ مارنے کی ہوتی ہے۔ "ان کے والدین انہیں بتاتے ہیں کہ تیز چلاؤ کیونکہ بائیک کو پائیداری کے لئے رفتار کی ضرورت ہوتی ہے تاہم جائرو بائیک کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، " بوڈیل اضافہ کرتے ہیں۔ "آپ بچے کی جبلت کے ساتھ چل سکتے ہیں کیونکہ بائیک پائیداری فراہم کرتی ہے۔ " جائرو بائیک 2015ء میں خریداری کے لئے دستیاب ہو گی، لہٰذا اس وقت تک آپ کو نیپیڈ اور جمے ہوئے ہاتھ کی ضرورت ہو گی۔

5 یزیں جو گردش نما کی جدت طرازی استعمال کرتی ہے

گھومتا لٹو​

جب آپ لٹو کو گھماتے ہیں تو وہ بیتابی سے گھومنے پر مصر رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اس کو دھکا دیں گے تو وہ لڑکھڑائے گا نہیں بلکہ اپنی گھماؤ کی حرکت کو خود کو درست رکھنے کے لئے استعمال کرے گا۔ یہ اسی وقت گرتا ہے جب آہستہ ہوتا اور اس قوت کو کھوتا ہے جو اس کو سیدھا رکھے ہوئے ہوتی ہے۔
کمپاس​

جب آپ گردش نما کو آزادی کے ساتھ حرکت کرنے دیتے ہیں تو وہ ایک ہی سمت میں جانا جاری رکھتا ہے، لہٰذا اگر آپ گردش نما کو شمال کی طرح گھمائیں گے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ آلے کو کس طرح موڑ رہے ہیں وہ شمال کی طرف ہی سمت کو برقرار رکھے گا۔
آئس اسکیٹر​

اگر ایک آئس اسکیٹر آہستہ گھومنے کی کوشش کرے گا تو وہ گر یا لڑکھڑا جائے گا۔ اگر وہ اپنے آپ کو تیزی سے گھمائے گا تو وہ گردش نما اثر کی وجہ سے سیدھا کھڑا رہ سکے گا۔ اگر اس کا جسم مرکز سے ہٹ کر ہو گا تب بھی وہ گھوم رہا ہو گا تاہم اس کی حرکت ایک بے قابو لٹو کی طرح ہو گی۔
فرسبی​

ایک فرسبی بنیادی طور پر ایک چپٹی گھومتا ہوا لٹو ہوتی ہے۔ کلائی کا جھٹکا اس کو گھومنے کے لئے ابتدائی قوت دیتا اور چپٹی خط حرکت پررکھتا ہے جبکہ اگر آپ اس کو کلائی کے جھٹکے کے بغیر پھینکیں گے تو وہ ہوا میں قائم رہنے کے لئے تیزی سے نہیں گھومے گی۔
ہوائی جہاز​

افقی طور پر گردش نما کو گھما کر پائلٹ جان سکتا ہے کہ وہ کس درجے پر جھکے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنا رخ اوپر کریں گے تو آلہ تو حرکت کرے گا تاہم گردش نما نہیں لہٰذا پائلٹ کو معلوم ہو جائے گا کہ جہاز اوپر کی طرف جا رہا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
مقناطیس بنائیں

چند چیزوں کی مدد سے کیسے آپ اپنا برقی مقناطیس بنا سکتے ہیں





انتباہ :اگر آپ 18 برس سے کم عمر ہیں تو ان تجربات کو اکیلا مت کیجئے گا، تجربہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بالغ آپ کے ساتھ موجود ہے


1 ۔ تار کو چھیل دیں​

احتیاط سے اپنے آپ کو یا تار کو مت کاٹ لیجئے گا۔۔۔ 2.5 سینٹی میٹر (1 انچ) پلاسٹک کا غلاف تار کے دونوں سروں چھیل کر اتار دیں۔
2 ۔کیل کو تار پر لپیٹ دیں​

کیل کے گرد تار کو اس طرح لپیٹ دیں کہ ہر سرے پر لگ بھگ 20 سینٹی میٹر (8 انچ) کا تار لپٹا ہوا ہو۔
3۔تار کو جوڑ دیں​

تار کے ایک سرے کو بیٹری کے مثبت اور ایک کو منفی کونے سے برقی ٹیپ کی مدد سے حفاظت کے ساتھ جوڑ دیں۔
4۔ اپنا مقناطیس بنائیں​

مبارک ہو، آپ نے اب ایک برقی مقناطیس بنا لیا ہے! اپنی مقناطیسی چیزوں کو اٹھانے کے لئے اس کی جانچ کریں۔

درکار چیزیں​

ڈی بیٹری

لوہے کی کیل

پتلی ملفوف تانبے کی تار

مقناطیسی اجسام جیسا کہ پیپر کلپ



درکار وقت: 15 منٹ

اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے؟

کس طرح سے ایک برقی مقناطیس بنایا جاتا ہے اور وہ کن چیزوں کو اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
صرف ایک سوئی سے کمپاس بنائیں





انتباہ :اگر آپ 18 برس سے کم عمر ہیں تو ان تجربات کو اکیلا مت کیجئے گا، تجربہ کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بالغ آپ کے ساتھ موجود ہے
کمپاس بنانے کے لئے درکار اشیاء​


√سوئی

√مقناطیس

√پتہ

√پانی کا پیالہ

درکار وقت:10 منٹ



اس تجربے سے آپ کیا سیکھیں گے​

کس طرح سے ایک جسم کو مقناطیسی بنا کر آپ اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہیں



1۔ اپنی سوئی کو مقناطیسی بنائیں​

سوئی کو مقناطیس کے ساتھ 50 مرتبہ ایک ہی سمت میں رگڑیں۔ اس سرے پر نشان لگا لیں جو آپ نے رگڑا ہے تاکہ آپ کو شناخت کرنے میں آسانی ہو۔
2۔ اپنا کمپاس بنائیں​

مقناطیسی اجسام عموماً شمال کی طرف رخ کرتے ہیں۔ پانی میں پتے اور کیل کو رکھ دیں تاکہ وہ خود سے گھوم کر سمت کو تلاش کر سکے۔
3۔کمپاس بنانے کے پیچھے کی سائنس​

سوئی کو مقناطیس سے رگڑنے کی وجہ سے اس کے جوہر ترتیب میں آ جاتے ہیں۔ یہ شمال کی طرف رخ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ یہ زمین کے مقناطیسی میدان کے خطوط کی سمت ہے۔​
 
Top