ميں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھی امريکی صدر، سينير امريکی ملٹری افسر يا سفارتی اہلکار کی پاکستان کے کسی اہم اہلکار سے ملاقات يا کوئ بيان سامنے آتا ہے تو پاکستانی ميڈيا پر کچھ لوگ بے بنياد افواہيں کيوں پھيلانا شروع کر ديتے ہيں۔ يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کر رہا ہے۔ امريکی اور پاکستانی اہلکاروں کی باہمی ملاقاتوں اور بيانات کو اسی تناظر ميں ديکھنا چاہيے۔
ايک اندازے کے مطابق پاکستان ميں دہشت گردی کی کاروائيوں کے نتيجے ميں اب تک ايک ہزار سے زائد پاکستانی فوجی اور سينکڑوں کی تعداد ميں پاکستانی شہری ہلاک ہو چکے ہيں۔ يہ حقيقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں ميں دہشت گرد تنظيميں سرگرم عمل ہيں اور ان کی کاروائياں صرف سرحد پار نيٹو افواج تک ہی محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستانی شہری بھی اس سے محفوظ نہيں ہيں۔ دہشت گرد امريکہ، پاکستان اور عالمی برادری کے مشترکہ دشمن ہيں اور اس خطرے کے خاتمے کے ليے تمام فريقين کو مشترکہ کوششيں کرنا ہوں گی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://state.gov
فواد ، دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کے تابع کچھ لوگوں یا تنظیموں کو دہشت گرد کہتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد بن جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج کے دہشت گرد کل کو سوا لاکھ کے ہو جائیں۔ لہذا احتیاط لازم ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری کے نام سے ان کا ہوا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔
امریکہ کسی نہ کسی دن افغانستان سے نکل ہی جائے گا اور ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ جائے گا کہ اس وقت تک اس کے مفادات اس خطے میں پورے ہو چکے ہوں گے لیکن پاکستان اور پاکستانیوں نے یہیں رہنا ہے ۔ مشرف حکومت نے امریکہ کے کہنے پر بنا سوچے سمجھے یا دباؤ کے تحت دہشت گردی کا جو ہوا کھڑا کیا وہ بجائے خود ایک ستم ظریفی ہے۔ امریکہ یہاں دہشت گردوں کو ختم کرنے آیا تو دہشت گردی مزید پھیل گئی اور مشرف صاحب نے آرمی کے ذریعے اس کو قبائلی علاقوں میں دبانا چاہا تو یہ پورے ملک میں پھیل گئی۔ اب ستم بالائے ستم یہ کہ جب بھارت نے ممبئی ح،لوں کے بعد پاکستانی حدود کی خلاف ورزیاں شروع کیں تو یہی دہشت گرد جن کو آپ پاکستان کا دشمن کہہ رہے ہیں اعلان کر رہے تھے کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم پاکستان کی خاطر جان دیں گے۔ فواد صاحب غور کیجئیے کہ یہ "بیوقوف" دہشت گرد اسی فوج کا ساتھ دینے کا اعلان کر رہے تھے جو ان کی بیخ کنی پر متعین کی گئی۔ اور اچنبھا یہ بھی ہے کہ ان کے علاقوں میں اتنی خونریزی اور جاسوس حملوں کے باوجود ان "سر پھروں" نے پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اور یار لوگ تو ان کے علاقے کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن بھی کہتے ہیں۔
ہے نا ایک معمہ کہ جس کا سرا نہیں مل رہا!!!۔
اس کا ایک سرا میں آپ کو دے دیتا ہوں باقی آپ خود سمجھ لیجئیے کہ 1948 میں کشمیر کی جنگ میں پاکستان نے جو علاقہ آزاد کروایا وہ انہی "دہشت گردوں" کے آبا کی وجہ سے کروایا۔ روس کو افغانستان سے نکالنے میں ان کا بہت بڑا حصہ رہا۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں یہ لوگ کشمیریوں کے سرگرم ہمدرد ہیں۔ مثالیں اور بھی ہیں لیکن بتانا یہی ہے کہ پاکستان کے نقظہ نظر سے ان کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
اب نیو ورلڈ آرڈر کا غلغلہ بلند ہے اور اس کے نفاذ کے لئیے وسائل پر قبضہ کرنا اور پیش بندی کے طور پہ اقتصادی و فوجی لحاظ سے مستقبل میں خطرہ بن جانے والوں کا پتا صاف کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لئیے بہت ضروری ہے کہ اس علاقے کا انتخاب کیا جائے کہ جو حربی طور پر سکندرِ اعظم سے لے کر برطانیہ تک لئیے لوہے کا چنا ثابت ہوا۔ اب آپ نقشہ سامنے رکھئیے اور غور کیجئیے کہ وہ علاقے کون کون سے ہیں۔ جی ہاں بالکل وہی جہاں آج امریکہ نے اپنے بجٹ اور امریکی عوام کے ٹیکسوں کا بے دریغ استعمال کیا کہ یہ ایک سرمایہ کاری ہے اور جب ان علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر دی جائیں تو چین سے نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ لیکن ٹھہرئیے اس میں اچھی خبر بھارت کے لئیے بھی نہیں ہے کہ آپ کے ملک کے کسی ادارے نے ایک نقشے میں اس کے بھی 15 الگ الگ مما لک دکھلا دئیے ہیں۔ (میرے کمپیوٹر سے اس خبر کا لنک ضائع ہو گیا ہے(۔
فواد ، اسلحہ اور مذہبی رجحان اس علاقے میں کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے یہ علاقے امن و امان کا گہوارہ رہے ہیں ۔ لیکن ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنے کے بعد جو سلوک ان کے ساتھ کیا گیا اسی نے ان کو مسلح جدوجہد پہ اکسایا ہے۔ اور ہماری تمام حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے یہ لوگ جدید تعلیم اور روزگار سے محروم رہے جس کی وجہ سے یہ دین کی غلط تشریح کرنے والوں کے ہتھے چڑھ گئے۔
ہر معاملے کو سائنسی اندازِ فکر اور تکنیکی لحاظ فکر سے دیکھنے والا امریکہ یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ علمی وسعتوں کو چھونے والی امریکی قوم اور آپ جیسا ذی شعور انسان جب دہشت گردی کا لفظ بلا سوچے سمجھے استعمال کرے اور ایسی پھسڈی باتیں کرے تو بہت حیرانی ہوتی ہے۔
محترم ۔ یہ ایک جنگ ہے وسائل اور ممالک پر قابو پانے کی اور یہ اسی انسانی جبلت کا تسلسل ہے کہ جس نے ہمیشہ سے انسان کا انسان کے ہاتھوں کبھی ملک و مذہب اور کبھی رنگ و نسل کی بنیاد پر قتل کروایا۔ اس میں جیتتا کوئی بھی نہیں لیکن انسانیت کی ہار ضرور ہو جاتی ہے۔ انسان خونخواری میں کتے اور خنزیر سے بھی بڑھ جاتا ہے اور اپنے ہی ہم نفسوں کو قتل کر کے اس کو طمانیت ملتی ہے۔
میں طالبان کے نظرئیے کا شدت سے مخالف ہوں ۔ میرےلا تعداد مراسلے محفل پر اور دوسرے فورمز پر ان کی مخالفت میں موجود ہیں۔ یہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں ۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ ان کے جرائم کی سزا جس طرح سے پاکستان اور پاکستان کے عوام کو دی جا رہی ہے وہ سرا سر غلط ہے۔ ان کو سامنے دکھا کر جو کھیل پاکستان کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے وہ انتہائی گھناؤنا ہے۔
پاکستان نے امریکہ کے جانے کے بعد بھی اسی افغانستان کی ہمسائیگی میں رہنا ہے اور اگر پاکستان نے دہشت گردی کی گردان سے متاثر ہو کر اپنے پتے ضائع کر دئیے تو اس سے بھی زیادہ کٹھن وقت دیکھنے کو ملے گا۔