ویسے اگر کالا باغ ڈیم کے نام سے کسی کو چڑ ہے تو اس کا نام “چٹا باغ ڈیم“ رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔
کسی بھی مسئلے کو حل کرتے وقت دو پہلو دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ایک تکنیکی اور دوسرا سیاسی/عوامی
تکنیکی حساب سے تو کالا باغ ڈیم ٹھیک ہو سکتا ہے۔۔۔۔مگر سیاسی یا عوامی رائے کیا ہے اس بارے میں۔۔۔۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی نے پہلے کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔تربیلا کے متاثرین ابھی تک نالاں ہیں۔۔۔تو مجوزہ کالا باغ کے متاثرین کیسے حکومت پر اعتبار کرلیں گے۔۔۔۔ جب حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سرحد اور سندھ کو کالا باغ سے کوئی نقصان نہیں ہونے دیں گے تو عوام اس لئے یقین نہیں کرتی کے اس طرح کے وعدے پہلے بھی ایفا نہیں ہوئے۔۔۔۔۔
دوسرے ہمارے نمائندگان نے کبھی ضمیر کی روشنی میں فیصلہ نہیں دیا۔۔۔۔۔پارٹی نے جو فیصلہ دے دیا سب نے قبول کرلیا۔۔۔تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ کل کلاں پارلیمنٹ نیا قانون پاس کر لے کہ جی کالا باغ ڈیم کی سطح بلند کر لو۔۔۔۔نہر نکال لو۔۔۔تو ابھی کیئے گئے وعدے کہاں جائیں گے اور کون ان کی پابندی کروائے گا۔۔۔۔۔حکومت کے پاس سادہ اکثریت تو ہوتی ہے ناں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسطرح کی یقین دہانیاں تو بھارت بھی بہگلیار ڈیم پر بھی کروا رہا ہے۔۔۔ مگر پاکستان کیوں نہیں اس پر یقین کرتا ۔۔۔۔ یہی حال سندھ اور سرحد کے عوام کا بھی ہے۔۔۔۔۔ اگر ہمارے ملک میں پہلے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کی جاتی تو یہ صورتحال نہ دیکھنے میں آتی۔۔۔۔۔