غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی
نہ زبان قیس پر جو کبھی ذکر یار ہوتا
نہ ہی لیلیٰ رسوا ہوتی نہ وہ سنگسار ہوتا
وہ شجر اگر نہ ہوتا تری خلد میں خدایا
نہ خطا ہی مجھ سے ہوتی نہ گناہ گار ہوتا
سرعام کیا ضروری تھا مرا حساب لینا
نہ یہ یوم حشر ہوتا نہ میں شرمسار ہوتا
مرا نام بھی ہےشامل ترےمیکشوں میں ساقی
نہ نظر سے تو پلاتا نہ میں بادہ خوار ہوتا
ہمیں موت گر نہ آتی کبھی ختم غم نہ ہوتے
غم یار گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کبھی ہم گلہ نہ کرتے کوئی اپنی زںدگی سے
ہمیں جس نےغم دیا ہے وہ جوغمگسار ہوتا
مرے دل کی بیقراری مرے ہاتھ میں لکھی تھی
نہ کسی سے آںکھ ملتی نہ میں بیقرار ہوتا
کرو میرا شکریہ تم کہ ہوئے ہو جاوداں تم
نہ میں شعر تم پہ لکھتا نہ یہ افتخار ہوتا
میں بھی اک محل بناتا ملکہ سبا کے جیسآ
جو نعیم زندگی پر مجھے اعتبار ہوتا