محمد سعد
محفلین
دلچسپ نکتہ ہے۔لیکن یہ سوال کہ کسی تمثیلی مشاہدے کے بغیر خون خرابے جیسے سٹرونگلی ویلڈ اور بر محل اعتراض کی استعداد قابل فہم اور اطمینان بخش کیفیت نہیں ۔
دلچسپ نکتہ ہے۔لیکن یہ سوال کہ کسی تمثیلی مشاہدے کے بغیر خون خرابے جیسے سٹرونگلی ویلڈ اور بر محل اعتراض کی استعداد قابل فہم اور اطمینان بخش کیفیت نہیں ۔
مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔لیکن یہ سوال کہ کسی تمثیلی مشاہدے کے بغیر خون خرابے جیسے سٹرونگلی ویلڈ اور بر محل اعتراض کی استعداد قابل فہم اور اطمینان بخش کیفیت نہیں ۔
مجھے آج تک اردو محفل کے اس عجیب رویے کی سمجھ نہیں آئی۔ ایک شخص صرف ایک تھریڈ میں ہی سات بار مجھ پر نہایت سنگین نوعیت کے الزامات لگا چکا ہے۔ ہمارے وحشی معاشرے میں اس قسم کا الزام لگنے سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ اس کے اس سنگین مجرمانہ طرز عمل کے مقابلے میں میں نے صرف باوا جی کا جانشین کہنے جیسی "سنگین غلطی" کر لی تو آپ نے فوراً وہی پرانا "دونوں" والا لفظ داغ دیا کہ غلطی تو جی "دونوں" کی ہے۔
کیا آپ سب کو اتنی عمریں گزار کر بھی offense کے مختلف درجات میں فرق کرنا تک نہیں آیا؟
بھائی یہ یہاں کا پرانا وطیرہ ہے۔ شریر بیشک اپنی شرارت میں اکیلا ہو لیکن ڈانٹ ڈپٹ سب کو برابر پڑتی ہےبرا مت منائیں سعد
آپ ایک انتہائی معقول انسان ہیں۔ میں دیکھ چکا ہوں سب۔
آپ کو تنبیہ کا مقصد صرف آپ کو اس دلدل سے دور رکھنا ہے۔
یہ آپ کے شایانِ شان نہیں۔
بھئی انسانی سوچ کو غذا کی بہر حال ضرورت تو ہمیشہ ر ہتی ہی ہے۔مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔
نہیں۔ بلکہ نظریہ ارتقا تو یہ تک بتاتا ہے کہ انسان کو فطری طور پر سچ کی تلاش (تجسس کی لگن) کیوں ہوتی ہے۔کیا ارتقاء اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نہیں ہے کہ انسان کو سچ کی تلاش کیوں ہے
اسے جنون بھی کہا جا سکتا ہے۔ دو سال قبل دماغ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ جواری اور نشئ دونوں کا دماغ ایک جیسا کام کرتا ہے۔ایک یہ انسان ہی ہے جو ''نہ جانے کیوں'' حق اور سچ کی خاطر اپنی سرشت میں چھپی خواہشات اور ترجیحات کو قربان کرکے کسی ''نادیدہ'' مقام پر فائز ہو کر اپنی '' تکلیف '' کا تکلف برداشت کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ اور نظریہ ارتقاء کے ان مسلمہ اصول و ضوابط سے مقابلہ کرتا نظر آتا ہے جو کل کائنات کی ہر سمت میں جاری و ساری ہیں ۔
مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد نہیں جب تک دونوں اپنے اپنے ڈومین تک محدود رہیں۔جہاں سائنس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مذہب کی ضرورت اور کردار کا آغاز ہوتا ہے ۔ اگر آپ مذہب کو سائنس کی آنکھوں سے دیکھیں گے تو منطق تو کیا آپ کو انسان کی انسانیت کی بھی شاید ہی نظر آئے ۔
یہ کونسا انسان ہے؟ایک یہ انسان ہی ہے جو ''نہ جانے کیوں'' حق اور سچ کی خاطر
ارے بھئی حقیقی والے انسان کی بات کر رہا ہوں ۔یہ کونسا انسان ہے؟
اسے جنون بھی کہا جا سکتا ہے۔
کس چیز سے ارتقاء ہوا؟؟؟تمام سائنسی شواہد یہی بتاتے ہیں کہ انسان کا دیگر حیوانات و نباتات کی طرح اسی روئے زمین پر ارتقا ہوا ہے۔
ہمیں بھی بہت سے منطقی سوالات کا جواب نہیں مل سکا۔۔۔مذہبی تصورات اور نظریات کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔
تمام موجودہ انواع کا سابقہ انواع سے ارتقا ہوا ہے۔مکمل تفصیل کیلئے یہ چارٹس ملاحظہ فرمائیں۔کس چیز سے ارتقاء ہو؟؟؟
صرف معلومات کے لیے سوال ہے!!!
میری رائے میں 'سائنس' خدا کے تخلیق کردہ نظام کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا نام ہے اس لیے سائنس کو مذہب یا خدا کے مقابل کھڑا کرنا ہی درست نہیں۔ ایسا کر کے ہم سائنس کے وجود کو اس کی اوقات سے زیادہ 'خیالی اہمیت' دینے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور پھر خدا یا مذہب مقابلہ سائنس کے مناظرے پہ جت جاتے ہیں اور سائنس کو خدا کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اہمیت نے اس وقت جنم لیا جب مذہبی علماء کی کائنات کے بارے ذاتی و تصوراتی تشریحات پر کھوج شروع ہوئی تو نتائج ان تشریحات کے برعکس تھے جس سے یہ گمان پیدا یونا شروع ہوا کہ 'مذہب' نے ابھی تک انہیں دھوکے میں رکھا اور مسائل کا حل سائنس میں ہے۔ اس لیے میری رائے یہی ہے کہ مذہبی علماء کو کائنات کے بارے مذہب کی حتمی تشریح پہ ڈٹ نہیں جانا چاہیے، اسی سے مسائل کی ابتدا شروع ہوتی ہے!جہاں سائنس کی حدود ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مذہب کی ضرورت اور کردار کا آغاز ہوتا ہے ۔
ان سابقہ انواع کا کس چیز سے ارتقاء ہوا؟؟؟تمام موجودہ انواع کا سابقہ انواع سے ارتقا ہوا ہے۔مکمل تفصیل کیلئے یہ چارٹس ملاحظہ فرمائیں۔
یہ سوال انسانوں سے متعلق ہے۔ البتہ دنیا میں ایسی انواع بھی موجود ہیں جو مرتی نہیں۔ایک یہ کہ ہم اپنی مرضی کے خلاف خود بخود کیوں پیدا ہوئے؟؟؟
اپنی مرضی کے خلاف کیوں مریں گے؟؟؟
مرنا کیوں ضروری ہے ہمیشہ کی زندگی کیوں نہیں ملتی؟؟؟
بلاوجہ پیدا ہونا اور بلاوجہ خاک ہوجانا، اس بے مصرف زندگی کا کیا مقصد ہے؟؟؟
ان سے پچھلی انواع سے۔ لگتا ہے آپ نے چارٹ ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں۔ان سابقہ انواع کا کس چیز سے ارتقاء ہوا؟؟؟
یہ آپ کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے البتہ حیاتیاتی سائنسدانوں کا موقف نہیں۔میری رائے میں 'سائنس' خدا کے تخلیق کردہ نظام کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا نام ہے اس لیے سائنس کو مذہب یا خدا کے مقابل کھڑا کرنا ہی درست نہیں۔
Hydra مچھلی نہیں ۔ بلکہ ایک سیلن ٹریٹ ھے ۔ اور ریجنریشن کی صلاحیت اور بہت سی مخلوقات میں بھی ہے۔ حتی کہ انسان میں زخم بھرنا بھی اسی صلاحیت کا ظہور ہے۔یہ سوال انسانوں سے متعلق ہے۔ البتہ دنیا میں ایسی انواع بھی موجود ہیں جو مرتی نہیں۔
مثال کے طور پر ایک Hydra نامی مچھلی ہے جس کے بدن کا کوئی بھی حصہ کاٹ دیں تو وہ پورا جسم وہیں سے پیدا کرنے پر قادر ہے جہاں سے کاٹا گیا تھا۔ اس مچھلی کے جسم میں تمام سیلز فطری طور پر از خود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یوں اسے دیگر انواع کی طرح بڑھاپا نہیں آتا اور نہ ہی موت۔ نیز یہ اپنے بچے پیدا کرنے کیلئے نر و مادہ کی محتاج بھی نہیں۔
قبلہ یقیناً خدا نے ہر شے تخلیق کی ہے، اب اس کا طریقہ کار اگر 'ارتقائی' ہے تو یہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اگر ہم یہ بھی یقین کر لیں کہ کائنات کا وجود سینگولیریٹی سے ہوا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ سینگولیریٹی کس چیز کے ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اور وہ چیز خود کس چیز کے ارتقاء کے ذریعے وجود میں آئی؟ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے اس لیے بات اس نقطے پہ پہنچ جاتی ہے کہ کائنات چاہے جہاں سے بھی شروع ہو، خود بخود عدم سے وجود میں نہیں آ گئی، یقیناً اس کا خالق موجود ہے اور اس کی مرضی کہ وہ کائنات میں موجود چیزوں کی تخلیق ارتقائی عمل سے گزار کر کرے یا نہ کرے تو لہذا 'ثبوت' کا نہ ملنا اس چیز کی گواہی نہیں ہوتا کہ وہ چیز ہو نہیں سکتی! یہاں 'سیکولرزم' پر بحث نہیں ہو رہی اور اگر ایسا مقصود ہے تو اس پر الگ سے لڑی کھول لیجیے وہاں بحث کر لیں گے!یہ آپ کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے البتہ حیاتیاتی سائنسدانوں کا موقف نہیں۔
اب تک روئے زمین، ہوا، پانی میں پائے جانے والی زندگی پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس سے تخلیق نامی چڑیا کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ہاں ارتقا کے جا بجا شواہد ضرور ملے ہیں جنہیں اب جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔
اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ سائنس اور مذہب کے ڈومین کو بالآخر الگ کر دیں جیسے کسی زمانہ میں ریاست و مذہب کو الگ کر دیا گیا تھا (سیکولر ازم)۔ کیونکہ دونوں کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا تھا۔