چیف جسٹس آف پاکستان معطل

خرم

محفلین
مہوش بہنا بات آپکی بالکل ٹھیک ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر ووٹ ذات برادری اور وقتی مصلحتوں کی بنا پر دئے جاتے ہیں مگر کیا یہی جواز کافی ہے ایک غیر جمہوری حکومت کے ہونے کا؟ دیکھئے جب لوگوں سے ان کی رائے جاننے کی ضرورت ہی نہیں‌ محسوس کی جائے گی، جب ان کی رائے کا احترام ہی نہیں ہوگا تو وہ بھی ردعمل کے طور پر ارفع نظریات کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ تحریک پاکستان کے وقت مسلمانوں کی شرح خواندگی آج سے بہت کم تھی۔ 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بھاری شکست ہوئی مگر جب انہی لوگوں کو نظریہ پاکستان اور قائداعظم پر یقین پیدا ہوا تو انہی لوگوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے پاکستان بنا دیا۔ آج آپ کسی بھی پاکستانی سے بات کیجئے کسی بھی اچھے نظریہ پر وہ آپ کو یہی کہے گا کہ جی یہ پاکستان ہے یہاں‌کوئی کام ٹھیک نہیں‌ہو سکتا۔ آخر یہ سوچ کہاں‌سے پروان چڑھی؟ جب ہم لوگوں نے میدان ہی ان بدمعاش لوگوں‌کے لئے خالی چھوڑ‌دیا ہے تو لوگ اور کسے منتخب کریں؟ اگر ہم خود ڈرائینگ روموں سے باہر نہ نکلیں اور وصی ظفر جیسے مہذب لوگ عوام کو اپنے ظلم و ستم سے دبائے رکھیں یا اپنی جہالت سے انہیں مسحور رکھیں‌تو یہ تو قانون فطرت ہے۔ خلا چاہے قیادت کا ہو یا کسی اور چیز کا پُر ہو جائے گا۔ اب اگر مجھ جیسے بزعم خود عقلاء صرف اس وجہ سے گھر بیٹھے اعتراض کرتے رہیں کہ لوگ جاہل ہیں اور اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ اپنے اچھے برے کا فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھیں تو میرے خیال میں نقص تو میری سوچ میں ہے۔ لوگوں کو ہمیشہ تحریک کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسی قیادت کی جو اس تحریک کے مقاصد سے مخلص ہو۔ جس دن کوئی بھی انہیں اپنے عمل سے اس خلوص کا یقین دلا دے گا، لوگ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر صرف اسی کو چنیں گے کیونکہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے۔ ملکِ عزیز میں تو یہ حال ہے کہ کہا جاتا ہے کہ شفاف انتخابات صرف 70 میں ہوئے تھے اس کے بعد کبھی نہیں۔ ہر دفعہ ہر انتخاب میں ہمارے ملک کی غیر آئینی قوتوں نے دھاندلی کی اور بندر بانٹ کے ذریعے اپنی من پسند حکومت بنوائی۔ جب آپ لوگوں کی رائے کے ساتھ یہ سلوک کریں گے تو لوگ کیوں اور کس کے لئے ووٹ دیں؟ میرے خیال میں تو اب ایک انتخاب اس نعرہ پر بھی ہو جانا چاہئے کہ آج کے بعد ملک پر فوج کبھی قبضہ نہیں کرے گی اور جو بھی ایسی کوشش کرے گا اس کی سزا موت ہوگی۔ حکومت سازی صرف اور صرف پاکستان کے عوام کا حق ہے اور کسی فرد یا ادارے کو ان سے ان کا یہ حق چھین لینے کا اختیار نہیں۔ جنرل سے لیکر سپاہی تک سب عوام کے ٹکڑوں پر اور ان کی خون پسینے کی کمائی پر پلتے ہیں۔ مالک کو آنکھیں تو کتا بھی نہیں دکھاتا مگر افسوس انہیں اتنی بھی حیاء نہیں۔ ناصرف یہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں بلکہ موقع ملتے ہی کاٹ بھی کھاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طریق ہے جسے سختی سے بدلے بغیر نا پاکستان پاکستان بن سکتا ہے اور نا ہی میں اور آپ بحیثیت ایک پاکستانی کے دنیا میں ایک باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

باقی رہ گئی بات جنرل موصوف کے وژن کی تو ایک عرصہ ہم بھی اسی سراب کی سیر کیا کئے اور ریت کو آبِ شیریں سمجھ کر پیا کئے۔ جب حقیقت منکشف ہوئی تو جانا ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ کہ چور سے آپ گھر کی حفاظت کی امید نہیں کر سکتے۔ قانون شکن کبھی بھی قانون کا رکھوالا نہیں بن سکتا۔ عوام کی امانت پر ڈاکہ ڈالنے والا کبھی بھی امین نہیں ہو سکتا۔ ریاست ہو، گھر ہو یا دفتر سب کی فعالیت اور کامیابی کا راز ہر فرد اور ذمہ دار کے اپنے اپنے دائرہ میں کام کرنے پر ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے وہ اس اکائی اور اس کے نظام کو تباہ ہی کرتا ہے۔
جہاں تک تعلیمی اداروں‌کی بات ہے تو ان میں بہتری کے اقدامات نواز شریف نے کئے تھے، جنرل صاحب موصوف کا اس میں کوئی کمال نہیں۔ ویسے بھی ایسی تعلیم کس کام کی جس کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا ہو؟ تعلیم تو دیں آپ جمہور کی آزادی اور ان کی رائے کا احترام کرنے کی، رشوت ستانی اور چور بازاری کو ختم کرنے کی اور خود آپ ریاست کو ان آدرشوں کے بالکل مخالف اصولوں‌کے مطابق نہ صرف چلائیں بلکہ اس کے مخالف اٹھنے والی ہر آواز کو دباتے چلے جائیں۔ ایسے ماحول میں کیا تعلیم اور کیا تعلیمی ماحول؟ سب گول مال ہی ہے۔
 
Top