ڈاکٹر نعیم جشتی
محفلین
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
وحشت عشق بھی ہے چاک لبادہ بھی نہیں
بھول جانے کا تجھے کوئی ارادہ بھی نہیں
مرحبا کہتا ہوں میں لگتا ہے جب تیر کوئی
دل میں گو زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں
میں ترے کوچے میں سنگسار ہوا ہوں جاناں
اور تو ہے کہ سر بام ستادہ بھی نہیں
درد سہتا رہوں میں اور نہ اف تک بھی کروں
سچ کہوں تو مرا دل اتنا کشادہ بھی نہیں
تم ہی تدبیر کرو ملنے کی کوئی یارو
میں بہادر ہوں مگر اتنا زیادہ بھی نہیں
میں ہی دیوانہ ہوں جو تکتا ہوں راہیں اس کی
جبکہ اس نے کیا مجھ سے کوئی وعدہ بھی نہیں
کتنے خورشید رہے اس کے لئے چشم براہ
اور میں ایک چراغ سر جادہ بھی نہیں
مری نظروں سے سمجھ پائے نہ مفہوم مرا
وہ بہت سیدھا سہی اتنا وہ سادہ بھی نہیں
خلعت شاہی سے کیا واسطہ درویشوں کا
میرے خرقے سا ملائم وہ لبادہ بھی نہیں
ہم بھی پیتے ہیں مگر تیری نظر سے ساقی
مست کے مست ہیں اور تہمت بادہ بھی نہیں
میں بھٹکتا رہا خانوں میں ہی تاعمر نعیم
گرچہ شطرنج کی بازی کا پیادہ بھی نہیں
وحشت عشق بھی ہے چاک لبادہ بھی نہیں
بھول جانے کا تجھے کوئی ارادہ بھی نہیں
مرحبا کہتا ہوں میں لگتا ہے جب تیر کوئی
دل میں گو زخم نمائی کا ارادہ بھی نہیں
میں ترے کوچے میں سنگسار ہوا ہوں جاناں
اور تو ہے کہ سر بام ستادہ بھی نہیں
درد سہتا رہوں میں اور نہ اف تک بھی کروں
سچ کہوں تو مرا دل اتنا کشادہ بھی نہیں
تم ہی تدبیر کرو ملنے کی کوئی یارو
میں بہادر ہوں مگر اتنا زیادہ بھی نہیں
میں ہی دیوانہ ہوں جو تکتا ہوں راہیں اس کی
جبکہ اس نے کیا مجھ سے کوئی وعدہ بھی نہیں
کتنے خورشید رہے اس کے لئے چشم براہ
اور میں ایک چراغ سر جادہ بھی نہیں
مری نظروں سے سمجھ پائے نہ مفہوم مرا
وہ بہت سیدھا سہی اتنا وہ سادہ بھی نہیں
خلعت شاہی سے کیا واسطہ درویشوں کا
میرے خرقے سا ملائم وہ لبادہ بھی نہیں
ہم بھی پیتے ہیں مگر تیری نظر سے ساقی
مست کے مست ہیں اور تہمت بادہ بھی نہیں
میں بھٹکتا رہا خانوں میں ہی تاعمر نعیم
گرچہ شطرنج کی بازی کا پیادہ بھی نہیں