ایسے تکیوں پر نیند ہی تو نہیں آتی۔ارے واہ!! تکیوں پر شعر و شاعری کا پہلے نہیں سنا کبھی نہ دیکھا۔ دلچسپ ہے۔
ایسے تکیوں پر تو نیند بھی خوب آتی ہو گی۔
ایسے تکیوں پر نیند ہی تو نہیں آتی۔
آج تک تو اشعار والے تکیے استعمال کرنے کا اتفاق نہیں ہوا اس لیے تجربہ تو نہیں کہا جا سکتا اس لیے قیاس ہی اور اغلب قیاس ہے کہ ایسے دکھی اشعار پڑھ کے انسان سو کیسے سکتا ہے
فاتح بھائی!! یہ تجربہ بول رہا ہے یا محض قیاس آرائی ہے؟؟
یہ کوئی دکھی شعر ہے؟؟ آپ کی لغت میں شاید لفظ دکھی کا مطلب کچھ اور ہے۔اغلب قیاس ہے کہ ایسے دکھی اشعار پڑھ کے انسان سو کیسے سکتا ہے
جب تکیے پر شعر یہ لکھا ہویہ کوئی دکھی شعر ہے؟؟ آپ کی لغت میں شاید لفظ دکھی کا مطلب کچھ اور ہے۔
اور اس تکیے پر رخسار یار کی بجائے اپنا ہو تو یہ دکھ ہی کی بات ہے نا۔تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گلر خوں کے وصل سے پیدا بہار ہو
ہاہاہاہاہاجب تکیے پر شعر یہ لکھا ہو
اور اس تکیے پر رخسار یار کی بجائے اپنا ہو تو یہ دکھ ہی کی بات ہے نا۔
ہمارا نہیں خیال کہ انھوں نے کبھی باقاعدہ خطاطی کی ہو، البتہ خوشخط ضرور ہیں۔ بلکہ ہماری خالہ جان اور محلے کی دوسری خواتین ان سے رومال اور تکیے وغیرہ پر اشعار لکھوا کر کڑھائی کیا کرتی تھیں۔ اگر ہمیں ٹھیک سے یاد ہے تو کئی دفعہ ماموں تکیوں کے لیے اشعار خود ہی تخلیق کر کے خوشخطی کرتے تھے اور کبھی کبھی کشیدہ کاری کی کتابوں یا ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والے اشعار سے کام چلاتے تھے۔ اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہماری ڈیڑھ امی یعنی چھوٹی خالہ جان نے ایک تکیے پر ماموں جان سے درج ذیل شعر لکھوا کر کڑھائی کی تھی:
تکیے پہ پھول، پھول پہ رخسار یار ہو
دو گل رخوں کے وصل سے پیدا بہار ہو
ایک دفعہ گھر پر کوئی تقریب تھی، غالباً کسی کی شادی یا عقیقہ وغیرہ کی تقریب۔ ایسے میں مہمانوں کے بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے برامدے میں کافی ساری چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ تب ٹینٹ وغیرہ کا رواج نہیں تھا تو ایسی تقریبات میں پڑوسیوں کے گھروں سے چارپائیاں اور صاف ستھرے بستر وغیرہ اکٹھا کر لیے جاتے تھے اور کام چل جاتا تھا۔ ہم اس وقت اپنے تین چار ہم عمروں کے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اتفاق سے اس چارپائی پر وہی تکیہ رکھا ہوا تھا اور اتفاق سے خوشخطی کرتے ہوئے ماموں نے "گل رخوں" کو "گلرخوں" لکھ دیا تھا۔ ایسے میں ایک صاحب وہ شعر پڑھتے ہوئے "گلر" اور "خوں" کو علیحدہ علیحدہ پڑھ گئے اور پھر ہم لوگ خوب ہنسے۔
خطاب بہ قوم مسلم
زندگی ہر شئے کی ہے دنیا میں مانند حباب
خواہ ماہ و مشتری ہو خواہ نورِ آفتاب
اس لئے اے مشت خاکی عاقبت کی فکر کر
ٹوٹ جائیگی یقیناً تیرے خیمے کی طناب
مضمحل ہو جائیں گے اک روز اعضاءِ بدن
اور نہ باقی رہینگے روئے گل کے آب و تاب
پھر تو آخر ورطہء عالم میں ہے کیونکر گھرا
توڑ دے طوق و سلاسل دیکھ پھر ہو کامیاب
قوم مسلم آج تو کیوں ہے بھلا شوریدہ حال
کیا نہیں غیرت ہے تجھ میں کیا نہیں نگہہِ مآب
تار ہیں اجڑے ہوئے اب تیرے ہر مضراب کے
آج بے آواز ہیں تیرے سبھی چنگ و رباب
جاگ اے قوم مسلماں اب بہت حد ہو چکی
اپنے کردار و عمل سے لا جہاں میں انقلاب
آبیاری پھر سے کر اب مزرعِ اعمال کی
تا نظر آئیں بہر سو نرگس و سوسن گلاب
کفر ہے مایوس ہونا ایک مسلم کے لئے
آیتِ لا تقنطو کا ہے یہی لب لباب
سلب ہو جائینگی عقلیں آنکھ خیرہ لب خموش
عہدِ رفتہ کی اگر تاریخ کر دوں بے نقاب
رو رہا ہے دیکھ کر شبیر حالت قوم کی
اے خدا اب کھول دے اس قوم پہ رحمت کا باب
ابن سعید بھائی کیا یاد دلادیا آپ نے ! تکیوں پر خطاطی کا بالکل یہی کام میں نے بھی اپنے بچپن میں کئی دفعہ کیا ہے ۔ ہمارے خاندان میں یہ روایت تھی کہ لڑکیوں کو جہیز کے سامان میں کشیدہ کاری سے مزین تکیوں کے غلاف اور بستر پوش وغیرہ ضرور دیئے جاتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر کسی کزن وغیرہ کی شادی کے موقع پر مجھ سےکچھ روایتی اشعار بڑے سے کاغذ پر خوشخط لکھوائے جاتے تھے ۔ پھر ایک دلچسپ طریقے سے اس لکھائی اوربیل بوٹوں کو کشیدہ کاری کے لئے کاغذ سے کپڑے پر منتقل کیا جاتا تھا ۔ پہلے تو ایک سوئی کی مدد سے کاغذ پر لکھی لکیروں کو سوراخ دار بنایا جاتا تھا اور پھر اس کاغذ کو کپڑے پر رکھ کر اس کے اوپر روئی کے ایک پھوئے سے نیل ملا پانی پھیر دیا جاتا تھا ۔ یہ نیل سوراخوں سے نکل کر کپڑے تک پہنچتا اور یوں کاغذ پر موجود نقش کپڑے پر منتقل ہوجاتا تھا ۔
بہت ساری اور روایتوں کی طرح یہ روایت بھی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑگئی ۔ نئی نسل میں تو شاید کوئی اس بات سے واقف بھی نہ ہو ۔ آپ کی یہ تحریر پڑھ کر بہت ساری یادین تازہ ہوگئیں ۔