حسن علوی
محفلین
145
عمران نے پھر سلسلہ منقطع کر دیا اور رحمان صاحب بولے۔ “اگر تم نے مجھے دیر تک الجھائے رکھا تو میں۔۔۔۔!“
“ٹھہریئے۔۔۔۔ بتاتا ہوں“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “وہ لوگ دراصل مجھے قتل کر دینا چاہتے ہیں۔“
“کون لوگ۔۔۔“
“وہی جن کی نگرانی آپ کا محکمہ کرتا ھے۔“
“کرنل ڈوہرنگ وغیرہ۔۔“
“جی ہاں۔۔“
“لیکن ابھی تک ہمیں ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ھے۔“
“جی ہاں۔ جس کے زریعے واضح ثبوت مل جانے کی توقع تھی وہ خودکشی کر بیٹھا۔“
“تمہارا خیال درست ھے۔“
“تو پھر اب آپ کا محکمہ اس معاملے کو اسی جگہ ختم کر دے گا۔“
“مجبوری ھے۔“
“میں دوسرا زریعہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔“
“یعنی۔۔۔!“
“آپ کو اطلاع مل چکی ہو گی کہ سلطان کا نیا اسٹینو بھی ان لوگوں سے ملتا ھے۔“
“ابھی حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی ھے۔“
“لیکن میرا خیال ھے کہ اب وہ محتاط ہو جائیں گے۔ شاید ہی اسٹینو والی چال کامیاب ہو سکے! کیونکہ وہ ویسے بھی نہایت مخلص قسم کا گدھا ھے۔“
رحمان صاحب کسی سوچ میں پڑ گئے پھر بولے۔ “آپ یہ فرمایئے کہ جنرل شاہد کے محکمے سے آپ کو کیا سروکار! میں جانتا ہوں کہ وائی سی اس کے ایک مخصوص سیکشن کا نام ھے۔۔۔!“
“اور آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وائی سی محکمہ خارجہ سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ھے۔۔۔ اور اب یہ بتانا بیکار ہوگا کہ میں محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کا ایک انفارمر ہوں۔“
“میں جانتا ہوں!“ رحمان صاحب تلخ لہجے میں بولے۔ “اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک انفارمر کی حیثیت سے تم صرف سیکرٹ سروس سے ہی رابطہ قائم کر سکتے ہو! براہ راست وائی سی سے نہیں۔ اس کا مجاز صرف سیکرٹ سروس کا چیف ہی ہو سکتا ھے۔“
عمران نے پھر سلسلہ منقطع کر دیا اور رحمان صاحب بولے۔ “اگر تم نے مجھے دیر تک الجھائے رکھا تو میں۔۔۔۔!“
“ٹھہریئے۔۔۔۔ بتاتا ہوں“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “وہ لوگ دراصل مجھے قتل کر دینا چاہتے ہیں۔“
“کون لوگ۔۔۔“
“وہی جن کی نگرانی آپ کا محکمہ کرتا ھے۔“
“کرنل ڈوہرنگ وغیرہ۔۔“
“جی ہاں۔۔“
“لیکن ابھی تک ہمیں ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ھے۔“
“جی ہاں۔ جس کے زریعے واضح ثبوت مل جانے کی توقع تھی وہ خودکشی کر بیٹھا۔“
“تمہارا خیال درست ھے۔“
“تو پھر اب آپ کا محکمہ اس معاملے کو اسی جگہ ختم کر دے گا۔“
“مجبوری ھے۔“
“میں دوسرا زریعہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔“
“یعنی۔۔۔!“
“آپ کو اطلاع مل چکی ہو گی کہ سلطان کا نیا اسٹینو بھی ان لوگوں سے ملتا ھے۔“
“ابھی حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی ھے۔“
“لیکن میرا خیال ھے کہ اب وہ محتاط ہو جائیں گے۔ شاید ہی اسٹینو والی چال کامیاب ہو سکے! کیونکہ وہ ویسے بھی نہایت مخلص قسم کا گدھا ھے۔“
رحمان صاحب کسی سوچ میں پڑ گئے پھر بولے۔ “آپ یہ فرمایئے کہ جنرل شاہد کے محکمے سے آپ کو کیا سروکار! میں جانتا ہوں کہ وائی سی اس کے ایک مخصوص سیکشن کا نام ھے۔۔۔!“
“اور آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وائی سی محکمہ خارجہ سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ھے۔۔۔ اور اب یہ بتانا بیکار ہوگا کہ میں محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کا ایک انفارمر ہوں۔“
“میں جانتا ہوں!“ رحمان صاحب تلخ لہجے میں بولے۔ “اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک انفارمر کی حیثیت سے تم صرف سیکرٹ سروس سے ہی رابطہ قائم کر سکتے ہو! براہ راست وائی سی سے نہیں۔ اس کا مجاز صرف سیکرٹ سروس کا چیف ہی ہو سکتا ھے۔“