ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

جاسم محمد

محفلین
لیکن یہ سوال کہ کسی تمثیلی مشاہدے کے بغیر خون خرابے جیسے سٹرونگلی ویلڈ اور بر محل اعتراض کی استعداد قابل فہم اور اطمینان بخش کیفیت نہیں ۔
مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے آج تک اردو محفل کے اس عجیب رویے کی سمجھ نہیں آئی۔ ایک شخص صرف ایک تھریڈ میں ہی سات بار مجھ پر نہایت سنگین نوعیت کے الزامات لگا چکا ہے۔ ہمارے وحشی معاشرے میں اس قسم کا الزام لگنے سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ اس کے اس سنگین مجرمانہ طرز عمل کے مقابلے میں میں نے صرف باوا جی کا جانشین کہنے جیسی "سنگین غلطی" کر لی تو آپ نے فوراً وہی پرانا "دونوں" والا لفظ داغ دیا کہ غلطی تو جی "دونوں" کی ہے۔
کیا آپ سب کو اتنی عمریں گزار کر بھی offense کے مختلف درجات میں فرق کرنا تک نہیں آیا؟
برا مت منائیں سعد
آپ ایک انتہائی معقول انسان ہیں۔ میں دیکھ چکا ہوں سب۔
آپ کو تنبیہ کا مقصد صرف آپ کو اس دلدل سے دور رکھنا ہے۔
یہ آپ کے شایانِ شان نہیں۔
بھائی یہ یہاں کا پرانا وطیرہ ہے۔ شریر بیشک اپنی شرارت میں اکیلا ہو لیکن ڈانٹ ڈپٹ سب کو برابر پڑتی ہے :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔
بھئی انسانی سوچ کو غذا کی بہر حال ضرورت تو ہمیشہ ر ہتی ہی ہے۔
کیا ارتقاء اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نہیں ہے کہ انسان کو سچ کی تلاش کیوں ہے جب کہ کل کائنات میں ارتقآء کا ہر ہر شاہکار ایک طرح سے ''جھوٹ'' بولتا نظر آتا ہے ۔ شکاری ، مثال کے طور پر شیر ہرن پر حملہ کرنے سے پہلے جھاڑیوں میں چھپتا ہے اور بزبان حال اپنے شکار سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں یہاں ہوں ہی نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔ اسی طرح ہر شکار ہونے والا بھی شکاری سے چھپ کر بزبان حال اسی جھوٹ کا قرض چکا رہا ہوتا ہے اور اس طرح اپنی ''فطرت'' کی تشکیل میں ہر کوئی مگن رہتا ہے ۔دراصل اسی تصور پر نظریہ ء ارتقاء کی ساری بنیادیں قائم ہیں اور ہر مخلوق ،ماسوائےانسان کے، اپنے آپ کو ترقی (یعنی ارتقاء) دے کر اسی ''جھوٹ'' کی ''سچی'' شہادت دیتی نظر آتی ہے ۔
ایک یہ انسان ہی ہے جو ''نہ جانے کیوں'' حق اور سچ کی خاطر اپنی سرشت میں چھپی خواہشات اور ترجیحات کو قربان کرکے کسی ''نادیدہ'' مقام پر فائز ہو کر اپنی '' تکلیف '' کا تکلف برداشت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ اور نظریہ ارتقاء کے ان مسلمہ اصول و ضوابط سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے جو کل کائنات کی ہر سمت میں جاری و ساری ہیں ۔
جہاں سائنس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مذہب کی ضرورت اور کردار کا آغاز ہوتا ہے ۔ اگر آپ مذہب کو سائنس کی آنکھوں سے دیکھیں گے تو منطق تو کیا آپ کو انسان کی انسانیت کی بھی شاید ہی نظر آئے ۔
انسان کا کمال عین یہی ہے کہ ہر چیز کو پہچان کر اسے اس کے حقیقی مقام پر رکھنا سیکھ جائے ۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
ایک یہ انسان ہی ہے جو ''نہ جانے کیوں'' حق اور سچ کی خاطر اپنی سرشت میں چھپی خواہشات اور ترجیحات کو قربان کرکے کسی ''نادیدہ'' مقام پر فائز ہو کر اپنی '' تکلیف '' کا تکلف برداشت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ اور نظریہ ارتقاء کے ان مسلمہ اصول و ضوابط سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے جو کل کائنات کی ہر سمت میں جاری و ساری ہیں ۔
اسے جنون بھی کہا جا سکتا ہے۔ دو سال قبل دماغ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جواری اور نشئ دونوں کا دماغ ایک جیسا کام کرتا ہے۔
جواری اور نشئی کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اچھا نہیں کر رہا۔ البتہ جوئے یا نشہ کی لت میں مبتلا ہو کر ذہن سے تمام منطقی سوچ جاتی رہتی ہے۔ اور یوں جنونیت غالب آجاتی ہے۔
Gambling addiction triggers the same brain areas as drug and alcohol cravings: Gambling addiction activates the same brain pathways as drug and alcohol cravings, suggests new research
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں سائنس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مذہب کی ضرورت اور کردار کا آغاز ہوتا ہے ۔ اگر آپ مذہب کو سائنس کی آنکھوں سے دیکھیں گے تو منطق تو کیا آپ کو انسان کی انسانیت کی بھی شاید ہی نظر آئے ۔
مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد نہیں جب تک دونوں اپنے اپنے ڈومین تک محدود رہیں۔
آپ کو مادی دنیا کے علوم سیکھنے ہیں تو سائنس پڑھیں۔
آپ کو انسانی اخلاقیات اور اعلیٰ طرز معاشرت سیکھنی ہے تو مذہب و دین کو پڑھ لیں۔
ٹکراؤ وہاں پیدا ہوتا ہے جب آپ مذہب کی آنکھ سے مادی دنیا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یا سائنس کی آنکھ سے انسانی اخلاقیات و اعلیٰ طرز معاشرت پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔
ہمیں بھی بہت سے منطقی سوالات کا جواب نہیں مل سکا۔۔۔
امید ہے آپ کی سائنس ضرور دے گی۔۔۔
ایک یہ کہ ہم اپنی مرضی کے خلاف خود بخود کیوں پیدا ہوئے؟؟؟
اپنی مرضی کے خلاف کیوں مریں گے؟؟؟
مرنا کیوں ضروری ہے ہمیشہ کی زندگی کیوں نہیں ملتی؟؟؟
بلاوجہ پیدا ہونا اور بلاوجہ خاک ہوجانا، اس بے مصرف زندگی کا کیا مقصد ہے؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
کس چیز سے ارتقاء ہو؟؟؟
صرف معلومات کے لیے سوال ہے!!!
تمام موجودہ انواع کا سابقہ انواع سے ارتقا ہوا ہے۔مکمل تفصیل کیلئے یہ چارٹس ملاحظہ فرمائیں۔
evolution-tree-of-life-poster_1024x1024@2x.png

81fwUociBqL._SL1200_.jpg
 

جان

محفلین
جہاں سائنس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مذہب کی ضرورت اور کردار کا آغاز ہوتا ہے ۔
میری رائے میں 'سائنس' خدا کے تخلیق کردہ نظام کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا نام ہے اس لیے سائنس کو مذہب یا خدا کے مقابل کھڑا کرنا ہی درست نہیں۔ ایسا کر کے ہم سائنس کے وجود کو اس کی اوقات سے زیادہ 'خیالی اہمیت' دینے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور پھر خدا یا مذہب مقابلہ سائنس کے مناظرے پہ جت جاتے ہیں اور سائنس کو خدا کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اہمیت نے اس وقت جنم لیا جب مذہبی علماء کی کائنات کے بارے ذاتی و تصوراتی تشریحات پر کھوج شروع ہوئی تو نتائج ان تشریحات کے برعکس تھے جس سے یہ گمان پیدا یونا شروع ہوا کہ 'مذہب' نے ابھی تک انہیں دھوکے میں رکھا اور مسائل کا حل سائنس میں ہے۔ اس لیے میری رائے یہی ہے کہ مذہبی علماء کو کائنات کے بارے مذہب کی حتمی تشریح پہ ڈٹ نہیں جانا چاہیے، اسی سے مسائل کی ابتدا شروع ہوتی ہے!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ایک یہ کہ ہم اپنی مرضی کے خلاف خود بخود کیوں پیدا ہوئے؟؟؟
اپنی مرضی کے خلاف کیوں مریں گے؟؟؟
مرنا کیوں ضروری ہے ہمیشہ کی زندگی کیوں نہیں ملتی؟؟؟
بلاوجہ پیدا ہونا اور بلاوجہ خاک ہوجانا، اس بے مصرف زندگی کا کیا مقصد ہے؟؟؟
یہ سوال انسانوں سے متعلق ہے۔ البتہ دنیا میں ایسی انواع بھی موجود ہیں جو مرتی نہیں۔
مثال کے طور پر ایک Hydra نامی مچھلی ہے جس کے بدن کا کوئی بھی حصہ کاٹ دیں تو وہ پورا جسم وہیں سے پیدا کرنے پر قادر ہے جہاں سے کاٹا گیا تھا۔ اس مچھلی کے جسم میں تمام سیلز فطری طور پر از خود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یوں اسے دیگر انواع کی طرح بڑھاپا نہیں آتا اور نہ ہی موت۔ نیز یہ اپنے بچے پیدا کرنے کیلئے نر و مادہ کی محتاج بھی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میری رائے میں 'سائنس' خدا کے تخلیق کردہ نظام کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا نام ہے اس لیے سائنس کو مذہب یا خدا کے مقابل کھڑا کرنا ہی درست نہیں۔
یہ آپ کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے البتہ حیاتیاتی سائنسدانوں کا موقف نہیں۔
اب تک روئے زمین، ہوا، پانی میں پائے جانے والی زندگی پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس سے تخلیق نامی چڑیا کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ہاں ارتقا کے جا بجا شواہد ضرور ملے ہیں جنہیں اب جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔
اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سائنس اور مذہب کے ڈومین کو بالآخر الگ کر دیا جائے جیسا کہ کسی زمانہ میں ریاست و مذہب کو الگ کر دیا گیا تھا (سیکولر ازم)۔ کیونکہ ان دونوں کا ایک ساتھ اکٹھے چلنا ممکن نہیں رہا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ سوال انسانوں سے متعلق ہے۔ البتہ دنیا میں ایسی انواع بھی موجود ہیں جو مرتی نہیں۔
مثال کے طور پر ایک Hydra نامی مچھلی ہے جس کے بدن کا کوئی بھی حصہ کاٹ دیں تو وہ پورا جسم وہیں سے پیدا کرنے پر قادر ہے جہاں سے کاٹا گیا تھا۔ اس مچھلی کے جسم میں تمام سیلز فطری طور پر از خود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یوں اسے دیگر انواع کی طرح بڑھاپا نہیں آتا اور نہ ہی موت۔ نیز یہ اپنے بچے پیدا کرنے کیلئے نر و مادہ کی محتاج بھی نہیں۔
Hydra مچھلی نہیں ۔ بلکہ ایک سیلن ٹریٹ ھے ۔ اور ریجنریشن کی صلاحیت اور بہت سی مخلوقات میں بھی ہے۔ حتی کہ انسان میں زخم بھرنا بھی اسی صلاحیت کا ظہور ہے۔
ھائیڈرا سے بہت درجے اعلی کے جانور سیلیمینڈر کے پورے لمبس کو ایمپیوٹیشن کے بعد سو مرتبہ اگنے کا مشاہدہ بھی کیا جا چکا ھے۔
انسان میں ارتقاء محض دماغ اور تعقل میں ہی کیوں محدود رھا۔ نہ شیر جیسے ناخن نہ ہاتھی جیسی جسامت نہ چیتے جیسی رفتار نہ مور جیسے رنگ نہ کچھوے جیسا آرمر نہ عقاب جیسی آنکھیں نہ کتے جیسی شامہ طاقت نہ سیلنٹریٹ جیسی ریجنریشن ۔ نہ یہ نہ وہ نہ ۔۔۔۔۔۔ غرض ان سب طاقتوں کے بدلے اسے درد دل اور دماغ سوزی کا جوہر عطا کیا گیا ۔ اس حساب سے انسان ارتقاء نہیں بلکہ انتزال سے وجود میں آیا۔
یہ تو بہت گھاٹے کا سودا ہوا ۔
 

جان

محفلین
یہ آپ کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے البتہ حیاتیاتی سائنسدانوں کا موقف نہیں۔
اب تک روئے زمین، ہوا، پانی میں پائے جانے والی زندگی پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس سے تخلیق نامی چڑیا کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ہاں ارتقا کے جا بجا شواہد ضرور ملے ہیں جنہیں اب جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔
اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سائنس اور مذہب کے ڈومین کو بالآخر الگ کر دیں جیسے کسی زمانہ میں ریاست و مذہب کو الگ کر دیا گیا تھا (سیکولر ازم)۔ کیونکہ دونوں کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا تھا۔
قبلہ یقیناً خدا نے ہر شے تخلیق کی ہے، اب اس کا طریقہ کار اگر 'ارتقائی' ہے تو یہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اگر ہم یہ بھی یقین کر لیں کہ کائنات کا وجود سینگولیریٹی سے ہوا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ سینگولیریٹی کس چیز کے ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اور وہ چیز خود کس چیز کے ارتقاء کے ذریعے وجود میں آئی؟ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے اس لیے بات اس نقطے پہ پہنچ جاتی ہے کہ کائنات چاہے جہاں سے بھی شروع ہو، خود بخود عدم سے وجود میں نہیں آ گئی، یقیناً اس کا خالق موجود ہے اور اس کی مرضی کہ وہ کائنات میں موجود چیزوں کی تخلیق ارتقائی عمل سے گزار کر کرے یا نہ کرے تو لہذا 'ثبوت' کا نہ ملنا اس چیز کی گواہی نہیں ہوتا کہ وہ چیز ہو نہیں سکتی! یہاں 'سیکولرزم' پر بحث نہیں ہو رہی اور اگر ایسا مقصود ہے تو اس پر الگ سے لڑی کھول لیجیے وہاں بحث کر لیں گے!
 
Top