ڈاکٹر دعاگو (صفحہ 125 تا 150)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسن علوی

محفلین
145

عمران نے پھر سلسلہ منقطع کر دیا اور رحمان صاحب بولے۔ “اگر تم نے مجھے دیر تک الجھائے رکھا تو میں۔۔۔۔!“

“ٹھہریئے۔۔۔۔ بتاتا ہوں“ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “وہ لوگ دراصل مجھے قتل کر دینا چاہتے ہیں۔“

“کون لوگ۔۔۔“

“وہی جن کی نگرانی آپ کا محکمہ کرتا ھے۔“

“کرنل ڈوہرنگ وغیرہ۔۔“

“جی ہاں۔۔“

“لیکن ابھی تک ہمیں ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ھے۔“

“جی ہاں۔ جس کے زریعے واضح ثبوت مل جانے کی توقع تھی وہ خودکشی کر بیٹھا۔“

“تمہارا خیال درست ھے۔“

“تو پھر اب آپ کا محکمہ اس معاملے کو اسی جگہ ختم کر دے گا۔“

“مجبوری ھے۔“

“میں دوسرا زریعہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔“

“یعنی۔۔۔!“

“آپ کو اطلاع مل چکی ہو گی کہ سلطان کا نیا اسٹینو بھی ان لوگوں سے ملتا ھے۔“

“ابھی حال ہی میں‌ یہ بات بھی سامنے آئی ھے۔“

“لیکن میرا خیال ھے کہ اب وہ محتاط ہو جائیں گے۔ شاید ہی اسٹینو والی چال کامیاب ہو سکے! کیونکہ وہ ویسے بھی نہایت مخلص قسم کا گدھا ھے۔“

رحمان صاحب کسی سوچ میں پڑ گئے پھر بولے۔ “آپ یہ فرمایئے کہ جنرل شاہد کے محکمے سے آپ کو کیا سروکار! میں جانتا ہوں کہ وائی سی اس کے ایک مخصوص سیکشن کا نام ھے۔۔۔!“

“اور آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وائی سی محکمہ خارجہ سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ھے۔۔۔ اور اب یہ بتانا بیکار ہوگا کہ میں محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کا ایک انفارمر ہوں۔“

“میں جانتا ہوں!“ رحمان صاحب تلخ لہجے میں بولے۔ “اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک انفارمر کی حیثیت سے تم صرف سیکرٹ سروس سے ہی رابطہ قائم کر سکتے ہو! براہ راست وائی سی سے نہیں۔ اس کا مجاز صرف سیکرٹ سروس کا چیف ہی ہو سکتا ھے۔“
 

حسن علوی

محفلین
146

“پتہ نہیں کیوں یہ لوگ مجھ پر اتنے مہربان ہو گئے ہیں کہ بعض حالات میں براہِ راست وزیرِ خارجہ سے بھی رانطہ قائم کر سکتا ہوں۔“

رحمان صاحب اسے خاموشی سے دیکھتے رہے۔

کچھ دیر بعد پھر فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے بلیک زیرو نے اطلاع دی کہ وہ اس کے احکامات کی تعمیل کر چکا ھے۔۔ عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

“اب۔۔۔“ وہ تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ “شاید ایک شاندار کھیل شروع ہو جائے۔۔ یہ لوگ جو ابھی پکڑے جائیں گے شاید ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت فراہم کر سکیں۔“

رحمان صاحب کچھ نہ بولے اور بدستور اسے گھورتے رہے۔۔!

تھوڑی دیر بعد کسی گوشے سے ایک نسوانی چیخ ابھری۔ عمران اور رحمان صاحب اٹھ کر آواز کی جانب دوڑے۔۔۔ ڈرائنگ روم میں چاروں خواتین کھڑی کانپ رہی تھیں اور لیفٹنیٹ نے ان کی جانب ریوالور تان رکھا تھا۔

“خبردار۔۔“ اس نے ان دونوں کو دیکھتے ہی للکارا۔ “چپ چاچپ کھڑے رہو ورنہ!“

“ارے۔ ارے!“ عمران بوکھلائے ہوئے انداز میں بولا۔ “یہ کیا کر رہے ہو بھائی صاحب۔“

“مجھے باہر نکلنے کا راستہ بتاؤ۔۔۔ ورنہ ایک آدھ کو ضرور قتل کر دوں گا۔“

“باہر نکلنے کا راستہ!“ عمران نے حیرت سے کہا۔ “آپ پھاٹک ہی سے تو گزر کر تشریف لائے تھے۔ بھائی صاحب۔ اب راستہ پوچھ رہے ہیں!“

“ملٹری والوں نے کوٹھی گھیر لی ھے!“

“ارے تو نکلو نا باہر دیکھیں گے وہ ہتمہیں کیسے سیلیوٹ کرتے ہیں۔“

“میں سچ مچ فائر کر دوں گا ورنہ مجھے کسی ایسے راستے سے باہر نکال دو جدھر ملٹری نہ ہو!“

“کیا پتہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ بھلا تمہیں ملٹری سے کیا خوف جب کہ تم خود بھی ایک ملٹری آفیسر ہو۔“

“میں سچ کہتا ہوں۔۔۔۔“

“اوہ۔۔۔۔ آگئے۔۔۔“ عمران جلدی سے بول پڑا۔

اور جیسے ہی لیفٹنیٹ نے دروازے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ عمران نے اس پر چھلانگ لگا دی۔

عورتیں چیخنے لگیں۔ رحمان صاحب نے انہیں ڈانٹا۔ عمران اور لیفٹنیٹ فرش پر ڈھیر ہو گئے تھے۔
 

حسن علوی

محفلین
147

عمران نے داہنے ہاتھ سے ریوالور والا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور زخمی بائیں بازو سے اس کی دوسری ہاتھ کو ناقابل استعمال بنائے رکھنے کی کوشش بھی جاری تھی۔

رحمان صاحب اس کی مدد کو جھپٹے اور دوسرے ہی لمحے میں ریوالور ان کے قبضے میں تھا۔ اتنے میں ایک ملٹری آفیسر بھی آوازیں دیتا ہوا اندر گھس آیا۔

تھوڑی دیر بعد پہلے والا لیفٹنیٹ ہتھکڑیوں سمیت نظر آیا۔

عمران نو وارد کو الگ لے جا کر آہستہ سے بولا۔ “اسے وائی سی کے سپرد کرنا ھے۔“

“بہت بہتر جناب۔۔ ویسے میں وائی سی ہی کی طرف سے آیا ہوں۔“

جعلی لیفٹنیٹ کے دوسرے دس ساتھی بھی گرفتار کر لیئے گئے جو باہر ٹرک میں موجود تھے۔

عمران کے بازو کے زخم سے خون بہہ رہا تھا اور بیگم رحمان بوکھلائے ہوئے انداز میں چیخ رہی تھیں۔ “ارے ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ھے۔“

“ان کی لیاقت سے ماں باپ کا کلیجہ ٹھنڈا ہو رہا ھے۔“ ثریا نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

“کیا ریفریجریٹر کو اردو میں لیاقت کہتے ہیں۔“ عمران نے بڑے بھولپن سے کہا۔

“بکواس بند کرو تم لوگ۔۔۔۔ عمران۔ تم میرے ساتھ آؤ۔“ رحمان صاحب غرائے۔ وہ اسے اپنے ساتھ غسل خانے میں لائے اور بازو کی پٹی کھولنے لگے پھر ایک ملازم کو آواز دے کر فرسٹ ایڈ کا بکس لانے کو کہا۔ پھر عران سے بولے۔ “میرا محکمہ خواہ مخواہ اس معاملے میں کود پڑا جب کہ خود محکمہ خارجہ بھی پہلے ہی سے محتاط تھا۔“

“بالکل۔۔ بالکل۔۔“ اپنے محکمے کو اس سے الگ ہی رکھیں۔ میں یہی عرض کرنے والا تھا۔۔“

“لیکن تم۔۔؟“

“ارے وہ بیچارہ کیا۔۔۔؟“

“مطلب یہ کہ تم بدستور دشواریوں میں مبتلا رہو گے۔“

“آخر کیوں۔۔“

“مارتھا کی زہر خوانی۔۔“

‘ارے صاحب تو کیا میں نے۔“

“وہ لڑکی جولیا نافٹزواٹر کہاں غائب ہو گئی۔“

“یقین کیجیئے۔۔ ڈیڈی۔۔“

“مجھے یقین دلانے کی کوشش نہ کرو۔۔۔ اس کا پتہ تم ہی سے پوچھا جائے گا کیونکہ وہ تمہیں دیکھنے وہاں گئی تھی۔“
 

حسن علوی

محفلین
148

“بھلا بتایئے۔۔ میں اس کا پتہ کیسے بتا سکوں گا۔“

“اگر وہ خود ہی مجرم نہیں تھی تو روپوش کیوں ہو گئی۔“

“لوگ غلط سمجھتے ہیں ڈیڈی! میرے کبھی کسی عورت سے ایسے تعلقات نہیں رہے کہ وہ کسی دوسری ملنے والی کو قتل کر سکے۔“

“بکو مت۔۔ مجھے اس کا پتہ چاہیئے۔“

“اب آج میں بعد نماز عشاء وظیفہ پڑھ کر سوؤں گا۔ شاید کوئی موکل خواب میں اس کا پتہ بتا جائے۔“

“میں کہتا ہوں خاموش رہو۔“

فرسٹ ایڈ بکس آ گیا تھا اور اب رحمان صاحب بازو کا زخم دیکھ رہے تھے۔

“تمہاری حماقتوں سے میں تنگ آ گیا ہوں۔“ وہ بڑبڑائے۔ “دوبارہ آپریشن کرانا پڑے شاید زخم پھٹ گیا ھے اور اس میں کچھ مواد بھی معلوم ہوتا ھے۔“

عمران کچھ نہ بولا۔

ڈریسنگ تو ہو گئی لیکن رحمان صاحب نے لائبریری میں آکر سول سرجن کو فون کیا پھر فون رکھا ہی تھا کہ گھنٹی بجی۔۔۔ انہوں نے فون اٹھایا اور بولے۔ “یس رحمان اسپیکنگ۔۔۔اوہ۔۔۔۔“ پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں وہ سنتے رہے اور ہوں ہوں کرتے رہے۔ پھر بولے۔ “ٹھیک ھے۔ کوئی بات نہیں۔“

ریسیور رکھ کر وہ عمران کی طرف مڑے اور بولے۔ “محکمہ خارجہ سے ہدایت ملی ھے کہ میرا محکمہ ان معاملات سے دستکش ہو جائے۔“

“نہایت معقول مشورہ ھے۔“ عمران خوش ہو کر بولا۔ “لیکن میرے وارنٹ کا کیا ہو گا۔“

“میری دانست میں اس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک عورت زہر سے ہلاک ہوئی اور دوسری نے روپوشی اختیار کر لی۔ ہم اس پر شبہ کر رہے ہیں اور ایک ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو اس کا پتہ یقینی طور پر جانتا ہوگا۔“

“اور اس آدمی کا ڈائریکٹر جنرل صاحب سے کیا رشتہ ھے۔“

“کچھ بھی نہیں!“ رحمان صاحب اسے گھورتے ہوئے بولے۔ “مجھے ذرہ برابر بھی پرواہ نہ ہوگی اگر تم یہیں سے گرفتار کیئے جاؤ۔“

“تب تو پھر مرنے کو بہت جگہیں ہیں۔“
 

حسن علوی

محفلین
149

“تمہاری مرضی۔۔“ رحمان صاحب نے لا پروائی سے شانوں کو جنبش دی۔ “لیکن سول سرجن کے معائنے کے بعد۔“

“اس کی بھی کیا ضرورت ھے؟“

“بکواس نہیں۔“

“سول سرجن کے علم میں لانے کی کیا ضرورت ھے کہ میں یہان آیا تھا۔ کیا رحمان صاحب کی بدنامی نہ ہوگی کہ انہوں نے ایک ہاتھ آئے مجرم کو نکل جانے دیا۔“

“فکر نہ کرو۔۔۔“ وہ ہاتھ جھٹک کر بولے۔ “اور اب خاموش بیٹھو۔“

کچھ دیر بعد سول سرجن بھی آ پہنچا، لیکن اس نے تین تکھار نہیں کی۔ صرف اتنا پوچھا کہ گولی کب لگی تھی اور پہلا آپریشن کب ہوا تھا۔

“بہتر ھے آپ انہیں ہسپتال داخل کرا دیں۔“ سول سرجن نے رحمان صاحب سے کہا۔

“بعض دشواریوں کی بناء پر ممکن نہیں۔“ رحمان صاحب بولے۔

“تو پھر یہیں دیکھا جائے گا۔“

رحمان صاحب نے عمران کے فلیٹ کا پتہ بتا کر کہا۔ “میری دانست میں تو وہیں مناسب ہو گا۔“

“جہاں آپ فرمائیں۔۔ وہاں پہنچانے کے بعد مجھے مطلع کر دیجیئے گا۔“

“شکریہ!“ رحمان صاحب نے مصافحہ کے لیئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ اور اس کے رخصت ہو جانے کے بعد عمران سے بولے۔ “تم میرے لیئے ہمیشہ دشواریاں پیدا کرتے رہو گے۔ میں مجبور ہوں فی الحال تمہیں یہاں نہیں رکھ سکتا۔“

عمران کچھ نہ بولا۔

پھر جب بیگم رحمان کو پتہ چلا کہ عمران واپس جا رہا ھے تو انہوں نے کوٹھی سر پر اٹھا لی اور رحمان صاحب انہیں اونچ نیچ سمجھانے میں خاصے احمق نظر آنے لگے۔

بمشکل تمام حالات قابو میں آئے اور عمران کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا۔

فلیٹ میں پہنچ کر عمران نے بلیک زیرو کو پھر سے فون کیا اور اسے ہدایت کی کہ سارے ماتحت اس کے فلیٹ کی نگرانی کریں۔

جوزف اور سلیمان میں جھڑپ پو گئی۔ سلیمان کہہ رہا تھا کہ آخر اس نے اس حادثہ کی اطلاع کیوں نہیں دی تھی۔ جوزف کہہ رہا تھا کہ وہ صرف ایک باورچی ھے لہٰذا اسے ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ تو کشت و خون کا معاملہ تھا۔ جس کے لیئے اس جیسے سورما کی ضرورت تھی۔
 

حسن علوی

محفلین
150

“سالے جب جی چاہےکشتی لڑ کر دیکھ لے۔“ سلیمان نے اسے للکارا۔

اور جب عمران نے ‘سالے‘ کا ترجمہ انگریزی میں کیا تو جوزف آپے سے باہر ہو گیا۔ کہنے لگا۔ “زندہ نہ چھوڑوں گا۔ جب میری کوئی بہن ہی نہیں تو مجھے یہ سالا کیسے کہہ رہا ھے۔۔۔ نہیں باس تم دخل نہ دو۔ یہ عزت کا معاملہ ھے اگر سچ مچ کوئی بہن ہوتی تو دوسری بات تھی۔۔۔ میں بالکل خفا نہ ہوتا۔۔“

بمشکل تمام یہ معاملہ بھی رفع دفع ہوا۔ عمران نے جوزف سے کہا کہ وہ نیچے سول سرجن اور نائبوں کا انتظار کرے۔ وہ جانتا تھا کہ جوزف یا خود اس نے ان کا استقبال نہ کیا تو اس کے ماتحت انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔

جوزف کو نیچے بھیج کر وہ بیٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے ڈاکٹر دعاگو بول رہا تھا۔

“کیا تم ہو عمران۔۔۔ میں نے ہسپتال فون کیا تھا معلوم ہوا کہ تم وہاں نہیں ہو۔ میرا خیال ھے کہ تمہارا زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوا ہو گا۔ پھر کیوں چلے آئے۔“

“ جی اکتا گیا تھا!“ عمران نے جواب دیا۔

“ٹھیک ھے!“ ڈاکٹر کی آواز بھرائی ہوئی سی تھی۔ “جس کمرے میں‌تم رہتے تھے وہ اب کاٹنے کو دوڑتا ھے۔۔ میں‌ مارتھا کو کبھی نہ بھلا سکوں گا۔ کتنی اچھی لڑکی تھی۔ تمہیں کس قدر چاہنے لگی تھی۔۔۔ جانتے ہو کیوں؟“

“میں نہیں جانتا۔۔“

“محض اس لیئے کہ تمہارے گھر والے تمہاری پرواہ نہیں کرتے۔ اس کی محبت کا محرک دراصل جذبہ ہمدردی ہوا تھا۔ کیا میں تمہارے فلیٹ میں آ سکتا ہوں۔۔۔تم سے اس کی باتیں‌کر کے جی ہلکا کروں گا۔۔“

“آ جاؤ۔۔ ڈاکٹر۔۔۔ میں بھی بہت مغموم ہوں۔۔۔!“ عمران نے کہا ور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔

لیکن اس کے آنے سے قبل ہی سول سرجن اپنے دو اسسٹینٹوں اور ایک نرس کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ آلات جراحی کو پکانے کے لیئے پانی اسٹوو پر رکھ دیا گیا۔

نرس قبول صورت اور کم عمر تھی! تھی تو دیسی ہی لیکن اردو بھی انگریزی لہجے میں‌بولنے کی کوشش کرتی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top