مہوش علی
لائبریرین
نعمان نے کہا:ہمارے یہاں ایک اور خامی یہ ہے کہ اگر استحصال سے متاثر ہونے والا طبقہ حقوق کا مطالبہ کرتا ہے تو ان پر غداری کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ اگر سندھی یہ کہتے ہیں کہ جی پنجاب پانی ہتھیالے گا تو اسے ڈیل کرنے کا صحیح طریقہ یہ نہیں کہ سندھیوں کو پنجاب دشمن سمجھ لیا جائے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جو بے ایمانیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے تاکہ اعتماد بحال ہو۔
پنجاب نے اعتماد کی بحالی کے لئیے کیا اقدامات کئیے ہیں؟ میں وعدوں کی بات نہیں کر رہا، اقدامات کی بات کر رہا ہوں۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب حکومت سندھ نے این ایف سی ایوارڈ کا نیا فارمولا پیش کیا جس کے تحت ایوارڈ کی تقسیم پسماندگی، قومی آمدنی میں کنٹریبیوشن، ضروریات اور دیگر تمام عوامل کے تحت ہونا چاہئیے نہ کہ صرف آبادی کی بنیاد پر۔ اس فارمولے پر گرچہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کا اتفاق ہے لیکن ایک سال گزرجانے کے باوجود حکومت پنجاب نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ آخر کار چھ ماہ پہلے جنرل مشرف کو چاروں صوبوں نے صوابدیدی اختیار دیا کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کریں اور ابھی تک جنرل نے کوئی اعلان نہیں کیا۔ چلیں اعتماد کی فضا بحال کریں، این ایف سی پر ہی دیگر صوبوں کو کچھ زیادہ رقم لینے دیں۔
نبیل بلوچستان اور سندھ کے وڈیروں اور سرداروں کی بات کرتے ہیں۔ جناب اگر سندھ اور بلوچستان کے پاس پانی ہوگا، فنڈز ہونگے تو ان حکومتوں کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوگا۔ جن سے تعلیم، صحت اور معیشت میں بہتری آئے گی اور عوام وڈیروں کے چنگل سے نکل سکیں گے۔ ان صوبوں کو وفاق سے جو فنڈز ملتے ہیں وہ انتہائی نامناسب ہوتے ہیں۔ ان قلیل رقموں سے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئیے جاسکتے بلکہ زیادہ تر رقم تو صوبوں کی انتطامی حالت پر ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ حکومت سندھ کو حصہ وفاق سے ملتا ہے اور جو حصہ وہ صوبائی محصولات سے حاصل کرتے ہیں ان سے تو صرف کراچی کی سڑکیں بھی صاف نہیں رکھی جاسکتیں۔ پھر اس پسماندگی کا الزام وڈیروں کو دینا صحیح نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ وڈیرے اور سردار پنجاب کے مخدوموں چوہدریوں اور لٹیروں سے زیادہ کرپٹ نہیں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ نئے معاشی بوم کے نتیجے میں پنجاب تو دمک رہا ہے مگر سندھ اور بلوچستان مزید بدحال ہوتے جارہے ہیں؟
میں یہ مشورہ دونگا کہ شعیب کے فراہم کردہ لنک پر جو رپورٹ ہے اس کا فائنل چیپٹر دیکھا جائے۔ حالانکہ اس اخبار امت کی صحافتی دقعت کوئی نہیں ہے مگر پھر بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم میں چند ایک فنی نقائص موجود ہیں۔ جو پانی کی تقسیم کے تنازعے کے علاوہ ہیں۔
دوست بھائی میں نے تو یہ سنا تھا کہ منگروو فاریسٹ جنہیں ماحولیاتی خطرہ ہے وہ زیادہ تر بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر انڈس بیسن کے پاس ہیں۔ اور اکثر مقامات پر وہاں اتنا پانی ہے کہ اونٹوں کا وہاں پہنچنا قابل عمل نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ جامعہ کراچی کے میرین ریسرچ دیپارٹمنٹ نے اس بارے میں تجربات کئیے تھے کہ منگروو جانوروں کے لئیے بہت اچھا چارہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بحیرہ عرب میں منگروو ختم ہونے کی وجہ دریائے سندھ سے کم پانی کی آمد اور کراچی کے انڈسٹریل ویسٹ ہیں نہ کہ اونٹوں کے پیر۔
ایک اور بھائی کہتے ہیں کہ چین بلوچستان میں دلچسپی متحدہ پاکستان کی وجہ سے لے رہا ہے۔ بھائی چین کو پاکستان سے زیادہ بحیرہ عرب میں اپنے اسٹریٹیجک مفاد عزیز ہیں۔ کراچی والوں کو اگر الگ ہونا ہوتا تو کب کے ہوچکے ہوتے۔ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ مگر جو سیدھی سی بات ہم سب نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ بالآخر ہم سب پاکستانی ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ اور میں تو یہ دعوی کرتا ہوں کہ سندھ کے لوگ باقی تمام صوبے کے لوگوں سے زیادہ محب وطن ہیں۔
آپ لوگوں کے مقابلے میں میرا پاکستان سے رشتہ شاید اتنا مضبوط نہیں ہے کیونکہ میں یورپ کی پروان چڑھی ہوں۔
تمام تر بحث دیکھنے کے بعد برادر نعمان میں آپ سے اس نکتہ پر اتفاق کر سکتی ہوں کہ کالا باغ ڈیم بننے سے منگروو جنگلات ختم ہو سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ سندھ کی ڈیلٹا کی زمینیں بھی بنجر ہو جائیں۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں اس مسئلہ کو اس نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہوں کہ بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ ہمیں دو Evils میں سے چھوٹے Evil کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے مینگروو اور ڈیلٹا کی پرابلم کا ذکر تو کر دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ ڈیم نہ بنانے کی صورت میں آپ کے پاس متبادل کیا ہے؟
مجھے جو چیز نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ڈیم نہ بننے کہ صورت میں سندھ کہ زیادہ زمینیں بنجر ہوں گی اور غریبی زیادہ پھیلے گی، فنڈز اور زیادہ کم ہوں گے۔۔۔۔۔
یعنی ڈیم نہ بننے کی صورت میں صرف نقصان ہی نقصان ہے اور مجموعی طور پر صرف معکوس ترقی کا عمل ہے۔
اس کے مقابلے میں ڈیم بننے کی صورت میں اگر ایک جگہ نقصان ہو گا تو دوسری طرف فائدہ بھی ہوگا جو کہ نہ صرف نقصانات کی تلافی کر دے گا بلکہ مجموعی طور پر مثبت ترقی ہو گی اور فنڈز زیادہ میسر ہوں گے۔
لہذا ڈیم کے مخالفین کا ان نقصانات کی وجہ سے ڈیم کو مسترد کر دینا میری رائے میں مثبت قدم نہیں ہے۔
[یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت کچھ اچھا پانے کے لیے کبھی کبھار تھوڑی بہت قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ اگر ڈیم بننے سے سندھ کو مجموعی طور پر فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہیں تو پھر ڈیم کی مخالفت صحیح نہیں۔
جہاں تک کراچی کی عوام کا تعلق ہے، تو اُن کے لیے بھی کالا باغ ڈیم انتہائی ضروری ہے۔ کراچی ایک صنعتی شہر ہے اور ایک صنعتی شہر کے لیے بجلی شہ رگ ہے۔
اگر کالا باغ ڈیم سے بجلی نہیں پیدا ہو گی تو کراچی کی عوام کیا کرے گی؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر ایم کیو ایم کی قیادت (یا پھر کراچی کی مہاجر عوام) نے کوئی روشنی نہیں ڈالی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ اس حقیقت سے کترا کر گذر جاتے ہیں اور کوئی جواب نہیں دیتے۔
ہو سکتا ہے کہ اُن کے پاس شاید اس سوال کا کوئی جواب ہو بھی نہیں۔ اس صورت میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت غیر حقیقت پسندی ہے اور ایک منفی رجحان ہے۔
ایک اور چیز عرض کر دوں کہ آپ جس اردو اخبار کے آرٹیل کے آخری حصے کا حوالہ دے رہے ہیں، انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ ڈیم کی بجائے کالا باغ پر بیراج بنا دیا جائے۔
مجھے اس تجویز پر حیرت ہے۔
بیراج اور ڈیم میں کیا فرق ہے؟ دونوں کا کام پانی کو ذخیرہ کرنا ہے اور اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
لہذا ڈیم بنانے سے سندھ کو جو نقصانات ہوں گے، وہی نقصانات بیراج بنانے سے بھی ہوں گے۔
مختصر الفاظ میں یہ عرض کروں گی کہ کالا باغ ڈیم کے مخالفین حضرات کی طرف سے صرف مخالفت ہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ کالا باغ ڈیم کا کوئی صحیح متبادل بھی پیش کرتے (جبکہ نظر یہ آتا ہے ہے وہ کوئی متبادل پراجیکٹ پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں)۔
نوٹ:
کچھ حضرات نے اخبارات کے ذریعے کالا باغ ڈیم کے کچھ متبادل پیش بھی کیے ہیں۔ لیکن اگر اُن متبادل پروجیکٹز پر نظر ڈالی جائےتو اُن پر اٹھنے والے اعتراضات کی تعداد کالا باغ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
میری یہ پُر خلوص دعا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ پُر امن طریقے سے حل ہو جائے۔ انشاء اللہ۔