نیرنگ خیال
لائبریرین
زیک سے ملاقات کے بعد میں دوبارہ اسی گوشہ نشینی میں چلا گیا تھا، جہاں سے زیک سے ملاقات کے لیے مجھے نکلنا پڑا تھا۔ زندگی دو جمع دو چار کی صورت چل رہی تھی۔ صبح سے شام اور شام سے صبح کب اور کیسے ہوئی جاتی ہے کوئی احساس نہ تھا۔ بس ایک لگی بندھی سی روٹین۔۔۔ رہٹ کے بیل کی طرح۔۔۔ کہ ایک دن مجھے ایک پیغام موصول ہوا۔
حسن محمود جماعتی سے بہت سی ملاقاتیں ہیں۔ مختلف موضوعات پر حسن سے کھلی ڈلی گفتگو رہی ہے اور رہتی ہے۔ اس کا ظرف ہے کہ وہ ہماری باتیں سن بھی لیتا ہے او ر برا بھی نہیں مناتا۔ گزشتہ برس حسن سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی۔ سبب اس کا قنوطیت تھی جو دونوں فریقین پر طاری تھی۔ درمیان میں عاطف ملک سے بھی ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ عاطف بڑے آدمی ہیں۔ اپنے شیڈول کے مطابق ہم سے ملاقات کرنا چاہتے تھے ، اور ہم چھوٹے آدمی ہیں، مزدوری سے فرصت نہ مل سکی۔ یوں ملاقات نہ ہوسکی۔ لیکن دل میں یہ خیال ضرور رہا کہ اگلی بار جب عاطف اپنی عدیم الفرصتی سے وقت نکال کر ہم کو عزت بخشنا چاہیں گے تو ہم ہر صورت میں ان سے ملاقات کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ ہماری حالت زار دیکھ کر ان کو مزدور والی بات پر یقین بھی آجائے۔
خدا جانتا ہے کہ ایسے سرد لمحوں میں کیسے حسن کے مزاج پر جمی برف پگھلی اور اس نے ایک مراسلہ ہمارے نام روانہ کیا کہ اگر بڑے لوگوں سے ملاقات کر کے اپنا نام تاریخ میں لکھوانا چاہتے ہو، تو یہ موقع ہے۔ میں نے اس کو اپنی خوش بختی سمجھا اور کہا کہ اگر غربت کدے پر تشریف لے آئیں تو دیدہ و دل فرش راہ کروں گا۔ بصورت دیگر جہاں آپ کہتے ہیں وہاں آجاؤں گا مگر پھردیدہ و دل والی بات کی ضمانت نہیں۔ حسن صاحب پروفیسر ہیں، سو فرمانے لگے، کہ مجھے تو دیدہ و دل میں کچھ ایسی دلچسپی نہیں۔ دوسرا عاطف صاحب ڈاکٹر ہیں ، اور دل کے نام سے چلتے ہیں، لہذا آپ کو باہر کسی ہوٹل میں ہی تشریف لانا ہوگا۔ میں وقت مقررہ پر متعین مقام پر پہنچا تو وہاں ان دونوں کے علاوہ ایک خلقت کو مصروف طعام پایا۔
ایک کونے میں مجھے بھی جگہ مل گئی۔ حسن سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب اور ڈاکٹر صاحب پاس ہی ہیں اور کسی لمحے پہنچا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بات میرے علم میں نہ تھی کہ امتداد زمانہ نے حسن کی بصارت اور یادداشت کو دھندلا دیا ہے۔ موصوف سامنے کھڑے ہوئے مجھے فون ملا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بھئی کدھر ہو۔ نظر نہیں آرہے۔ ہم نے ہاتھ ہلایا تو بجائے شرمندہ ہو کر معافی طلب کرتے۔ کمال ڈھٹائی سے کہنے لگے۔ خدا لگتی ہے کہ آپ کو پہچان نہیں پایا۔ مزید جی کو جلاتے ہوئے بولے کہ دیکھا بھی آپ کی طرف! لیکن پھر سوچا یہ آپ نہیں ہو سکتے۔ یعنی بےمروتی سی بے مروتی، حسن کو دیکھ کر صنم یاد آیا۔ ڈاکٹر صاحب سے تو خیر کیا شکوہ کرتے۔ سردی کی جانب نگاہ کرتے تو ڈاکٹر صاحب کی صحت اور جیکٹ ناکافی معلوم ہوتی تھی ۔ شاید انجانی حسیناؤں کا خیال ہی ان کو گرمی دینے کے لیے کافی تھا، جن کا ذکر ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔
بھائیوں سے بغل گیر ہو کر کرونائی وائرس ایک دوسرے میں منتقل کر چکنے کے بعد ہم اطمینان سے بیٹھے، کھانا آرڈر کیا اور دنیا جہان کی باتیں کی۔ ہر قسم کی غیر ادبی گفتگو کی۔ معاشرے کے ہر فرد کو برا بھلا کہا۔ اچھائی اور برائی کی تخصیص کے نئے معیار قائم کیے۔ کھانا کھا چکنے کے بعد حسن کے حکم کے مطابق ہم نے نماز پڑھی اور ایک چائے کے ڈھابے پر آبیٹھے۔ حسن نے تاخیرسے آنے کی وجہ بھی نماز ہی بتائی تھی۔ آج کل جس طرح کا چلن ہے۔ مجھے بھی اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کے لیے دونوں بھائیوں کے سامنے نماز پڑھنی پڑی۔ کیا معلوم کس وقت دونوں کے اندر کا شاعر مر جاتا اور مسلہ (م پر پیش) جاگ جاتا۔ آخر کو احتیاط بہتر ہے۔ چائے کے ساتھ کلام بزبان شاعر کاآغاز ہوا۔ بعد میں پتا چلا یہ بھی حسن کی چال تھی۔ عاطف سے ایک غزل سننے کے بعد اس نے اپنی غزلوں کی پٹاری کھولی اور غزلیں سنا سنا کر ہم کو ادھ موا کر دیا۔ یہ ایک بہت دلنشیں شام تھی۔ عاطف سے میری پہلی ملاقات تھی اور ابھی تک آخری بھی یہی ہے ۔ اگرچہ وعدہ الی اللقاء قائم و دائم ہے۔ اس شام کی گفتگو کا ذائقہ ابھی تک قائم ہے۔
حسن محمود جماعتی سے بہت سی ملاقاتیں ہیں۔ مختلف موضوعات پر حسن سے کھلی ڈلی گفتگو رہی ہے اور رہتی ہے۔ اس کا ظرف ہے کہ وہ ہماری باتیں سن بھی لیتا ہے او ر برا بھی نہیں مناتا۔ گزشتہ برس حسن سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی۔ سبب اس کا قنوطیت تھی جو دونوں فریقین پر طاری تھی۔ درمیان میں عاطف ملک سے بھی ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ عاطف بڑے آدمی ہیں۔ اپنے شیڈول کے مطابق ہم سے ملاقات کرنا چاہتے تھے ، اور ہم چھوٹے آدمی ہیں، مزدوری سے فرصت نہ مل سکی۔ یوں ملاقات نہ ہوسکی۔ لیکن دل میں یہ خیال ضرور رہا کہ اگلی بار جب عاطف اپنی عدیم الفرصتی سے وقت نکال کر ہم کو عزت بخشنا چاہیں گے تو ہم ہر صورت میں ان سے ملاقات کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ ہماری حالت زار دیکھ کر ان کو مزدور والی بات پر یقین بھی آجائے۔
خدا جانتا ہے کہ ایسے سرد لمحوں میں کیسے حسن کے مزاج پر جمی برف پگھلی اور اس نے ایک مراسلہ ہمارے نام روانہ کیا کہ اگر بڑے لوگوں سے ملاقات کر کے اپنا نام تاریخ میں لکھوانا چاہتے ہو، تو یہ موقع ہے۔ میں نے اس کو اپنی خوش بختی سمجھا اور کہا کہ اگر غربت کدے پر تشریف لے آئیں تو دیدہ و دل فرش راہ کروں گا۔ بصورت دیگر جہاں آپ کہتے ہیں وہاں آجاؤں گا مگر پھردیدہ و دل والی بات کی ضمانت نہیں۔ حسن صاحب پروفیسر ہیں، سو فرمانے لگے، کہ مجھے تو دیدہ و دل میں کچھ ایسی دلچسپی نہیں۔ دوسرا عاطف صاحب ڈاکٹر ہیں ، اور دل کے نام سے چلتے ہیں، لہذا آپ کو باہر کسی ہوٹل میں ہی تشریف لانا ہوگا۔ میں وقت مقررہ پر متعین مقام پر پہنچا تو وہاں ان دونوں کے علاوہ ایک خلقت کو مصروف طعام پایا۔
ایک کونے میں مجھے بھی جگہ مل گئی۔ حسن سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب اور ڈاکٹر صاحب پاس ہی ہیں اور کسی لمحے پہنچا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بات میرے علم میں نہ تھی کہ امتداد زمانہ نے حسن کی بصارت اور یادداشت کو دھندلا دیا ہے۔ موصوف سامنے کھڑے ہوئے مجھے فون ملا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بھئی کدھر ہو۔ نظر نہیں آرہے۔ ہم نے ہاتھ ہلایا تو بجائے شرمندہ ہو کر معافی طلب کرتے۔ کمال ڈھٹائی سے کہنے لگے۔ خدا لگتی ہے کہ آپ کو پہچان نہیں پایا۔ مزید جی کو جلاتے ہوئے بولے کہ دیکھا بھی آپ کی طرف! لیکن پھر سوچا یہ آپ نہیں ہو سکتے۔ یعنی بےمروتی سی بے مروتی، حسن کو دیکھ کر صنم یاد آیا۔ ڈاکٹر صاحب سے تو خیر کیا شکوہ کرتے۔ سردی کی جانب نگاہ کرتے تو ڈاکٹر صاحب کی صحت اور جیکٹ ناکافی معلوم ہوتی تھی ۔ شاید انجانی حسیناؤں کا خیال ہی ان کو گرمی دینے کے لیے کافی تھا، جن کا ذکر ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔
بھائیوں سے بغل گیر ہو کر کرونائی وائرس ایک دوسرے میں منتقل کر چکنے کے بعد ہم اطمینان سے بیٹھے، کھانا آرڈر کیا اور دنیا جہان کی باتیں کی۔ ہر قسم کی غیر ادبی گفتگو کی۔ معاشرے کے ہر فرد کو برا بھلا کہا۔ اچھائی اور برائی کی تخصیص کے نئے معیار قائم کیے۔ کھانا کھا چکنے کے بعد حسن کے حکم کے مطابق ہم نے نماز پڑھی اور ایک چائے کے ڈھابے پر آبیٹھے۔ حسن نے تاخیرسے آنے کی وجہ بھی نماز ہی بتائی تھی۔ آج کل جس طرح کا چلن ہے۔ مجھے بھی اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کے لیے دونوں بھائیوں کے سامنے نماز پڑھنی پڑی۔ کیا معلوم کس وقت دونوں کے اندر کا شاعر مر جاتا اور مسلہ (م پر پیش) جاگ جاتا۔ آخر کو احتیاط بہتر ہے۔ چائے کے ساتھ کلام بزبان شاعر کاآغاز ہوا۔ بعد میں پتا چلا یہ بھی حسن کی چال تھی۔ عاطف سے ایک غزل سننے کے بعد اس نے اپنی غزلوں کی پٹاری کھولی اور غزلیں سنا سنا کر ہم کو ادھ موا کر دیا۔ یہ ایک بہت دلنشیں شام تھی۔ عاطف سے میری پہلی ملاقات تھی اور ابھی تک آخری بھی یہی ہے ۔ اگرچہ وعدہ الی اللقاء قائم و دائم ہے۔ اس شام کی گفتگو کا ذائقہ ابھی تک قائم ہے۔