ڈاکٹر نعیم جشتی
محفلین
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
آتی نہیں گلشن سے عنادل کی صدا تک
زنداں سے گزرتی نہیں اب باد صبا تک
تم ڈھونڈتے پھرتے ہو لہو ہاتھوں پہ اسکے
قاتل نے نہیں چھوڑا کوئی رنگ حنا تک
جلتے ہیں شب ہجر میں ہم شمع کی مانند
آتی نہیں ملنے ترے کوچے کی ہوا تک
کیا شکوہ مسیحاؤں سےغفلت کا کریں ہم
جب حال نہیں پوچھتی خود اپنی قضا تک
کیا جانے کہ کب قافلۂ عمر ہے گزرا
سننے میں نہیں آئی کبھی بانگ درا تک
ہونٹوں پہ مرے نام ترا آتا بھی تو کیسے
جب آتا نہیں لب پہ کوئی حرف دعا تک
بندوں سے ترے کوئی بھی شکوہ نہیں یا رب
درویش کی فریاد ہے بس اپنے خدا تک
عشاق بھلا بیٹھے ہیں آئین محبت
اب یاد کسی کو نہیں پیمان وفا تک
میخانے کے آداب کی کیا ان سے توقع
رندوں کو نہیں یاد بہکنے کی ادا تک
کیوں محفل جاناں میں نعیم آنکھ بھر آئی
کیا بھول گئے تم کو بھی اسلوب وفا تک
آتی نہیں گلشن سے عنادل کی صدا تک
زنداں سے گزرتی نہیں اب باد صبا تک
تم ڈھونڈتے پھرتے ہو لہو ہاتھوں پہ اسکے
قاتل نے نہیں چھوڑا کوئی رنگ حنا تک
جلتے ہیں شب ہجر میں ہم شمع کی مانند
آتی نہیں ملنے ترے کوچے کی ہوا تک
کیا شکوہ مسیحاؤں سےغفلت کا کریں ہم
جب حال نہیں پوچھتی خود اپنی قضا تک
کیا جانے کہ کب قافلۂ عمر ہے گزرا
سننے میں نہیں آئی کبھی بانگ درا تک
ہونٹوں پہ مرے نام ترا آتا بھی تو کیسے
جب آتا نہیں لب پہ کوئی حرف دعا تک
بندوں سے ترے کوئی بھی شکوہ نہیں یا رب
درویش کی فریاد ہے بس اپنے خدا تک
عشاق بھلا بیٹھے ہیں آئین محبت
اب یاد کسی کو نہیں پیمان وفا تک
میخانے کے آداب کی کیا ان سے توقع
رندوں کو نہیں یاد بہکنے کی ادا تک
کیوں محفل جاناں میں نعیم آنکھ بھر آئی
کیا بھول گئے تم کو بھی اسلوب وفا تک