ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

آتی نہیں گلشن سے عنادل کی صدا تک
زنداں سے گزرتی نہیں اب باد صبا تک

تم ڈھونڈتے پھرتے ہو لہو ہاتھوں پہ اسکے
قاتل نے نہیں چھوڑا کوئی رنگ حنا تک

جلتے ہیں شب ہجر میں ہم شمع کی مانند
آتی نہیں ملنے ترے کوچے کی ہوا تک

کیا شکوہ مسیحاؤں سےغفلت کا کریں ہم
جب حال نہیں پوچھتی خود اپنی قضا تک

کیا جانے کہ کب قافلۂ عمر ہے گزرا
سننے میں نہیں آئی کبھی بانگ درا تک

ہونٹوں پہ مرے نام ترا آتا بھی تو کیسے
جب آتا نہیں لب پہ کوئی حرف دعا تک

بندوں سے ترے کوئی بھی شکوہ نہیں یا رب
درویش کی فریاد ہے بس اپنے خدا تک

عشاق بھلا بیٹھے ہیں آئین محبت
اب یاد کسی کو نہیں پیمان وفا تک

میخانے کے آداب کی کیا ان سے توقع
رندوں کو نہیں یاد بہکنے کی ادا تک

کیوں محفل جاناں میں نعیم آنکھ بھر آئی
کیا بھول گئے تم کو بھی اسلوب وفا تک
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

یہی دعا ہے تو پھر کوئی بھی دعا نہ کرے
بچھڑکےاس سے میں زندہ رہوں خدا نہ کرے

فلک سے اس کو فرشتے سلام کرتے ہیں
جو سنگسار بھی گر ہو تو بد دعا نہ کرے

کوئی بھی ظلم نہیں اس سے بڑھ کےدنیا میں
کسی کےپیارے کو اس سےکوئی جدا نہ کرے

اے دوست تیرے لئے بس یہی دعا ہے مری
خدا تجھے کسی غم سے بھی آشنا نہ کرے

کیا ہے ہم نے کہاں روز حشر سے انکار
ہر ایک روز وہ حشر اک نیا بپا نہ کرے

میں اس کے سامنے بےبس سہی مگر یا رب
کسی کےسامنے بےبس مجھےقضا نہ کرے

وہ میرا دوست ہے کیوں بیوفا کہوں اس کو
ہزار وعدے کرے اور وہ وفا نہ کرے

خیال کچھ تو کرے وہ مری محبت کا
وہ میرے سامنے تو ذکر غیر کا نہ کرے

کہیں بھی جائےوہ دنیا میں پورا حق ہےاسے
مرے رقیب سے مل کر مگر جفا نہ کرے

ہوا ہےتجھ سےسوالی تو خوش نصیب ہےتو
نعیم ہر کس و ناکس سے التجا نہ کرے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

نغمہ پرداز نے گائے یوں ترانے میرے
کو بہ کو پھیل گئے غم کے فسانے میرے

کچھ بھی باقی نہ بچا تلخ سی یادوں کےسوا
کھو گئے عمر کی چوکھٹ پہ زمانے میرے

کون کرتا ہے یہاں درد محبت کا علاج
لوگ آتے ہیں فقط دل کو دکھانے میرے

کوئی ہمدرد نہیں کوئی بھی غمخوار نہیں
چل دیئے جانے کہاں دوست پرانے میرے

آج تک مل نہ سکی خوابوں کی تعبیر مجھے
کھوگئےخوابوں میں سب خواب سہانےمیرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ بھی میرے حسرت کےسوا
ہو گئے مجھ سے خطا سارے نشانے میرے

وہ جو دن رات ترےساتھ گزارے تھے کبھی
کاش آ جائیں پلٹ کر وہ زمانے میرے

یاد ہے اتنا ترے ساتھ کہیں رہتے تھے
پھر میسر نہ ہوئے مجھ کو ٹھکانے میرے

تو جو مل جائے تو مہنگا نہیں کوئی سودا
تجھ پہ قربان ہیں اے جان خزانے میرے

دوست احباب یہاں لاکھ سہی پھر بھی نعیم
جز خدا کوئی بھی احوال نہ جانے میرے
 

عرفان سعید

محفلین
ابھی محفل کھول کر تازہ ترین پر کلک کیا اور پھر اگلے صفحے پر کلک کیا تو پہلا تاثر تو ایسا ملا کہ شائد انتظامیہ نے اردو محفل کسی ڈاکٹر نعیم چشتی صاحب کو لیز پر دے دی ہے۔ اس تجسس میں آپ کے کوائف نامے تک گئے تو کوائف نامہ دیکھنے سے پہلا تاثر زائل ہوا اور دوسرا تاثر یہ پڑا کہ آپ آج ہی نئے رکن بنے ہیں۔:)
تو اردو محفل میں خوش آمدید۔:)
تعارف کے زمرے میں ایک نیا دھاگا کھول کر اپنا تعارف بھی کروادیں تو محفلین سے تعلقات بہت جلدی بڑھیں گے۔:)
ڈاکٹر صاحب آج پورا دیوان پوسٹ کر کے ہی دم لیں گے۔
:)
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کچھ ایسے دوست بھی ہیں میرے ہم نشینوں میں
چھپائے پھرتے ہیں خنجر جو آستینوں میں

وہ جن کو میں نے سکھائے رموز ہست و بود
وہ پیش پیش رہے میرے نکتہ چینوں میں

بس ایک لمحے میں مسمار کر دیا اس نے
محل بنایا تھا سپنوں کا جو مہینوں میں

وہ دین جس کو کہ اسلام کہتی ہے دنیا
وہی تو دین ہے سچا تمام دینوں میں

کبھی گزر جو ہوا میرے دیس سے اس کا
مجھے بھی پائے گا خضر اپنے راہ بینوں میں

جو ناخدا تھے وہ ساحل پہ جا کے بیٹھ گئے
پکارتے رہے ہم ڈوبتے سفینوں میں

سنائیں حال وطن کیا تمہیں اے ہم وطنو
حسینہ ایک گھری ہے تماش بینوں میں

کسی غریب کے دکھ درد کو وہ کیا سمجھیں
جو بیٹھے رہتے ہیں ہر وقت مہ جبینوں میں

نعیم واسطہ کیا انقلاب سے ان کا
شمار ہوتا ہے جن کا محل نشینوں میں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

رخصت جو ہوئے تم سے کب ضبط کا یارا تھا
اللہ ہی جانے تب کیا حال ہمارا تھا

بے خواب نگاہوں میں ٹوٹےہوئے سپنے تھے
بھیگی ہوئی پلکوں پر ہر اشک ستارہ تھا

احباب کے تیروں سے چھلنی میرا تن من تھا
اک آگ تھی سینے میں ہر زخم انگارہ تھا

مایوسی کے ڈیرے تھےآشاؤں کی لاشیں تھیں
گویا یہ قیامت تھی محشر کا نظارہ تھا

چپ رہتےبھی تو کیسے کہتےبھی تو کیا کہتے
کب اپنی وہ گلیاں تھیں کب شہر ہمارا تھا

جب پاس تمہارے تھےغم دور تھےسب ہم سے
جب دور ہوئے تم سے ہر غم نے پکارا تھا

پھرتے رہے سڑکوں پر دل میں لئے یادوں کو
پردیس میں اب اپنا اک یہ ہی سہارا تھا

اک دن تو گلستاں میں یہ آگ ہی لگنی تھی
ہر پھول کے دامن میں جب ایک شرارہ تھا

آگے میرے تربت ہے پیچھے تیرے جلوے ہیں
بحر غم ہستی کا اک یہ ہی کنارا تھا

ہم ہی نہیں تنہا تھے مقتل میں نعیم اس دن
وہ ساتھ ہمارے تھا جو درد کا مارا تھا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

چہرے پہ ہر کسی کے ہے چہرہ سجا ہوا
جس کو میں جانتا تھا وہ انساں نہیں رہا

مشکل ہوئی شناخت اب اصل اور نقل کی
ہر شخص نے ہے چہرے پہ غازہ ملا ہوا

دنیا میں نفسا نفسی ہے اپنے عروج پر
ہر کوئی دیکھتا ہے بس اپنا ہی فائدہ

دولت کی ڈگڈگی پہ یہاں ناچتے ہیں سب
محکوم و حکمران ۔ گنہگار و پارسا

ناداں سمجھ رہے ہیں کہ لمبی ہے زندگی
یہ زںدگی ہے جیسے کہ پانی کا بلبلہ

اپنوں سے بڑھ کے کوئی بھی حاسد نہیں یہاں
بہتر ہے ان سے رکھو مناسب سا فاصلہ

جانا ہے گر شمال تو پوچھو جنوب کا
رکھو ہمیشہ یاد ترقی کا قاعدہ

یاں پر منافقین کو کہتے ہیں مؤمنین
تم بھی بدل لو اپنے بزرگوں کا سلسلہ

رہنا ہے اس نگر میں ہمیشہ تمہیں اگر
تم بھی نعیم دھار لو بہروپ اک نیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اجڑا ہوا دیار ہے کیا جانئے کہ کیوں
ہر شخص سوگوار ہے کیا جانئے کہ کیوں

سنسان یہ مزار ہے کیا جانئے کہ کیوں
اک شمع اشکبار ہے کیا جانئے کہ کیوں

خوشبو چمن میں ہے نہ گلوں پر نکھار ہے
کہتے ہیں وہ بہار ہے کیا جانئے کہ کیوں

جس نے تمام عمر دئے غم ہی غم مجھے
وہ مجھ سے شرمسار ہے کیا جانئے کہ کیوں

یہ کیسا مےکدہ ہے کہ ساقی ہے تشنہ کام
بادہ نہ بادہ خوار ہے کیا جانئے کہ کیوں

اس نے کہا تھا لوٹ کے واپس نہ آئے گا
آنکھوں کو انتظار ہے کیا جانئے کہ کیوں

اس کا حصول گرچہ بعید از قیاس ہے
دل کو اسی سے پیار ہے کیا جانئے کہ کیوں

ہم امتحان عشق میں بھی ہوں گے کامیاب
ہم کو یہ اعتبار ہے کیا جانئے کہ کیوں

ہم نے تڑپ تڑپ کے گزاری ہے زندگی
غم ہے کہ بے شمار ہے کیا جانئے کہ کیوں

آنسو چھپا کے ہم تو چلے آئے تھے نعیم
ویران بزم یار ہے کیا جانئے کہ کیوں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

مری خوشیاں سبھی لےلو مجھےتم اپنےغم دے دو
تمہیں میری قسم ہے اپنے سب رنج والم دے دو

تمہارےاشک مجھ سےمیری جاں دیکھےنہیں جاتے
نشاط و شادمانی لے لو مجھ سے چشم نم دے دو

زمانےکی نگاہوں میں میں بے وقعت سہی پھر بھی
تم اپنی ہر پریشانی تمہیں میری قسم دے دو

تمہاری راہ میں ہنستے ہوئے میں جاں لٹا دوں گا
مجھے تم اپنی ہر اک حسرت نا مختتم دے دو

مرے ہوتے ہوئے کوئی تمہیں دکھ دے نہیں سکتا
تم اپنی پاسبانی گر مجھے میرے صنم دے دو

تم اپنے دل کے مالک ہو جسے چاہو اسی کو دو
مجھے خیرات میں اپنے سبھی جور و ستم دے دو

تمہارے در پہ آیا ہے فقیر اک التجا لے کر
اسے بھی فی سبیل اللہ کچھ مہرو کرم دے دو

فقیروں کی دعائیں ہی بالآخر کام آئیں گی
انہیں تم حسن کا صدقہ امیر محتشم دے دو

میں بہلا لوں گا دل اپنا نعیم اب شاعری کر کے
میں شاعر ہوں مجھےتم صرف کاغذ اور قلم دےدو
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

غبار راہ بنے اس کی رہگزار میں ہیں
گزر گیا وہ کبھی کا ہم انتظار میں ہیں

بھٹک رہے ہیں کہیں جبر و قدر کے مابین
نہ اختیار ہے کوئی نہ اختیار میں ہیں

جو دیکھتا ہے ہمیں سنگسار کرتا ہے
ہم اپنے شہر میں ہیں یا ترے دیار میں ہیں

نہ سر بلند ہوئے شہر دوستاں میں ہم
نہ سرفراز ہم اس شہر زرنگار میں ہیں

بتا کے سونا وہ پیتل کو بیچ دیتے ہیں
فریب کار بہت لوگ شہریار میں ہیں

کوئی بعید نہیں وہ بھی کل قفس میں ہوں
جو خوش بہت ہیں کہ وہ آج اقتدار میں ہیں

ہماری موت پہ خوشیاں منانے والو سنو
تمہارے نام بھی شامل اسی قطار میں ہیں

وقوع ہونے کو ہے کوئی انقلاب نیا
ملےہیں جب سےتمہیں سخت انتشار میں ہیں

ہمیں جو ملنا ہو خود کو تلاش کر لینا
کہیں بھی ہم ہوں ترے حلقۂ مدار میں ہیں

ہرایک شخص کی اس تک ہےکب رسائی نعیم
یہی بہت ہے کہ ہم بھی کسی شمار میں ہیں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

رہ گیا حیرت زدہ میں اپنا چہرا دیکھ کر
رنگ و روپ ایسا نہیں تھا میرا اس سے پیشتر

بزم یاراں میں مری زندہ دلی مشہور تھی
اک زمانہ تھا میں جب ہنستا تھا ہر اک بات پر

کوئی شکوہ ہی کیا میں نے نہ کی آہ و فغاں
گرچہ میں تنہائیوں میں رویا اکثر ٹوٹ کر

دیس میں اپنے بھی اکثر بن کے پردیسی رہا
شہر وہ میرا ہی تھا جس میں رہا میں دربدر

ہجر میں جس کے ہوا ہے میرا دیوانوں سا حال
گر کبھی ہو سامنا ہنستا ہے میرے حال پر

جانے کیا دل میں سمایا تھا کہ اسکے عشق میں
تہمتیں لگوائیں خود پر تج دیا خود اپنا گھر

دل میں کتنی آرزو تھی حسرت پرواز کی
جب رہائی مل گئی کھلنے نہ پائے میرے پر

پہلے مشکل تھی کہ رکتی ہی نہیں تھیں سسکیاں
اب یہ مشکل ہے کہ کھلتی ہی نہیں ہے چشم تر

بیخودی میں بھی نہیں بھولے ہم آداب وفا
غم ہزار آئے مگر دائم رہی اپنی خبر

اسکی بزم ناز میں بھی ہم رہے تنہا نعیم
پھیر لیں نظریں سبھی نے رنگ محفل دیکھ کر
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

رنج و آلام پہ کہرام بپا کیا کرتے
اس سے فریاد جو کرتے بھی بھلا کیا کرتے

ہم نے چاہا جسے وہ چاہتا تھا اور ہی کچھ
ہم اگر ہاتھ اٹھاتے بھی دعا کیا کرتے

اس نے جب ڈالی ہے اس جسم میں روح شاعر
ہم اگر شعر نہ کہتے تو بھلا کیا کرتے

عصر حاضر نے بدل ڈالی ہیں قدریں ساری
راہبر رہزنی میں شرم و حیا کیا کرتے

حضرت شیخ کو آتا ہے فقط مکر و فریب
وہ اگر کرتے بھی تو اس کے سوا کیا کرتے

روپ دھارا ہے لٹیروں نے مسیحاؤں کا
جو مسیحا ہی نہیں تھے وہ دوا کیا کرتے

سنگ اٹھایا تھا کہ یاد آیا ہمیں سر اپنا
ہم گنہگار تھے خود اس کو سزا کیا کرتے

غم ہستی کا بجز مرگ نہیں کوئی علاج
مہرباں میرے مرے دکھ کی دوا کیا کرتے

ہاتھ پھیلے نہ نعیم اپنے بتوں کے آگے
خالی دامن تھے جو خود ہم کوعطا کیا کرتے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اس نے بخشی ہے مجھے قید یہ تنہائی کی
لاج رکھنا اے خدا میری شکیبائی کی

میں کروں اس کےتغافل کی شکایت اس سے
بات کوئی ہے بڑی اس سے بھی رسوائی کی

جاں ہتھیلی پہ لئے جانب مقتل نکلا
کوئی دیکھے تو دلیری ترے شیدائی کی

اس نے سوچا ہی نہیں تھا کبھی بےبس ہو گا
وقت نے آنکھ جھکا دی مرے ہرجائی کی

عشق جب حد سے بڑھا سوئے بیاباں نکلا
تیرے دیوانے نے وحشت میں بھی دانائی کی

اک زمانہ ہوا اس شہر سے نکلے اس کو
اب بھی آتی ہے صدا رات کو سودائی کی

پھر کسی در پہ جھکائی نہیں اس نے گردن
جس نے اک بار ترے در پہ جبیں سائی کی

تیری صورت ہی نظر آئےجدھر بھی دیکھوں
دھوم ہے دنیا میں پھر بھی تری یکتائی کی

تیرا جلوہ نہ سہی برق تجلی ہی سہی
آنکھ جھپکے گی نہ اس بار تماشائی کی

کر دیا اس نے مجھے زندۂ جاوید نعیم
میرے قاتل نے مرے ساتھ مسیحائی کی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

وہ اگر ملتا تو حال اپنا سناتے اس کو
اس کی اپنی ہی کرامات دکھاتے اس کو

زیست دشوار سہی دل سے لگاتے اس کو
وہ جو آتا تو سر آنکھوں پہ بٹھاتے اس کو

ایک وہ وقت تھا ہر وقت وہ رہتا تھا قریب
اب وہ دوری ہے کہ برسوں نہیں پاتے اس کو

اسنےچھوڑی تھی جہاں ہرشےوہیں پرہےپڑی
وہ جو ملتا تو یہ منظر بھی دکھاتے اس کو

وہ کہ اپنی ہی طرح خود سر و ضدی ٹھہرا
ہم اگر چاہتے بھی کیسے مناتے اس کو

اس کی عادت تھی ہر اک بات پہ جھگڑا کرنا
پیار سے ہم ہی کبھی پاس بلاتے اس کو

اپنے ہمزاد نے ایسا ہمیں کرنے نہ دیا
ہم نے چاہا بھی کہ اک بار جگاتے اس کو

ہم نے کوشش تو بہت کی مگر آنسو نہ رکے
آگ جو دل میں لگی کیسے بجھاتے اس کو

داستاں اپنی مکمل نہیں ہوتی اس بن
دل اگر چاہتا بھی کیسے بھلاتے اس کو

ہم نعیم اس سےکبھی دور گئے ہی کب تھے
وہ اگر دیکھتا مڑ کے نظر آتے اس کو
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہمدم کوئی مرا نہ کوئی ہم نشین ہے
اک میں ہوں اور میرا دل آبگین ہے

انجان راستوں پہ بھٹکتا ہوں رات دن
اوپر ہے آسماں مرے نیچے زمین ہے

دنیا میں کوئی ہستی بھی ماں سے بڑی نہیں
ہر کامیابی میری اسی کی رہین ہے

خوشبو بغیر پھول کسی کام کا نہیں
سیرت ہے جس کی اچھی وہ صورت حسین ہے

دیکھا جو ڈنک کھا کے زیارت تری ہوئی
نکلا ہے جس سے ساںپ تری آستین ہے

بدلا مری وفاؤں کا اچھا دیا مجھے
اے دوست میرے تجھ پہ مری آفرین ہے

رحمت بھی اس کی آتی ہے زحمت کے روپ میں
میری شکست فاش بھی فتح مبین ہے

رشتہ ہمارا اس سے بس اتنا ہے دوستو
اس کا ہے سنگ در تو ہماری جبین ہے

یہ جسم تو ہے میرا مگر روح اس کی ہے
یعنی مکان میرا مگر وہ مکین ہے

اس نے کہا نعیم مجھے بھول جاؤ تم
میں نے کہا مجھے معجزوں پر یقین ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہم زندگی کی راہ میں مجبور ہو گئے
اتنے قریب آئے کہ بس دور ہو گئے

اس شہر میں برستے ہیں پتھر نگاہ سے
کھائے ہیں اتنے زخم کہ ہم چور ہو گئے

ہم سے ہوئی خطا کہ سنا بیٹھے حال دل
سن کر ہماری عرض وہ مغرور ہو گئے

آنسو تو ہم نے روک لئے بزم یار میں
طوفان کتنے سینے میں مستور ہو گئے

مدت ہوئی نہ پھر بھی ہوئے زخم مندمل
تو نے دئے جو زخم وہ ناسور ہو گئے

آگے نہیں بڑھے کبھی حد ادب سے ہم
پیمانے وہ ہی چھلکے جو بھرپور ہو گئے

غم ان گنت ہیں پھر بھی غمیدہ نہیں ہیں ہم
اچھا ہے تیرے عشق میں رنجور ہو گئے

سوچا نہیں تھا لوٹ کےپھر جائیں گےوہاں
ہم اپنے دل کے ہاتھ سے مجبور ہو گئے

کچھ اور تو نہ کر سکے دشمن مرے مگر
کر کے برائی میری وہ مشہور ہو گئے

ہم نے نعیم سیکھا ہے الفت کی راہ میں
مختار وہ ہی ٹھہرے جو مجبور ہو گئے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ملے جو مجھ سے میں جھک کے سلام کرتا ہوں
بڑے ادب سے میں سب سے کلام کرتا ہوں

ہر ایک دوست کی کرتا ہوں دل سے عزت میں
ہر اک عدو کا بھی میں احترام کرتا ہوں

حصول رزق حلال اک فریضۂ حق ہے
میں تندہی سے سدا سارے کام کرتا ہوں

کبھی بھی جلدی میں کرتا نہیں عبادت میں
نماز کا بھی میں خاص اہتمام کرتا ہوں

سکوں وہ ملتا ہے جو قابل بیان نہیں
جب آدھی رات میں اٹھ کے قیام کرتا ہوں

ترا خیال ہر اک لمحہ دل میں رہتا ہے
ترا ہی ذکر میں ہر صبح و شام کرتا ہوں

خدا کے نام پہ کرتا نہیں ہوں مکر و فریب
میں راستبازی کو اپنا امام کرتا ہوں

وہ ذات پاک کہ جس کا نہیں شریک کوئی
اسی کا درس میں دنیا میں عام کرتا ہوں

میں تختیوں پہ لکھاتا نہیں ہوں نام کبھی
دلوں میں پیدا میں اپنا مقام کرتا ہوں

نعیم جس نے شعور سخن دیا ہے مجھے
میں اپنی شاعری بھی اس کے نام کرتا ہوں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

مرا خدا کبھی ایسا بھی دن دکھائے مجھے
جسے میں چاہتا ہوں خود وہ ملنے آئے مجھے

ہر ایک شرط پہ اسکی میں پورا اتروں گا
ہزار بار وہ چاہے تو آزمائے مجھے

میں اپنی زندگی بھی اسکے نام لکھ دوںگا
وہ ایکبار تو ہنس کے گلے لگائے مجھے

کوئی حسینۂ عالم ہو حور ہو کہ پری
کسی بھی اور کا چہرہ ذرا نہ بھائے مجھے

وہ چاند بن کے کبھی اترے میرے آنگن میں
نہ دور ہی سے وہ جلوہ سدا دکھائے مجھے

میں اسکا دوست ہوں آخر کوئی عدو تو نہیں
مرے رقیبوں سے مل کے نہ وہ جلائے مجھے

مری نظر کا یہ دھوکہ ہے یا ترا جادو
سوائے تیرے کوئی اور نظر نہ آئے مجھے

یہ کس مقام پہ جانے پہنچ گیا ہوں میں
کہ نام لے کے ترا ہر کوئی بلائے مجھے

ابھی سے جوڑ دیا ہے ہمیں زمانے نے
تمہیں ہو کچھ بھی تو دنیا سنانےآئے مجھے

میں بارگاہ محبت میں سجدہ ریز ہوں آج
غم جہاں سے یہ کہہ دو نہ یاد آئے مجھے

خود اپنی جان کے بدلے میں بک رہا ہوں میں
کسی زلیخا سے کہہ دو خرید لائے مجھے

میں اسکے سامنے اف بھی نہیں کروںگا نعیم
وہ چاہے ظلم کرے مجھ پہ یا ستائے مجھے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کئی دنوں سے مری جان محو یاس ہو تم
تمہی بتاؤ کہ کیوں اس قدر اداس ہو تم

نظر سے دور سہی میرے دل سے دور نہیں
مرے خیالوں کی دنیا میں میرے پاس ہو تم

بچھڑ کے تم سے ہے جینا بڑا محال مرا
کہ میرے دوست ہو تم میرے غم شناس ہو تم

کبھی پڑھو حال میرا بھی میرے چہرے سے
سنا ہے سب سے ذہیں اور نظر شناس ہو تم

بہت سے دوست ہیں میرے مگر حقیقت ہے
سبھی سےعام سا رشتہ ہے ایک خاص ہو تم

کتاب زیست تمہارے بغیر ادھوری ہے
مری سوانح عمری کا اقتباس ہو تم

گزر سکے گی نہ اب زندگی تمہارے بغیر
تمہیں خبر ہے مری زندگی کی آس ہو تم

لکھا گیا ہے نصیب اپنا آسمانوں میں
تمہارا گہنا ہوں میں اور مرا لباس ہو تم

تمہاری مرضی ہے جیسے بھی چاہو رکھو مجھے
مری خوشی مرے سکھ چین کی اساس ہو تم

ملو گے اس سے تو ہو جائے گی اداسی دور
نعیم آئے ہو جب سے بہت اداس ہو تم
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کھلا ہے در مرا اب بھی پر انتظار نہیں
تمہارے وعدوں پہ اب دل کو اعتبار نہیں

تمہاری آنکھ کی مستی وہی سہی اب بھی
مرے دماغ میں شاید وہ اب خمار نہیں

بھڑک رہی تھی جو سینےمیں آگ سرد ہوئی
مری نگاہ میں پہلے سا وہ شرار نہیں

بہت قرار تھا دل کو کہ بے قرار تھے جب
قرار آیا ہے ایسا کہ اب قرار نہیں

یہ کس مقام پہ لے آئی ہے محبت مجھے
خود اپنی زندگی پر میرا اختیار نہیں

اٹھا رہا ہوں قسم تجھ کو بھول جانے کی
اگرچہ اپنی قسم کا کچھ اعتبار نہیں

وفا کےنام پہ کھائے ہیں دل نے اتنے فریب
کہ اب تو لفظ وفا پر بھی اعتبار نہیں

دوائیں لیتا ہے خود وہ سکون دل کےلئے
سکون چھین کے میرا اسے قرار نہیں

دعا سلام ہماری ابھی بھی ہے لیکن
تعلقات کچھ اتنے بھی خوشگوار نہیں

سنائیں کس کو نعیم اپنی داستان الم
کہ کوئی دوست نہیں کوئی غم گسار نہیں
 
Top