ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے کی سطح عبور کر گیا

حسینی

محفلین
ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے کی سطح عبور کر گیا
192776_52652102.jpg

روپے کی بے قدری کا سلسلہ جاری ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر پہلی مرتبہ 107 روپے کی سطح عبور کر گیا۔
لاہور: (دنیا نیوز) اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ ہوا۔ انٹر بینک مارکیٹ میں بھی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔ ایک روز میں ڈالر کی قدر 90 پیسے اضافے سے 106 روپے 16 پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے میں مرکزی بینک کے ذخائر بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کے سبب حکومت اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید رہی ہے۔ واضع رہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں 3 روپے 30 پیسے میں ڈالر ملتا رہا۔ 1955ء میں ڈالر نے پہلی مرتبہ سر اٹھایا اور اس کی قدر 4 روپے 76 پیسے تک جا پہنچی۔ 1971 تک روپیہ اسی پر ڈالر کے سامنے ڈٹا رہا۔ پاکستان دولخت ہوا تو روپیہ بھی قدر کھونے لگا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ڈالر کی قیمت دوگنی ہو کر 9 روپے 91 پیسے ہو گئی۔ سابق صدر ضیاء الحق کے دور اقتدار میں روپیہ مزید کمزور پڑنے لگا اور 1988ء تک انٹر بینک میں ڈالر 17 روپے اٹھارہ پیسے میں ملنے گا۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں بھی ڈالر کی پرواز نہ روک سکیں اور 1999ء تک اس کی قدر 51 روپے تک جا پہنچی۔ 2008ء میں مشرف حکومت گئی تو 62 روپے 55 پیسے میں ایک ڈالر دستیاب تھا۔ لیکن پھر ڈالر کے سامنے روپیہ بے قدر ہوتا گیا اور میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت کے دور میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے جبکہ انٹر بینک مارکیٹ میں 106 کی سطح عبور کر گیا۔
http://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/192776_1
 

حسینی

محفلین
ڈالر کا راج خطرے میں
495x278x6005_31659915.jpg.pagespeed.ic.D1AK0mYmI1.jpg

سید عاصم محمود

امریکی کرنسی کو پچھاڑنے کی چینی جنگ شروع ہو چکی *** ایک زمانے میں افیونی سمجھنے والے چینی آج ہمت ومحنت سے اپنے دیس کو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بنا چکے۔ اس انقلابی تبدیلی کے دوران انہوں نے بڑی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا۔ خودکو جلدباز خرگوش نہیں بنایا بلکہ کچھوے کے مانند سکون سے چلتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔ اب چینیوں کی اگلی منزل دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننا اور اپنی کرنسی’’ یوان‘‘ (یا رینبی) کو عالمی کرنسی بناناہے۔ چند ماہ سے اس امر کے اشارے ملے ہیں کہ ڈالر کو پچھاڑنے کی چینی جنگ شروع ہو چکی۔ پچھلے چند ماہ میں چین نے آسٹریلیا، پاکستان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک سے تبادلہ ِکرنسی کے معاہدے کیے ہیں۔ گویا اب پاکستانی روپے سے براہ راست یوان خریدا جا سکے گا۔ ورنہ پہلے امریکی ڈالر خرید کر یوان خریدنے پڑتے تھے۔ 5 ستمبر کو سرکاری بینکوں کی عالمی تنظیم، دی بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمینٹس نے اعلان کیا کہ یوان تجارتی لین دین کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی دس بڑی کرنسیوں میں شامل ہو چکا۔ یہ خبر بھی آشکارا کرتی ہے کہ چینی حکومت اب اپنی کرنسی کو عالمی معاشی و تجارتی سطح میں زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنا چاہتی ہے۔ سرکاری بینکوں کی عالمی تنظیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ 5.3 ٹرلین ڈالر کا تجارتی لین دین ہوتا ہے۔ اس میں سے 4.7 ٹرلین کا لین دین امریکی ڈالر میں ہوتا ہے ۔جبکہ فی الوقت یوان میں ہونے والا لین دین صرف 120 ارب ڈالر روزانہ تک محدود ہے۔ گویا چینی کرنسی کو ابھی ڈالر سے آگے نکلنے میں خاصا طویل سفر طے کرنا ہے ۔لیکن اس کی بڑھوتری خاصی تیزی سے ہو رہی ہے۔ 2010ء میں یوان میں 34 ارب ڈالر کا لین دین ہوتا تھا۔ یوں صرف تین برس میں یوان کا لین دین تقریباً ’’تین سو گنا‘‘ بڑھ گیا۔ دنیا کی دس طاقتورکرنسیوں کی فہرست اب کچھ یوں تشکیل پاتی ہے:1… امریکی ڈالر۔ 2 …یورو۔3 …جاپانی ین۔4… برطانوی پونڈ۔5 …آسٹریلوی ڈالر۔6 …سوئس فرانک ۔7 …کینیڈین ڈالر۔8 …میکسیکن پیسو۔9 …چینی یوان اور10…نیوزی لینڈ ڈالر۔ چینی حکومت اس وقت 3.44 ٹرلین امریکی ڈالر کا زرمبادلہ رکھتی ہے۔ یہ دنیا میں زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ مگر چینیوں کو خطرہ ہے کہ امریکی حکومت کے قرضے (15 ٹرلین ڈالر) اور تجارتی عدم توازن (555ارب ڈالر) کی وجہ سے امریکی ڈالر کمزور ہوسکتا ہے۔ اسی باعث چینی حکومت پچھلے دو تین برس سے اپنے ڈالروں کے ذریعے سونا خرید رہی ہے۔ ظاہر ہے ،ڈالر کی نسبت سونا زیادہ محفوظ سرمایہ کاری ہے۔ گوچین اور (روس نے بھی) وسیع پیمانے پر سوناخریدا تو پوری دنیا میں سونے کی قیمتیں مانگ بڑھنے سے کئی گنا بڑھ گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چینی حکومت یوآن کو عالمی کرنسی بنانے کی خاطرکسی قسم کے معاشی و سیاسی اقدامات کرتی ہے ۔کیونکہ امریکی حکومت اور اس کے چیلے (برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ) کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی کرنسیوں کی قدروقیمت گھٹ جائے۔ لہٰذا وہ پوری شدت اور جائز اور ناجائز طریقوں سے چین کا مقابلہ کریں گے۔ بعید نہیں کہ اس معاملے پر کرہ ارض میں تیسری جنگ عظیم چھڑ جائے۔ دراصل امریکہ کواکلوتی سپرپاور بنانے میں ڈالر کا بڑا ہاتھ ہے۔ پھر مشینوں، انجنوں و گاڑیوں، تیل اور اسلحے کی فروخت ہی سے زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں کہ جب کہیں جنگ یا خانہ جنگی ہو تو نہ صرف ان کی کھپت بڑھتی بلکہ قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بہرحال پوری دنیاخصوصاً عالم اسلام میں کروڑوں لوگ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈالر کی اجارہ داری انجام کو پہنچے اور امریکی حکومت اپنے حواس میں آئے جسے حد سے زیادہ طاقت نے مغرور ، خودسر اور ضدی بنادیا۔ ٭…٭…٭
 

x boy

محفلین
اللہ کا شکر
کچھ دن پہلے میں نے ایک مکان بیچا اور ساری رقم دبئی منگوالی ہندی کے زریعے۔
 

arifkarim

معطل
ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے کی سطح عبور کر گیا
192776_52652102.jpg

روپے کی بے قدری کا سلسلہ جاری ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر پہلی مرتبہ 107 روپے کی سطح عبور کر گیا۔
لاہور: (دنیا نیوز) اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ ہوا۔ انٹر بینک مارکیٹ میں بھی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔ ایک روز میں ڈالر کی قدر 90 پیسے اضافے سے 106 روپے 16 پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے میں مرکزی بینک کے ذخائر بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کے سبب حکومت اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید رہی ہے۔ واضع رہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں 3 روپے 30 پیسے میں ڈالر ملتا رہا۔ 1955ء میں ڈالر نے پہلی مرتبہ سر اٹھایا اور اس کی قدر 4 روپے 76 پیسے تک جا پہنچی۔ 1971 تک روپیہ اسی پر ڈالر کے سامنے ڈٹا رہا۔ پاکستان دولخت ہوا تو روپیہ بھی قدر کھونے لگا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ڈالر کی قیمت دوگنی ہو کر 9 روپے 91 پیسے ہو گئی۔ سابق صدر ضیاء الحق کے دور اقتدار میں روپیہ مزید کمزور پڑنے لگا اور 1988ء تک انٹر بینک میں ڈالر 17 روپے اٹھارہ پیسے میں ملنے گا۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں بھی ڈالر کی پرواز نہ روک سکیں اور 1999ء تک اس کی قدر 51 روپے تک جا پہنچی۔ 2008ء میں مشرف حکومت گئی تو 62 روپے 55 پیسے میں ایک ڈالر دستیاب تھا۔ لیکن پھر ڈالر کے سامنے روپیہ بے قدر ہوتا گیا اور میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت کے دور میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں 107 روپے جبکہ انٹر بینک مارکیٹ میں 106 کی سطح عبور کر گیا۔
http://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/192776_1
پاکستان کی دولخت کا ڈالر کی پرواز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نیکشن شاک کی وجہ سے ہوا تھا جب ڈالر کو سونے کی قیمت سے جدا کر دیا گیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Nixon_Shock
 

دوست

محفلین
چین اپنی کرنسی کو بڑی سختی سے کنٹرول کرتا ہے۔ اسکا ریٹ اوپن مارکیٹ میں طے نہیں ہوتا۔ مخصوص ضابطوں کے تحت ڈالر یوآن میں بدلوائے جا سکتے ہیں، کھلے عام خرید و فروخت نہیں ہو تی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین پر اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر کم رکھنےکا الزام لگاتا ہے۔
برآمدات پر منحصر ایک ملک کی حیثیت سے چین کو اپنی کرنسی کم قدر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اسے کم ڈالروں کے زیادہ یوآن ملیں۔ یہی کچھ پچھلے کچھ ماہ میں جاپان نے اپنے ین کے ساتھ کیا ہے۔ کہ نوٹ چھاپ چھاپ کر مارکیٹ میں پھینکے تاکہ ین سستا اور ڈالر مہنگا ہو اور معیشت حرکت میں آئے۔ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے کہ یہاں برآمدات ہی نہیں تو کرنسی سستی ہونے سے ذلالت ہی پلے پڑتی ہے۔
 

حسینی

محفلین
ایک سال میں ڈالر 150روپے تک پہنچنے کا خطرہ ہے :بابر اعوان
219820_85555750.jpg.pagespeed.ce.-nnBd4HYdE.jpg

پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما سینیٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ ایک سال کے اندر ڈالر 150روپے تک پہنچنے کا خطرہ ہے ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف سے معاہدے کا نتیجہ ہے ،
اسلام آباد (آئی این پی) حکومت یہ معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کرے ، کراچی میں ہومیو پیتھک آپریشن ہو رہا ہے ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے نام پر گھوسٹ گورننس چل رہی ہے ، حکومت نے پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری لینے کے لیے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا شوشہ چھوڑا تھا، اب کوئی بھی آرٹیکل 6 کا نام لینے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف ہومیو پیتھک آپریشن ہو رہا ہے ۔ قانون نافذ کر نے والے اداروں نے ایک روز میں 70افرادگرفتار کیے جبکہ بعد میں ایک گھنٹے کے اندر64 کو چھوڑ دیا گیا۔ بابر اعوان نے کہا کہ اگلے سال افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد پاکستان کے لیے سخت حالات شروع ہوں گے ۔ موجودہ حکومت کی 100روزہ کارکردگی سو صفر ہے ، جبکہ اے پی سی میں حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس میں شرکت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو نہیں کیا گیا لہذا یہ آل پارٹیز کانفرنس کیسے ہو سکتی ہے بابر اعوان
 

حسینی

محفلین
سٹہ بازوں نے ڈالر روک لئے روپے کی گراوٹ آئی ایم ایف معاہدے سے تعلق نہیں گورنر سٹیٹ بینک
219810_86628593.jpg

کمرشل بینکوں نے 65کروڑ ڈالر قرض دینے کی پیشکش کی ہے ،زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے پر دبائوکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا ، 200یا اس سے زائد مالیت کے نئے نوٹ کے اجراء کا کوئی فیصلہ نہیں کیا
لاہور(کامرس رپورٹر،نیوز ایجنسیاں )گورنر سٹیٹ بینک یاسین انور نے کہا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جلد استحکام آ جائیگا، حالیہ دنوں میں روپے کی گراوٹ کا آئی ایم ایف کے قرض معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ’ ملک میں کام کرنے والے کمرشل بینکوں نے حکومت کو مجموعی طور پر 65کروڑ ڈالر قرض دینے کی پیشکش کی ہے جس سے زرمبادلہ ذخائر اور روپے پر دبائوکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ’اسلامی ترقیاتی بینک سے 133ملین ڈالر مل گئے جبکہ آئی ایم یف سے دوسری قسط پاکستان کوجلد مل جائیگی’مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کرنا پڑا ، 200یا اس سے زائد مالیت کے نئے نوٹ کے اجراء کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ساتویں ایس ایم ایز کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے تحت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرائی ہے ۔ حقیقت میں بعض سٹہ بازوں نے منافع کمانے کے لئے ڈالر روک کر اس کی قدر بڑھائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کرنسی مارکیٹس میں یہ پیش گوئی عام تھی کہ جون 2013ء تک ڈالر 115 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ جائے گا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ڈالر میں سرمایہ کاری ہوئی۔ تاہم پیش گوئی درست ثابت نہ ہونے کے باعث آج کل ایک مرتبہ پھر سٹہ باز ڈالر کی قدر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ بہتر قیمت پر خریدا گیا ڈالر مارکیٹ میں نکال سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن کی جانب سے بھیجے جانے والے پیسوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ،آئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط ملنے سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مثبت ہو گئی ہے جس کے پاکستانی روپے کی قدر پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک نے ڈالر کی قیمت کو 99 روپے پر مستحکم رکھا ہوا تھا، ڈالر کی قیمت میں عارضی اضافہ پریشانی کی بات نہیں۔ ملک سے بھاری پیمانے پر ڈالر کے انخلاء سے متعلق یاسین انور نے کہا کہ یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ ملک سے ڈالر باہر منتقل کئے جا رہے ہیں۔ مرکزی بینک کسٹمز، ائیر پورٹ اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے ۔ شرح سود میں اضافے سے متعلق گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ 2 سال سے شرح سود میں مسلسل کمی کی جا رہی تھی، جس کے باعث شرح سود سنگل ڈجٹ میں آ چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک اپنی قرض کی حد سے تجاوز نہیں کیا ،اب تک 575 ارب روپے کا قرض حاصل کیا جا چکا ہے ۔دریں اثناء رواں مالی سال کے 2 ماہ میں ادائیگیوں کے توازن کا خسارہ 63کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گیا ۔ سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ادائیگیوں کا توازن 58کروڑ 20لاکھ ڈالر فاضل تھا، جولائی 2013 کا جائزہ لیا جائے تو اس ماہ جاری حسابات کا خسارہ 5کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہا جو ایک ماہ بعد اگست میں 57کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا، یعنی آنے والے مہینوں میں ریگولیٹر کے لیے جاری حسابات کا توازن بڑا خطرہ ہوگا جس کی نشاندہی آئی ایم ایف اور معاشی ماہرین بھی کرچکے ہیں۔ 2 ماہ کی مدت میں اشیا اور خدمات کی تجارت کا خسارہ بھی 2ارب 5 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 3 ارب 33کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہوگیا ۔ گورنر سٹیٹ بینک
 
Top